ٹی ایم سی دکانوں کا مسئلہ ......بھول کہاں ہوئی ؟! (دوسری قسط) ۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

12:09PM Sat 27 Aug, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے.... بھٹکل کے اس بدلتے کاروباری منظر نامے میں اچانک ایک نیا زاویہ اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب ڈپٹی کمشنر کی ہدایت کے حوالے سے چیف آفیسر کی جانب سے ٹاؤن میونسپالٹی کی 150کے قریب دکانوں کو خالی کرکے اسے میونسپالٹی کے حوالہ کرنے کے احکام جاری ہوئے۔اور اس کے بعد ان دکانوں کے کرایہ داروں اورمیونسپالٹی کے بیچ ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا جو پچھلے تقریباً ایک سال سے اٹکا ہوا تھا۔ کیا نیلامی پہلی بار ہورہی تھی؟ : دراصل نیلامی کے ذریعے میونسپالٹی کی دکانیں کرایے پر دینے کا یہ کوئی پہلا حکم نہیں تھا۔ہمیشہ ہی یہ دکانیں نیلامی کے ذریعے ہی سال دو سال کے کرایے پر دی جاتی تھیں۔ مگر اب تک اسے محدود طریقے پر انجام دیا جاتا تھا۔ نیلامی کے بارے میں زیادہ تر دکان داروں کو نوٹس کے ذریعے اطلاع دی جاتی تھی۔ کچھ کاروباری حریف جیسے ترکاری والے ترکاری کی دکانوں پر یا مرغی اور گوشت کی دکانوں میں سے بعض گوشت کی دکانوں پر بڑھ چڑھ کر بولی لگاتے اوردوسرے دکاندار کی ایک آدھ دکان اپنے قبضے میں کرلیتے۔لیکن زیادہ تر کاروباری حضرات اپنے آپسی سمجھوتے سے کچھ کرایہ بڑھا کربولی لگاتے ہوئے اپنی دکانیں بچانے اور واپس اپنے پاس رکھ لینے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ہماری برادری سے ہو یا دیگر غیر مسلم برادریوں سے ان دکانوں کی طرف دوسرے لوگ زیادہ تر توجہ دنہیں دیتے تھے اورغیر متعلقہ لوگوں کی طرف سے انہیں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی۔ عدالتی مداخلت اورحکم نامہ : اس طرح آپسی سمجھوتے سے سابقہ کرایہ داروں کو اپنا کاروبار بحال رکھنے کی گنجائش فراہم کرنے کا کام صرف بھٹکل میں ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ ملک گیر پیمانے پریہ عام بات تھی۔ ہمارے یہاں بھی ریاست گیر پیمانے پر ہر شہر میں یہی طریقہ رائج تھا۔ اور ہر جگہ افسران اسی پر عمل کرتے تھے۔ لیکن اس طریقۂ کار کو لے کرملک کی مختلف ریاستوں میں اور ہماری ریاست کے بعض مقامات پر اس سلسلے میں عوام کے اندر مخالفت پیدا ہوگئی۔ اوربتایا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے کرناٹکا ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت سے مطالبہ کیا کہ بلدیاتی املاک کو کرایہ پر دینے کے لئے عام نیلامی کی جائے اور مقابلہ کرکے زیادہ بڑی بولی لگانے والے کو ہی اسے کرایے پر دیا جائے۔اس عوامی درخواست پر عدالت نے حکم نامہ جاری کیا کہ سرکاری اداروں کی املاک کو عام نیلامی کے ذریعے ہی کرایہ پر دیاجائے البتہ یہ مدت ایک یا دو سال نہ ہو بلکہ 12سال کامعاہدہ کیا جائے۔اسی طرح کے معاملے ملک کی دیگر ریاستوں جیسے آندھرا پردیش، اڑیسہ وغیرہ کے ہائی کورٹ میں پچھلے تیس چالیس سالوں سے پیش ہوتے آئے ہیں۔ تملناڈو کا معاملہ تو سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔ عدالت کا موقف اور افسران کانظریہ : عدالتی فیصلوں کو ماحصل یہ تھا کہ پرانے کاروباریوں کے مفاد سے بڑھ کر سرکاری خزانے میں اضافے کو اہمیت دی جائے ، اور کھلے عام نیلامی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ بلدیا تی اداروں کو حاصل ہوجائے۔لیکن جیسا کہ میں نے کہا دفتری سطح پر افسران اور بلدیاتی اداروں کے منتخب اراکین کا طریقہ یہ رہا کہ سرکاری ادارے کو مالی فائدے کے ساتھ چھوٹے موٹے کاروبار سے اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے والوں کا ذریعۂ معاش چھن نہ جائے اور وہ اچانک سڑکوں پر نہ آجائیں۔ اسی نظریے سے ہر جگہ آپسی مفاہمت سے ہی کرایے میں معقول اضافے کے ساتھ دکانوں کی لیز کے معاہدوں کی تجدید کا کام انجام دیا جاتا رہا۔مگر سال 2012کے بعدریاست کے کچھ مقامات پر بعض افسران نے سابقہ کرایہ داروں سے لیز معاہدوں کی تجدید کاری کرنے کے رعایتی طرز کو چھوڑ کر عدالتی حکم نامے پر ہی سختی سے عمل کرتے ہوئے دکانوں کی کھلے عام نیلامی کرنے کا موقف اپنایا۔ اس پر چند شہروں کے کرایہ داروں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اوران کا معاملہ اب تک زیر سماعت ہونے کی وجہ سے وہاں پر ان دکانوں کی نیلامی التوا میں پڑ ی ہوئی ہے۔ بھٹکل میونسپل کاونسل کا مسئلہ : اب جو بھٹکل کی دکانوں کی نیلامی کا مسئلہ ہے وہ تقریباً گزشتہ ایک سال سے سرخیوں میں ہے۔ لیکن درحقیقت یہ مسئلہ چار پانچ سال پرانا ہے۔اور دفتری کوتاہیوں کی وجہ سے آج سنگین صورت اختیا ر کرگیا ہے۔کیونکہ اب جن دکانوں کی نیلامی کی بات ہورہی ہے، ان میں سے بہت ساری دکانوں کے معاہدوں کی تجدید کاری سال 2012میں ہوجانی چاہیے تھی۔اس وقت افسران نے دکان داروں کو لیز کی تجدید کاری بعد میں کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے دکانوں کا کرایہ باقاعدگی سے پرانے معاہدے کے مطابق وصول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ دکاند اروں کی جانب سے بار بار یاددہانی کرنے کے باوجود دفتری طور پر اسے ٹالا گیا۔پھر غالباً 2014میں ایک خاتون چیف افیسر نے تجدیدکاری کے لئے دکانوں کے ساتھ معمولی باکڑوں کے لئے بھی اسکوائر فٹ کے حساب سے کرایہ جوڑتے ہوئے زبردست اضافہ اور لاکھوں روپے ڈپازٹ کی شرط سامنے رکھی۔ اس موقع پر جب تک دکان داروں کو سوچنے اور کوئی مفاہمت کرنے کا موقع ملتا، تب تک ایک غیر متعلقہ پسماندہ طبقے سے متعلق شخص نے میٹنگ میں ہنگامہ کھڑا کردیااور اس سے ناراض ہوکر چیف افیسر نے وہ میٹنگ بیچ میں ہی روک دی۔ اور تجدیدکاری کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑگیا۔ نئے چیف آفیسرکی ضد : مذکورہ بالاواقعہ اور اس سے پیدا ہونے والی تلخی و ناراضی کے باوجودٹی ایم سی کی طرف سے دکان داروں سے باقاعدہ کرایہ وصول کیا جاتارہا اور اس کی رسید بھی انہیں برابر دی جاتی رہی۔اس دوران بھٹکل ٹی ایم سی کی خاتون چیف افیسرکا تبادلہ ہوگیا ۔تب بھی دکاند اروں کو اطمینان تھا کہ نئے آفیسر کی آمد پر مفاہمت ہوجائے گی اور لیز کی تجدید کاری کا عمل کسی دن شروع کیا جائے گاجس کے بعدکسی کو اپنی دکانوں سے بے دخل نہیں ہونا پڑے گا۔ پھر ایک دن مسلم برادری کے ایک سرکاری افسر نے بھٹکل ٹی ایم سی کے چیف آفیسر کا عہدہ سنبھالا۔ اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد کرایہ داروں اور میونسپل کاونسل کا ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ (۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کریں) haneefshabab@gmail.com