حج کا سفر ۔ شرطِ اول قدم ۔۔۔ (٣) ۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

02:47PM Wed 29 Jun, 2022

ہوائی اور بحری مسافروں میں ایک فرق ضرور ہے، ہوائی جہاز کے حاجی کو کم و بیش ایک مہینہ حجاز میں صرف کرنا ہوتا ہے؛ جب کہ بحری جہاز کے حاجیوں کو تقریباً ڈھائی مہینے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزارنا ہوتے ہیں اور کم و بیش بیس دن آمد و رفت میں سمندر پر بسر کرنا ہوتے ہیں، تاہم سامان کے سلسلے میں یہ فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے، زیادہ دنوں ٹھہرنے والوں کو صرف زیادہ دنوں کھانے کے مصارف برداشت کرنے پڑتے ہیں اور اس کا انتظام اس طرح ہے کہ بمبئی میں گیہوں، دال، چاول اور شکر کے دام داخل کر دیجیئے اور رسیدے لے لیجئے، آپ کا پورا راشن آپ کو زحمت دیئے بغیر مکہ معظمہ پہونچا دیا جاتا ہے؛ جہاں رسید دکھا کر آپ اسے حاصل کر سکتے ہیں، اس طرح اس مد میں وہ رقم خرچ کرنا نہیں پڑتی ہے جو ہر حاجی کو مصارف حج کے لیے ملتی ہے۔

ایسے حاجیوں کو دیکھ کر بڑا رشک ہوتا تھا جن کے پاس صرف ایک بچھونا اور ایک بکس تھا، ہلکے پھلکے ہر فکر سے آزاد جہاز پر جتنے دن گزارے کھانا پینا جہاز سے ملتا رہا، ایک لوٹا، دو برتن بس یہ کل سامان ضروری ثابت ہوا۔

پہلے سے کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا ہے کہ سامان کی ڈھلائی کہاں کہاں اور کیسی کیسی زیر باری کے ساتھ ہوتی ہے، گھر سے چلے ہوٹل میں سامان کا محصول دیا، قلی کی مزدوری دی، بمبئی میں اترے اسٹیشن پر پھر قیام گاہ پرمزدوری ادا کی، جہاز تک لے جانے کی مزدوری دی (جہاز پر لے جانے کی مزدوری فی کس آٹھ روپے مقرر ہے)

اگر مختصر سامان ہو کہ خود اٹھالیں تو اس زیر باری سے نجات ہوجائے، جدے میں ساحل سے اترنے پر، پھر جدے میں حجاج کی قیام گاہ مدینۃ الحجاج میں، اس کے بعد مدینۃ الحجاج سے روانگی کے وقت ٹیکسی یا بس پر لادنے میں، پھر مکہ معظمہ میں سامان اتارنے اور قیام گاہ تک لے جانے میں، اسی طرح مدینہ شریف آنے جانے میں، پھر اسی طرح واپس جدے میں، پھر جدے سے واپس ہوتے وقت جہاز یا ریل میں، حساب کیا تو کم وبیش چار سو روپے صرف اپنے سامان کی مزدوری میں مجموعی طور پر خرچ ہوئے پانچ مسافروں کے سامان پر۔

پرانے لکھنوی شاعر آفتاب الدولہ قلق کا ایک شعر پڑھا تھا اور خالی خولی شاعری سمجھ کر گزر گئے تھے؂

کوئی آئین وفا اٹھ نہیں رہتا اس سے

کون دل کو ادبِ عشق سکھا دتیا ہے؟

اب ۔۔۔ جو سفر حج در پیش ہوا تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ ذہن میں جاگ اٹھا، کوئی سفر بھی بغیر تیاریوں کے نہیں ہوتا، تیاریوں کا مطلب بھی بہت صاف ہے؛ لیکن عازم حج کی تیاریوں کا رخ خواه مخواه بدلا نظر آتا ہے جس میں ارادے کا اتنا دخل نہیں ہوتا جتنا توفیق اور قسمت کا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیبی تحریک حقیقی تیاریوں کی طرف توجہ مبذول کرانے پر تلی ہوئی ہے۔

سفر کی تیاریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ مسافر اپنی گزشتہ لغزشوں اور غلطیوں کو یادکر کے ان پر نادم ہو، توبہ کرے اور آئندہ حتی الوسع برائیوں سے بچنے کا عہد کرے، بظاہر بڑا آسان کام ہے اگرمعاملہ اپنے ہی تک محدود رہے! خلوت میں بیٹھ کر اپنی کوتاہیوں اورمعصیتوں پرنادم ہولینا کس کو گراں گزرے گا، جب کہ اس کے معاوضے میں بے شمار منافع بھی ملنے والے ہوں ۔۔۔ لیکن بات اس قدر سہل نہیں ۔۔۔۔ اُن معاملات میں جن کا تعلق "حقوق اللہ" سے ہے، تخلیہ اور اندرون پردہ کی توبہ چل جائے گی، مگرجن معاملات کا تعلق بندوں سے ہو ان میں بندوں کے سامنے عفو اور درگزر کے لئے ہاتھ پھیلائے بغیر معافی ملنے کا سوال کیسا! ۔۔۔ ایسے اللہ والے اب کہاں کہ ان کے حقوق کے بارے میں کوئی لغزش، کوئی زیادتی، کوئی کوتاہی ہوئی اور انہوں نے بغیر کہے خالصاً لوجہ اللہ دل سے معاف کر دیا؂

 شیندم کہ مردانِ راه خدا

 دلِ دشمناں ہم نہ کردند تنگ

 ترا کئے میسر شود این مقام

 کہ با دوستانت خلاف ست و جنگ

 یہاں تو ایک ایک سے کہا سنا معاف کرانا ہوگا ۔۔۔ یہ جو رسمی طور پرکہہ ڈالتے ہیں "بھئی! کہا سنا معاف کرنا" اور معاف کرنے والے بھی ٹھیٹھ رسمی انداز میں جواب دیدیتے ہیں: "آپ نے کیا ہی کیا ہے، خیر کہتے ہیں تو معاف کیا، آپ بھی ہمارا کہا سنا معاف کیجئے گا" اللہ اللہ خیر سلا! اس طرح رسمی اور سطحی معافی تلافی سے کام چلنے والانہیں، آدمی ایک معاشرے میں دن رات رہتا ہے، کسی سے دوستی، کسی سے نیازمندی، کسی سے فرمانبرداری، کسی سے اشتراک، کسی سے قول و قرار کا گہرا تعلق ہوتا ہے؛ کیا عملاً ممکن ہے کہ ان تمام تعلقات کو اسی طرح نباہ دے جو ان کا حق ہے؟ کھٹ پٹ بھی ہوتی ہے، اختلاف بھی، نا فرمانی بھی ہوتی ہے، بیوفائی بھی، بد خواہی بھی ہوتی ہے اور بد معاملگی بھی!

یہ ظرف کوئی کہاں سے لائے کہ ایک ایک بات کو یاد کرے اور ایک ایک فرد سے جن کا اس سے سابقہ رہا ہے دانستہ اور نادانستہ بد معاملگیوں پرمعافی مانگے، نفس کا وقار کیسا کچھ مجروح ہوتا نظر آئے گا! تقوی اور دین داری کی دھوم دھام کی کیا کیا ہنسی اڑے گی!! اور شہرت و ایمانداری کی کیا کچھ رسوائی ہوگی!! لیکن سفر حج کے آداب و شرائط میں ہے کہ پہلے یہ سب کچھ گوارا کیا جائے تب آگے قدم اٹھایا جائے ؂

یک قدم بر نفس خود نہ

یک قدم در کوئے دوست

پہلے ہی قدم سے اگر نفس کی سرکشی کو نہیں کچلا تو سمجھ لینا چاہئے کہ دوسرا قدم "کوئے دوست" کے بجائے کسی اور ہی کوچے میں نظر آئے گا؂

ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی

کیں رہ کہ تو میروی بہ ترکستان ست

بات بالکل صاف ہے، اللہ تعالی کا بندے سے تعلق پرورش، رحمت او مغفرت کا ہے، اس کے حقوق میں کوتاہیوں کا اعمال نامہ عرقِ انفعال کے دو قطروں سے دھل سکتا ہے؂

قطرۂ زاب رحمت تو بس است

شستنِ نامۂ سیاہ ہمہ

بندوں سے بندے کا معاملہ برابری کا ہے اور برابری ہی کی سطح پر طے ہو سکتا ہے، جو حق تلفیاں ہوئی ہیں ان کی پوری تلافی کی جائے، تلافی امکان سے باہر ہو تو معافی حاصل کر کے سبک دوشی حاصل کی جائے ۔۔۔ ورنہ اس کے دربار میں جہاں حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد پوچھے جاتے ہیں کوئی کس منھ سے جانے کی جرات کرے گا؂

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی (جاری)

پیشکش: شکیل احمد مئوی