جہد مسلسل و اخلاص عمل کی ایک عمدہ مثال ۔۔۔از:مولانا بدر الحسن قاسمی


مولانا اسرار الحق قاسمیؒ جہد مسلسل واخلاص عمل کی ایک عمده مثال
مولانا بدر الحسن قاسمی ۔ الکویت
عربی زبان کے نامور ادیب اور بلند پایہ مصنف احمد امین نے ‘‘موت ’’ کے حتمی ہونے کی تعبیر اس طرح کی ہے:‘‘الموت قافیۃ کل حیّ’’ (ہر زندہ شخص کی انتہا موت ہے)۔لیکن قرآن کریم کی تعبیر اس سے زیادہ دقیق اور معنی خیز ہے (کل نفس ذائقۃ الموت) ‘‘ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے’’۔اللہ رب العزت نے جس طرح ‘‘زندگی’’ بنائی ہے اسی طرح ‘‘موت’’ کی بھی تخلیق کی ہے (خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملاً)۔ اب نہ تو ہر شخص کی زندگی ایک طرح کی ہوتی ہے اور نہ موت ہی ایک روپ میں آتی ہے، پھر یہ کہ ہر شخص کی موت کا اثر بھی الگ الگ ہوتا ہے چنانچہ کسی کی موت پر زمین وآسمان سبھی آنسو بہاتے ہیں اور کسی کی موت ‘‘خس کم جہاں پاک ’’ کا مصداق ہوتی ہے نہ اس پر آسمان روتا ہے اور نہ زمین کو صدمہ ہوتا ہے (فما بکت علیہم السموات والأرض) حضوراکرمﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو آپﷺ نے فرمایا:‘‘مستریح ومستراح منہ ’’۔صحابہ کرام کے استفسار پر فرمایا کہ موت کے نتیجہ میں مومن شخص کو دنیا کی الجھنوں اور مشقتوں سے نجات ملتی ہے اور فاسق وفاجر شخص کے مرنے سے دنیا کے لوگوں کو راحت ملتی ہے اور شہر کے انسا ن وہاں کے جانور اور پیڑ پودے سبهي راحت محسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور جنازہ آپﷺ کے سامنے سے گزرا تو لوگوں نے مرنے والے کی خوب تعریفیں کیں اور اس کے اچھے اوصاف وکمالات ذکر کئے تو آپﷺ نے فرمایا: ‘‘وجبت’’ (اس کے لئے جنت لازم ہوگئی)۔پھر ایک دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے مرنے والے شخص کی شکایتیں شروع کردیں اور اس کے برے اوصاف ذکر کئے تو آپﷺ نے فرمایا: ‘‘وجبت’’ (اس کے لئے دوزخ لازم ہوگئی)۔اور آپﷺ نے صحابہؓ کے دریافت کرنے پر اس کی بنیاد یہی ذکر فرمائی کسہ تم لوگوں نے جس کے اچھے اوصاف ذکر کئے ہیں وہ اپنے ان اعمال کی وجہ سے جنت کا مستحق قرار پایا۔اور تم نے جس شخص کے برے اوصاف ذکر کئے ہیں وہ اپنے کرتوت کی وجہ سے دوزخ کا مستحق ٹھہرا، اس طرح زبان خلق ہی مرنے والوں کے حق میں نقارۂ خدا ثابت ہوئی۔
پچھلے دنوں جب مشہور عالم دین اور ممبر پارلیمنٹ جناب مولانا اسرار الحق قاسمی کے انتقال پرملال کی اچانک خبر آئی تو ہر طرف سے تعزیتی بیانات اور زبانی وتحریری پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سبھی مولانا مرحوم کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئے کسی نے ان کے دعوتی واصلاحی کاموں کو سراہا، کسی نے ان کی ملی وسماجی خدمات کا ذکر کیا تو کسی نے ان کی سادگی اور خوش اخلاقی کا ذکر کیا اور کسی نے ان کی عبادت وریاضت کے ذوق اور غریبوں ومحتاجوں کی حاجت روائی کے جذبہ پر روشنی ڈالی۔غرض یہ کہ ہر شخص نے ان کے اچھے اوصاف هي ذکر کئے اور ان کی وفات کو ملک وملت کے لئے عظیم سانحہ قرار دیا۔ جو یقینا ان کے لئے فال نیک ہے اور اخروی زندگی میں ان کی کامیابی وسرخروئی کی علامت اور یہاں بھی زبان خلق نقارۂ خدا معلوم ہونے لگی۔پھر ان کی موت بھی ایسے وقت میں آئی کہ وہ اپنی دعوتی واصلاحی مہم سے فارغ ہورات کا بڑا حصہ گزر جانے کے بعد ایک طرف تھکے ہارے جسم کا تقاضا کہ کچھ دیر کمر سیدھی کرلیں دوسری طرف (تتجافی جنوبھم عن المضاجع) ، (وبالأسحار ھم یستغفرون) کی خصوصیت رکھنے والوں کے زمرہ میں شامل ہونے اور رات کے پچھلے پہر رب کا ئنات سے خوف وطمع کے ساتھ کچھ مانگ لینے کی خواہش تہجد کی نماز کے لئے بے چین کئے ہوئے، اسی کشمکش کے دوران موت کا فرشتہ پیغام اجل لیکر پہنچ جاتا ہے اللہ کے ایک بندہ کےلئے اس حال میں خودسپردگی کے علاوہ چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے، جان جان آفریں کے سپرد کردی اور خالق کائنات کی آغوش رحمت میں جاپہنچے۔مرگ مجنون پہ عقل گم ہے میرکیا دیوانے نے موت پائی ہےعجب کیا ہے کہ یہ مزدہ جانفزا بھی اس حال میں ان کو سنایا گیا ہو۔(یاأیتہا النفس المطمئنۃ ارجعی إلی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی)اور اس سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوسکتی ہے ع یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیامولانا اسرار الحق قاسمی کے انتقال کے بعد ہر طبقہ کے علماء اور ارباب دانش نے جن تاثرات کا اظہار کیا ہے اور ان کی جس بے پناہ مقبولیت کی شہادتیں دی ہیں شاید ان کی زندگی میں کسی کو اس کا اندازہ بھی نہ رہا ہو۔سبھوں نے یہ شہادت دی ہے کہ وہ پیکر عمل بن کر غیب کی صدا بن گئے تھے، وہ ہر کام نہایت لگن پختگی اور اخلاص سے کرنے کے عادی تھے وہ اپنی سادگی اور تواضع میں بھی اپنی مثال آپ ہی تھے۔
مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب ایک عرصہ تک جمیعت علماء ہند کے جنرل سکریٹری رہے طبیعت میں سلامتی تھی جب پانی سر سے اونچا ہوتا دیکھا تو وہاں سے علاحدگی اختیار کرلی۔پھر مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کے ساتھ ملی کونسل کی تشکیل وتعمیر میں لگ گئے اپنے عزم وحوصلہ کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر ملی تعلیمی فاؤنڈیشن قائم کیا اور سیمانچل کے علاقہ میں تعلیمی ادارے قائم کئے سماجی اصلاح اور فلاحی کام انجام دیتے رہے۔مغربی بنگال اور بہار وآسام کے بعض دوسرے علاقے بھی ان کی کوششوں سے فیضیاب ہوتے رہے۔مولانا اسرار الحق قاسمی ني رفاہی کاموں اور تعلیمی واصلاحی پروگراموں کی تنفیذ کے لئے دوردراز کے سفر کئے مشقتیں جھیلیں اور جانی ومالی قربانیاں دیں۔وہ ممبر پالیمنٹ رہے، کئی تعلیمی اداروں کی شوری اور انتظامیہ کے رکن رہے، خود تعلیمی وغیر تعلیمی ادارے قائم کئے لیکن اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں کی ہماہمی اور رفاہی وتعلیمی سرگرمیوں میں بے پناہ مصروفیت کے باوجود ان کی ذاتی زندگی ذوق عبادت سے بھی معمور رہی اور انہوں نے ‘‘نالۂ نیم شبی ’’اور‘‘آہ سحر گاہی ’’ سے بھی خود كووابستہ رکھا جس سے سعادتمند روحیں بہرہ ور ہوا کرتی ہیں، بقول اقبال:عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہوکچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہیاور غالباً ان کی اسی خصوصیت مين ان کی عظمت اور غیر معمولی مقبولیت کا راز بھی ہے۔چنانچہ ان کے عزیز واقارب کی طرف سے کسی خاص اہتمام کے بغیر ہی تعزیتی جلسے، ایصال ثواب کی محفلیں اور اخبارات ورسائل، اور سوشل میڈیا کے ذرائع بھی ان کے کاموں اور کارناموں پر روشنی ڈال رہے ہیں اور ہر طرف سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔اس طرح کی مقبولیت ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جو دن رات اپنی شہرت کے لئے جتن کرتے رہتے ہیں ٹیوٹر فیس بک اور سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع استعمال کرکے اپنے فالوروں کی تعداد بڑھانے میں شب وروز لگے رہتے ہیں۔دراصل حقیقی مقبولیت اوپر سے آتی ہے اور اس کے لئے آدمی کا بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے یہ محض اپنے رب کے ساتھ رشتہ کی استواری اور اخلاص عمل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور اللہ ہی جسے چاہتا ہے اپنے مقبولین میں شمار کرلیتا ہے اور مخلوق میں اس کی محبت القا کردی جاتی ہے۔
مولانا محمد یونس جونپوری ہوں یا بھائی عبد الوہاب ان کے جنازے میں شرکاء کی کثرت بالائی مقبولیت ہی کی علامت معلوم ہوتی ہے اسی طرح مولانا اسرار الحق قاسمی کے بارے میں ہر شخص کی زبان پر ذکر خیر کا ہونا بھی فال نیک قرار دیا جاسکتا ہے۔ملی کونسل کی طویل رپورٹیں عرصه تك وہ اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بھیجتے رہے جس سے وسائل کی قلت اور مولانا کی ‘‘ہمدردی ملت ’’ دونوں کا اظہار ہوتا ہے۔مولانا کے کارناموں اور ان کے ذاتی حالات سے ان کے نائب مولانا افتخار حسین مدنی اور ان کے ساتھ سایہ کی طرح جڑے ہوئے مولوی نوشیر وغیرہ کو واقفیت ہوگی اور وہی کچھ لکھنے کا حق رکھتے ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی خلق کی شہادت کو ان کی قبولیت کی علامت بنا دے اور ان کے اخلاص عمل کے صلہ میں ان کو فردوس بریں میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین۔