شیخ الحدیث مولانا فخر الدین احمد ؒ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی ۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

08:23PM Mon 1 Feb, 2021

دار العلوم دیوبند کی تاریخ کا زریں باب ابھی ختم نہیں ہوا تھا ابھی ان  قدسی نفوس علماء کا وجود باقی تھا جنہوں نے حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ  اور فقیہ امت  ومحدث اعظم مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  کو اگر نہیں  دیکھا  تو  انکے دیکھنے  والوں کو تو ضرور دیکھا تھا۔

 اور اس کے دار الحدیث کی مسند پر شیخ الہند مولانا محمود حسن  امام العصر علامہ مولانا انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ  کے بعد  اب شیخ الحدیث مولانا سید فخر الدین احمد  مراد آبادیؒ جلوه افروز تھے  اور وہاں مسلسل چار گھنٹے  اور پانچ  گھنٹے حافظ ابن حجر العسقلانیؒ  اور علامہ بدر الدین العینیؒ کے درمیان محاکموں کے علاوہ کرمانی وقسطلانی کے افادات کے بیان  کا سلسلہ جاری تھا، درس  میں سیبویہ اور ابو علی الفارسی  کے نام آتے، خطابی، زمخشری، ابوعبید القاسم بن سلام اور اصمعی کی تحقیقات کے حوالے دیئے جاتے اور ابن یعیش اور ابن عصفور  کے نام ہوں یا ابن تیمیہ اور ابن دقیق العید کے،  کی آراء  اور ابن عبد البر وقاضی عیاض کی تحقیقات کا ذکر جو علامہ انور شاہ کشمیری کے عہد میں شروع ہوا تھا اس کا اثر ابھی باقی  تھا اور کان  ان نادر تحقیقات سے وقتا فوقتا آشنآ ہوتے  رہتے تھے، صحیح بخاری کا درس دینے والا ایسا امام وقت اور محدث جلیل موجود تھا جس کے بارے میں شام کے  نامور محدث وفقیہ 0شیخ عبد الفتاح ابوغدہ  درس میں بیٹھنے کے بعد یہ کہتے نظر آئے کہ:

‘‘جلست فی درس ھذا الشیخ الجلیل ثلاثة أيام لسماع شرح شطر من حدیث’’۔

شیخ الحدیث مولانا سید فخر الدین احمد صاحب کے درس بخاری کا آخری سال تھا بلکہ خود انکی  زندگی کے چند ماہ باقی رہ گئے تھے کہ قسمت نے یاوری کی اور ہمارا دورہ حدیث کا سال شروع ہوا اور اپنے نحیف ولاغر وجود کے ساتھ  بڑے سائز کی صحیح بخاری کا نسخہ سامنے تھا 365 ہم سبق کے ساتھ تیزی سے عبارت پڑھنے کی کوشش کے دوران عجلت میں یہ کہنا بھی یاد نہ رہا اور استاذ گرامی کو تنبیہ کرنی پڑی۔

وبالسند المتصل منا إلی الامام الحافظ الحجة أبي عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري رحمه الله  مصنف استاذ  اور خود اپنی ذات کے لئے دعائیہ کلمات کہنے کا  معمول رہا ہے۔

 شیخ کی عمر ٩٠ سال سے زائد ظاھری وجود چند ہڈیوں کا ڈھانچہ، لیکن  باطنی قوت مسلسل درس دینے پر آمادہ قوت  حافظہ اس عمر میں بھی بے مثال۔

بیماریوں اور طرح طرح کے اعراض کے باوجود چہرہ پر درس حدیث کی تازگی پیشانی پر شب بیداری کا نور اور تکیوں کے سہارے درس حدیث کے لئے اپنے تخت شاہی  پر بیٹھ جانے کے بعد ساری مجلس بقعہ نور  نظرآتی تھی ۔

اور سوائے قال اللہ اور قال الرسول کے

اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں

باب بدء الوحی مکمل ہونے کے ساتھ ہی انکی مبارک زندگی کے اختتام کا پروانہ آگیا۔

جشن گل سیر ندیدم وبہار آخر شد

 حضرت شیخ الحدیث مولانا فخر الدین احمد 1307ھ میں پیداہوئے تھے، 1329ھ میں وہ تمام علوم فنون کے حصول سے فارغ ہوچکے تھے، انہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور امام العصر علامہ انور شاہ الکشمیریؒ دونوں سے کسب فیض کیا تھا اور وہ  دونوں کے علوم کے وارث تھے، انہوں نے حضرت شیخ الہند کے مشورے سے دو سالوں میں فنون کی کتابوں کے ساتھ  دورہ حدیث کی تکمیل کی۔

 بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی چہرہ نہایت خوبصورت وشاداب، زبان کوثر  وتسنیم سے  دھلی  ہوئی، نہایت  شستہ  و پاکیزہ  آواز میں جوانوں جیسی نغمگی وکھنک⁰۔

ساری زندگی ‘‘صحیح امام بخاری’’ کی رمز شناسی وعقدہ کشائی میں گزار دی۔

طویل عرصہ  تک بزرگوں کی خواہش کے مطابق مدرسہ شاہی مرادآباد میں رہے۔

آخری ایام تک بھی حافظہ مثالی رہا، شیخ الحدیث کی حیثیت سے دیوبند میں انکی ذات آخری تھی، انکے بعد اس شان کا اور انکی خصوصیات کا حامل شیخ الحدیث کوئی  دوسرا نہیں مل سکا۔

وہ صدر المدرسین بھی تھے اور کبھی کبھی عصا ٹیکتے ہوئے درسگاہوں میں بھی آجائے  تھے جس کا مقصد اساتذہ کی نگرانی تھی۔

جب میں مقامات حریری پڑھتا تھا       تو درسگاہ تشریف لے  آئے اور آنآتنی المتربة عن الاتراب کی تحقیق کرائی اور‘‘انآتنی’’ میں فعل کا  مادہ دریافت کیا اور  صحیح  جواب دینے پر برکت  کی دعا بھی  دی۔

انکی زندگی علم حدیث اور خاص طور پر صحیح الامام البخاری کے ساتھ گزری، احادیث بخاری کی شرح بڑی تفصیل سے کرنے کے عادی تھے۔

اور اس پر وارد ہونے والے ہر اشکال  کا  تفصیلی جواب دینے کی کوشش کرتے تھے۔

انکی بخاری شریف کی  درسی تقریروں کا جو مجموعہ ایضاح البخاری کے نام سے شائع ہوا ہے، اس سے انکے طریق تشریح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے گوکہ کہیں کہیں ادبی تعبیر کی کوشش مسئلہ کی علمی حیثیت پر غالب ہوتی نظر آتی ہے۔

علامہ ابراھیم بلیاوی اور مولانا فخر الدین صاحب دونوں ایک ہی زمانہ کے ہیں اور دونوں ہی حضرت شیخ الہند کے ممتاز ترین شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن  ایک نہایت ہی اختصار پسند اور معقولی چھوٹے جملوں میں پوری کتاب کا مفہوم سمو دینے کے قدرت رکھنے والے  اور دوسرے  نہایت ہی تفصیل کے خوگر اور خطیبانہ آہنگ رکہنے والے  مدرس:

ہر گلے را رنگ و بوئے دیگراست

لیکن دونوں ہی باکما ل اوردونوں کا انداز دلکش ودل فریب اور اطمینان بخش  اور وجد آفریں تھا۔

 ایک نکتوں چٹکلوں اور عقلی استدلال کی بے پناہ قوت سے طلبہ کو مسحور کئے ہوئے۔

 تو دوسرے اپنی زبان کی فصاحت بیان کی لذت اور اپنی  شیریں بیانی وخوشنوائی اور اشعار ومحاوروں کے برمحل استعمال کے ذریعہ لوگوں کو اپنی گرفت میں اس طرح لئے ہوئے کہ کآن علی رؤسهم الطير۔

صحيح بخاري كے تراجم ابواب کی عقدہ کشائی کیلئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے مختصر رسالہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نامکمل، لیکن بیش قیمت واہم ترین رسالہ الابواب والتراجم، پھر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا الکاندہلوی صاحب کی پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل عربی میں الابواب والتراجم ہے جس میں انہوں نے شیخ الہند کے رسالہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی طرف سے سابقین ولاحقین  سب کی نکتہ آفرینیںوں کو ایسے اصولوں کی شکل دیدی ہے کہ اس پہلو سے بھی امام بخاری کی صحیح کا حق ادا کردیا ہے، اصولوں کی تعداد70 تک پہنچا دی ہے۔

 تراجم ابواب کے حل اور اسکی پیچید گیوں کو دور کرنے کے لئے استاد گرامی حضرت مولانا  سید فخر الدین  صاحب نے بھی ‘‘القول النصیح فی شرح ابواب الصحیح’’ کے نام سے لکھی تھی جسکے صرف دو جزء چھپ سکے تھے جس کے بارے میں انکی طرف سےکہا جاسکتاہے کہ :

تجھ سے مقابلہ کی کسے تاب ہے ولے

میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لیکن میرا مقصد اس وقت انکی دوسری کتاب کا ذکر ہے جو بے مثال ہے اور مولانا فخر الدین صاحب کا اس میدان میں کوئی دوسرا شریک وسہیم بھی نہیں ہے گوکہ کتاب کو اسکا صحیح مقام نہیں مل سکا اور خود ان کے شاگرد بھی یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ انہوں نے تراجم ابواب پر دو کتابیں لکھی ہیں  ایک ‘‘القول الفصیح’’ اور دوسری ‘‘القول النصیح’’ حالانکہ دونوں کے نام الگ اور دونوں کا موضوع اور مقصد تالیف بھی الگ ہے، ایک وجہ کتاب کی طرف سے بے توجھی کی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ہی بارچھپی اور وہ بھی مراد آباد میں اور طباعت بھی واضح نہیں ہے اور زمانہ دراز سے کمیاب ہی نہیں نایاب بھی ہے ۔

اس کتاب کا نام  ‘‘القول الفصیح بنضد ابواب الصحیح’’ ہے اور اسکا موضوع بخاری کے ابواب وتراجم کی شرح نہیں  ہے، بلکہ شروع سے اخر تک تمام ابواب کی مناسبتوں کا بیان ہے کہ امام بخاری نے فلاں باب سے پہلے یا بعد میں اس باب کا ذکر کیوں کیا ہ؟

اس کتاب کی اھمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ ابن حجر عسقلانی کو بمشکل اس اہم  موضوع پر امام بلقینی کے لکھے ہوئے چند صفحے ملے جس کو انہوں نے بڑی اہمیت کے ساتھ  ذکر کیا ہے اور اسے مقدمہ فتح الباری کا جزء بنا دیا ہے۔

حضرت مولانا فخر الدین صاحب نے  صحیح بخاری کے تمام ابواب کی مناسبتیں بیان کرڈالی ہیں فللہ درہ ما أدق نظره وما أعظم أجرہ ۔

علامہ سيد  محمد یوسف بنوری نے مولانا فخرالدین صاحب کے انتقال پر اپنے تعزیتی مضمون میں اسے مولانا فخر الدین صاحب کے اعلی ذوق حدیث اور غیر معمولی ذہا نت کا کرشمہ قرار دیا ہے۔

 شیخ الحدیث حضرت مولانا فخر الدین صاحب کا انتقال 20 صفر1392ھ مطابق 15 اپریل 1972ء کو مراد آباد میں ہوا تدفین  میں شرکت کیلئے دورہ حدیث کے طلبہ اور اساتذہ بھی مراد آباد پہنچے، جنازہ کی نماز حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب نے پڑھائی۔

رحم اللہ أستاذنا الامام المحدث الشیخ فخرالدین احمد وجزاہ خیرا وجمعنا معه  فی الفردوس الأعلی مع الحبیب المصطفی، صلی اللہ علیہ وسلم۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/dr-baderqasmi/