تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ از : اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

08:00PM Thu 22 Jun, 2017

اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ میں ’’ہمراہ‘‘ کا بہت غلط استعمال ہورہا ہے۔ مثلاً کسی تصویر میں ’’فلاں صاحب بھی ہمراہ ہیں‘‘۔ یا ’’عدالت نے حکم دیا ہے کہ دستاویزات کے ہمراہ پیش ہوں‘‘۔ اب یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہم راہ کا تعلق راہ سے ہے، جیسے فلاں صاحب اس سفر میں ہمراہ ہیں، یعنی رفیق، یا سفر میں ساتھی ہیں۔ جیسے ’’میں تمہارے ہمراہ لاہور گیا‘‘۔ ایک مصرع ہے کیوں نہ ہوں فتح و ظفر میدان میں ہمراہ رکاب ’ہم‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس سے کئی الفاظ بنتے ہیں جیسے ہم سبق، ہم آواز، ہم آغوش، ہم کنار، ہم آہنگ، ہم دوش۔ ایک لفظ ہے ہم آورد۔ فارسی میں اس کا املا ’’ہماورد‘‘ہے۔ ’آورد‘ جنگ یا لڑائی کو کہتے ہیں۔ ’ہم آورد‘ کا مطلب ہے سامنے کھڑا ہوکر لڑنے والا، مقابل حریف، دشمن وغیرہ۔ ’ہم پایہ‘ اور ’ہم پلہ‘ کا مطلب ہے ہم مرتبہ، برابر کی ٹکڑ کا۔ ’ہم پیالہ و ہم نوالہ‘ ساتھ کھانے پینے والا۔ ایک لفظ ’ہمتا‘ بھی ہے (فارسی صفت) یعنی برابر، مثل، مانند۔ اللہ کریم کے بارے میں کہا جاتا ہے ’’ذاتِ بے ہمتا‘‘۔ یعنی اس کے مثل و برابر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمراہ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس کی جگہ ’ساتھ‘ استعمال کرنا چاہیے، یعنی تصویر میں فلاں صاحب بھی ساتھ ہیں، یا دستاویزات کے ساتھ پیش ہوں۔ ذرا سی احتیاط سے جملہ درست ہوجائے گا۔ گزشتہ پیر کو ایک ٹی وی چینل پر بہت بڑے ریسرچ اسکالر اور ماضی کے عالم آن لائن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین چار علماء کو سامنے بٹھا کر قرآن کریم کی تفسیر بیان کررہے تھے۔ دورانِ خطاب انہوں نے ’بو‘ کی تشریح کی اور بتایا کہ یہ خوشبو کا مخفف ہے۔ انہوں نے مثال دی ’’جیسے بو علی شاہ قلندر‘‘ یعنی علیؓ کی بو، اور علیؓ کی بو تو خوشبو ہی ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مذہبی اسکالر کو یہ نہیں معلوم کہ خوشبو یا بدبو کے معنی میں ’بو‘ فارسی ہے، جب کہ بوعلی شاہ یا بوعلی سینا میں ’بو‘ عربی کا ہے، اور یہ ’ابو‘ کا مخفف ہے۔ عامر لیاقت کی بیان کردہ تشریح سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ان کی تحقیق تسلیم کرلی جائے تو ’بوتراب‘، ’بوبکر‘ وغیرہ کا کیا مطلب ہوگا؟ حیرت ہے کہ ریسرچ اسکالر کے سامنے بیٹھے ہوئے انہی کے درجے کے چار ’’علما‘‘ نے بھی انہیں نہیں ٹوکا۔ غالباً اتنے بڑے عالم کے سامنے مرعوب ہوگئے تھے۔ ہمارا یہ مقام تو نہیں کہ اتنے بڑے مذہبی اسکالر کو کچھ سمجھا سکیں، پھر بھی جرأت کر دیکھتے ہیں۔ شاید حضرت نے یہ سن رکھا ہو: ’’بوبکر و عمر، عثمان و علی، ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبیؐ،کچھ فرق نہیں ان چاروں میں‘‘۔ یہ اور بات کہ عامر لیاقت سمیت کئی لوگ یارانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق روا رکھتے ہیں۔ ریسرچ اسکالر کی توجہ کے لیے بُو(عربی) کی وضاحت کردیں۔ یہ ’ابو‘ کا مخفف ہے جیسے بوتراب، بو علی سینا اور بوعلی شاہ قلندر۔ بو یا ابو ’والا‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ ویسے اس کا مطلب باپ، صاحب، مالک وغیرہ ہے اور والا کے معنی میں بھی آتا ہے۔ علیؓ کرم اللہ وجہہ کی کنیت بوتراب ہے۔ تراب مٹی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب مٹی کا باپ نہیں بلکہ مٹی والا ہے۔ اہلِ فارس نے اکثر بحذف الف استعمال کیا ہے۔ ایک دن حضرت علیؓ مسجد کے کچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں آئے تو دیکھا کہ علیؓ کے بدن پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ شفقت سے مخاطب فرمایا ’’یا ابا تراب اٹھ‘‘۔ تب سے علی کی کنیت ابوتراب یا بوتراب ہوگئی۔ ایک صحابی ابوہریرہ اور ایک ابوذرغفاری بھی تھے۔ عربی میں ہرّہ بلی کو اور ہریرہ بلی کے بچوں کو کہتے ہیں۔ آپؓ کو بلی کے بچے پسند تھے اس لیے ابوہریرہ کنیت بن گئی۔ اس کا مطلب بلیوں کا باپ نہیں بلکہ ’’بلی والا‘‘ ہے۔ جیسا کہ عرض کیا عربی کے ابو کا مخفف ’بو‘ ہے۔ امام اعظم نعمان بن ثابت کی کنیت ’’بو حنیفہ‘‘ ہے۔ ریسرچ اسکالر صاحب اگر ذرا سی ریسرچ فرما لیتے تو انہیں عربی و فارسی کے ’بو‘ کا فرق معلوم ہوجاتا۔ بوعلی شاہ اور بوعلی سینا، بوبکرؓ و بو ترابؓ فارسی کا ’بو‘ استعمال نہیں کرسکتے۔ عربی ’ابو‘ کے مخفف ’بو‘ کے ساتھ اردو میں اور بھی کئی الفاظ معروف ہیں جیسے ’’بوالہوس‘‘۔ غالب کا شعر ہے: ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی بعض فرہنگ نویسوں کے مطابق ہوس فارسی ہے، چنانچہ اس پر الف لام تعریف کا لانا صحیح نہیں ہے (یعنی ابوالہوس) اور یہ لفظ ’’بل‘‘(بہت) اور ہوس (آرزو) سے مرکب ہے، حالانکہ عربی لغات میں ہوس بمعنی جنون اور دیوانہ ہونے کے ہے۔ لہٰذا بو الہوس بمعنی نہایت آرزو مند، بڑا حریص‘ بہت ہوس رکھنے والا، خواہش نفسانی کا پابند وغیرہ۔ مہک، خوشبو، بدبو، بُو وغیرہ فارسی کے الفاظ اور مونث ہیں: غالب کا شعر ہے: ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں کے نکیرین ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے بُو کے اور بھی مطلب ہیں مثلاً خبر، بھنک، راز، بھید، آن بان شان، علامت، نشانی، طرز، ڈھنگ وغیرہ۔ ۔ ۔ جیسے داغؔ کا یہ شعر: ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو کافر اگر ہزار برس دل میں تُو نہ ہو بوئے غرور، امیری کی بو۔ شاید عالم آن لائن کی سمجھ میں فرق آگیا ہو۔ ۔ ۔ اردو میں لفظ ’’تشہیر‘‘ کا استعمال عام ہے یعنی کسی چیز کی شہرت یا اسے پھیلانا، جیسے تحقیقات کے دوران میں لی گئی ایک تصویر کی خوب تشہیر ہوئی، یا ایک خبر کی سرخی تھی ’’دہشت گردی کے خطرات کی تشہیر‘‘ بہ معنی عام فہم ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب دربار اکبری میں ایک واقعہ لکھا ہے: ’’لشکر خان میر بخشی ایک دن شراب پی کر دربار میں آیا اور بدمستیاں کرنے لگا۔ اکبر بہت خفا ہوا۔ گھوڑے کی دم سے بندھوایا اور لشکر خان کو لشکر میں ’’تشہیر‘‘ کیا۔ سب نشے ہرن ہوگئے۔‘‘ (دربارِ اکبری، ص76) رشید حسن خان لکھتے ہیں کہ تشہیر کے معنی ہیں رسوا کرنا۔ پرانے زمانے میں سزا دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مجرم کا منہ کالا کرکے، اسے گدھے پر بٹھا کر شہر کی گلیوں سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا۔ اس کو تشہیر کہتے تھے۔ اگر ہم اپنی عبارت میں شہرت کے معنی میں تشہیر لکھیں تو ہماری رسوائی ہوگی۔ لیکن اب شہرت کے معنی میں تشہیر کا لفظ اتنا عام ہوگیا ہے کہ جس کی تشہیر ہورہی ہو وہ بھی اس پر خوش ہوگا۔ نہ اس کا رسوائی ہوگی، نہ لکھنے والے کی۔