کیا جنگوں کی وجہ، مذہب ہے؟۔۔۔۔از: آصف جیلانی

Bhatkallys

Published in - Other

01:34PM Fri 12 Oct, 2018
وہ لوگ جو مذہب کے بارے میں تشکیک میں الجھے ہوئے ہیں، وہ بڑے یقین سے دعویٰ کرتے ہیں کہ جنگوں کی اصل وجہ مذہب ہے۔ اپنے اس دعوے کے حق میں وہ سولہویں صدی میں فرانس میں کیتھولک اور پرٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان آٹھ جنگوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو 36 سال تک جاری رہیں۔ پھر یہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں جو کم و بیش ایک صدی تک جاری رہیں اور موجودہ دور کی دہشت گردی کی لہر کی وجہ مذہب قررار دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ تمام بڑی جنگوں کے پس پشت بنیادی محرک مذہب تھا اس کے برعکس دنیا میں زیادہ تر جنگیں، ملک گیری، علاقائی فتوحات کی خواہش، سرحدوں اور تجارتی راستوں کے تحفظ یا داخلی سیاسی حاکمیت کو للکارے جانے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ قرون وسطیٰ اور نشاۃ ثانیہ کی جنگیں دولت کے حصول یا اس پر کنٹرول اور شہری ریاستوں کے اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے ہوئی ہیں، مذہب ان کا ہرگز سبب نہیں تھا۔ 13 ویں صدی میں منگولوں کی جو جنگی سونامی اٹھی اور جس میں 3 کروڑ افراد ہلاک ہوئے ا ن کے پس پشت قطعی مذہب کارفرما نہیں تھا بلکہ ملک گیری اصل مقصد تھا۔ وسط ایشیا کے مسلمان اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ چنگیز خان جنہوں نے اپنی تباہی اور بربادی کے بل پر وسط ایشیا کو زیر کیا، آخر کار مذہب نے اس کے پوتے برکان، برکے کو زیر کردیا اور اس نے اسلا م قبول کر لیا۔ جدید دور کی جنگیں جن میں نپولین کی جنگی مہم، امریکی انقلاب، فرانسیسی انقلاب، انقلاب روس، امریکا کی خانہ جنگی، پہلی عالم گیر جنگ، دوسری عالم گیر جنگ، کوریا اور ویت نام کی جنگیں، عراق کی جنگ اور افغانستان کی جنگ شامل ہیں ان میں سے کسی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عراق کی جنگ، خالصتاً تیل کی ہوس اور مشرق وسطیٰ پر سیاسی اور فوجی تسلط کی خاطر لڑی گئی تھی۔ جمہوری انقلاب کے نام پر لیبیا میں جنگ کے پیچھے مقصد معمر قذافی کا تختہ الٹنا اور ڈالر کے مقابلہ پرافریقی کرنسی کا منصوبہ ناکام بنانا اور تیل پر قبضہ کرنا تھا۔ پھر بیسویں صدی میں مختلف ملکوں میں نسل کُشی اور ہولناک قتل عام ہوئے جن میں دس کروڑ افراد کی جانیں ضائع گئیں، ان کا مذہب سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ برطانوی فلسفی John Locke کی رائے تھی کہ کلیسا اور ریاست کی علیحدگی، امن کی کلید ہے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا ہے۔ جدید دور کے آغاز تک مذہب زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا تھا جس میں جنگ اور سیاست بھی شامل تھی۔ ہر ریاست کا نظریہ مذہب تھا یورپ کے بادشاہوں نے جو اپنے آپ کو پاپائے روم کے مذہبی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہد کرتے رہے وہ بھی سیکولرزم کے حامی نہیں تھے بلکہ نیم ربانی تصور کیے جاتے تھے۔ ہر کامیاب سلطنت کا یہ دعویٰ تھا کہ اس کا ربانی Divine مشن ہے۔ اٹھارویں صدی میں امریکی اور فرانسیسی انقلاب تک مغرب میں کوئی معاشرہ سیکولر نہیں تھا ان انقلابات کے بعد مغربی دنیا میں مذہب کو سیاسی زندگی سے الگ کردیا گیا۔ یہ تاریخی حقیت ہے کہ انسان، ہابیل اور قابیل کے دور سے لے کر اب تک جنگ سے نجات حاصل نہیں کر سکا ہے۔ حتیٰ کہ ڈھائی سو سال قبل مسیح میں ہندوستان کا بادشاہ اشوکا اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اگر حکمران، ریاستی جارحیت ترک بھی کردے تو اس کے لیے فوج کو ختم کرنا نا ممکن ہے۔ مہا بھارت کا جنگجو بادشاہ ارجن اس پر تاسف کا اظہار کرتا تھا کہ اس کی زندگی میں جنگ سے نجات مشکل ہے۔ یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں کہ مذہب ہمیشہ جارحیت کو شہہ دیتا رہا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ مذہب تشدد کو روکنے میں پیش پیش رہا ہے۔ 19 ویں صدی قبل مسیح میں ہندوستان کے مذہبی پیشواؤں نے اہنسا، عدم تشدد کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اسی طرح قرون وسطیٰ میں کیتھولک کلیسا نے تشدد کو روکنے کے لیے Peace and Truce of God کی تحریک شروع کی تھی اور ہر ہفتے بدھ اور اتوار کو تشدد یکسر ممنوع قرار دیا تھا۔ بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی تحریکیں اور مذہبی پیشوا جنگ و جدل اور تشدد روکنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ مذہب کی وجہ سے جنگیں بھڑکیں ہیں۔ حال میں چارلس فلپس اور ایلن ایکسلراڈ نے ’’انسائیکلو پیڈیا آف وارز‘‘ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اب تک دنیا میں 1763 جنگیں ہو چکی ہیں جن میں سے صرف 123 جنگوں کی وجہ مذہب تھا۔ انسائیکلو پیڈا میں بتایا گیا ہے کہ صلیبی جنگوں میں دس لاکھ سے تیس لاکھ تک افراد ہلاک ہوئے اور فرانس کی مذہبی جنگوں میں 3 ہزار افراد مارے گئے لیکن صرف پہلی عالم گیر جنگ میں ساڑھے تین کروڑ افراد ہلاک ہوئے اس جنگ کا نہ تومذہب محرک تھا اور نہ وجہ مذہبی معرکہ آرائی تھی۔ علم الانسان کے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ جنگوں کی ایک بڑی وجہ زراعت رہی ہے۔ 1980 میں علم الانسان کے ماہر جارڈ ڈایمنڈ نے ’’نسل انسانی کی تاریخ میں بد ترین غلطی‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھی جس میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ جب سے انسانوں میں زراعت شروع ہوئی ہے اس کی وجہ سے بستیاں بسنی اور شہر ابھرنے شروع ہوئے ہیں۔ فصلوں اور مویشیوں کی وجہ سے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہونے شروع ہوئے ہیں اور زراعت کی وجہ سے جنگیں شروع ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاپوا نیو گنی کی مثال پیش کی ہے جہاں اٹھارویں صدی تک امن چین تھا لیکن یورپی کھوجیوں نے جب یہاں شکر قندی کی کاشت شروع کی تو سماجی گڑبڑ شروع ہو گئی۔ زیادہ سے زیادہ شکر قندی کی کاشت کے لیے لوگوں نے زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ شروع کردیا نتیجہ یہ کہ اراضی کی ملکیت پر جنگیں بھڑک اٹھیں۔ بہرحال اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ گزشتہ 17 سال سے پوری دنیا میں دہشت گردی کی جو ہولناک لہر اٹھی ہے اس کے لیے جواز اور سہارا مذہب کا لیا گیا ہے۔