اہل علم کی محسن کتابیں۔۔۔۱۳۔۔۔ مولانا شاہ حلیم عطا سلونی

مولانا شاہ حلیم عطاسلونی ولادت: سلون،(ضلع رائے بریلی،یوپی) ۱۳۱۱ ھ،مطابق ۱۸۹۳ھ
سلون کے مشہور خانوادہ کریمیہ کے قابل فخر فرزند تھے۔ تین سو سال سے خانقاہ کریمیہ آباد ہے۔ نسلاً آپ فاروقی تھے۔ آپ نے اپنے چچا شاہ حسام عطا کے زیر تربیت پرورش پائی اور اپنے برادر بزرگ مولانا شاہ نعیم عطا صاحب سے علم حدیث کی تحصیل کی، مولانا شاہ حلیم عطا عبقری ذہن و دماغ کے مالک تھے، آپ قوت حافظہ، وسعت مطالعہ، کثرت معلومات اور علمی استحضار میں دور حاضر کی زندہ مثالوں میں تھے،گویاچلتی پھرتی لائبریری تھے۔علم و مطالعہ کے عاشق، اور نئی نئی کتابوں کے شائق تھے۔ حدیث اور تاریخ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ تفسیر وفقہ میں بھی مہارت تھی، ادب کا بھی اعلی ذوق رکھتے تھے، عربی نظم پر بھی اچھی قدرت تھی، اردو میں بھی شعر کہتے تھے،متون وشروحِ حدیث کا بڑا ذخیرہ ان کے خانۂ دماغ میں محفوظ تھا، اس فضل و کمال کے باوجود طبیعت میں استغنا اور گمنامی تھی۔ کئی کتابیں یادگار چھوڑیں،جو ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہیں۔ ان میں سے الکتاب الکریم فی استخراج الدررمن القرآن العظیم، اسماء الرجال المذکورین فی الاکمال(بترتیب حروف الہجاء)،تیسیر الوصول الی اطراف اصحاب الاصول، دلیل السالک الی اطراف مالک، فتح المنعم فی اطراف الامام مسلم، المعجم المفھرس،نسمۃ السحر(دیوان شرف) قابل ذکر ہیں کتابیں ہیں۔ یہ سب کتابیں مع ان کی دیگر کتابوں کے، ان کے صاحبزادے شاہ حسن عطا اپنے ساتھ کراچی لے گئے۔
وفات: الہ آباد، ۲۰ / صفر، ۱۳۷۵ ھ،مطابق ۷ ا/کتوبر ،۱۹۵۵ ھ مدفن: خانقاہ کریمیہ، سلون
میرے خاندان میں خدا کے فضل و کرم سے علم اور دین کئی صدی سے چلا آرہا ہے، مشیخت وسجادگی کے باوجود مشائخ کو علوم سے برابر ا اشتغال رہا،اور بعض حضرات صاحب تصانیف بھی ہوئے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ابوالفضل ظہیرالدین عرف شاہ پناہ عطاصاحب کے نام جو خطوط بھیجے ہیں، اور حضرت شاہ رفیع الدین علیہ الرحمہ نے اپنے بعض علمی تحفوں پر جو الفاظ لکھے ہیں، ان سے خانقاہ کے بزرگوں کے علم و فضل کا اظہار ہوتا ہے۔ با ایں ہمہ، ماحول خانقاہی اثرات اور صوفیانہ خصوصیات سے خالی نہ تھا، خاندان کا عام ذوق اور رجحانِ طبع تصوف اور اس کے متعلقات کی طرف تھا۔ اس ماحول میں میرے عم محترم شاہ حسام عطا صاحب مرحوم خاص خصوصیات کے مالک تھے، شب بیداری اور مداومت ذکر کے علاوہ ایک سلیم الفہم، حق شناس، اور وسیع القلب بزرگ تھے، معاصرین کے فضل کا کشادہ دلی سے اعتراف کرتے تھے، سلسلہ اور خاندان کی عصبیت سے پاک تھے،اوربعض متبع سنت اور متورع معاصر بزرگوں کا بڑی عظمت اور عقیدت سے ذکر کرتے تھے،اور اکثر سلف صالحین اور صوفیہ کے تذکرے سنایا کرتے تھے،جس سے صلحاء کی محبت کی تخم ریزی ہوتی تھی۔ میری عمر دس گیارہ برس کی تھی کہ چچا مرحوم ہر جمعہ کو تفسیر فتح العزیز اور بخاری کی احادیث کا ترجمہ سنایا کرتے تھے،ان سے سنی ہوئی حدیثیں آج تک دل پر نقش ہیں۔ میری عمر کا بارہواں یا تیرھواں سال تھا کہ عم محترم نے سورہ جن کی آیت ’’وانہ لما قام عبداللہ یدعوہ کا دوا یکونون علیہ لبدا‘‘ کی تفسیر فتح العزیز سے پڑھ کر سنائی، اس سے سب سے پہلے شرک کی حقیقت سمجھ میں آئی، اور توحید کا پہلا نقش دل پر قائم ہوا۔ مولوی معین الدین صاحب ٹونکی نے والد رحمہ اللہ حضرت شاہ مہدی عطا صاحب سجادہ نشین خانقاہ کریمیہ سلون کو نواب صدیق حسن خان مرحوم کی ’’الدین الخالص‘‘ ہدیتاً بھیجی تھی، طالب علمی کے زمانے میں اس کا مطالعہ کیا، اور اس سے اثر لیا۔ حدیث، میں نے اپنے برادر اکبر مولانا شاہ نعیم عطا صاحب سے شروع کی جو حدیث میں استاد الہند حضرت شیخ حسین بن محسن انصاری یمانی کے شاگرد ہیں۔ بھائی صاحب کو حدیث کا ذوق تھا۔ اس کے اثر سے مجھے بھی حدیث کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں صحیح مسلم کو اس کی شرح کی مدد سے اور بخاری کو فتح الباری کی مدد سے دیکھا، حدیث کے علاوہ ذاتی شوق سے سیوطی کی مزہر، ثعالبی کی فقہ اللغۃ، نووی کی اذکار، التبیان فی آداب حملۃ القرآن اور ریاض الصالحین کا مطالعہ کرتا تھا۔علامہ نووی کے کلام میں بالعموم بڑی حلاوت اور نورانیت معلوم ہوتی تھی۔ ۱۳۲۹ ھ میں میری خوش قسمتی سے خانقاہ میں مولانا سید ابوالحسن علی صاحب دہلوی کا ورود ہوا، آپ حدیث میں میاں سید نذیر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے، فقہ میں مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے والد ماجد مولانا عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی کے، اور ادب میں مولوی حامد حسین صاحب اور ان کے بھائی مولوی احمد حسین صاحب کے شاگرد تھے۔ لیکن آپ پر میاں صاحب کے تلمذ کے اثرات زیادہ غالب تھے، سلفیت کا رنگ بہت گہرا، اور حدیث اور سلف کی کتابوں کا بڑا شغف تھا۔ نہایت عابد اور متورع بزرگ تھے۔ آپ کی تحریک اور تشویق سے امام ابن جوزی کی تلبیس ابلیس اور صفۃ الصفوۃ، امام ابن تیمیہ کی الواسطۃ بین الخلق والحق، امام ابن قیم کی زاد المعاد، امام بیہقی کی کتاب الأسماء والصفات، اور محمد بن نصر المروزی کی کتاب قیام اللیل بار بار پڑھی اور دل میں اتار لی۔ جہال صوفیہ کی بدعات کی ظلمت سے نکلنے میں کتاب الواسطۃ اور تلبیس ابلیس سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی، اسی زمانے میں صحیحین اور موطا بالخصوص صحیح مسلم سے زیادہ اشتغال ہوا، چوں کہ نووی کی شرح موجود تھی، جو طلبہ کے لئے بڑی مفید، سہل اور ایک حد تک دلچسپ بھی ہے، اور چونکہ مجھے نووی سے عقیدت تھی اس لئے صحیح مسلم کو زیادہ ذوق و شوق اور انہماک کے ساتھ دیکھا۔ مولانا، نابینا ہوجانے کے بعد مجھ سے تلبیس ابلیس، شفاء العلیل فی مسائل القضاء والقدر والحکمۃ والتعلیل (ابن قیم) اور غایۃ الامانی فی الرد علی النبہانی(آلوسی زادہ) پڑھوا کر سنا کرتے تھے، اس طرح ان سلفی عقائد اور خیالات کے نقش گہرے اور مستحکم ہوتے چلے گئے۔ ۱۳۳۲ ھ میں مولانا محمد سورتی صاحب لکھنؤ میں مقیم تھے۔ ان کی وجہ سے بڑی نادر علمی مجلسیں اور پرلطف صحبتیں رہتی تھیں، جن میں کثرت سے سلف کی کتابوں کا تذکرہ رہتا تھا۔ میں اور محب گرامی مولانا سید طلحہ اور صدیق محترم مولانا خلیل بن محمد عرب اور دوسرے ہم مذاق اور ہم خیال احباب ان مجالس میں شریک ہوتے، اور علمی مذاکرہ اور گفتگو کرتے۔انہیں مجلسوں میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ سے میرا خاص تعارف ہوا، مولانا سورتی ان کی جامعیت اور تبحر کے بڑے معترف اور مداح تھے، ان کی گفتگو سے مجھے ابن حزم کی تصنیفات کی طرف توجہ ہوئی، ان کی کتاب’’ الفصل فی الملل والنحل‘‘ تو پہلے دیکھ چکا تھا۔ اب ان کی اور تصنیفات بھی دیکھیں۔ ابن حزم کی تحقیقات میں مسئلہ عصمت انبیاء اور قرآن مجید کے طرق نقل کی بحث کو میں نے بہت پسند کیا، اور ان مسائل پر امام ابن تیمیہ اور بعض دوسرے علماء نے جو کچھ لکھاہے، اس پر علامہ ابن حزم کی تحقیق اور بحث کو ترجیح دیتا ہوں۔ مولانا خلیل صاحب کی گفتگو اور علمی مذاکرے سے جرجانی کی تصانیف بلاغت اور امیرالمومنین یحیی یمانی کی جلیل القدر تصنیف ’’طراز ‘‘سے اشتغال ہوا، اور درس نظامی کی کتابوں سے طبیعت ہٹی، اور ان کی رہنمائی اور رفاقت میں ندوہ کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد مجھے سلف کی کتابوں کو خریدنے اور ان کے مطالعہ کا ولولہ پیدا، ہوا خصوصیت کے ساتھ جن علماء سلف کی اکثر تصنیفات کا میں نے مطالعہ، کیا وہ حسب ذیل حضرات ہیں: ابن جوزی، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن رجب، ابن عبدالہادی، ذہبی، ابن حجر عسقلانی، محمد بن ابراہیم وزیر یمانی، محمد بن اسماعیل امیر یمانی، محمد بن علی شوکانی، نواب صدیق حسن خان۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی جن تصنیفی خصوصیات نے مجھے متاثر کیا، وہ ان کی توحید وسنت کی دعوت، دلچسپ اور آسان، مگر پرزور اور مدلل طرز بیان، اور قرآن و حدیث کابے نظیر استحضار و استدلال ہے۔ لیکن اس تاثر کے باوجود شیخین کی تصانیف میں چند مسائل شاذہ سے طبیعت کو اختلاف رہاایک اثبات صفات میں ان کا مبالغہ، جس کے متعلق محمد بن ابراہیم وزیر نے الروض الباسم میں لکھا ہے ’’وبعض کلامھما یکاد یفضی الی التجسیم ‘‘اس بارے میں امام بیہقی اور ابن جوزی کی روش زیادہ مرغوب رہی۔ اسی طرح بعض مسائل فقہیہ مثل مسئلہ طلاق و یمین وغیرہ اور دقائق و معقولات، نیز ذات وصفات کے مسائل میں ان کی دقیقہ سنجیوں سے جو زیادہ تر منہاج السنۃ اور کتاب العقل والنقل اور بعض دوسری کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں، کبھی دلچسپی نہیں ہوئی۔ علی ھٰذا القیاس شدّ رحال کے مسئلے میں حافظ ابن حجر کایہ قول کہ ’’وھی من ابشع المسائل المنقولۃ عن ابن تیمیۃ‘‘کو صحیح سمجھتا رہا۔ منہاج السنۃ میں فضائل اہل بیت کی احادیث پر جو متشددانہ کلام منہاج السنہ میں امام نے کیا ہے، اس سے ہمیشہ تکلیف محسوس کرتا رہا، واودّ لو محوتھا بیدی.۔ مجھے امام ابن تیمیہ کے مختصر رسائل، جن میں توحید وسنت کی دعوت ہے، وہ زیادہ پسند آئے۔ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، منہاج السنۃ کے بعض مباحث اور فصول، اور الصارم المسلول علی شاتم الرسول، میرے نزدیک امام کی منتخب کتابوں اور مباحث میں سے ہیں۔ امام ابن قیم کی تصنیفات میں سے میرے مذاق کی مدارج السالکین، الجواب الکافی، عدۃ الصابرين اور زاد المعاد ہیں، ان کتابوں اور کلام کے متعلق مجھے شوکانی کی اس رائے سے لفظ بلفظ اتفاق ہے’’'طویل النفس فی مکتبہ، اذاتکلم اسھب، وطویل ذیولہ، وکلامہ فی کتبہ مما تعشقہ الافہام، وتکاد تاکلہ العیون، وتشربہ القلوب‘‘۔ ابن قیم کی کتابیں، میرے نزدیک امام ابن تیمیہ کے متن کی شرح، ان کے اجمال کی تفصیل، اور ان کا نقش ثانی ہیں۔ اگر کسی کو امام ابن تیمیہ کی سب کتابیں دیکھنے کی فرصت نہ ہو، تو وہ فتاوی اور مجموعۃ الرسائل کا مطالعہ کرے، ان کی سب خصوصیات سامنے آ جائیں گی،اسی طرح سے امام ابن قیم کی زادالمعاد کا حال ہے ،تفاسیر منقولہ میں اگر کسی کے پاس صرف تفسیر ابن کثیر، اور کتب تاریخ میں صرف البدایہ والنہایہ ہو، تو ان فنون میں وہ بہت حد تک مستغنی ہو سکتا ہے۔ ابن کثیر کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معرکۃ الآراء مسائل میں صرف صحیح روایات سے فیصلہ کرتے ہیں۔