یادیں یادیں لہو میں ڈوبی یادیں۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

09:28AM Wed 24 May, 2017
26 مئی 2014 ء کو شری نریندر مودی کے وزیر اعظم کے حلف لینے کے بعد سے اب تک تقریباً تین سال میں مسلمانوں کے بہت سے وفود ان سے ملے ہوں گے اور کسی نے بھی ملاقات کے بعد یہ نہیں کہا کہ ان کا رویہ سرد اور بیزاری کا تھا۔ بلکہ ہر کسی نے اطمینان کا ہی اظہار کیا اور کہا کہ وہ تو خود چاہتے ہیں کہ مسلمان یا کوئی بھی ہو وہ اپنے مسائل پر بات کرنے کے لئے آئے۔ چند دن پہلے جمعیۃ علماء ہند (اسعدی) کے صدر مولانا محمد عثمان صاحب اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اسعدی دانشوروں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ وزیر اعظم سے ملنے کے لئے گئے۔ اس وفد میں پروفیسر اختر الواسع بھی تھے انہوں نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کے رویہ سے ہمارے علماء اور دانشوروں کو مایوسی ہوئی تو وہ ناراض ہوکر گھر بیٹھ گئے اور پھر نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک وزیر اعظم بنتے رہے اور یہ دوری باقی رہی۔ پروفیسر صاحب کے نزدیک ان حضرات کو ملتے رہنا چاہئے تھا اور مسائل سے آگاہ کراتے رہنا چاہئے تھا یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی لینے لگتے۔ پروفیسر واسع صاحب اس وقت فیلڈ میں نہیں تھے۔ ہم نے وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے۔ آج اگر وزیر اعظم کے سرد رویہ سے دُکھی ہوکر مولانا محمود مدنی اور پروفیسر صاحب گھر بیٹھ رہیں تو اس لئے غلط نہیں ہوگا کہ ان حضرات نے مودی سرکار بنوانے کے لئے کچھ کرنے کے بجائے اگر کچھ کیا ہے تو وہ یہ ہے کہ مودی سرکار نہ بنے۔ لیکن نہرو جی اور جمعیۃ علماء ہند کی حیثیت دوسری تھی۔ یہ ان کی ہی جدوجہد کا تحفہ ہے کہ کلکتہ اور بنگال کا علاقہ اور امرتسر سے سہارن پور تک کا علاقہ پاکستان میں شامل ہونے کے بجائے ہندوستان کا حصہ ہے۔ اگر 25 فیصدی کے قریب مسلمانوں نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیئے تو ان کی ہی اس جدوجہد کا نتیجہ ہے جو انہوں نے کی اور ہم نے دیکھی۔ کانگریس اور گاندھی جی ہی چاہتے تھے کہ مسلمان پاکستان نہ جائیں۔ ہمارے بڑے بھائی اس وقت دارالعلوم دیوبند میں پڑھ رہے تھے جب حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور پوری جمعیۃ علماء مسلم لیگ کی مخالفت میں میدان میں تھی۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ اکثر رات کو کبھی 11 بجے کبھی ایک بجے دارالعلوم کا گھنٹہ بجنا شروع ہوجاتا تھا اور دس منٹ تک بجتا رہتا تھا۔ یہ اس کا اعلان تھا کہ حضرت مدنی آگئے ہیں اور دارالحدیث میں پڑھانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ دو سو سے زیادہ لڑکے جو آخری سال میں تھے فوراً وضو کرکے آتے تھے اور سبق شروع ہوجاتا تھا۔ فجر کی اذان کی آواز آتے ہی کتاب بند کردی جاتی تھی اور مولانا حسین احمد مدنی نماز اور چند منٹ گھر رہ کر پھر کہیں روانہ ہوجاتے تھے اور پھر جب بھی موقع ملتا تھا تو دوسرے تیسرے چوتھے دن پھر یہی ہوتا تھا۔ ہم بریلی میں تھے ہم وہاں دیکھ رہے تھے کہ رات دن مسلم لیگ کے جلوس نکلتے رہتے تھے اور کانگریس کو یا کسی ہندو لیڈر کو کچھ کہنے کے بجائے صرف علمائے کرام کو برلا کا ٹٹو اور ٹاٹا کا پٹھو ہائے ہائے کے نعرے لگتے تھے اور بریلی کے موتی پارک میں جس جلسہ میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا مدنی، مولانا لدھیانوی، مولانا حفظ الرحمن اور انور صابری وغیرہ میں سے کوئی آتا تھا اس جلسہ پر مسلم لیگ کے لڑکے پتھراؤ ضرور کرتے تھے اور یہ علماء اپنوں کی گالیاں کھاتے تھے اور کانگریس کی حمایت میں تقریریں کرتے تھے۔ اور اس وقت ہم دارالعلوم دیوبند میں تھے جب حکومتِ اُترپردیش نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگادی۔ بقرعید میں دارالعلوم کے وہ لڑکے جو قریب کے شہروں اور قصبہ کے رہنے والے ہوتے تھے وہ تو گھر چلے جاتے تھے اور دور کے لڑکے دیوبند میں ہی رُکتے تھے۔ دارالعلوم کی مدد کرنے والے وہ حضرات جو یوروپ، امریکہ اور ساؤتھ افریقہ میں رہتے تھے وہ اپنی قربانی کے روپئے دارالعلوم کو بھیج دیتے تھے جہاں گائیں خرید کر ان کی قربانی کرادی جاتی تھی۔ یہ کام دفتر کے لوگ کرتے تھے کہ آس پاس کے دیہاتوں سے گائیں خریدکر لاتے رہتے تھے۔ قربانی میں شاید چار دن باقی تھے اور ایک احاطہ میں 12 گائیں کھڑی تھیں کہ رات کو اچانک شور ہوا سب لڑکے کمروں سے نکل کر آئے تو سامنے پولیس کے سپاہی کھڑے تھے۔ ایک ملازم نے حضرت مدنی کو جاکر خبر کی اور وہ تشریف لائے تو پورے جلال میں برس پڑے۔ دیوبند کے انسپکٹر جانتے تھے کہ ان کی کیا حیثیت ہے؟ اس نے ہاتھ جوڑکر کہا کہ ہم تو حکم کے غلام ہیں۔ ہمیں تو یہ حکم ملا کہ اب گائے کی قربانی نہیں ہوگی اور جہاں قربانی کی گائیں ہوں انہیں لے آؤ۔ حضرت مدنی نے فرمایا کہ مہتمم صاحب کی اجازت کے بغیر دارالعلوم میں داخل ہونے کی تم نے ہمت کیسے کی؟ اب جاؤ صبح ایس پی کو بلاؤ گائیں اس کے سپرد کی جائیں گی۔ پروفیسر صاحب صرف ایک واقعہ سے اندازہ فرمالیں کہ آزادی کی جدوجہد اور پاکستان اور مسلم لیگ کی مخالفت نے جس دارالعلوم نے پورے ملک کو جھنجھوڑکر رکھ دیا اور حضرت مدنی کی برابر محنت نہرو نے بھی نہیں کی کیا وہ اس برتاؤ کے بعد اجازت لے کر دربار میں حاضری دیتے؟ اور یہ وہی تلخی تھی کہ جب پدم وبھوشن جو بھارت رتن کے بعد سب سے بڑا اعزاز ہے اس کی خوشخبری لے کر سہارن پور کا ڈی ایم آیا تو حضرت نے روکھے انداز میں فرمایا کہ ہم نے ملک کو انگریزوں سے پاک کرانے کے لئے جدوجہد کی تھی خطابات کے لئے نہیں۔ یہ ہماری توہین ہے۔ اور یہ تو وہ باتیں ہیں جو نہرو جی، راجندر پرشاد، پنڈت پنت، کیلاش ناتھ کاٹجو، سردار پٹیل خود کرتے کہ بابری مسجد سے مورتیاں نکلواتے جبل پور میں مسلمانوں کو ڈھارس دیتے جمشید پور راوڑ کیلا اور کلکتہ کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام پر تینوں جگہ کے وزیر اعلیٰ کو برخاست کرتے فوج اور پولیس کی نوکری میں مسلمانوں کو نہ لینے کے سرکلر کو وزیراعظم کی حیثیت سے نہرو پھاڑکر پھینک دیتے۔ جو حاکم یہ نہ دیکھیں کہ انہیں حاکم بنانے والوں پر کیا بیت رہی ہے؟ ان سے اس وقت کچھ مانگا جائے جب وہ اندھے ہوں۔ جو اتنی بڑی قربانی کو بھول جائیں وہ احسان فراموش ہیں ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے اچھا ہاتھ کٹوانا اور بھوکے مرجانا ہے۔ وہ علماء اور دانشور اگر منھ پھلاکر گھر بیٹھ گئے تو انہوں نے غلط نہیں کیا۔