دہلی سے کاندھلہ کے راستے آپ دیوبند کو نکلیں تو راستے میں ان مقامات سے گذر ہوتا ہے ، جن کے چپوں چپوں پر امت کی ان کہی داستانیں چھپی ہوئی ملتی ہیں، یہ وہ سرزمین ہے جس کے تذکرےکے بغیر آزادی وطن اور اصلاح امت کی تاریخ کے ابواب مکمل نہیں ہوسکتے ، کاندھلہ سے گذرے تو راستے میں شاملی آیا جس کے میدان پر جدجہد آزادی کی اولین داستان قلم بند کی گئی تھی، اور پھر تھانہ بھون ، ایک ویرانہ جسے حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاح امت کا عظیم مرکز بنادیاتھا، جس کی خوشبو ایک صدی بعد بھی مشام جاں کو معطر کررہی ہے، یہاں ایک باغیچہ میں کھلی زمین پر سادہ دو قبریں پائی جاتی ہیں، جن کی مٹی کوئی تین چار انچ اوپرکو اٹھی ہوئی ہے ، تاکہ غلطی سے اجنبی کے قدم ان پر نہ پڑ جائیں،ایک قبر کے سرہانے بطور علامت ایک سادہ پتھر ایستادہ ہے، قبر پر نہ کوئی گنبد ، نہ سمنٹ اور گارہ سے بنی پختہ عمارت، یہاں بیسویں صدی کا وہ عظیم مجدد اور مصلح آسودہ خاک ہے، جس کی پوری امت اسلامیہ ہندیہ احسان مند ہے۔ہماری نظر اس سادہ قبر پر تھی اور ذہن میں وہ منظر گھوم رہا تھا، جب حضرت حکیم الامت نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تھا ، اور وارفتگی میں آپ کے عاشق زار خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طویل مرثیہ میں اس کی منظر کشی کی تھی، جس کے ابتدائی بند یوں تھے۔
يہ رحلت ہے کس آفتاب ہدي کی - يہ ہر سمت ظلمت ہےکيوں اس بلا کييہ کس قطب ا رشاد نے منہ چھپايا - کہ دنيا ہے تاريک صدق وصفا کياٹھا کون عالم سے محبوب عالم - صدا کيوں ہے ہر سمت آہ وبکا کييہ کس کا ہے سوگ آج گھر گھرجہاں ميں - احبہ کي قيد نہ قيد اقرباء کي
آج سے کوئی چالیس سال قبل حضرت مولانا حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ کی خانقاہ میں مولانا قاری سید نجم الحسن تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مجلس منعقد ہوئی تھی، جس میں قاری صاحب نےمجذوب صاحب کا کلام پیش کیا تھا، قاری صاحب کے بارے میں مشہور تھا، کہ مجذوب صاحب کی ہوبہو نقل کرتے ہیں، جسے خواجہ صاحب کو سننے کا موقعہ نہیں ملا وہ آپ کوسنے ، اس مجلس میں آپ نے اپنے بھانجے مولانا تنویر الحق تھانوی صاحب سے خواجہ صاحب کا کلام پیش کرنے کی فرمائش کی تھی، اس وقت تنویر الحق صاحب نے خواجہ صاحب کا یہ مرثیہ بڑے موثر انداز میں پیش کیا تھا، حضرت حکیم صاحب کے خانقاہ سے اس مجلس کی پوری کیسیٹ ہمیں موصول ہوئی تھی، جسے ہم نے بھٹکلیس پر کوئی اٹھارہ سال قبل پیش کیا تھا، اوریہاں سے یہ ریکارڈنگ مختلف سوشل میڈیا پر دستیاب ہونے لگی ، اسی طرح مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز میں ۱۹۶۸ء وغیرہ کی مختلف رمضان کریم کی مجالس سے خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا کلام الگ کرکے، اور پھر شکیل بارہ بنکوی کی آواز میں خواجہ صاحب کا کلام جمع کرکے انہیں بھٹکلیس پر عام کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہواہے۔ مولانا تنویر الحق کی آواز ویسے بھی اپنے والد ماجد کی طرح بارعب اور موثر ہے، یہاں تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کی قبر سامنے تھی، ویسے بھی یہ مرثیہ کانوں میں پڑ جائے تو ایک عجیب سی رقت طاری ہوجاتی ہے،اور وہ منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہاں سے ہم دیوبند کے لئے روانہ ہوئے۔دیوبند ہمارے لئے کوئی نیا نہیں ہے ، یہاں کے دارالعلوم اور اس کے بطن سے نکلنے والے وقف دارالعلوم میں کئی بار آنے کا شرف ہمیں حاصل ہوا ہے، کوئی دس بارہ سال قبل دارالعلوم کے مہمان خانے میں جنوبی افریقہ کے ایک بزرگ ہمارے ساتھ ٹہرے ہوئے تھے، غالبا وہ مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں میں تھے، وہ ہمیں بتارہے تھے کہ ہرسال چند ہفتے فارغ کرکے وہ یہاں آتے ہیں، تو ایمان کی تازگی کا احساس ہوتا ہے، ہمارا تو دیوبند آنا ایک دن یا چند گھنٹوں ہی کے لئے ہوتا ہے، لیکن ان گزرے لمحات کی برکتوںکی تازگی کافی عرصہ تک باقی رہتی ہے۔ مغرب کے بعد ہم دیوبند پہنچے تو مولانا سلمان بجنوری صاحب دامت برکاتہم مہمان خانے کے دروازے پر استقبال میں آنکھیں بچھائے کھڑے تھے،یہ ہماری مولانا سے پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے ہم نے مولانا کا نام سنا تھا، یا اچٹتی نظر سے آپ کی ادارت میں جاری ماہنامہ دارالعلوم کے مضامین دیکھے تھے، لیکن جب مفتی ساجد صاحب آپ کو علم وکتاب کی بزم میں لے آئے توآپ سے ایک اپنائیت سی محسوس ہونے لگی، ایسا لگا کہ مدتوں کی شناسائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گروپ کے سبھی ممبران آسما ن علم کے آفتاب وماہتاب ہیں، لیکن ا س میں مولانا بجنوری اور گجرات کے عالم حدیث مولانا محمدطلحہ منیار صاحب، اور مولانا محمد اسلام قاسمی جیسی شخصیات کی شرکت اور سرپرسرستی نے اسے وقار اور استناد بخشنے میں مہمیز کا کام کیاہے،مختلف احوال سے گزرنے کے باوجو د یہ گروپ طلبہ اور اہل علم کے لئے ایک روشنی کا مینار بنا ہوا ہے، اور ا س سے اس ناچیز کو بھی جوڑے ہوئے ہے۔مولانا مجلہ دارالعلوم کے مدیر کی حیثیت سے دارالعلوم کی ترجمانی کے ساتھ یہاں کے ممتاز استاد ادب بھی ہیں، اور طلبہ میں بے حد مقبول ، اللہ نےآپ میں جاذبیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتھم سے بیعت و ارشاد و خلافت کے تعلق نے آپ کی افادیت کے میدان کو بہت پھیلا دیا ہے، دارالعلوم کی ترجمانی کےساتھ ساتھ اس تعلق کی وجہ سے بھی آپ کے اسفار کا سلسلہ لگار تار لگا رہتا ہے، ہمارے دیوبند پہنچنے سے ایک روز قبل ہی آپ سفر سے لوٹے تھے، اور دوسرے ہی روز حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ جنوبی افریقہ کا سفر پر جانا تھا، ایسے میں اس ناچیز کو دئے جانے والےلمحات کی قدر وقیمت وہی جان سکتا ہے جس کے سفر کا اہم ترین مقصد ایک نادیدہ قدردان سے ملاقات رہا ہو۔پیر ذوالفقار احمد صاحب کے تذکرہ پر یاد آیا کہ مارچ ۲۰۰۸ء میں اور اس کے بعد دو ایک بار شرف ملاقات کا موقعہ ملا تھا، اس وقت تک نیرل ۔ مہاراشٹر میں خانقاہ قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے آپ کے شیخ پیر غلام حبیب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ملنا یاد پڑتا ہے، ہمارے محترم مولانا محمد فہیم رحمۃ اللہ کی مسجد الصالحین کی رہائش گاہ میں وقتا فوقتا آنے والی شخصیات میں آپ بھی ہوا کرتےتھے۔ پیر ذوالفقار صاحب یوں تو اس وقت مرجع خواص و عام ہیں، ان کے اوصاف حسنہ کا کیا کہنا؟۔ لیکن آپ کی دو باتیں ذہن میں پتھر کی لکیر کی طرح بیٹھ گئ ہیں۔پیر صاحب نے انجینیر کی حیثیت سے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام امریکہ میں گذارے ہیں، امریکہ اور یورپ میں عام طور پر تحریر شدہ نوٹس کی بنیاد پر کی جانی والی تقاریر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، پیر صاحب کو دیکھا کہ اپنے درس میں وہ موضوع سے نہیں ہٹتے، دوسرے یہ کہ تحریر ی شکل میں آپ کے پاس درس کے علمی مواد کی ایک فائل ہوا کرتی ہے، جس میں صاف اور واضح حروف میں درس کا علمی مواد حوالہ جات کے ساتھ محفوظ ہوتا ہے۔ آپ درس اور تقریر اس کے مندرجات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں، جس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سامع کو محسوس ہوتا ہے کہ مجلس سے وہ کچھ نیا لے کر جارہا ہے، اور موضوعات کے تکرار کی بوریت سے سامع بچ جاتا ہے، مستورات کے اجتماعات میں ایک اور مسئلہ درپیش ہوتا ہے، ہر نئے آنے والے مقرر یا واعظ کا موضوع پردہ اور حیا ہوتا ہے، کئی مرتبہ ہمیں مستورات کی شکایت سننی پڑی ہیں کہ ان مولویوں نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے؟ ہمیشہ صرف پردہ ہی پر وعظ ونصیحت ہوتی ہے، کیا ہم بازاروں میں سر کھول کر گھومنے والی خواتین انہیں نظر آتی ہیں؟۔درس ومواعظ کے اسی مرتب انداز کی برکت سے خطبات فقیر کی ۴۳ جلدیں خطباء اور واعظین کے لئے اہم مرجع بن گئی ہے۔دوسری بات جس نے ہمیں متوجہ کیا وہ یہ تھی کہ جہاں آپ کا وعظ رکھا جاتا ہے وہاں کی تواضعات اور میزبانی سے پرہیز کیا جائے۔یہ بات ذہن میں اٹکنے کی بڑی وجہ حضرت مولانا سید علی میاں ندوی رحمۃ اللہ کی جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاون میں طلبہ و اساتذہ کے درمیان ۲۷ مئی ۱۹۸۴ء کو ہوئی تقریر جس میںآپ نے معاشرے میں علماء کے عزت و وقار کو بلند رکھنے کے لئے تیں نصیحتیں کی تھیں، ان میں سے ایک یہ تھی،اس میں آپ نے اکابرین کا عمل یاد دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، جب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ کے جلسوں میںشرکت کے لئے گائوں گائوں جاتے تو اجلاس کے منتظمیں کواپنے کھانے اور مہمان نوازی کا اہتمام کرنے سے روک دیتے، اور منتظمین کے گھر کا پانی تک نہ پیتےتھے۔عشاء کی نماز کے بعد حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم مہتمم دار العلوم دیوبند خاص طور پر ملنے مہمان خانہ تشریف لائے، یہ وقت ان کے درس کی تیاری کا تھا، اور ویسے بھی جلد سونے کی ان کی عادت ہے، اس کے باوجود آپ نے ہمیں کافی وقت دیا، اور بڑی شفقت کا معاملہ کیا۔حضرت مہتمم صاحب کی ملاقات کے بعد مولانا سلمان بجنوری صاحب کے دولت کدہ پر حاضری ہوئی، پر تعیش عشائیہ تھا، دوسرے روز مجوزہ لمبے سفر کے باوجود طویل وقت تک علمی و فکر ی موضوعات پر تبادلہ خیال رہا، اب ہم مولانا بجنوری کے اخلاق و اطور، بلند فکری وغیرہ کی کیا تعریف کریں؟ گروپ کے ساتھی ہیں، لہذا گروپ کے بے تکلفانہ ماحول کو باقی رکھنے کے لئے اپنی بات یہیں روک دیتے ہیں۔یہاں مولانا کے تین فرزندگان سے ملاقات کا شرف ملا، اللہ ان کی عمروں میں برکت دے، اور ان سے امت کے عظیم خیر کا کام لے،ان سے بات کرکے جی بہت خوش ہوا، شبل من ذلک الاسد کی مثال۔ بڑے فرزند تخصص فی الحدیث ، دوسرے تخصص فی الفقہ کررہے ہیں، اور تیسرے زیر تعلیم ہیں ۔ پہلے ہم نے سنا تھا کہ دارالعلوم میں انگریزی اور دوسرے علوم کے دو سالہ تخصصات کے کورس جاری ہیں، کبھی اس سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا، اب ان نوجوانوں سے ان تخصصات کے بارے میں تفصیلی معلومات ملیں، کہ دورہ حدیث ، افتاء کے درجات میں فائق پانچ طلبہ کو منتخب کرکے تخصص فی الحدیث ،تخصص فی الفقہ وغیرہ کے دو سالہ ریسرچ کے تربیتی کورس ہوتے ہیں، اور ان میں طلبہ کو خوب صیقل کیا جاتا ہے، ان سے تحقیقی کام لیا جاتا ہے تو تخصص کے کورس وغیرہ کی تفصیلات جان کر دل خوش ہوا۔ تخصص کے بعد اگر توفیق یزدی شامل حال رہے اور اپنے تخصص کے مطابق انہیں آئندہ علمی زندگی میں جولانیاں دکھانے کا موقعہ ملے، اور حصول علم اور تحقیق و جستجو کی کوششوں میں تسلسل باقی رہےتو یہی آج کے نوجوان مستقبل کے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری،اور علامہ مفتی مہدی حسن بن سکتے ہیں، ان شاء اللہ۔ہماری کئی سالوں سے عادت رہی ہے کہ سفر میں لیپ ٹوپ ، کتابوں کی ہارڈ ڈسک اور پروجکٹر ساتھ رہتا ہے، کیوں کہ جب کبھی طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقعہ ملتا ہے، ان آلات کے ذریعہ کچھ مفید باتیں بتانے کی کوشش کی جائے، اس سفر میں تو گویا گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے تھے ، نیچے اترنے کا موقعہ نہیںتھا، لہذا طلبہ سے ملنے ملانے کا موقعہ بھی نہیں تھا، کیونکہ اس لحاظ سے سفر کے لئے یہ وقت مناسب نہیں تھا، ابھی ابھی تعطیلات ختم ہوئی تھیں، طلبہ و اساتذہ کی ایک بڑی تعداد سفر میں تھی، امتحانات بھی چل رہے تھے، لہذا یکسوئی سے بات کرنے کا موقعہ نہیں تھا، مولانا کے فرزندان کی موجود گی نے ہمت بڑھائی، اور ان سے پروجکٹر پر پی ڈی یف کتابوں کی افادیت، ان کے استعمال ، مکتبہ شاملہ کے امتیازات، چند سکنڈوں میں ۲۴ جلدوں پر مشتمل اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی پی ڈی یف فائل سے مطلوبہ مواد تک رسائی، اور اردو لغت کبیر کی ۲۴ جلدوں کی پی ڈی یف فائل کے تعارف کا موقعہ ملا، خواہش تھی کہ ان میں سے چند اہم مواد انہیں دے آئیں، لیکن دسمبر کی سرد رات لمبی ہوچکی تھی، اور صبح سویرے ہمیں بھی اور محترم میزبان کو بھی رخت سفر باندھنا تھا، لہذا یار زندہ صحبت باقی کی امید پر سمند ر سے تشنگی لئے ہم نے الوداع کہنا ہی مناسب سمجھا۔جاری28/12/2019