بے تاج حکمران، پیکر عمل ، عالم ، داعی اور مربی : مولانا عبدا لباری فکردے ندوی مرحوم ۔پہلی قسط

Bhatkallys

Published in - Other

11:18AM Sat 27 Feb, 2016
تحریر : عبد المتین منیری (یہ محنت کہیں جاتی نہیں ، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ طلبہ پر محنت ہورہی ہے ، لیکن اس کا خواطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا ، تو ایک طرح سے دل میں بات آنے لگتی ہے۔کیا ہوگا ؟ اتنی محنت کررہے ہیں ، لیکن نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے ، تعلیم دی جارہی ہے ، تربیت کی جارہی ہے ، لیکن اس کا خواطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ، یہ ذہنوں میں کبھی کبھار آجاتا ہے ، تو ایسے موقعے پر ہمت رکھنی چاہئے اور یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ خدمت ہماری اکارت نہیں جارہی ہے ، یہ آخرت کے اعتبار سے ہمارے بلندی درجات کا سبب بنے گی ، اور اللہ تعالی کے یہاں اس کی قدر و قیمت ہے ، اللہ تعالی کے یہاں اخلاص کی جتنی قیمت ہے ، کسی چیزکی قیمت نہیں ہے ، مخلصانہ محنت انشاء اللہ رنگ لاکر رہے گی ۔ دوسری چیز ان بچوں کو پڑھاتے وقت آپ کے ذہن میں رکھیں کہ آج یہ بچے ہیں ، لیکن کل کلاں کو انشاء اللہ یہی بچے دین کے علمبردار اور محافظ بننے والے ہیں،ان کے ذریعے سے اسلام کی پوری حفاظت ہونے والی ہے ، دیکھنے کو تو چند لڑکوں کو ہم لوگ پڑھارہے ہیں ، کبھی احساس ہوتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے مکتب میں یا چھوٹے سے جامعہ میں، یا اسی طرح کسی مدرسے میں ہمارے پڑھانے سے کونسی بڑی دین کی خدمت ہورہی ہے ۔ لیکن نہیں اس سے بڑھ کر کوئی خدمت شاید نہ ہو ، یہ در حقیقت سرحد پر حفاظت کرنے والوں کے برابر ہے ، جیسے محافظین سرحد ہوتے ہیں اور ان کا جو مقام ہوتا ہے ایک فوج کے اندر ، اسی طرح سے ہماری حیثیت ہے ، اگر ہم نے ان بچوں کو پورے شوق کے ساتھ پورے ذوق کے ساتھ پوری محنت کے ساتھ جانفشانی کے ساتھ پڑھا یا تو یہ چند لڑکے نکلیں گے ، لیکن یہ چند لڑکے ہزاروں پر بھاری ہوں گے ، دین کے پہرے دار ،محافظ اور اس کی سرحدوں کو سنبھالنے والے ہوں گے ، ہم لوگ اپنی قبروں میں بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ ، سرحدوں پر پہرہ دینے والے ان محافظین اور علماء کی یہ جماعت ایسی تیار ہوگی ، جو انشاء اللہ یکے بعد دیگرے قوم اور ملت کی صحیح رہنمائی کر سکے گی ، انہیں یہ چار لڑکے نہ سمجھیں ، آپ سمجھیں لاکھوں کا یہ مجمع ہے ، یہ آپ کے سامنے اگر چہ کہ چند لڑکے نظر آرہے ہیں ، لیکن ان پر کی ہوئی محنت ہزاروں اور لاکھوں انسانوں پر بھاری ہوگی ، یہ سچے مسلمان بن کر صحیح مسلمان بن کر اور صحیح رہنمائی کرسکیں گے ،انہیں یہ چار لڑکے نہ سمجھیں ، آپ سمجھیں لاکھوں کا یہ مجمع ہے ، یہ آپ کے سامنے اگر چہ کہ چند لڑکے نظر آرہے ہیں ، لیکن ان پر کی گئی محنت ہزاروں لاکھوں انسانوں پر بھاری ہوگی ، یہ سچے اور صحیح مسلمان بن کر اور صحیح اسلام کے علمبردار بن کر انشاء اللہ جو کام کرنے والے ہیں ان سے انشاء اللہ ہماری عاقبت بھی بنے گی ، اور اللہ تعالی کے دین کے یہ محافظ بن کر روئے زمین کو چمکاتے رہیں گے ،(وللہ جنود السموات و الارض ) اللہ کے لشکر ہیں ۔ اللہ تعالی کا احسان ہے ہم پر کہ ہم سب لوگ اللہ کے لشکروں میں شامل ہیں ، اللہ تعالی کا فضل و احسان ہے کہ اسی لشکر کی صف میں شامل کرکے کچھ نہ کچھ دین کی خدمت لے رہا ہے ، یہ صرف رحمت کا ایک بہانہ ہے ، ورنہ حقیقتا اللہ تعالی کے فضل و کرم کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ کتنے بلند مقام پر اس کام کی وجہ سے اللہ تعالی پہنچانے والا ہے ۔اس لئے میں آپ سے گذارش یہ کرتا ہوں کہ پوری محنت کے ساتھ آپ طلبہ کے اوپر زور دیں ، اور یہ سمجھ کر زور دیں کہ انشاء اللہ ہمارے بعداسلام کی نیاّ کو سنبھالنے والے اور اسلام کے اس پیغام کو اس دنیا میں عام کرنے والے یہی بچے ہیں ، صحیح محنت ان پر لگے گی تو یہ بھی انشاء اللہ آنے والی نسلوں پر اسی طرح سے محنت کرکے اسلام کا بول بالا کریں گے ، اور اللہ کے دین کی امانت کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔ تو اس کے لئے چونکہ ہم لوگ ان کے سامنے نمونہ بنتے ہیں وقت کی پابندی کا ضرور خیال رکھیں ، اسباق کے اوپر محنت خوب سے خوب تر کریں ، جانے سے پہلے تیاری ہونی چاہئے ، استاد کو اس طرح مسلح ہوکر جانا چاہئے تاکہ طلبہ کی جو پیاس ہے اسے مناسب موقعہ پر ہم بجھاسکیں ، اور ان کو کچھ دے سکیں ، بعض وقت طلبہ خود اتنے ہوش مند ہوتے ہیں کہ دو ایک سوالات میں ہم لوگوں کو پکڑ لیتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مطالعہ نہیں کیا ، بعض اوقات کہ بھی دیتے ہیں ،ایسا بھی ہمیں تجربہ ہوا کہدیا گیا کہ یہ لوگ مطالعہ کرکے نہیں آتے ہیں ، اگر چہ کہ یہ کہنے کا ان کا حق نہیں ہوتا، انہیں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا ، لیکن وہ کہنے کے لئے مجبور ہوگئے ، تو یہاں بھی ایسا ہو جاتا ہے ، کبھی کبھار ہماری تیاری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کے اوپر جو اثر ہونا چاہئے وہ اثر کم ہوجا تا ہے ،ذرا سی محنت کریں گے تو انشاء اللہ فائدہ ان کو حاصل ہوگا ، اور طلبہ مطمئن ہوگئے تو پھر بیڑا پار ہے ۔ تو الحمد للہ ایسی پود آرہی ہے جو برابر سوالات کرتی ہے ، بہت خوشی ہوتی ہے ، سوالات کرنے کا موقعہ انہیں دینا چاہئے ، اور انہیں مطمئن کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے ، اور اگر سوال کا جواب سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو صاف کہنا چاہئے کہ اس وقت ہمکو سوال کا جواب سمجھ میں نہیں آرہا ہے ، پھر آپ کو ان شاء اللہ سوال کی تیاری کے بعد بتائیں گے ، یا تیاری کرکے آپ کو جواب دیں گے ، اس سے بہت خوشی ہوتی ہے ان کو ، اور ان کے دل میں بھی احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم کو بھی آگے بڑھنا چاہئے۔ میں صرف آپ سے یہیں گذارش کرتا ہوں کہ محنت سے وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ پورے شوق و ذوق کے ساتھ اپنے وقت کو امانت سمجھ کر، طلبہ کو امانت سمجھ کر، اللہ تعالی کے یہاں اس کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ پڑھانے کی کوشش کریں ، ان شاء اللہ خواطر خواہ اس کا نتیجہ بھی سامنے آئے گا ۔ دنیا میں بھی اس کے نفع بخش اثرات سے ہم لوگ مالا مال ہونگے ، اور آخرت میں بھی اللہ تعالی ہمیں نوازے گا، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ، پھر ایک مرتبہ میں آپ کا تہ دل سے مشکور ہوں ، جس محبت کا آپ لوگوں نے مجھ پر اظہار کیا ہے ، سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے ، میں کچھ کر نہیں پارہاہوں ، بہ جز اس کے کہ اللہ تعالی سے دعا کررہاہوں کہ اللہ تعالی ان حضرات کا صلہ توہی عطا فرما ، ان کو ہر طرح سے نوازدے ، اور دنیا میں بھی ان کی حفاظت فرمادے ، اور آخرت میں بھی قبول فرمادے ۔) ۳ ؍دسمبر ۲۰۱۵ء صبح کے وقت جامعہ آباد کے در ودیوار پر چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی تھی ، زبانیں گنگ تھیں ، یہاں کے منتظمین ، اساتذہ ، طلبہ اور اسٹاف سب ایک موہوم خوف سے اپنی زبانیں دانتوں تلے دبائے ہوئے تھے ، امید و بیم کی ایک ایسی کیفیت طاری تھی ، جس پر خوف غالب تھا ، لیکن ہر کوئی اپنی زبان پر مایوسی کے کلمات پر قد غن ڈالے ہوئے تھا ، یہ وہ صبح تھی ، جب یہاں کے ہردل عزیز اور محبوب ترین مہتمم و استاذ مولانا عبد الباری صاحب نے مادی آنکھوں سے اپنی نگاہیں آخری مرتبہ یہاں کی مسجد، درسگاہ اور درودیوار پر ڈالی تھیں ، دو ہفتے پہلے ڈاکٹروں نے خبیث مرض کی تشخیص کی تھی ، اور پورے قصبے کے باسیوں کے جسموں میں ایک جھر جھری سی دوڑ گئی تھی ، لیکن اللہ پر ایمان ، اور امید کے سہارے ہر کوئی مایوسی کی بات سننے اوربولنے سے پرہیز کر رہا تھا ، حرم شریف سے لے برصغیر کے کونے کونے کے بزرگان دین کی دعائیں دلاسہ دلارہی تھیں کہ شاید جہاں دوا و دارو کام نہ کرسکے وہاں شاید دعائیں ہی اپنا کام کرجائیں ، برسہابرس سے بزرگان دین کی خلوت وجلوت کے ہم نشین بعض احباب اطلاع دے رہے تھے کہ مولاناکی شفایابابی کے لئے ان کو جتنی دعائیں ملی ہیں گزشتہ نصف صدی میں کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو اتنی ملتے نہیں دیکھیں ، اور اللہ کی ذات پر بھی یقین تھا کہ وہی حکیم اور دانا ہے ، چھپے بھیدوں کے راز خوب جانتا ہے ۔ جن مصلحتوں کو انسان اپنی محدود نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا ان تک اس ذات کی رسائی ہے ۔وہی سارے جہانوں کا مالک ہے ۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا کا پہلا عشق تھا ، اس میں آپ کی وارفتگی اور پختگی کا یہ عالم تھا کہ گرمی ہویا سردی ، دھوپ ہو یا باد و باراں ، تعطیلات کے دن ہوں یا عید و تہوار ناممکن تھا کی مولانا بھٹکل میں موجودہوں اور جامعہ آباد کا دیدار روزانہ کرنہ پائیں ، مولانا بیمار ہوئے ، تو سختی اور تکلیف کے باوجود روزانہ جامعہ سے گزرے بغیر رات گزانا گوارا نہیں کیا ، جب تک جان میں جان رہی ، چلنے اور بیٹھنے کی سکت رہی شدید بیماری کی حالت میں بھی صبح گیارہ بجے یہاں ہر روز اساتذہ و طلبہ کو ایک نظر دیکھنے آتے رہے ۔ ۱۹۷۴ء میں جب مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ہاتھوں جامعہ آباد کا افتتاح عمل عمل میں آیا تھا ،اور یہاں پر اقامتی درسگاہ کا آغاز ہوا تھا ، تو آپ پہلے پہل جامعہ آباد کو آباد کرنے والی نسل میں شامل تھے ، اور سنہ ۱۹۸۱ء اور ۱۹۸۳ء کے مابین جب آپ جامعہ اسلامیہ سے عالمیت کی سند پاکر دار العلوم ندوۃ العلماء میں اعلی تعلیم پارہے تھے ، تو ان د و سالوں کو چھوڑ کر گذشتہ بیالیس (۴۲) سالوں میں شاید ہی جامعہ سے آپ کے جسمانی رشتے میں کبھی فاصلہ آیا ہو ، لیکن اس بار جب آئے تو آپ کو شاید اندازہ ہوگیا تھا ، کہ اللہ تعالی نے جو مقصد دے کر اس مسافر کودنیائے فانی میں بھیجا تھا ، اب وہ پورا ہوچکا ہے ، اب یہاں سے بلاوے کا وقت قریب آچکا ہے ، یہاں پر ان کا دانا پانی اب ختم ہونے جارہاہے ، مولانا اس روز ساڑھے گیارہ بجے دفتر نظامت میں اساتذہ اور اپنے دیرینہ رفقاء کے ساتھ بیٹھے تو سب کی پلکوں پر آنسو آکر اٹک گئے تھے ، زبانیں گنگ تھیں ، ہر ایک پر رقت کا عجیب عالم طاری تھا ، مولانا کی باتوں سے پہلی مرتبہ اندازہ ہورہا تھا کہ اب ان کا یقین پختہ ہورہا ہے کہ دائمی آرام گاہ کی طرف سفر اب قریب ہے ، اس موقعہ پر مولانا نے اساتذہ کے سامنے اپنے جسم کی ساری توانائیاں نچوڑ کر جو باتیں کہی تھیں وہ آپ کی نگاہوں سے اوپر گزریں ، ان کی حیثیت وصیت نامے کی ہے ، اپنی قدر و قیمت میں یہ سنہرے حروف سے زیادہ کسی بہتر تعبیر کے مستحق ہیں ، احساسات لامحدود ہوتے ہیں ، انہیں لفظ کی حد بندیوں میں قید نہیں کیا جاسکتا، یہ احساسات بڑے اونچے اور انمول ہیں ، یہ مولانا کے آخری کلمات ہیں جو جامعہ آباد کی فضاوں میں گونجے ، پھر دنیا نے ۱۷؍دسمبر کی شام کو وہ خبر سنی جس کا ڈھڑکا تین ماہ سے قوم کی آنکھوں کی رات کی نیند اور دن کا چین اڑائے لے جارہا تھا ۔ آپ کے سفر آخرت کی اندوہناک خبر ،لوگوں نے نہ ٹوٹنے والے آنسووں ،دوسری صبح دس بجے جنازہ اٹھتے تک جاری اٹوٹ قطار، جس نے بتیس سال تک جامع مسجد کے محراب میں ہزاروں کی نماز جنازہ پڑھائی تھی آج اس کی نمازجنازہ پڑھانے پر دلوں کی مغموم کیفیت ، پھر سلطانی محلہ اور جامعہ محلے تک کھنچی ہوئی جنازے کے شرکاء کی قطار چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھی کہ جانے والینے مادی دنیا سے منہ موڑنے سے پہلے ناظم جامعہ ، اور اپنے نائب و رفقاء کے سامنے یہ جو کہا تھا کہ ( مجھے معاف کردیں ، میں نے زندگی میں جان بوجھ کسی کی دل آزاری نہیں کی )، یہ کہنے کا اسے حق تھا ، وہ اپنی بات میں سچا تھا ، واقعی اس نے کسی کا دل نہیں دکھایا تھا ، انہیں جاننے والا ہر کوئی ان سے راضی تھا، وہ جس سے بھی ملے اس کے دل میں گھر کر گئے ، گزشتہ نصف صدی کے دوران ، ۱۹۶۶ء سے اب تک ہماری نظر سے مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمی مرحوم، جناب الحاج محی الدین منیری مرحوم اور جناب عبد الغنی محتشم مرحوم وغیر کے ہ بھٹکل کی تاریخ کے چند عظیم جنازے گذرے ہیں ، ان میں سے ہر ایک اپنے ماضی سے بے مثال تھا، لیکن اب کے جو جنازہ اٹھا بھٹکل کے ماضی بعید تک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا، مولانا نے اپنی رحلت سے دو روز قبل جب یہ کہا کہ( اللہ کی ذات سے مجھے مغفرت کی امید ہے ، جب اس کے دربار میں پوچھا جائے گا کہ کیا توشہ لے کر آئے ہو ؟تو میں کہوں گا کہ زندگی بھر تیرے دین کو سیکھا یا اسے سکھا یا ، اس کے علاوہ میرا کوئی زاد راہ نہیں ہے ) جنازے کی بے تحاشا خلقت ،اور ہزاروں کی روتی بلکتی آنکھیں ، ان سے ابلتے ہوئے گرم آنسو وں کی گواہی کیا آپ کے درجات کی بلندی پر یقین رکھنے کے لئے کافی نہیں ؟(جاری)