مودی کا اقتصادی الیکشن

Bhatkallys

Published in - Other

03:14PM Thu 17 Nov, 2016
از: حفیظ نعمانی مجبوریوں کو عقل کے سانچے میں ڈھال کر جب کچھ نہ بن سکا مرا ایماں بنا دیا وزیر اعظم نریندر مودی کو الیکشن کا بہت شوق ہے۔ انھوں نے اس حساس مسئلہ کو جس کا تعلق صرف حکومت اور عوام سے تھا انتخابی عنوان دے دیا۔ انھوں نے اپنے کاموں اور فیصلوں پر تنقید کرنے والوں کی پارٹیاں بنا دیں۔ کالا دھن پارٹی، بھرشٹاچار پارٹی اور خود بگلا بھگت پارٹی کے صدر بن گئے۔ اب جوکہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر تیاری کا نتیجہ ہے کہ عوام خون کے آنسو رورہے ہیں تو اسے کالا دھن پارٹی کا آدمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ جو کہے کہ اے ٹی ایم مشینیں ناکارہ ہوچکی ہیں اور گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعدلوگ خالی ہاتھ واپس آرہے ہیں تو اسے بھرشٹاچار پارٹی کا آدمی بتادیا جاتا ہے۔ اور جو کہے کہ ہر طرف مودی کی جے کے نعرے لگ رہے ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ۷۵ دن لائن میں کھڑے رہیں گے مگر کالا دھن ختم کرکے ہٹیں گے تو ا نھیں بگلا بھگت پارٹی کا سمجھ کر ان کی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ غازی پور کی ریلی میں جوبلائی ہوئی بھیڑ نظر آئی وہ صرف اس وجہ سے کہ گنگااشنان اور گرونانک جینتی کی چھٹی تھی۔ بینک بند تھے۔ ورنہ آنے والے بتاتے ہیں کہ ٹرینیں خالی آرہی ہیں۔ سنیما ہال میں کسی دن کسی ایک شو میں۱۲ تماشائی بیٹھے ہیں۔شہر کے ہوٹل خالی ہیں اور کالجوں کے لڑکے غنڈہ گردی کرکے کھانے کے ہوٹلوں میں بغیر پیسے دئے کھا کر بھاگ جاتے ہیں۔ مودی جی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ عام لوگوں کو جو تکلیف ہورہی ہے اس کا مجھے بہت درد ہے۔ یہ درد انھوں نے صرف سنا ہے دیکھا نہیں ہے۔ وہ ذرا ۴ ہزار روپے تبدیل کرانے یا ڈھائی لاکھ روپے جمع کرنے کی لائن میں چھ گھنٹے کھڑے ہوں یا رات کو کھڑکی کے نیچے سوئیں یا ۶ بجے صبح آکر لائن میں لگ جائیں یا صرف جوتے چپل سینڈل ہی لائن میں رکھ کر دور بیٹھے دیکھتے رہیں اور جب نمبر آئے تو یہ جواب سنیں کہ کیش ختم ہوگیا تب وہ درد کو سمجھیں گے۔ میرے گھر میں بھی وہ سب ہورہا ہے جو ایمان دار شریفوں کے گھر میں ہورہا ہے ۔اور ہر ٹیکس وقت پر دینے کی پوری سزا مل رہی ہے۔ ورنہ ہمارے بچے بھی ایک لاکھ دے کر ۹۰ ہزار لے لیتے اور صبر کرلیتے کہ ٹیکس دے دیا۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر انتہائی غیر سیاسی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ جو مسئلہ حکومت اور عوام کی دو بدو کشتی کا ہے۔ اس کا تماشہ دیکھنے کے بجائے اس کے خلاف صف بندی کررہے ہیں۔ اور عوام کو سو فیصدی حکومت کا مخالف بن جانے کا انتظار کرنے کے بجائے پارٹی بندی کا مسئلہ بنا رہے ہیں۔ جس سے خواہ مخواہ بی جے پی کا ہر آدمی زخمی ہونے کے باوجود حکومت کی طرف چلا جائے گا۔ ا گر سب خاموش رہ کر تماشہ دیکھتے تو آنے والے الیکشن میں ان کی جھولیاں بغیر مانگے ووٹوں سے بھر جاتیں۔ صرف مایاوتی، ممتا بنرجی، کیجریوال، راہل گاندھی اور دوسرے لیڈر بی جے پی کے لوگوں کو حکومت کی حمایت میں بولنے کا موقع دے رہے ہیں، ورنہ پچاس دن آتے آتے ورکر نہیں نیتا بھی، تری ماں کا اور تری بہن کا کررہے ہوتے۔ سبرامنیم سوامی سے زیادہ بڑا کف گیر بی جے پی میں کون ہے؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس فیصلے کے عمل در آمد میں کوتاہی ہوئی ہے۔ انھیں اس پر حیرانی ہے کہ اتنے حساس مسئلہ کو وزارت خزانہ نے غیر سنجیدگی سے لیا اور یہ کہ اسے پہلے سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔ شیو سینا جو مودی کا داہنا بازو ہے اس نے بھی کہہ دیا کہ پاکستان پر حملہ کرنے کے بجائے مودی نے عام ہندوستانیوں کو زخمی کردیا۔ اس نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس واقعی غیر قانونی دولت تھی وہ اسے محفوظ طریقہ سے غیر ملکوں میں جمع کرچکے ہیں۔ سامنا کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ ۱۲۵ کروڑ ہندوستانی بغیر کھائے پئے شدید گرمی میں قطار میں کھڑے ہیں۔ کیا آپ ان سے ووٹ کی امید کرسکتے ہیں؟ مودی جی نے محاورہ ہی بدل دیا کہا جاتا تھا کہ گیہوں کے ساتھ گھن پس جاتے ہیں ۔ہمارے وزیر اعظم گھنوں کے ساتھ گیہوں کے بورے پیس رہے ہیں اور وہی الیکشن کا انداز گلا پھاڑ کر تقریر، ہاتھ پہ ہاتھ مار کر اپنی فتح کی امید جبکہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ کہیں سے بھی ہزار کروڑ ۵ کروڑ سو کروڑ کی خبر آنے کے بجائے بڑی سے بڑی ۲۶ کروڑ کی خبر آئی ہے۔ یا ایک دو کروڑ کی ایسے جیسے الیکشن کمیشن پکڑا کرتاہے۔ ٹی وی چینلوں پر مذاکرات میں بی جے پی کے ترجمان بات شروع ہوتے ہی ملائم لالو بہار کے جنگل راج جیسے احمقانہ جملے بولنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم ۷۲ گھنٹے کی چھوٹ دینے کے بعد ۲۴ نومبر تک کی چھوٹ کا اعلان کرکے اعتراف کرتے ہیں کہ اندازہ کرنے میں ان سے برابر غلطی ہورہی ہے اور وہ مسئلہ سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ ایک وزیر اعظم کی حیثیت سے مودی کو انتہائی فکر اس کی ہونا چاہیے تھی کہ ملک اپنی رفتار سے چلتا رہے۔ اس کے لیے یہ آسانی ہونا چاہیے تھی کہ جو ٹیکس ادا کیا ہوا دس لاکھ بھی جمع کرے تو دوسرے ہاتھ اسے دس لاکھ کی نئی کرنسی مل جائے اور اس کا کاروبار چلتا رہے۔ ایک وقت میں ۱۰ ہزار یا ۲۰ ہزار اور اس کے لیے بھی وہی لائن؟ کاروباری لوگوں کے لیے ہر بڑے شہر میں دو بینک مخصوص ہوتے جو صرف دودھ کے دھلوں سے لین دین کرتے۔ لیکن آخری درجہ کی نا اہلی کا ثبوت ہے کہ دس روپے کا مسئلہ ہو یا ڈھائی لاکھ کا وہی دو سو کی لائن؟ اور پھر بھی وقت سے پہلے کیش ختم، اب کل آنا۔ میرے نواسوں کا مشترک کاروبار ہے وہ ا پنے اپنے اکاؤنٹ میں نوٹ جمع کرنے گئے اور آکر کہا کہ اب مزدوری کریں گے، رکشا چلائیں گے مگر بینک میں لائن میں نہیں کھڑے ہوں گے۔ ایک ہی جگہ پر کئی گھنٹے پانی، چائے، پیشاب، ہر فطری اور غیر فطری ضرورت کو لات مار کر سارا سارا دن صرف نوٹ بدلنے کے لیے پریشان ہوئے بغیر نہ جیٹلی سمجھ سکیں گے اور نہ مودی کہ ان سے کیا غلطی ہوگئی؟ وزیر اعظم کی طرف سے ۲۴ نومبر تک ۵سو کے پرانے نوٹ چند جگہ چلنے سے ملک نہیں چلے گا۔ بس ہل ہل کر یہ بتاتا رہے گا کہ ابھی مرا نہیں ہے۔ وزیر اعظم اپنی سازش کو عوام سے کیے ہوئے وعدوں تے جوڑ رہے ہیں۔ اگر اپنے وعدوں کا اتنا ہی پاس ہے تو آج ہی صدر جمہوریہ کی خدمت میںیکم جنوری ۲۰۱۷ء کی تاریخ ڈال کر اپنا، اپنی حکومت کا اور پارلیمنٹ کا استعفیٰ بھیج دیں اور لکھ دیں کہ یکم جنوری تک اگر ملک کی پوزیشن یکم نومبر ۲۰۱۶ء جیسی نہ کرپاؤں تو اسے منظور کرکے صدر راج کا اعلان کردیجیے گا اور مودی صاحب اپنے بارے میں اعلان کردیں کہ میں سیاست سے الگ ہوگیا ہوں اور اگر ایسا نہ کرسکیں تو یہ کہنا بند کردیں کہ میں یہ سب اپنے سے نہیں ملک کے لیے کررہا ہوں۔ یہ ملک کی بدنصیبی ہے کہ آزادی کے وقت اور بعد میں ملک برلا اور ٹاٹا کے اشاروں پر چلتا تھا۔ اس کے بعد جو وزیر اعظم کو خریدتا رہا وہ حکومت کرتا رہا اور آج بھی مدھیہ پردیش کے چپراسی کے بستر سے تو نوٹ کی گڈیوں کا ذکر ہوتا ہے مگر کسی بی جے پی کی ریاست سے سو کروڑ پکڑنے کی بھی خبرنہیں آئی اور یہ جو گھورے کے ڈھیر پر پھینک رہے ہیں وہ حکومت کے منظور نظر نہیں خوانچے والے ہیں۔ وجے مالیہ جیسے تو پہلے ہی اپنا کام کرچکے۔ موبائل نمبر:9984247500