عیدقرباں
یہ تقریر لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے فروری ۱۹۴۰ء میں عیدالاضحی کی شام کو نشر ہوئی تھی۔ ۱۵ منٹ کے مختصر وقفہ میں مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ نے بقرعید کی خصوصیات، اس کے پیام اور دیگر جزئیات کی تصویر کمالِ بلاغت سے، بڑے دلچسپ انداز میں، کھینچی ہے۔ یہ نشریہ آج بھی اپنی لطافت اورمعنویت کے لحاظ سے تازہ اور تابندہ ہے۔ ڈاکٹرزبیراحمد صدیقی
اللہ اللہ دو مہینے دس دن کی مدّت بھی کوئی مدّت ہے۔ بات کہتے کٹ گئی اورشوّال کی پہلی کی یاد ابھی مٹنے نہ پائی تھی کہ ذی الحجّہ کی دسویں آگئی۔ وہ مسلمان کی پہلی سالانہ عید تھی یہ دوسری اور آخری۔ وہ عیدالفطر تھی یہ عید قرباں یا عیدالاضحی وہ عید میٹھی تھی آج کی عید نمکین۔ اس روز سوئیاں پی پلائی گئی تھیں آج قربانیاں ہوں گی۔ وہ جشن تھا ، اس کا کہ اطاعت اور ضبط نفس کے پورے تیس دن ختم ہوئے اور نزول قرآن کی یاد گار پورے مہینہ بھر سنائی جاتی رہی تھی۔ آج خوشی اس کی ہے کہ نصیبے والے عین مرکز اسلام میں کعبة اللہ کے گرد چکّر پر چکّر کاٹ رہے ہیں، طواف و زیارت کی دولتوں سے مالا مال ہو رہے ہیں، پروانے شمع پر نثار ہو رہے ہیں۔ مکّہ کی گلیوں میں مکانوں میں دوکانوں میں مسجدحرم کے صحن میں دالانوں میں حاجیوں کا زائروں کا ہجوم، منیٰ کے میدانوں میں خیموں میں مکانوں میں قربانیوں کی دھوم! پورے عشرہ کا عشرہ چاند کی پہلی سے دسویں تک وقف، خیر وبرکت کے لیے، نزول رحمت کے لیے۔ جس نیکی کی بھی توفیق پاجائے، ہمیشہ سے زیادہ معمول سے بڑھ کر ثواب لائے۔ خود حاجی ہونا الگ رہا، حاجیوں کی نقل تک باعث اجر ۔ ان کی طرح بال بڑھائیے ناخن نہ تَرشوائیے اس کابھی اجرپائیے
لَبَّیکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیک لَبَّیک لَاشَرِیک لک لبَّیکَ ۔ تاریخ کی زبان سے روایت یہ سننے میں آئی ہے کہ آج سے کچھ اوپر پانچ ہزارسال قبل کلدانیہ کے ملک میں، بت پرستوں کی قوم میں، بت تراشوں کے گھرانے میں، ایک مقبول اوربہت مقبول برگزیدہ اور نہایت برگزیدہ بندہ ابراہیم ؑنامی آباد تھے، یہ کلدانیہ وہی جسے انگریزی میں کالڈیاکہتے ہیں، یا آج کے جغرافیائی اصطلاح میں عراق۔ بندہ کے امتحانات طرح طرح کے مالک کی طرف سے ہوئے، اورابراہیم ؑ ہرآزمائش میں پورے اترے۔ آخراللہ کے پیغمبرہی تھے، کچھ روز بعد حکم ہجرت کاملا۔ سرزمین شام پرپہنچے اورپھرمصرہوتے ہوئے حجاز کی خشک اورپتھریلی وادی میں آئے۔ علاقہ ویران ،پانی کانام نہ نشان، سبزہ کی جگہ ہرطرف ریگستان، نیچے تپتی ہوئی زمین اوپر دہکتا ہوا آسمان ۔حکم ملاکہ یہیں ایک گھربناﺅ، اسی مٹی اورپتّھر کا، لیکن اپنے لیے نہیں ہماری عبادت کے لیے، اورہاں ذرا یہ کرنا کہ اسے منسوب ہماری جانب کردینا۔ ہم گھراوردرکی قیدسے ماورا، مکان اورچھت کی نسبت سے بھی برتروبالا، لیکن ذرا اسی گھرکے ساتھ ہمارانام ڈال تو دو، اورہماری ہی بسائی ہوئی دنیاکوآوازدے دوکہ اس گھرکی طرف آجایا کرو۔ واذن فی النَّاسِ بِالحَجِّ۔ فرماں بردار بندے نے پکارکردی، اوراس وقت پکارکی ، جب نہ تارتھا نہ ٹیلی فون، نہ وائرلیس نہ لاوڈ اسپیکر، نہ لوگ نشریات (براڈکاسٹنگ) کے قانون سے واقف تھے، نہ گھر گھر ریڈیو لگے ہوئے تھے۔ ابراہیمؑ کی پکارخدامعلوم کس لاہوتی میٹر پر اورکسی ملکوتی لہر (Wave Length) سے نشرہوئی کہ آج تک اس کی تھرتھراہٹ فضائے کائنات میں آپ خود سن رہے ہیں۔
حج کی تاریخ میں ابھی ہفتوں کانہیں مہینوں کازمانہ باقی ہے کہ دربارکی حاضری کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اور اپنے اپنے گھر سے چل کھڑے ہوئے اپنے مالک ومولیٰ کے متوالے دنیاکے گوشہ گوشہ سے روئے زمین کے چپّے چپّے سے ،کوئی کابل سے کوئی قندھار سے ،کوئی مصرسے کوئی ایران سے، کوئی عراق سے کوئی بخاراسے ، کوئی سیلون سے کوئی جاواسے، کوئی افریقہ کے ویرانہ سے، کوئی یورپ کے نشاط خانہ سے ،غرض خلقت ہے کہ ہرچہار طرف سے امنڈتی چلی آرہی ہے۔ یَاتِینَ مِن کل ِ فَجٍّ عَمِیق کوئی ریل سے کوئی جہاز سے، کوئی موٹر پرکوئی لاری پر،کوئی پیدل کوئی سواری پر، کوئی غریب اپنی کمر کو کسے ہوئے اورکوئی صاحب اونٹ کی پیٹھ پرجمے ہوئے ۔
کعبہ اسلام کاجغرافیائی مرکز ہے ۔مرکز کا ربط محیط کے گوشہ گوشہ سے دائرہ کے نقطہ نقطہ سے۔ دانا و بینا جوڑنے والے نے یوں جوڑا کہ ہرصاحب حیثیت پر عمرمیں کم ازکم ایک مرتبہ حج فرض کردیا۔ حج کا رکن اعظم ہے نو ذی الحجّہ کومیدان عرفات میں حاضری، سووہ کل ہوگئی، اب آج کادن اس سعادت کی خوشی منانے کادن ہے۔ کلمہ گوجہاں کہیں بھی آبادہیں آج جشن منائیں گے، لیکن اس مسرّت کی غفلت میں دن چڑھے تک خرّاٹے لینے کے بجائے آج معمول سے اورسویرے اٹھیں گے غسل کریں گے۔ اجلے کپڑوں کے ساتھ بشاش چہروں کے ساتھ عیدگاہ روانہ ہوں گے اور واپس آئیں گے۔ توان میں جوصاحب حیثیت ہیں وہ اچھے اورپاک صحیح اور تندرست جانوروں کی قربانی کاتحفہ اپنے پروردگار کے حضور میں پیش کریں گے، خوداپنی طرف سے اپنے عزیزوں کی طرف سے،بزرگوں کی طرف سے ،اورجب کھانے کاوقت آئے گاتوتنہانہیں کھالیں گے بلکہ پہلے ایک تہائی محتاجوں مسکینوں اورمفلسوں کونذر کر دیں گے، ایک تہائی دوست احباب کی خدمت میں پیش کریں گے، جب کہیں ایک تہائی اپنے لیے رکھیں گے ۔ عیدالفطر کے دن تاکید تھی کہ کوئی بدنصیب فاقہ سے نہ رہ جائے۔ عیدقرباں کے دن ترغیب ہے کہ غریب سے غریب بھائی کی زبان کو کھانے پینے کی لذّتوں کاکچھ تومزہ آجائے۔
عیدالفطر سال گرہ تھی نزول قرآن کی ، عیدقرباں سال گرہ ہے بنیادکعبہ کی۔ ابراہیمؑ موحدتھے موحّدوں کے سردار۔ توحیدہی کے جرم میں آگ میں جھونکے گئے تھے، ملک سے نکالے گئے تھے ،حق تھا کہ ان کی قائم کی ہوئی یادگارکے سلسلہ میں توحید ہی کارنگ ہررنگ پرغالب ہواور سب سے نمایاں ۔ آج آفتاب بلندہواکہ لگے لوگ عیدگاہ اورمسجدوں کی طرف چلنے، اورلگے ہرطرف سے رب کی بڑائی کے نعرے بلند ہونے! سینوں کے اندرتوحیدکے ولولے ، زبانوں پرتکبیرکے زمزے۔ کیاخوب ظاہرہے اورکیاخوب باطن، اور کیا خوب قال اور کیا خوب حال! عیدکے دن یادہوگاکہ تکبیریں صرف نماز عید کے ساتھ تھیں اورآمدورفت کے راستے میں۔ بقرعید کے موقع پر ایک نماز، ایک وقت بلکہ ایک دن بھی اس جوش کے اظہار کے لیے کافی نہیں۔ اب کی تکبیر شروع ہوگئی ۹ تاریخ کی فجرہی سے اور جاری رہے گی ہرنمازکے ساتھ! ابھی تین دن اوریعنی ۱۳کی عصرتک ۔ مرکز میں آج مسلمان اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پکارے گا لبیک اللھم ّ لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک ، "حاضر ہے اے مالک ومولیٰ یہ غلام حاضرہے، یہ شہادت دیتا ہواحاضرہے۔" یہ آداب حاضری دینے والوں کے ہوئے، مرکز سے دورباہر والے ۹سے ۱۳کی سہ پہرتک ساڑھے چاردن ہرنمازکے بعد پکاریں گے "اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الّااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر ولِلّٰہ الحمد۔ “ بڑائی توآپ میں ہے صرف آپ میں ہے صرف آپ میں ہے آپ کے سواکوئی معبود نہیں۔ بڑائی آپ میں ہے صرف آپ میں ہے۔ ہمارے شکر کی مخاطب آپ ہی کی ذات، ہماری ہرمدح و ثنا کے سزاوار آپ ہی کے کمالات ۔
مسلمان قربانی کے لیے تیاری دنوں، ہفتوں ،مہینوں پیشترسے کرے گا،پاک صاف جانور اچھّاتندرست بے عیب دیکھ کر خریدے گا۔ کھلائے گاپلائے گا ، اپنے سے خوب ہلائے گا اورجب اس سے تعلق انس ومحبت کارحمت وشفقت کاقائم ہوجائے گاتو اپنے اور اس کے دونوں کے مالک کے حکم سے اس تعلق پراپنے ہاتھ سے چھری چلادے گا۔ پالے ہوئے جانورکو پیارکی نظروں سے دیکھے گا آخروقت تک کھلائے پلائے جائے گا لیکن جب حکم کی تعمیل میں زمین پرلٹائے گاتوقبلہ رخ منہ اس طرف کرکے جدھر وہ خود دن رات میں خدا معلوم کتنی بارجھکتاہے اورگرتا ہے۔ اورزبان سے کہتاجائے گا ، اِنِّی وَجَّھتُ وَجھِیِ للَّذِی فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ حَنِیفاً وَّمَا اَنَا مِنَ المُشرِکِین ، نہیں، یہ کسی دیوی دیوتا کی بھینٹ نہیں چڑھا رہا ہوں، میرا رشتہ توصرف اسی سے جڑا ہواہے، میں توپجاری صرف اس کاہوں جس نے پیداکررکھاہے آسمان وزمین کو ۔ میرا دستور زندگی توتمام تر اس کے قانون کی پیروی ہے۔ اِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحیَایَ وَمَمَاتِی للہ رَبِّ العَالَمِین میری دعائیں اورمیری عبادتیں میری زندگی اورمیری موت نہ اپنے نفس کے لیے ہے اورنہ قوم اور نہ اس ملک کے چھوٹے موٹے دیوی دیوتاکے لیے ہے، اسی کے حکم اورقانون کے تابع ہے جوپروردگار ہے ہرملک کا ، ہرقوم کا،ساری مخلوقات کا، جمیع موجودات کا، کل کائنات کا۔
ڈاکٹر جب مریض کو آپریشن کی میز پرلٹاتاہے توپہلے آپریشن والے عضو کو دوا لگا کرسن کردیتاہے، یامریض کو کلوروفام سنگھا کر بے ہوش ۔مسلمان بھی جب جانور کوذبح کے لیے قبلہ رخ لِٹا گلے پر چھری چلاتاہے توروح کو ایک مختصر دولفظی نغمہ سنا مست ومدہوش کردیتا ہے۔ بسم اللہ اللہ اکبر ! اے خاک کی مورت میں تجھے مردہ اپنی طرف سے نہیں کررہاہوں، میں توخود تیری ہی طرح مخلوق، تیری ہی طرح بے بس، تیری ہی طرح خاکی، تیری ہی طرح فانی، میں چھری چلارہاہوں اپنے اورتیرے پیداکرنے والے کانام لے کر اپنے اور تیرے مالک کے قانون کے ماتحت۔ زندگی کا عطیہ بخشنے والا بھی وہی، اسے واپس لینے والا بھی وہی ۔ جان ایک روزڈالی بھی اسی نے اورآج نکالی بھی اسی نے۔ بڑائی کاحق دارحکم چلانے والا صرف وہی! سنتے ہیں کہ فوج کے سپاہی جنگ کے میدان میں فوجی بینڈ اوروطنی ترانہ کی آواز سن کر ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ جان کی پروانہیں رہ جاتی، اوربندوق کی گولیوں، توپ کے گولوں، سنگینوں کے وار کے لیے بے تکلف اپنے سروسینہ کوپیش کردیتے ہیں۔ اللہ کے نام کی کشش کیا روح کے لیے اتنی بھی نہیں، جاننے والے تویہاں تک کہہ گئے کہ روح اس اسم پاک سے ایسی مست وبے خود ہوجاتی ہے کہ خود حالت طرب میں ہنسی خوشی باہرآجاتی ہے، گوجسم دیکھنے والوں کی نظر میں تڑپتا لوٹتا رہے۔ آخرکلوروفام کا کام آپریشن میں بھی تویہی ہوتاہے کہ رگوں پررگیں جسم کی کٹتی رہیں خون پرخون بہتارہے لیکن مریض کااحساس اذیت وکرب مردہ ہوجاتاہے۔ اللہ ٹھنڈی رکھے حضرت اکبر کی تربت کو کیاخوب فرماگئے:
احساس ہی ایذا کا نہ ہوا فریاد و فغاں میں کیا کرتا
جس وقت تہِ خنجر تھا گلا آنکھ اپنی ملی تھی قاتل سے
کہتے ہیں کہ ایک باران ہی کعبہ کی تعمیر کرنے والے، آگ میں کودپڑنے والے، حج کی پکارنے والے، ابراہیم ؑنے بھی قربانی پیش کی تھی، یہ قربانی بکرے کی نہ تھی، مینڈھے کی نہ تھی، اونٹ کی بھی نہ تھی، چہیتے اورلاڈلے نورنظر اسمٰعیل ؑ کی تھی۔ خواب میں حکم محبوب ترین ہستی کی قربانی کاملا۔ پیغمبر کے خواب بھی الہامی ہوتے ہیں۔ صبح اٹھ مشورہ اسمٰعیلؑ سے کیا، اس سے کیاجوآنکھوں کا تارا بڑھاپے کاسہارا تھا۔ مشورہ خود اسی کے ذبح کے باب میں اسی سے کیا۔ دنیا کی تاریخ میں کب کسی عزیز نے عزیز سے اس کے قتل وذبح کے باب میں مشورہ کیاہے؟ کب کسی شفیق اور عاشق زارباپ نے اپنے لخت جگر کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے؟ ہرصاحب اولاد دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے۔ بیٹابھی کس باپ کاتھا، فوراً آمادہ ہوگیا اورعرض کیا "ابّاجان آنکھوںپر پٹی باندھ لیجیے گا ایسا نہ ہوکہ عین وقت پرمیرا چہرہ دیکھ آپ کی ہمّت جواب دے جائے۔ " باپ نے آنکھوں پرپٹی باندھ خدا معلوم دل پرکون سے پتھرکی سل رکِھ حلق پرچھری چلائی، معاً قدرت حق سے نورنظر کی جگہ ایک جنّت کے مینڈھے نے لے لی۔ اورچھری کوپھیرنے والے نے پھیری اسمٰعیلؑ کے گلے پر لیکن چلی وہ اس غیبی مینڈھے کے حلق پر، اور اسمٰعیل علیہ السلام " وفدیناہ بذبح عظیم" کا پروانہ بشارت یا زندہ جاوید ہوگئے۔
آج کی قربانیاں یادگار ہیں اسی 'ذبح عظیم' کی ۔ زمانہ قبل اسلام کوچھوڑیے خود ادھر ساڑھے تیرہ سو برس کے اندر جتنی قربانیاں ہندوستان اورافغانستان، ترکی وایران، مصروعرب اورساری دنیائے اسلام کے اندرہوچکی ہیں ان کا حساب وشمار، ہے کسی حساب لگانے والے اورشمار کرنے والے کے بس کی بات؟ اللہ خود جسے بڑی قربانی کہہ کر پکارے کون اس کی بڑائی کی تھاہ پاسکے؟ کون اس کی وسعت وعظمت کی پیمائش کرپائے۔
آج کہنے کوعیدنہیں بقرعید ہے، لیکن سماں بڑی حدتک اسی عیدکاقائم ہے ۔ وہی گھروں میں دھوم دھام وہی عیدگاہ میں اژدھام۔ عیدسے بڑھ کر دعوتوں کے چرچے ۔عیدسے کہیں بڑھ کر چٹ پٹے گرماگرم کبابوں کے مزے ۔ ادھر ران بھن رہی ہے ادھر کلیجی تلی جارہی ہے ۔ کہیں کہیں سرخ پھندے سیخ پر لگ رہے ہیں۔ کہیں قورمہ اورقلیہ کے دیگچے اتر رہے ہیں۔ کھانوں کی وہ خوش بو کہ بے بھوک کے بھوک لگ آئے۔ کھانے والوں کی یہ آرزو کہ کوئی مفلس سامفلس بھی دروازہ پرآکر محروم واپس نہ جائے۔ گانا بجانا شریعت کے قانون میں ماورا ۔ لیکن عیدبقرعید کے موقع پر مناسب حدود کے اندراس کلیہ میں استثناء۔ گھرگھرآج پیش ہورہی ہیں عیدیاں اور مبارکبادیں، اورفضا میں گونج رہی ہیں اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں ۔ ریڈیو کا یہ کرم ہے اس کے توسط سے ایک روز پہنچ گیاتھا ہزار ہا ہزارسننے والوں تک عید کا سلام، اورآج نذر میں پیش ہو رہا ہے یہ بقرعید کا پیغام۔
(منقول: نشریات ماجدی،ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ،مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)