ھو شھراولہ رحمۃ،اوسطہ مغفرۃ،واٰخرہ عتق من النار"حدیث نبوی"
یہ وہ ماہ مبارک ہے جس کا ابتدائی حصہ اللہ کی رحمت ہے درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے ۔
مبارک مہینہ ختم ہونے کو آیا عشرہ اول رحمت کے لیے مخصوص تھا آپ کے حصہ میں اس دولت میں سے کتنا آیا؟عشرہ دوم میں مغفرت ہی مغفرت تھی آپ نے اس خزانہ سے کتنا کمایا ؟عشرہ سوم میں آگ سے آزادی ا ور عذاب سے نجات ہی نجات ہے آپ اس حصہ کا استقبال کیوں کر رہے ہیں؟اس کے انعام اور بخششوں سے کس حد تک فائدہ اٹھارہے ہیں؟اس لٹتی ہوئی دولت کو آپ کہاں تک سمیٹ رہے ہیں؟دن نکلتا ہے اور آفتاب چمکتا اور روشنی پھیلتی ہے مگر کن کے لیے ؟ان کے لیے جو آنکھیں رکھتے ہیں اور آنکھوں سے کام لیتے ہیں جو گھر کے کونے میں چھپ کر اپنی آنکھیں کس کربند کرے اس کے لیے دوپہر کی کڑی دھوپ اور رات کا اندھیرا گھپ دونوں برابرہیں،رمضان آتا ہے ،مگر کن کے لیے ؟ان کے لیے جو اس کی طرف بڑھیں ،لپکیں ،دوڑیں اور قدم اٹھائیں۔رمضان کی آمد کے وقت اگر خدانخواستہ آپ نے نہیں سوچا تو اب خداکے واسطے اس کے چلتے چلاتے تو سوچ لیا جائے ۔دوچارراتیں یا دو چار دن بھی اگر اس پاک وپاکیزہ مہینہ کے واقعۃًمل جائیں تو بھی بہت غنیمت ہے۔
قال ان جبرئیل عرض لی فقال بعد من ادرک رمضان فلم یغفر لہ قلت آمین"حدیث"
حضورﷺنے فرمایا جبرئیل میرے سامنے آئے ہوئے تھے اور انھوں نے کہا ہلاکت ہو اس شخص پر جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی میں نے اس دعاپر کہا آمین۔
وعدے آپ اوپر سن چکے تھے اب وعید بھی سن لی؟او رواقعہ بھی یہی ہے کہ اس سے بڑھ کر بد نصیبی اور محرومی اور کیا ہوسکتی ہے، آفتاب ٹھیک دوپہر کو تیزی سے چمک رہا ہے اور ہم اپنے کو اندھا بنائے ہوئے ہیں۔کھیت عین دریا کے کنارے واقع ہیں اور ہم نے پانی دینے کی قسم کھارکھی ہے حرمان اور خسران جو کچھ بھی ہمارے حصہ میں آئے کم ہے آپ فرمائیں کہ ان بیش بہا گھڑیوں سے آپ نے کہاں تک فائدہ اٹھایا ؟تو بہ واستغفار کے ان نادر موقعوں سے آپ نے کتناکا م لیا؟راتوں کے کتنے گھنٹے بجائے بستر کے مصلے پر گزارے ؟ اپنے گناہوںکو کتنی بار یاد کیا؟کتنی بار انھیں یاد کرکے آنکھیں نہ سہی دل رویا ؟چھوٹے ہوئے فرائض کے کفّارہ کی کیاکیا تدبیریں اختیار کیں؟بندوں کے جو حقوق اپنے ذمہ واجب رہ گئے ان کی تلافی کی کیاکیا صورتیں سوچیں؟ان صورتوں پر عمل کہاں تک کیا ؟ کتنے روٹھے ہوؤں کو منایا ؟کتنے اپنے توڑے ہوئے دلوں کو جوڑا ؟کتنے اپنے ستائے ہوؤں کی دلدہی کی؟کتنوں کو معاف کیا ،کتنو ں سے خود معافی چاہی ؟زبان کو کن کن موقعوں پر غنیمت سے دل آزاری سے جھوٹ سے روکا؟کلامِ مجید کی کتنی دیر تلاوت کرکرکے اپنے رب سے ہمکلامی کا لطف حاصل کیا ،ماں باپ کے، بزرگوں کے،ہمسایوں کے ،دوستوں کے،برابری کے،محلہ کے،بستی والوں کے ،قوم کے ، کس کس کے حقوق کی ادائی پر توجہ فرمائی گئی؟کتنے پچھلے قرضے اتارنے کی نوبت آئی یہ چند دن یہ چند راتیں جو باقی رہ گئی ہیں سال بھر کے بہترین دن اور بہتریں راتیں ہیں آئندہ سال دیکھیے کس کس کو نصیب ہوں اور کس کس کو نہ ہوں،شب قدر کے بر تر از وہم وگمان فضائل پر خود قرآن مجید ناطق ہے ،وہ اسی آخری عشرہ میں ہے،اس کی تلاش سے کوئی شب اب خالی نہ گزرنی چاہیے ،لِلّٰہ اپنی خیر خواہی میں اپنے اوقات کی حفاظت کیجیے اور لِلّٰہ ان اوقات خاص میں اس تباہ کار ونامہ سیاہ بے عمل کو نہ بھول جایئے گا جو دوسروں کو یہ سب کچھ سنا رہا ہے اور خود کہیں عمل کے قریب بھی ہوکر نہیں گزر تا مرض ظاہری ہویا باطنی جب حد سے گزرجاتا ہے تو دوسروں کی دعاؤں ہی کا سہارا رہ جاتا ہے بس۔