بعض لکھنے والے ’’بذاتِ خود‘‘ اور ’’بجائے خود‘‘ میں فرق نہیں کرتے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ جب ذات کا ذکر ہو یا زندہ وجود کا تذکرہ، تو وہاں ’’بذاتِ خود‘‘ استعمال کرنا چاہیے، اورجہاں بے جان چیز کا ذکر ہو تو وہاں ’’بجائے خود‘‘ استعمال کیا جائے۔ ایک ادبی پرچے میں ’’نقدِ سفر: ایک مختصر جائزہ‘‘ کے عنوان سے مضمون کا پہلا جملہ ہے ’’زندگی بذاتِ خود سفر ہے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہاں ’’بجائے خود‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مزید وضاحت جناب منظر عباسی کردیں گے۔ ’’اصلاحِ تلفظ و املا‘‘ میں طالب الہاشمی نے ایک عمومی غلطی کی نشاندہی کی ہے: ’’فلاں صاحب چوٹی کے اہلِ علم ہیں۔ محمود نامور اہلِ قلم ہے‘‘۔ ’’اہل‘‘ لغوی اعتبار سے بصورتِ جمع استعمال ہوتا ہے اور اس میں کثرت کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ’’اہلِ علم‘‘ کا اِطلاق اصحابِ علم یا علماء کی جماعت پر ہوگا۔ اسی طرح ’’اہلِ قلم‘‘ کا اطلاق اصحابِ قلم یا ادیبوں، صحافیوں کے ایک پورے گروہ پر ہو گا۔ ان فقروں کی صحیح صورت یوں ہوگی: ’’فلاں صاحب چوٹی کے صاحبِ علم ہیں‘‘۔ ’’محمود نامور صاحبِ قلم ہے۔‘‘
ویسے ہم اب تک یہ سمجھتے رہے کہ ’’چوٹی‘‘ کا حوالہ صرف خواتین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کسی نے توجہ دلائی کہ کتنی ہی اہلِ علم و قلم خواتین ایسی ہیں جو چوٹی سے محروم ہیں۔ ایسی ہی اہلِ علم (یا اہلیہ علم؟) خواتین کے بارے میں ایک شعر ہے
حسن افزوں ہو گیا زلفیں جو ان کی کٹ گئیں
اب جسے دیکھو انہی کا بندۂ بے دام ہے
’’دام‘‘ زلفوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ مصرع اب ضرب المثل بن گیا ہے
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
یہاں ’’دام‘‘ زلفوں ہی کے لیے لایا گیا ہے۔ پہلا مصرع ہے
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
’’اہل‘‘ کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اخبارات میں عموماً اس کی جمع دیکھنے میں آتی ہے۔ مثلاً ’’اہلیانِ کراچی، اہلیانِ پاکستان، اہلیانِ محلہ۔‘‘ جمع کے لیے بھی ’’اہل‘‘ کافی ہے، یعنی اہلِ کراچی وغیرہ۔ اہلیان لکھنا نااہلی ہے۔
اَہل عربی زبان کا لفظ اور مذکر ہے۔ صاحب، مالک، خاندان، کنبہ، گھر کے لوگ، بیوی، لائق، شریف، خلیق وغیرہ۔ اہلِ بیت کی اصطلاح بہت عام ہے، یعنی گھر کے لوگ۔ اس سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے لیے جاتے ہیں اور یہاں کوئی ’’اہلیان‘‘ استعمال نہیں کرتا۔ ’’اہلِ ایمان‘‘ تمام مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’اہلِ تشیع‘‘ ہے جسے لوگ عموماً ت۔ شیع (تشی کی طرح) پڑھتے اور کہتے ہیں، بروزن شفیع، رفیع۔ جب کہ یہ تشّیع (تشی۔ یوع) ہے۔ ’’اہلیان‘‘ کی غیر ضروری ترکیب فارسی ہے۔ ایک صاحب نے اردو میں غیرضروری طور پر انگریزی الفاظ کے استعمال کے خلاف اچھا مضمون لکھا ہے۔ لیکن اس مضمون میں وہ ’’ممبران‘‘ لکھتے ہیں۔ حضرت، یہ کیا ہے، نہ اردو نہ انگریزی۔ یا تو ممبرز لکھیے یا ارکان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزی نے ہمارے ذہنوں پر کس بری طرح قبضہ جما لیا ہے۔ قبضے پر یاد آیا کہ ’’ناجائز تجاوزات‘‘، ’’ناجائز منافع خوری‘‘ بھی ذرائع ابلاغ میں عام ہے۔ جب کہ ان کے ساتھ ’’ناجائز‘‘ نہ لگایا جائے تب بھی یہ جائز نہ ہوں گے۔ البتہ ’’ناجائز منافع‘‘ درست ہے۔
انگریزی الفاظ کے غیر ضروری، بلکہ ناجائز استعمال کی چند اخباری مثالیں یہ ہیں ’’نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، ٹمبر مارکیٹ‘‘ وغیرہ۔ ان کی جگہ نئی کراچی، شمالی ناظم آباد، لکڑ منڈی وغیرہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ٹمبر مارکیٹ میں جو دبدبہ ہے وہ لکڑمنڈی میں نہیں۔ ’’اپر دیر‘‘ کو کبھی کبھی دیربالا بھی لکھا دیکھا، مگر جانے کیوں یہ عام نہیں ہورہا۔ حالانکہ دیر بالا اور دیر پائیں، دیر ہی کی طرح خوبصورت ہیں۔ لوئر دیر کو دیر زیریں بھی لکھ سکتے ہیں۔
ایک اخبار میں حکیم صاحب کا مضمون دیکھا، عنوان تھا ’’چھوٹی الائچی خورد کے فوائد‘‘۔ حکیم صاحب سے اس غلطی کا صدور نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے انہوں نے بطور وضاحت چھوٹی الائچی کے ساتھ الائچی خورد لکھا ہو، کیونکہ چھوٹی اور خورد ہم معنیٰ ہیں۔ بچوں، بڑوں کے لیے عموماً ’’خورد و کلاں‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ الائچی کو چھوٹی لکھیں یا خورد، اس کے فوائد یکساں ہی ہوں گے البتہ الائچی کلاں کے فوائد مختلف ہیں۔
ایک اور غلطی یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ جس گھاٹی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز و اقارب کے ساتھ محصور کیا گیا تھا اُس کو لوگ عموماً ’’شعب ابی طالب کی گھاٹی‘‘ لکھ دیتے ہیں، جب کہ ’’شعب‘‘ کا مطلب ہی گھاٹی ہے۔ لیکن جب تک شعب کے ساتھ گھاٹی نہ لکھا جائے، لکھنے والے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ’’ماہِ رمضان کا مہینہ‘‘ یا ’’لب دریا کے کنارے۔‘‘
بعض بڑے لکھنے والے اور ادیب قسم کے لوگ ’’خیر باد‘‘ کی جگہ ’’خیرآباد‘‘ لکھ دیتے ہیں۔ دفتر جسارت کے قریب ’’خیرآباد‘‘ کافی ہاؤس بھی ہے۔ لیکن خیرباد اور خیرآباد کے مفہوم میں فرق ہے۔ خیر آباد یو۔پی کا ایک قصبہ ہے جہاں کے مولانا فضل حق خیرآبادی اور شاعر مضطر خیرآبادی اور ریاض خیر آبادی مشہور ہوئے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی نے 1857ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر اُن کو جلاوطن کرکے کالاپانی بھیج دیا گیا۔ ان کی خودنوشت ’’کالاپانی‘‘ نے بھی خیرآباد کو شہرت بخشی۔ ’’خیرباد‘‘ کلمۂ رخصت ہے جیسے خدا حافظ، الوداع۔ ایک ادبی رسالے میں مرحوم سرشار صدیقی کی رحلت پر لکھے گئے مضمون میں ہے کہ ’’سرشار صدیقی خیر آباد کہہ گئے‘‘۔ ممکن ہے کوئی صاحب تحقیق فرمائیں کہ ’’نہیں، خیرآباد کہنا بھی صحیح ہے‘‘۔ چنانچہ ہم اسی پر بس کرتے ہیں۔