سورۂ بقرہ رکوع -۱ - میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے سر کش اور لعنت زدہ یہود کے دوسرے جرموں کا ذکر ہے،وہاں خود ان کی زبان سے ایک فقرہ یہ بھی نقل کیا ہے، وَقَالُوْا قُلُوْبُنَاغُلْف اور اسی مضمون کو خفیف تغیر کے ساتھ سورۂ نساء رکو ع- -۲۲ میں بھی دہرایا ہے وَقَوْلُھُمْ قُلُوْبُنَاغُلْف یعنی یہ سرکش اور خیرہ چشم یہود فخر وتعلّی کے لہجہ میں کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں،ہم کسی کی سحر بیانی یا کرشمہ سازی سے متأثر ہو کر اس کے قائل نہیں ہو سکتے اوراس کی پیمبری کو نہیں تسلیم کر سکتے ،ہمارے لیے وعظ و نصیحت کا یہ سارا دفتر بیکار ہے۔ غُلفٌ کی دوسری قراء ت غُلُفٌ (بہ ضمتین)ہے یہ قراء ت حضرت ابن عباس کی ہے اور اسی کو بعض اکابر تابعین مشلاً سعید بن جبیرؒ و حسن بصریؒ ؒوغیرہم نے اختیار کیا ہے اس صورت میں غُلْفٌ غلاف کی جمع ہوگئی اور آیت کے معنی ائمہ لغت وزبان کے نزدیک یہ ہوں گے کہ اَیْ قُلُوْبُنَا اَوْعِیَۃٌ لِلْعِلْم(لسان العرب)اَیْ اَوْعِیَۃٌ لِعِلْمٍ فَماَ لَنَا بَالَنَا لَا نَفَقَہُ مَا یَقُول(تاج العروس) اَیْ ھِیَ اَوْعِیَۃٌلِلْعِلْم تَنْبِیْھًا اَنَا لَا نَحْتَاج لِاَنْ نَتَعَلَّم مِنْکَ فَلَنَا غیۃٌ عِنْدَنَا(مغرمات راغب)۔ ہمارے قلوب خود علم کے ظروف ہیں، علم سے لبریز ہیں،علم کے خزینے ہیں،ہمیں پیمبر کے لائے ہوئے علم پر توجہ کر نے کی کیا ضرورت ہے ہم اس کے لائے ہوئے علم پر توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، ہم اس کے لائے ہوئے علم سے بالکل فارغ و بے نیاز ہیں۔ متعدد ائمہ تفسیر نے بھی یہی معنی نقل کیے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ یہود کو عن الضحاک عن ابن عباس قال مملو علما لا تحتاج الی محمد ولا غیر ہ(ابن جریر) قُلُوْبُنَا اَوْعِیَۃٌ بکل علم فلا تحتاج الی علمک قا لہ ابن عباس وعباس وعطا(ابن کثیرلغوی خازن وغیرھا) اپنے علم وفضل پر ناز تھا ،اپنے علوم وفنون پر غرہ تھا اور اسی گھمنڈ پر وہ پیمبری ہدایات کو رد کرتے اور کہتے تھے کہ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہم ان تعلیمات سے بے نیاز اور ان سے ماورا ہیں۔ کیا یہ ذہنیت یہود کے ساتھ ختم ہوگئی؟ساڑھے تیرہ سو برس کے بعد تاریخ پھر اپنے کودوہر ا رہی ہے ، آج پھر ’’مسلمانوں‘‘ہی کے مدعیان علم ودانش اور دعویدار ان علوم وفنون ،فخر وتعلّی کے نشہ میں جھومتے اور اکڑ تے ہوئے باہر نکلے ہیں اور وہ جن کے نام مسلمانوں کے سے ہیں خود بینی و خود نمائی کے نقاروں پر چوبیں لگا لگاکر پکار رہے ہیں کہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی طرف کیوں بلایا جا رہا ہے ہم مارگولیتھ کے نام لیوا اور نولڈیکی کے شاگرد رشید ہیں،ہم برلن اور پیرس کی یونیورسیٹیوں کے علوم کے وارث ہیں،ہم تاریخ کے ریسرچ اسکالرر ،ہم’’ مشرقیات ‘‘کے ڈاکٹر ہیں،ہم ’’اسلامیات‘‘کے محقق ہیں،ہم تحقیقات کے سرمایہ دار ہیں،ہمارے سامنے یہ’’وحی‘‘و’’الہام‘‘کی کیا بے معنی اور ’’غیرعلمی‘‘تعلیمات پیش کی جارہی ہیں؟ ہمیں کیوں پیغمبروں اور فرشتوں کا نام لے لے کر ڈرایا جاتاہے؟ہمارے دماغوں اور ہماری عقلوں کو کیوں قرآن اورحدیث سے جکڑا جارہا ہے؟ہمیں کیوں جذبات نگاری سے متأثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟اس بیسویں صدی عیسوی میں ہمیں کیوں آخر ساتویں صدی عیسوی کے خرافات کی طرف بلایا جارہا ہے؟ہم علم کے پتلے ہیں،علم کے یہ عقاید وایمانیات کا پشتارہ کیا ہمارے سروں پر لاد اجارہا ہے؟قُلُوْبُنَاغُلْفٌ ہمارے اگلوں نے کہاتھا اورہم پچھلے یہی آواز بدل بدل کر اسی صدا کو دہرارہے ہیں،ہے کوئی ’’اہلِ علم‘‘جو اس رجز کے بعد میدان میں آنے کی ہمت کرے؟