سفر حجاز۔۔۔(۳۱)۔۔۔مزدلفہ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:59PM Mon 19 Jul, 2021

حج کا رکن اعظم بحمداللہ ختم ہوچکا، اس وقت دل کی مسرتوں کا کیا پوچھنا، بات کہنے کی نہیں تجربہ کرنے کی ہے، ہر چہرہ کھلا جارہا ہے۔ ہر طرف مسرت و انبساط، عرفات کے بعد ہی حاجیوں کو مزدلفہ میں قیام کرنا ہوتا ہے، یہ ایک وسیع میدان کا مشہور نام ہے جو منیٰ و عرفات کے درمیان واقع ہے، منیٰ سے عرفات کے دو راستے ہیں، ایک سیدھا اور ایک کسی قدر چکر کے ساتھ، منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے سیدھے راستے سے جانا مسنون ہے، ادھر مزدلفہ نہیں پڑتا۔ عرفات سے واپسی دوسرے راستے سے مسنون ہے جو ذرا چکر کھا کر ہے، مزدلفہ اسی راستہ میں پڑتا ہے، عرفات سے اس کا راستہ ۷، ۸ میل ہوگا اور منیٰ یہاں سے ڈھائی میل رہ جاتا ہے۔ اس میدان کا معروف نام ”مزدلفہ“ ہے۔قرآن مجید میں اس کا نام مشعر الحرام آیا ہے اور یہاں کے قیام کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے کہ خود کلام پاک میں یہ تصریح موجود ہے کہ عرفات سے واپسی میں مشعر الحرام میں ذکر الٰہی کرو۔″ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ″۔

مشعر الحرام کے مفہوم میں سارا میدان داخل ہے اور ایک مسجد بھی یہاں اسی نام سے موسوم و مخصوص ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ لفظ مزدلفہ مشتق ہے "ازدلاف" سے جس کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور اس میدان کا نام مزدلفہ اس لیے پڑا کہ حضرت  آدم اور حضرت  حوا علیہما السلام جنت سے نکلنے کے بعد پہلے یہیں ملے تھے۔  ۹/اور ۱۰/کی درمیانی شب یہیں بسر کرنی ہوتی ہے۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ مزدلفہ میں داخل ہوتے وقت اگر پاپیادہ ہو اور غسل بھی کرلے تو بہتر ہے۔″ والمستحب ان یدخل المزدلفہ ماشیا و یغتسل لدخولھا″۔ (فتح القدیر)۔

اگر ضعیفی، کمزوری یا بیماری کے عذر قوی کی بنا پر یہاں کا قیام ترک کردیا جائے تو مضائقہ نہیں لیکن بغیر کسی قوی عذر کے محض تن آسانی کے خیال سے یا ہجوم سے بچنے کے لیے یہاں قیام نہ کرنا اور عرفات سے سیدھے منیٰ چلے جانا ہرگز مناسب نہیں۔ امام اوزاعی اور بعض تابعین کے نزدیک تو وقوف مزدلفہ رکن حج ہے یعنی فرائض میں داخل ہے، اور اگر یہ فوت ہوگیا تو حج ہی فوت ہوگیا۔ (جیسا کہ قاضی ابن رشد نے ہدایتہ المجتہد میں اس جماعت کا مذہب نقل کیا ہے)۔ اور قاضی خاں نے ایسا ہی مذہب امام مالک کا بھی نقل کیا ہے، حنفیہ کے ہاں گو یہ رکن حج نہیں لیکن مرتبہ وجوب رکھتا ہے اور کسی نے بلاعذر خاص یہاں کا قیام ترک کردیا تو اسے قربانی دینی ہوگی۔ آج کی شب مبارک بعض فقہاء و محدثین کے بیان کے مطابق شب قدر سے بھی بڑھ کر ہے۔جہاں تک ممکن ہو ساری رات تلاوت اور نماز اور مناجات و استغفار میں گزارے، آج جو ساری رات جاگ گیا، وہ خود کیا جاگا، اس کا نصیبہ جاگ گیا، بہرحال جتنی دیر بھی ممکن ہو عبادت ہی میں وقت گزارنا چاہیئے۔عرفات سے آتے ہوئے راستہ میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ والحمد للہ پڑھتا ہوا آئے اور لبیک اور استغفار کو جاری رکھے، مزدلفہ پہونچ کر کوئی خاص دعا منصوص نہیں، مناسک کی کتابوں میں متعدد دعائیں لکھی ہوئی ہیں، راستے میں وہ وادی بھی پڑتی ہے جہاں خانہ کعبہ اور رب کعبہ کا مشہور دشمن ابرہہ اپنے زمانہ کی پر قوت امپریلزم (جہانگیریت و قیصریت) کا نمائندہ مع اپنے سارے ساز و سامان، لاؤ لشکر کے دم کے دم میں ہلاک ہوگیا تھا۔ اس وادی کا نام محسر ہے۔ فقہاء رحمہم اللہ لکھتے ہیں کہ جب اس وادی سے گزرے تو سواری کو تیز کردے اور یہ دعا پڑھے۔

۔″للہم لا تقتلنا بغضبک ولا تھلکنا بعذابک و عافنا قبل ذٰلک″۔

اے اللہ ہم کو نہ مارنا اپنے غضب سے اور نہ ہلاک کرنا، اپنے عذاب سے، اور معاف کردینا اس سے پہلے ہی۔

دعا کے الفاظ بہتوں نے دہرائے ہوں گے، خدا معلوم کسی کے دل سے مغرب و مشرق کی ان قوموں کی بھی تباہی و بربادی کی دعائیں نکلیں جو آج چودھویں صدی ہجری میں کعبہ اور رب کعبہ کی عداوت میں اس پرانی اور برباد شدہ قوم سے کہیں بڑھی ہوئی ہیں، جن کی جلدیں سفید بھی ہیں اور گندمی بھی، مگر جن کے دل عداوتِ حرم و ملت حرم میں حبشہ کی اس قوم کے چہروں سے بھی زیادہ سیاہ ہوچکے ہیں اور جن کو ابرہہ کے ہاتھیوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر آج اپنی آبادی کی کثرت اور اپنے توپ خانوں ہوائی جہازوں اور مسلح موٹر کاروں کی قوت پر دعویٰ اور ناز ہے!۔

عرفات سے چلنے میں کچھ دیر تو بارش کی وجہ سے ہوئی اور کچھ وقت معلم صاحب کی خوش انتظامیوں کی نذر ہوا، بہرحال غروب آفتاب کو کوئی قریب آدھ گھنٹہ کے ہوا ہوگا، جب ہمارا قافلہ روانہ ہوا، مولانا مناظر صاحب کی گم شدگی سے ہمارے ساتھیوں میں ایک کی کمی ہوگئی تھی اور اونٹ کے سفر میں یہ کمی ایک اہمیت رکھتی ہے۔بغیر دو سواریوں کے شعذف کی میزان برابر نہیں رہتی، اگر شعذف میں صرف ایک طرف کی سواری بیٹھی ہو تو شعذف اسی طرف جھک کر زمین پر گرجاتا ہے، خیر مولانا کی جگہ پر معلم صاحب کے صاحبزادہ نے قبضہ کیا اور قافلہ چلا، اس وقت کے سفر کی کیا کیفیت بیان ہو، عرب میں اونٹوں اور موٹروں پر سفر بہت سے کئے، دن اور رات کے مختلف حصوں میں بھی کیے لیکن اتنا پرلطف، اتنا دل کش، اتنا فرحت انگیز سفر نہ اس کے قبل کوئی ہوا نہ اس کے بعد، چاندنی رات، پانی برس کر آسمان بالکل کھل چکا تھا۔کھلے ہوئے آسمان میں شب دہم کا چاند، ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی، بارش ہوجانے سے موسم کی حالت بالکل بدلی ہوئی، نہ تپش، نہ لو، نہ گرد، نہ امس، اس کے بجائے خوشگوار خنکی، لطیف و سبک ہواؤں کے جھونکے چلے آرہے ہیں۔یہ معلوم ہورہا ہے کہ اپنے صوبہ یوپی میں مارچ یا اکتوبر کے مہینہ کی شام ہیں! مصری اور بدوی حاجی حج کی خوشی میں طرح طرح کے ترانے گارہے ہیں، پہاڑیوں سے آواز ٹکراتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پہاڑیاں اور چٹانیں بھی جشن مسرت و طرب میں شریک ہیں، طرح طرح کی بڑی بڑی مشعلیں اور گیس کی روشنیاں نور علی نور داہنے اور بائیں آگے اور پیچھے سو پچاس نہیں ہزارہا اونٹ، اوپر نظر اٹھایئے تو دلکش اور پیارا آسمان، نیچے دیکھئے تو مضبوط اور بوجھ اٹھانے والی زمین، ادھر ادھر نظر دوڑایئے تو ہر طرف پہاڑیوں کا سلسلہ سورۃ الغاشیہ کی آیت کریمہ:

أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ • وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ • وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ • وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ •

کی دل نشیں تفسیر بغیر کسی لفظ و عبارت کی وساطت کے زبان حال سے ازخود ہوتی جارہی ہے! فقہاء لکھتے ہیں کہ مزدلفہ کے راستہ میں تکبیر و تہلیل اور اللہ کی حمد و ثنا کرتا رہے، اور ایک قلب ہی کے مضغہ گوشت پر کیا موقوف ہے، ہر ہر بن مو اس وقت شکر نعمت کی صدائیں دے رہا ہے، صبر کے مرحلے اس سفر میں جھیلنے کو بکثرت ملتے ہیں، یہ موقع خالص مرتبہ شکر کے طے کرنے کا ہے! شکر گذاروں کی تو ہر گھڑی شکرت میں گزرتی ہے، یہ گھڑی وہ ہے کہ ناشکرے بھی شکر گزار بن جاتے ہیں۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا الله الحمدللہ

کوئی دو گھنٹہ میں مزدلفہ پہونچ گئے، یہاں صرف ایک ہی رات بسر کرنی ہوتی ہے، اور افسوس ہے کہ بہت سے لوگ تو اتنا بھی نہیں کرتے، گزرتے ہوئے سیدھے منیٰ چلے جاتے ہیں۔اس لیے یہاں خیمے وغیرہ نہیں لگتے ہیں، یوں ہی کھلے میدان میں لوگ زمین پر بستر بچھا کر یا اپنے شعذفوں کے اندر لیٹ کر گزار دیتے ہیں، خوب وسیع میدان ہے۔ جگہ کی چپقلش نہیں ہونے پاتی، کھانے کی دوکانیں بہ کثرت پورا بازار لگا ہوا۔ جا بجا روشنیاں بھی نصب، ہلکی خنکی سنا ہے اس میدان میں عموماً رہتی ہے، اب کی سال تو اچھی خاصی خنکی رہی، پانی کی دقت اب کی سال کچھ نہیں ہوئی، نہ زیادہ گراں نہ زیادہ گندلا تھا، اور ملا بھی خاصی افراط کے ساتھ، قیام اگر مسجد مشعر الحرام کے متصل جبل قزح پر ہو سکے تو سبحان اللہ ہم لوگوں کے نصیب ایسے کہاں تھے؟ معلم صاحب نے اپنی مہربانی سے جہاں چاہا ہمارے اونٹ بٹھلا دیئے۔ مسجد میں اذان کب ہوئی، اس کی بھی خبر نہ ہوئی، اور نہ کسی کی ہمت پڑی کہ مسجد کی تلاش میں اپنا قافلہ چھوڑ کر روانہ ہو، اور گم ہو جانے کا قوی خطرہ اختیار کرے۔ پہونچنے کے ساتھ ہی نمازِ مغرب و عشاء بغیر درمیان میں کوئی نفل پڑھے یا کسی اور طرح فاصلہ دئیے جمع کرکے اپنے قافلہ کی جماعت کے ساتھ پڑھی گئی۔آج کے دن حالت احرام میں نماز مغرب و عشاء مزدلفہ ہی میں آ کر عشاء کے وقت اکٹھے پڑھنا، کم از کم حنفی مذہب میں تو ضروری ہے، یہاں تک کہ اگر کسی نے نماز مغرب مزدلفہ کے راستہ میں پڑھ لی، تو امام ابوحنیفہ ؒ اور امام محمد کے نزدیک وہ نماز درست نہیں ہوئی، اور چاہیئے کہ مزدلفہ میں پہونچ کر اسے دوبارہ پڑھے، اس وقت کے لیے اذان و اقامت بھی ايک ہی ہے یعنی مغرب و عشاء کے لیے الگ الگ تکبیر کہنے کی ضرورت نہیں، ایک ہی تکبیر دونوں نمازوں کے لیے کافی ہوگی۔

ان مسائل سے عموماً ناواقفیت ہے، یا اگر واقفیت بھی ہے جب بھی بے پروائی برتی جاتی ہے۔نمازِ مغرب کوئی صاحب عرفات میں پڑھ لیتے ہیں، اور کوئی صاحب راستہ میں، نماز  عشاء بھی بعض جلد باز حضرات راستہ میں پڑھ لیتے ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ یہاں پہونچ کر ایک نظر فقہاء کی تصریحات پر کی جائے صاحب در مختار لکھتے ہیں:

۔″وصلی العشائین باذان واقامۃ لان العشاء فی وقتھا کم تحتج للاعلام کما لا احتیاج ھنا للامام ولو صلی المغرب والعشاء فی الطریق او فی عرفات اعادہ ″۔

اور مغرب و عشاء دونوں نمازیں مزدلفہ میں پڑھے، ایک اذان اور ایک اقامت سے کیونکہ عشاء کی نماز تو اپنے وقت ہی پر ہورہی ہے اور اس لیے اس کے اعلام کی حاجت نہیں جیسا کہ  ۔(یہاں اس جمع بین الصلواتین کے لیے)۔ امام بھی ضروری نہیں اور اگر مغرب و عشاء کی نماز راستہ میں یا عرفات میں پڑھ لی جائے تو چاہیئے کہ یہاں دہرائے۔

اور اسی کو درمختار کے دونوں شارحین طحطاوی و شامی نے اختیار کیا ہے! صاحب کنز کہتے ہیں:

۔″ولم تجز المغرب فی الطریق″۔

آج کے دن مغرب کی نماز راستہ میں پڑھ لینی جائز نہیں

ان کے شارح صاحبِ بحرالرائق فرماتے ہیں:

۔″لم تحل صلاۃ المغرب قبل الوصول الی مزدلفہ″۔

مزدلفہ پہونچنے سے قبل نماز مغرب پڑھ لینا جائز نہیں

 صاحب بدائع الصنائیع لکھتے ہیں:

ـ۔″ولو صلی المغرب بعد الغروب الشمس قبل ان یاتی مزدلفہ فان کان یمکنہ ان یاتی مزدلفہ قبل طلوع الفجر کم تجز صلوٰتہ وعلیہ اعادتھا ما لم یطلع الفجر فی قول ابی حنیفۃ و محمد وزفر و حسن″۔

اگر کسی نے غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب مزدلفہ پہونچنے سے قبل ہی پڑھ لی تو اگر اب بھی اس کے امکان میں قبل طلوع فجر مزدلفہ پہنچ جاتا ہے تو اس کی یہ نماز صحیح نہیں ہوئی اور امام ابوحنیفہ، محمد وزفر و حسن کے قول کے مطابق قبل فجر، اس نماز کا اعادہ کرنا چاہیئے۔

اور لباب المناسک میں ہے:

۔″ولا يصلی المغرب ولا العشاء بعرفات ولا فی الطريق حتى يدخل مزدلفۃ وينزل بها ولو صلی الصلاتين او احداهما قبل الوصول الى مزدلفۃ لم یجزو عليه اعادتها بها اذا وصل″۔

مغرب اور عشاء کی نمازیں نہ عرفات میں پڑھنی چاہیئں اور نہ راستہ میں یہاں تک کہ مزدلفہ آجائے اور حاجی وہاں اترے اور اگر کوئی نماز یا دونوں نمازیں مزدلفہ پہنچنے سے قبل پڑھ لی ہیں تو وہ درست نہیں ہوئیں اور ان کا اعادہ وہاں پہونچ کر لازم ہے۔

اور ہدایہ میں ہے۔

۔″ويصلی الامام بالناس المغرب والعشاء باذان واقامۃ واحدۃ ومن صلى المغرب فی الطريق لم يجزه عند ابي حنيفه ومحمد ″۔

امام جماعت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں صرف ایک ہی اذان و اقامت کے ساتھ ادا کرے اور اگر کسی نے مغرب کی نماز راستہ ہی میں پڑھ لی تو امام ابوحنیفہ اور محمد کے نزدیک نماز درست نہیں ہوئی۔

صرف ایک امام ابویوسف سے اختلاف منقول ہے مگر فقہاء میں سے کسی نے ان کے قول پر فتویٰ نہیں دیا۔

عالم اسلامی میں جو بدنظمی و انتشار سرایت کئے ہوئے ہے۔اس کا نمونہ جس طرح عرفات میں دیکھنے میں آیا تھا۔یہاں بھی دیکھنا پڑا۔اتنا بڑا مجمع اور نہ کسی قسم کا نظم و تنظیم، ایک طوائف الملو کی سی پھیلی ہوئی، رات کا وقت، اجنبی زبان، ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اپنے قافلہ سے کسی ضرورت کے لیے جدا ہوا، اور پھر وہاں تک آسانی سے واپس پہونچ سکے، بازار تک جانا تو خیر آسان تھا۔اس لیے کہ ہر دوکان پر خوب روشنی ہو رہی تھی اور دور سے نمایاں تھی لیکن بازار جاکر واپس آنا چاہے تو آخر کس پتہ کس نشان سے واپس آئے؟

 ہمارے ساتھ کی بیویاں، دن بھر کے سفر اور تکان کے بعد قدرتاً بھوکی تھیں، قافلہ کے دو تین مرد بازار کھانا لینے گئے، واپسی میں راستہ بھولے اور ان پر جو گزری بس انھیں کا دل جانتا ہے۔ ایک ہی طرح کے ہزار ہا اونٹ اور ہزار ہا شعذف ہر طرف نظر آرہے تھے، بالکل بھول بھلیاں کا سا منظر، قدم قدم پر بھٹکتے تھے اور اپنے قافلہ والوں کو چیخ چیخ کر پکارتے تھے۔ پکارتے پکارتے گلے پڑ پڑگئے، جب جا کر کس مشکل سے پہونچ پائے ہیں، کیا حکومت کی استطاعت سے یہ باہر ہے کہ مختلف ملکوں کے حاجیوں کے لیے مختلف عارضی سڑکیں ایک شب کے لیے تیار کرا دے۔اور ان سڑکوں کے نام انھیں ملکوں کے نام پر رکھ دے، مثلاً ہندیہ، مصریہ وغیرہ اور پھر ان سڑکوں کو مختلف قطعات ۔(PLOTS) ۔میں تقسیم کر کے ہر ہر قطعہ ۔(پلاٹ)۔ پر ایک ایک معلم کے لیے نمبر ڈال دے، اور سڑکوں کے ناموں اور ان نمبروں کو روشنی میں خوب نمایاں کردیا کرے؟  اور پھر بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی اور رہبری کے لیے تربیت پائے ہوئے اور مختلف زبانیں جاننے والے باقاعدہ اور مستعد رضا کاروں اور پہرہ کے اگر صرف چند ہی دستے مقرر ہوجائیں تو غریب پردیسیوں کو کتنی سہولت اور کتنی آسائش ہوجائے! سلطان کے مشیروں خصوصاً ہندی مشیروں نے خدا معلوم سلطان کی خدمت میں کبھی رفاہ خلق و خدمت حجاج کی ان صورتوں کا بھی مشورہ پیش کیا ہے؟

مزدلفہ میں قیام صرف شب بھر رہتا ہے، ۱۰/ کی صبح کو امام کو چاہیئے کہ مسجد مشعر الحرام میں نماز اول وقت یعنی صبح صادق طلوع ہوتے ہی اندھیرے میں پڑھ لے۔صحیحین میں حضرت  عبداللہ بن مسعود کی روایت موجود ہے کہ آج کے دن حضور ﷺ نے نمازِ فجر معمولی وقت سے پہلے پڑھی تھی، علماء حنفیہ نے بھی اسی وقت پر زور دیا ہے۔نماز کے بعد چاہیے کہ عرفات کی طرح یہاں بھی قبلہ رخ ہو کر وقوف کریں اور خوب جی لگا کر دعائیں مانگیں، مقبولیت دعا کی یہ خاص جگہ اور خاص گھڑی ہے اس سے فارغ ہو کر آفتاب نکلتے نکلتے یہاں سے منیٰ کی طرف روانہ ہوجانا چاہیئے اور منیٰ پہونچ کر شیطانوں پر جو کنکریاں ماری جائیں گی، ان کا بھی یہیں سے چن لینا مسنون و افضل ہے۔منیٰ میں اگر ۱۳/ تک رہنے کا قصد ہوتو ۷۰ کنکریاں گن کرلے لے، اور اگر صرف ۱۲/ ہی تک ٹھہرنا منظور ہوتو ۴۹ کنکریاں کافی ہوں گی، کنکریاں چھوٹی ہوں تو بہتر ہے، دانہ باقلہ کے برابر اگر اس سے بڑی یا چھوٹی ہوں تو بھی جائز ہے، ان کنکریاں کو دھوکر ساتھ رکھ لینا چاہیے، نجس کنکریاں پھینکنا مکروہ ہے، وقوف مشعر الحرام کے وقت یہ دعا پڑھے تو افضل ہے۔

۔″اللهم بحق المشعر الحرام والبيت الحرام والشهر الحرام والركن المقام بلغ روح محمد منا التحيۃ والسلامۃ وادخلنا دار السلام يا ذا الجلال والاكرام″۔

اے اللہ! مشعر الحرام کے حق سے اور خانہ کعبہ کے حق سے اور اس پاک مہینہ کے حق سے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے حق سے محمدﷺ کی روح کو ہمارا درود و سلام پہونچا دیجیو اور اے بزرگی و عظمت والے ہم کو رحمت کے گھر (جنت) میں داخل کیجیو۔

اس کے بعد الحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہے اور لبیک کہے اور درود پڑھے، اور پھر جو حاجت ہو اس کے لیے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگے۔

اعمالِ حج کا سارا سلسلہ اِدھر سے عبدیت و انابت اور اُدھر سے رحمت و مرحمت کا ایک مسلسل مظاہرہ ہے، مہمانوں کو اپنے گھر بلاکر شریف اور کریم النفس میزبان کیسی کیسی خاطریں کرتے ہیں، لطف و مدارات میں کیا کوئی کسر اٹھا رکھتے ہیں، پھر وہ جو سب کریموں سے بڑھ کر کریم اور سب حاتموں سے بڑھ کر حاتم ہے جو کرم اور کریمی سب کا خالق و پروردگار ہے۔کیا وہ اپنے گھر کے مہمانوں پر لطف و نوازش کی بارش کرنے میں کوئی بات اٹھا رکھے گا، اس کے خزانہ میں مغفرت و مرحمت کی کوئی کمی ہے؟ اس کے جود و عطا میں بخل کی کسی آمیزش کا امکان ہے؟ میدانِ عرفات میں آپ کے سرور و سردار نے آپ کے حق میں، اپنے مولا و پروردگار کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر جو کچھ مانگا تھا اور وہاں سے جو کچھ ملا تھا، اس سے آپ واقف ہوچکے، اب سنئے کہ آپ کا اور ساری دنیا کا وہ غمخوار اور غمگسار، جب عرفات سے مزدلفہ پہونچتا ہے تو کیا پاتا ہے، کیا طلب کرتا ہے اور کیا کیا ملتا ہے، خوب جانے اور پہچانے رکھئیے کہ مانگنے والا کون تھا، اور دینے والا کون تھا، عباس بن مرداس سلمی سے روایت ہے کہ:

۔″ان رسول الله ﷺ دعا لامته عشيۃ في عرفۃ بالمغفرۃ فاجيب انی قد غفرت لهم ما خلا الغانمين فاني اخذ للمظلوم منه قال اي رب ان شئت اعطيت المظلوم الجنه وغفرت للظالم فانی اخذ للمظلوم منہ قال ای رب ان شئت اعطیت المظلوم الجنۃ وغفرت للظالم فلم يجب عشيۃ فلم اصبح بالمزدلفۃ اعاد الدعاء فاجيب الى ماسأل قال فضحك رسول الله ﷺ او قال تبسم فقال ابو بكر وعمر بابی انت وامی ان هذه الساعۃ ما كنت تضحك فيها فما الذی اضحك واضحك منك قال ان عدو الله ابليس لم علم ان الله عز وجل قد استجاب دعائی و غفر لامتی اخذ التراب فجعل يحثوہ على راسہ ويدعوا بالويل والشهور فاضحكنی ما رايت من جزاعہ (ابن ماجہ)″۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں سہ پہر کے وقت اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی تو جواب ملا کہ ہم نے بخش دیا تیری امت کو بجز ان لوگوں کے جو دوسروں کے حقوق تلف کرنے والے ہیں، مظلوموں کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ اس پر آپ ﷺ نے پھر عرض کیا، اے پروردگار اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دے کر اسے اس پر راضی کرسکتا ہے کہ وہ ظالم کو معاف کر دے اور ظالم کی بھی مغفرت کر دے، اس کا کچھ جواب نہ ملا (یہاں تک کہ آپ ﷺ عرفات سے مزدلفہ میں آگئے) اور مزدلفہ میں صبح ہوتے آپ نے پھر یہی دعا کی، اس وقت یہ دعا قبول ہوگئی، اس وقت  آپ مسرت سے ہنس پڑے (یا تبسم فرمانے لگے) ابوبکرؓ و عمرؓ نے عرض کیا کہ ہمارے ماں باپ حضور ﷺ پر فدا ہوں، آپ ان اوقات (دعا و مناجات)میں تو کبھی ہنستے نہیں تھے۔آپ کو اللہ ہنستا ہی رکھے، اسوقت آپ کیسے ہنسے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت اللہ کے دشمن ابلیس نے یہ دیکھا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرمائی اور میری ساری امت کی مغفرت کا پروانہ مرحمت ہوگیا تو زمین سے خاک اٹھا اٹھاکر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور غم و غصہ سے لوٹنے لگا مجھے یہ جزع و فزع دیکھ کر ہنسی آگئی۔

اللہ اکبر! جو کچھ عرفات میں بھی نہ ملا تھا، مزدلفہ میں مل گیا! اس رحمت بےحساب کا کوئی حساب لگاسکتا ہے؟ اس کرم بے نہایت کی کوئی پیمائش کرسکتا ہے! مزدلفہ کی بزرگیوں اور عظمتوں کا کون اندازہ کرے گا؟ اور جس نے مزدلفہ میں یہ دعائیں مانگیں اس کے لطف و شفقت کا کون احاطہ کرسکتا ہے؟ اور پھر سب سے بڑھ کر جس نے ان دعاؤں کو قبول کیا، اس کی شانِ رحمت و مغفرت کے اظہار کے لیے کوئی لفظ، کوئی عبارت کافی ہوسکتی ہے۔

ناقل: محمد بشارت نواز