اُردو سے کیا ملتا ہے؟ ‘‘ اور لتا منگیشکر کا اعتراف !

از: ندیم صدیقی
گزشتہ بدھ کو اُردو کے تمام قارئین نے لتا منگیشکر کے حوالے سے یہ خبر ضرور پڑھی ہوگی ، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ اُردو کے بہتر تلفظ کی وجہ سے مجھے عروج نصیب ہوا۔‘‘
لتا منگیشکر کو گائیکی کی دُنیا میں آدھی صدی سے کہیں زیادہ مدت گزر چکی ہے۔ انکے گائے ہوئے نغمے ہمارے دَور کے کلاسک سرمایہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹروِیو میں واضح طور پر کہا ہے کہ
’’ ان کے گانے پر کے ایل سہگل کے طرز کا کافی اثر ہے اور سہگل صاحب جس طرح سے اردوتلفظ ادا کرتے ہیں ، مَیںوہی انداز اپنانے کی کوشش کرتی تھی،میں نورجہاں کو بھی سنتی اور ان کے انداز کو پسند کرتی تھی ، لیکن میری یہی بھی کوشش رہی کہ کسی کی نقل نہ کروں اور اپنا اسٹائل بنانے کی کوشش کر تی تھی۔
لتا منگیشکر نے اس موقع پر ماسٹر غلام حیدر،مدن موہن،جے دیو اور نوشاد علی کو بھی یاد کیا او راعتراف کیا کہ انکا بھی کافی اثر رہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوشاد نے ہمیشہ اردوتلفظ پر مجھے توجہ دینے کی ہدایت کی اور ان لوگوںنےمدد کی اور ساتھ دیا، اس طرح ان شخضیات سے بہت کچھ(اُردو) سیکھنے میں مددملی۔‘‘
لوگ بتاتے ہیں کہ لتا کے اُردو تلفظ کےلئے دلیپ کمار کی دلچسپی اور ان کی مدد بھی شامل رہی ہے۔
ذرا سوچئے کہ آدھی صدی قبل مراٹھی پس منظر رکھنے والی ایک لڑکی اپنے معاشرے سے نکلی اور اس نے فلموں کےلئے اُردو (ہندی) کے بیشمار نغمے ریکارڈ کروائے۔
ہمیں حال ہی کااپنا ایک ریلوے کا سفر بھی یاد آتا ہے ۔ سلیپر کلاس میں ہم لور (نچلی) برتھ پر لیٹے ہوئے تھے ،سامنے کی لور (نچلی) برتھ پر اکیس بائیس برس کی ایک خاتون اپنے تین چار سال کے بیٹے کے ساتھ کوٹہ کےلئے سفر کر رہی تھیں۔ بچّے کی طرف ہماری توجہ مبذول ہوئی صرف اس وجہ سے کہ اس کا لہجہ اُردو سے بہت مماثل تھا۔ تقریباً بارہ گھنٹوں کے سفرمیں ہم نے اُس بچّے کے منہ سے زیڈ(Z) کا تلفظ جیڈ نہیں سنا۔ اسی طرح سے دوسرے الفاظ کے مخرج بھی ہمیں متوجہ کر رہے تھے۔
ہم سے رہا نہیں گیا اور ہم نے زور سے آواز لگائی کہ اس لڑکے کا کیا نام ہے۔ اس نے اپنا نام تو نہیں مگرسر نیم ’’ گپتا‘‘ بتایا ۔
اسی طرح ہمیں سولا پور کا جواں سال میور اِنڈی بھی یاد آیا کہ سولا پور کے ایک سفر میں ہمیں بتایا گیا کہ یہاں کے ایک نوجوان میور انڈی کو ہم لوگ اس کی اردو سے دلچسپی اور اُردودَانی پر آج مئیرسولا پور کے ہاتھوں ایک ایوارڈ دے رہے ہیں ، آپ بھی اس کی حوصلہ افزائی کے لئے اس تقریب میں شرکت کیجیے، ہم نے نہ صرف اس جلسے میں شر کت کی بلکہ اس کو دوسرے دن اپنے ہوٹل میں بلا کر اس سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے گفتگو کی تو حیرانی ہوئی کہ وہ عربی زبان کی شد بُد بھی رکھتا ہے بلکہ اس زبان کی جزئیات سے بھی واقف ہے۔ مزید گفتگو کی تو پتہ چلا کہ میور ایک مدت شارجہ میں کام کر چکا ہے اور اُس نے شارجہ قیام کے دوران عربی زبان سیکھنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اسلام کے بارے میں بھی اس کی معلومات ہمارے لئے حیرت انگیز تھیں۔
ان باتوں کے تذکرے سے مطلوب یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی مادری زبان کچھ اور ہے وہ کوشش اور مشق کر کے تو اپنی اصلاح ہی نہیں بلکہ اپنی علمی صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں اور ہمار ی اکثرنئ نسل اس معاملے میں پیچھے ہی نہیں بلکہ اسے اپنی زبان اور اس کی نزاکتوں سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ یاد آتا ہے کہ ایک سینئر اور اعظم گڑھ جیسےخطّے سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل صاحب سے ہم گفتگو کررہے تھے۔ موضوع اُردو کی گرتی ہوئی صورت ِحال تھی۔ وکیل صاحب کے دفتر میں ہم سے کچھ فاصلے پر ان کا داماد بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ہماری گفتگو میں اچانک مداخلت کی اور بول بیٹھا کہ اُردو سے آخر کیا ملنے والا ہے ۔؟ آپ لوگ اُردو اُردو کیوں کر رہے ہیں،۔۔۔ آخر ہم اُردو کیوں سیکھیں ا س سے کیا ملے گا۔؟
ہم اُس کی اِس مداخلت بیجا پر حیران اور اس کے خسر جو اس کے چچا بھی تھے، پریشان ہوئے اور وکیل صاحب ہم سے آنکھیں چرا نے لگے۔ یوپی کے ہم مسلمان بہت سی روایتوں کےعادی ہیں جس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ’ داماد‘ کو بہت احترام دِیا جاتا ہے۔ ہم وکیل صاحب کی ’ پریشانی‘ جان کر اُٹھ گئے کہ وہ مزید خجل نہ ہوں۔
ہمارے جی میں آیا کہ اس نوجوان کو بتائیں کہ اگر آپ نے اُردو پڑھی ہوتی تو اپنے بزرگوں کی گفتگو میں ناشائستگی کا مظاہرہ نہ کرتے کہ اُردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب و کلچر کا بھی نام ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی خیال گزرا کہ کبھی در گزر کرنا اور بزرگ کو خجالت سے بچانا بھی اُردو تہذیب ہی کا حصہ ہے۔ بات زبان کی چل رہی ہے ۔ اس زبان کا معاملہ عجب ہے ۔ اگر ہم تلفظ میںکمزور ہیں یا تلفظ و مخرج کے تعلق سے لا پروا ہیں تو یہ زبان فوراً ہماری قلعی کھول دیتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کا نام جلیل خان تھا ، موصوف پڑھے لکھے اور اُردو ہی کے آدمی تھے۔ ایک جلسے میں خاں صاحب مہمان ِخصوصی تھے ۔ ناظم جلسہ(اناؤنسر) نے انھیں مائک پر زحمت دینے کےلئے ان کے لئے بعض کلماتِ احسن ادا کیے ،مگر نام میں وہ غچہ کھا گیا جب جب اس نے جنابِ جلیل خاں کہا تو جلیل کا ’’ ج‘‘ ذال سے بدل گیا۔ جلسے میں اکثر پڑھے لکھے اور اردو داں موجود تھے۔ ذال سے جلیل خاں پر لوگوں کے ہونٹوں پر تبسم رقص کر رہا تھا،ظاہر ہے حضرت جلیل خاں نے بھی اس تلفظ کو نوٹ کیا اور جب وہ مائک پر تشریف لائے تو ان کا پہلا ہی جملہ تھا۔’’ میاں ناظم ِجلسہ! کاش آپ نے اُردو اچھی طرح پڑھی ہوتی تو آج یہاں یہ ذلالت نہ پیش آتی ۔ حاضرین کی طرف انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا : ذرا آپ ہی بتائیے کہ ’ ذلیل‘ کون ہوا۔؟‘‘ پورے مجمع کی نظریں ناظم جلسہ کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اورزور دار قہقہے سے ہال گونج رہا تھا۔ اردو کی یہی نزاکت ہے جو اس کی طرف سے غافل ہوا تو پھر وہ’’ ذلیل‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ رہی نوازنے کی بات تو لتا منگیشکر کا اعتراف اظہر من الشمس ہے۔۔۔۔۔ اُردو سے کیا ملتا ہے۔۔۔۔۔۔؟
لتا جی کے اس بیان میں موجود ہے۔ کاش ہماری نئ نسل اسے سمجھ سکے۔
ندیم صدیقی