سچی باتیں۔۔۔زیردستوں کے ساتھ ہمارا رویہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

01:35PM Fri 12 Mar, 2021

1928-03-30

اعلیٰ حضرت جب ’’اقصر‘‘ میں مصری فراعنہ کے مقبروں کا معائنہ کررہے تھے توآپ کے جوتے پر گرد بہت جم گئی تھی۔ ایک مصری خادم بُرش لے کر حاضر ہوا، کہ جوتا صاف کردے۔ مگر بادشاہ نے اُسے منع کردیا اورکہا ’’استغفر اللہ یہ ناممکن ہے!‘‘ مسجد محمد علی پاشا میں جب داخل ہونے لگے تو مسجد کا ایک دربان چرمی موزے لے کر آگے بڑھا، تاکہ بادشاہ کے جوتوں پر چڑھادے، مگر بادشا ہ نے خادم کا ہاتھ پکڑلیا۔ موزے خود اپنے ہاتھ سے پہنے اور کہا’’میں کسی انسان کے لئے بھی گوارا نہیں کرسکتا کہ میرا جوتا چھوئے۔ مجھے اپنا جوتا خود چھونا چاہئے‘‘۔ یہ واقعات ، جوبہت سے اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں، ایک خو دمختار والیِ ملک، فرماں روائے افغانستان شاہ امان اللہ خاں غازی کے ہیں، جن کی چاکری کے لئے سیکڑوں خادم ہروقت آمادہ رہتے ہیں، اور جن کی خدمتگزاری اور فرماں پذیری ہزاروں انسان اپنے لئے باعث فخر وشرف سمجھتے ہیں۔ آپ تو کسی خود مختار کیا معنی، کسی باجگزار سلطنت کے بھی فرماں روا نہیں۔ غالبًا کوئی بڑے رئیس بھی نہیں، آپ کا طرزِ عمل کیاہے؟ آپ کی عام عادت، اورآپ کا عام دستور اس باب میں کیاہے؟ آپ بھی اپنا کام دوسروں سے لینا اسی طرح ناپسند فرماتے ہیں؟ آپ بھی اپنے زیردستوں کو اپنا ہی جیسا انسان تسلیم فرماتے ہیں؟ آپ بھی اپنے دفتر کے چپراسیوں، اپنے گاؤں کے اسامیوں، اپنے گھر کے پروردہ غلاموں میں کسی طرح کی عزّتِ نفس وخود داری کی روح تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟ آپ بھی اپنے ہاں کے نائیوں اور دھوبیوں، بوچڑوں، اور موچیوں، مزدوروں اور چرواہوں، پاسیوں اورچماروں، چوہڑوں اور مہتروں میں غیرت وحمیت کا احسا س گوارا فرماسکتے ہیں؟ آپ کے نزدیک عزت کے حقدار توشاید صرف لاٹ صاحب اور ہکتر صاحب، راجہ صاحب اور نواب صاحب، دیوان صاحب اورنائب صاحب، ’’بڑے ‘‘صاحب اور ’’چھوٹے‘‘ صاحب ، ڈپٹی صاحب اور منصف صاحب، ڈاکٹر صاحب اور حکیم صاحب، مولانا صاحب اور شاہ صاحب، میر صاحب اور شیخ صاحب، مرزاصاحب ، اور خاں صاحب، بیرسٹر صاحب اور انجینیر صاحب ہیں۔ اور اِن ’’صاحبوں‘‘ کے علاوہ ، اللہ کی بیشمار مخلوق، جو آپ کے محلہ میں، آپ کے پڑوس میں، کچّے اور ٹوٹے ہوئے مکانوں میں، پھونس کے جھوپڑوں میں ، گرے ہوئے کھنڈروں میں زندگی کے دن بسر کررہی ہے، جو آپ کو چھوٹی چھوٹی دوکانوں پر سودا تولتی ہوئی اور اپنے ہاتھ سے خرید کر گھر لاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، اور جوآپ کو بازار کی گلیوں میں ، میلہ کے ہجوم میں، اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر، کھیت کی مینڈوں پر، اپنی پیٹھ اور اپنے سر پر، بھاری بھاری بوجھ لادے ہوئے نظر آتی ہے، نہ کوئی عزت رکھتی ہے، نہ کسی حُسن سلوک کی مستحق ہے! یہ سب ’’کمینے ‘‘ ہیں، اور کمینوں کے لئے آپ کی ’’شرافت‘‘ نے طے کردیاہے، کہ بجز گالی اور مار کے کوئی اور برتاؤ درست نہیں! اِن سے آپ جتنی مرتبہ چاہیں، اپنے جوتے۔ صاف کرائیں، اپنے بوٹ کی ڈوری بندھوائیں، ان کے جسم پر اپنی ٹھوکروں……کی مشق کریں، سب کچھ بالکل جائز ومناسب ہے، ’’شرافت‘‘ کا عین اقتضاء ہے، اور’’اُن کمینوں‘‘کے لئے باعث سرفرازی وسربلندی ہے!۔ شاہ امان اللہ غازی کازمانہ پہلی صدی ہجری کا نہیں، حضرت عمرؓ کا عہد خلافت نہیں، عمر بن عبد العزیزؒ کا بھی دورِ حکومت نہیں، بیسیوں صدی عیسوی اور چودہویں صدی ہجری کا زمانہ ہے، میلاد مسیح سے ۱۹۲۸سال اور ہجرت نبویؐ سے ۱۳۴۶ سا ل اِدھر کا زمانہ ہے، پُرانا نہیں، نیا زمانہ ہے۔ اللہ کے احکام کی تعمیل ہم پر بار، اور سنتِ رسولؐ پر چلنا ہمارے لئے دشوار ، حضرت عمرؓ کی پیروی ہم سے نہیں بنتی، عمر بن عبد العزیزؓ کی روش ہم سے نہیں نبھتی، شریعت کی تعلیم ہمارے لئے ناقابلِ عمل، تصوف کی تلقین ہماری ہمت سے بالاتر! تو کیا موجودہ زمانہ کے ایک بادشاہ ، اور متمدن ودنیادار بادشاہ کی نظیر بھی بیکار وبے اثر رہے گی! اور انسان کی عظمت سے انسان کا دل اب بھی خالی رہے گا!۔ https://telegram.me/ilmokitab/