سچی باتیں۔۔۔ شب قدر کی اہمیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

07:47PM Sat 2 May, 2020

2020-04-25

اس ماہ مبارک میں ایک شب مبارک ایسی آتی ہے ، جسے خدائے پاک نے ہزار مہینوں سے بہتر فرمایا ہے، اور رسول خداؐ نے جس کی برکتوں اور فضیلتوں کی بہت سی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ رات ، ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی کسی طاق رات (یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، یا انتیسویں) کو واقع ہوتی ہے۔ لوگ ا س کی بزرگیوں اور برکتوں سے کی تفصیلات سے واقف ہیں، اس لئے ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ سوال صرف یہ ہے، کہ خود ہم میں اس مبارک رات، شب قدر ،کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاٰحیت کہاں تک موجود ہے؟یہ رات آخر ابو جہل وابو لہب پر بھی تو گزری، مگر انھوں نے اس سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا۔ پس معلوم ہوا کہ کسی بابرکت شے سے فائدہ اٹھانے کے لئے قابلیت وصلاحیت ہونا بھی ضروری ہے۔ پانی سب جگہ برستاہے ، مگر کوئی زمین سبزہ زار بن جاتی ہے، اور کوئی بدستور خشک رہتی ہے ۔ سو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے تئیں، شب قدر ، کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے کہاں تک اہل ؛ قابل بنایا؟ ہم میں کتنے ایسے ہیں جنھوں نے پورے مہینہ کے روزے رکھے؟ کتنے ایسے ہیں جنھوں نے روزہ کے شرائط پورئے کئے؟ کتنے ایسے ہیں جنھوں نے دنیا کی نمائش کے لئے، اور دوسروں کے اثر ودباؤ سے نہیں، بلکہ محض امر الٰہی کی تعمیل میں، ہنسی خوشی بھوک اور پیاس کی تکلیف کو گواراکیا؟ کتنے ایسے ہیں ، جنھوں نے روزہ کی حالت میں غصہ، بدمزاجی، اور جھنجلاہٹ کے بجائے اپنی طبیعت میں ضبط، تحمل، انکساری وفروتنی کو غالب رکھا؟ کتنے ایسے ہیں، جو اِسراف سے بچے؟ کتنے ایسے ہیں، جنھوں نے بجائے حرص وہوس، دن بھر اپنے نفس میں قناعت وصبر وشکر کے جذبات کو ترقی دی؟ کتنے ایسے ہیں جنھوں نے بھوکوں، پیاسوں، ناداروں، اور محتاجوں کے ساتھ بھی ہمدردی کی ضرورت کو محسوس کیا؟ کتنے ایسے ہیں، جنھوں نے افطار، سحر، وطعام شب کی بے احتیاطیوں ، بے اعتدالیوں اور نمائشی فیاضیوں سے اپنے تئیں باز رکھا؟ کتنے ایسے ہیں ، جنھوں نے اپنے وقت عزیز کا ایک معقول حصہ قرآن پاک کے پڑھنے اور اس کے معنی سمجھنے میں صرف کیا؟ کتنے ایسے ہیں ، جنھوں نے پانچوں وقت نماز باجماعت پابندی اور خوش دلی کے ساتھ ادا کی؟ کتنے ایسے ہیں ، جن کا دل اپنے ہم مذہبوں کی مصیبتوں اور تکلیفوں پر نرم ہوا؟ اگر ہم نے اپنی غفلت ونادانی سے اس مبارک مہینہ کے بابرکت گھنٹوں اور گھڑیوں کو ضائع ہونے دیا، اگر ہم نے یہ سارا زمانہ بھی نفس پرستی وتن آسانی کی نذر رکھا، اگر ہماری روح یہ مہینہ بھی زندہ نہ کرسکا، تو ہم ایسے بدبختوں اور شامت زدوں کے لئے ہزارہا شب قدر کا آنا اور جانا سب برابر ہے۔ البتہ اگر ہم کو فضل خداوندی سے یہ توفیق حاصل ہوگئی ہے ، کہ ہم اپنی کمزور بساط اور ناتوان حیثیت کے مطابق کچھ بھی ، لعلکم تتقون، کا منشاء خداوندی پورا کرسکے ہیں ، اپنی قوت ایمانی کو کچھ بھی تازہ کرسکے ہیں، اپنے مسلم ومومن ہونے کا کچھ بھی ثبوت، اپنے عمل سے دے چکے ہیں، تو ان شاء اللہ شب قدر کی برکتوں سے ہم محروم نہ رہیں گے، توفیق الٰہی یقینا ہماری دستگیری کرے گی، اور جن فیوض روحانی ومادی ، اور برکات دینی ودنیوی کے وعدے ہم سے کئے جاچکے ہیں، وہ ضرور پورے ہوکر رہیں گے۔