سچی باتیں۔۔۔ تقوی کی اہمیت۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:19PM Sun 19 Dec, 2021

1927-12-02

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (3)

 اور جو کوئی اللہ سے تقویٰ اختیار کرتاہے، اللہ اُس کے لئے کشائش پیداکردیتاہے، اور جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوتا، اُسے روزی دیتاہے، اور جو کوئی اللہ پر توکل رکھے، پس وہ اُس کے لئے کافی ہے، یقینا اللہ اپنا ہر کام پوراکرلیتاہے، اللہ نے ہرشے کا اندازہ ٹھہرا رکھاہے۔

یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، کسی انشاپرداز کی عبارت آرائی نہیں، کسی انسانی دماغ سے نکلا ہوامقولہ نہیں، زمین وآسمان کے پیداکرنے والے، تمام اشیاء کو نیست سے ہست کرنے والے جملہ اسباب ووسائل کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھنے والے کا ارشادہے، جو قرآن پاک کی سورۂ طلاق کے رکوع ۲ میں وارد ہواہے۔ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ آپ بھی دنیوی کا میابی کے لئے تقویٰ کی اس اہمیت کے قائل ہیں؟ آپ بھی توکل کو ایسی ہی اہم اور ضروری چیز خیال کرتے ہیں، یا اس کے برعکس ایک ضعیف الاعتقادی وخام خیالی؟

آیۂ کریمہ کا مفہوم واضح ہے، کسی تفسیر وتحشیہ کی حاجت نہیں۔ ارشاد ہوتاہے ، کہ جو کوئی اللہ سے تقویٰ اختیار کرتاہے، جو خوف خدا، خشیت الٰہی، امانت، صداقت، دیانت کو اپنی روشِ زندگی بنالیتاہے، اُس کے لئے اسی مادی دُنیا میں کامیابی اور کشائش کی نئی نئی راہیں اللہ پیدا کرتا رہتاہے، اور سامانِ معاش ومعیشت اسے اُن اُن ذرائع سے بہم پہونچاتارہتاہے، جن کا اُسےکچھ وہم وگمان بھی نہیں ہوتا، اور جوکوئی اللہ پر توکل واعتماد رکھتاہے، وہ اپنی مراد کو پہونچ کررہتاہے، اس لئے کہ اُسی کی ذاتِ پاک توتمام اسباب کی پیدا کرنے والی اوراُن پر قدرت رکھنے والی، اور وہی تو ہر ضرورت اور اُس کے سامان کا اندازہ داں اور اُس کی بہم رسانی پر تنہا، بغیر کسی کی شرکت وامداد کے قادر ہے۔ پس اپنے ذہن کو درمیانی واسطوں اور وسیلوں میں کیوں اتنا اُلجھائے ہوئے رہتے ہو، براہ راست اُسی مسبب الاسباب ، اُسی قادر مطلق سے کیوں نہیں تعلق پیدا کرلیتے۔ اسباب کا جال بھی اُسی حکیم مطلق کا پھیلایا ہواہے، اس لئے ان سے کام لینے کو منع نہیں فرمایا، ان سے واسطہ رکھنے کو حرام نہیں قرار دیا، لیکن ان پر تکیہ کرنے، ان پر اعتماد کرنے، ان سے دل کے اٹکانے کو یقینا جہالت ونادانی بتایاہے، اور اس اعتماد وتوکل، اس بھروسے اور سہارے، کے لائق صرف اپنی ہی ذات کو قرار دیاہے۔ یہ اللہ کا فرمان تھا، اور اسی کی بناپر رسولؐ کا یہ عمل تھا، کہ عین اُس شب کو جب کہ مکہؔ کی ساری آبادی خون کی پیاسی ہورہی تھی، اور قتل کرنے والے سازشی اور خونی موقع کے منتظر مکان چکر کاٹ رہے تھے، اپنے محبوب اور عزیز ترین بھائی علیؓمرتضی کو اپنے بستر خواب پر لِٹاکر، اورقرآن کی یہ آیت پڑھتے ہوئے کہ ’’ ہم نے ان کافروں کے آگے اور پیچھے دیواریں کھڑی کردی ہیں، اور ہم نے اُن کی آنکھوں پر پردے ڈال دئیے ہیں کہ وہ نہیں دیکھتے‘‘مکان سے باہر تشریف لے آئے ، اور خونیوں میں سے بھی کوئی بھی نہ دیکھ سکا!

یہ اللہ کا ارشاد اور رسولؐ کاعمل تھا، اب اپنے دل سے دریافت ہو، کہ آپ کا خیال اور آپ کا عقیدہ، آپ کی عادت اور آپ کا عمل اس باب میں کیاہے؟ دیکھنے میں تو یہ آیاہے، کہ آپ کو جب کبھی کسی معاملہ میں کامیابی حاصل ہوئی، تواُسے ہمیشہ آپ نے اپنی ہی کوشش وپیروی، اپنے اثر اورجوڑ توڑ، اپنی تدبیر ودانائی کا نتیجہ قراردیا۔ مقدمہ میں جب آپ کو فتح ہوئی، تواُس کا سہرا ہمیشہ آپ کی دوڑدھوپ اور آپ کے وکیل صاحب ہی کی ذہانت وقابلیت کے سربندھا۔ ملازمت اگرآپ کو آپ کی مرضی کے موافق مل گئی، تواس پرآپ نے ہمیشہ اپنی ہی حکام رسی، اپنے ہی اعلیٰ اسناد، اور اپنے ہی اثرورسوخ کو قابل مبارکباد سمجھا۔ بیماری سے جب آپ کو شفاہوئی، تو ہمیشہ آپ نے اپنے معالج ہی کی حذاقت ومسیحائی کا کلمہ پڑھا۔ غرض زندگی کے ہرہر شعبے میں آپ نے جب جب توکل واعتماد کیا، تو ہمیشہ داروغہ صاحب اور ڈپٹی صاحب ، کلکٹر صاحب اور جج صاحب، ڈاکٹر صاحب اور حکیم صاحب، وکیل صاحب اور بیرسٹر صاحب، راجہ صاحب اور نواب صاحب، وزیر صاحب اور لاٹ صاحب اسی پر اکتفا کیا، اور ان سے بڑھ کر خوداپنے دل ودماغ ، اپنی عقل وتدبیر پر کیا۔ پراِن تمام صاحبوں کے صاحب کا جلوہ بھی کبھی آپ نے اپنے دل کی گہرائیوں میں دیکھا؟ ان تمام جھوٹے خداؤں کے سچے خدا کے فضل وکرم سے کبھی آپ نے اپنے دل کو اٹکایا؟ تماشاگاہِ شہود کی ان ساری کٹھ پتلیوں کے پیچھے جو پُرقوت غیبی ہاتھ ہے، کبھی اُس کے چومنے اور آنکھوں میں لگانے کی گدگدی بھی آپ کے دل میں پیدا ہوئی؟