تجربات ومشاھدات (6)۔۔ تحریر: مولانا بدر الحسن القاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

08:30PM Sun 2 May, 2021

     تلخ وشیریں :۔

ڈاکٹر عبد المنعم النمر اجلاس صد سالہ کے زمانہ میں مصر کے وزیر اوقاف تھے جب وہ اجلاس میں شرکت کیلئے آئے تو بڑی توقعات کے ساتھ آئے اپنے ساتھ وفد میں قاری عبد الباسط عبد الصمد اور ڈاکٹر عبد المعطی بیومی کو لائے تھے، دہلی میں میں نے ملاقات کی  اور کچھ باتیں ہوئیں تو بیحد مانوس ہوگئے اور فرمانے لگے کہ

"انت شاب واع لابد ان تزور مصر" لیکن دیو بند میں ان کا جو حشر ہوا، اسکے بعد کویت میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ :۔

"لو رأیتک فی مصر لضربتک "

در اصل وہ تنہا مہمان تھے جو دارالعلوم میں کئی سال اپنی جوانی میں استاذ رہ چکے تھے

 دارالعلوم کےاکابر ہی نہیں ہندوستان کی تاریخ ،حضرت شاہ ولی اللہ دھلوی کی تحریک، ریشمی رومال کی تحریک، دارالعلوم کی تاسیس سے آزادی کے کے بعد تک کی تاریخ، مسلمانوں کی بر صغیر میں عھد بعہد تاریخ سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس پر مبصرانہ نظر رکھتے تھے،

انہوں نے

تاریخ الاسلام فی الھند

کفاح المسلمین فی الھند

مولانا ابو الکلام آزاد

نامی تین کتابیں لکھی ہیں اور منصفانہ لکھی ہیں ،یہاں کی تہذیب  وثقافت ادیان ومذاھب  یہاں کی عھد بعہد کی تاریخ 1947 م میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خونچکاں داستان اور مولانا آزاد کی عبقریت انکی  کم عمری ہی سے صحافیانہ  قائدانہ اورزعیمانہ شان پر تحقیقی کتابیں لکھی ہیں ،

وہ ازھر سے فراغت کے بعد ہی مدرس کی حیثیت سے مبعو ث ہو کر آگئے  تھےانہوں نے ڈاکٹریٹ تک کی تیاری یہیں رہ کر کی،انہوں نے مختلف صوبوں کادورہ بھی کیا تھا مورخین سے ملے مولانا سید حسین احمد مدنی مولانا محمد میاں دھلوی ،مولانا قاری محمد طیب صاحب وغیرہ سب سے انکو بھر پور تعاون ملاتھا۔انہوں  نے یہاں مشایخ کے در میان اپنی ڈاڑھی بھی بڑھالی تھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے ممبئی  میں  ڈاڑھی  منڈا تے ہوئے

"یا اھل الھند خذوا لحیتکم "کہا اور یہاں کی ڈاڑھی یہیں چھوڑگئے میں نے انکی ڈاڑھی کے ساتھ اور بغیر ڈاڑھی کے دونوں تصویریں دیکھی ہیں، وہ شیخ عبد الحلیم  محمود کے بعد تھوڑے دنوں کیلئے قائم مقام شیخ الازھر بھی رہے ،دینی موضوعات پر  کئی کتا بیں بھی انہوں نے لکھی ہیں  سود وغیرہ کے بارے میں انکے بعض نظریات غلط اور ناقابل قبول ہیں، وہ اپنے ڈیل ڈول  لباس اور وضع قطع اور زبان پر قدرت کے لحاظ سے نمایاں نظر آتے تھے

زباں آور خطیب بھی تھے ، طویل عر صہ تک کویت میں رہے ماہنامہ مجلہ" الوعی الاسلامی "کی بنیاد بھی انہوں نے ہی رکھی اور وہی اس کے پہلے اور کامیاب ایڈیٹر رہے۔

اجلاس کے موقع پر ان کی بے توقیری دیوبند والوں کی طرف سے نہیں خود عرب مہمانوں کی طرف سے ہوئی تھی بد قسمتی سے صدر محمد انور السادات کے زمانہ میں وزیر اوقاف تھے جو نئے نئے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاھدہ پر دستخط کر کے آئے تھے اور تمام عرب ملکوں نے فوری ردعمل کے طور پر تعلقات توڑ لئے تھے

اور کسی صحافی نے عنوان قائم کیا تھا کہ :۔

   "اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی"

اب تو سبھی سادات سے آگے جانے کیلئے نہ صرف تیار ہیں بلکہ آگےجا چکے ہیں اور اس وقت کے" ساداتی" کہنے لگے ہیں کہ

آنچہ دانا کند کند ناداں

لیک بعد از خرابئ بسیار

اسٹیج پر عبد المعطی بیومی جیسے ہی صدر کا پیغام پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے اسٹیج خالی ہوگیا اور وزراء علماء سمیت سارے عرب مہمانان باہر کھڑے ہوگئے  اور پیغام ختم ہونے کے بعد ہی اسٹیج پر واپس آئے بلکہ اسکے بعد بھی اسعد بیوض تمیمی نامی ایک فلسطینی شیخ نے انتہائی جذباتی تقریر کے دوران غیر مہذب گالی دینے سے بھی گریز نھیں کیا، میں ترجمہ کر رہاتھا وہ الفاظ ترک کردینے کے باوجود  میں شرم سے پانی پانی اور خطیب صاحب جوشیلی  تقریر سے پسینہ میں شرابور  کہ جیسے  ابھی ابھی فلسطین آزاد کرا کے معرکہ سے واپس آرہے ہیں اور جو چیز سامنے آئے اسے بھسم کر کے ہی دم لیں گے، آج تک سلطنت عمان کے مفتی اعظم اور جن لوگوں نے وہ منظر دیکھا تھا میر ی قابل رحم حالت کا ذکر کرکے چٹکی لیتے ہیں۔

 ہماری قوم کا یہی حال ہے کہ:۔

گہے بر  طارم  اعلی    نشینم

گہے بر پشت پائے خود نہ بینم

قاری عبد الباسط عبد الصمد اپنی آواز کی تبدیلی پر  بے مثال قدرت اور اپنے سانس پر کنٹرول  کے لحاظ سے قدرت کی ایک نشانی ہی تھے، سادہ لباس  بے ریش وبرود چہرا اور  روایتی طویل جبہ میں جب وہ اپنی آواز کا جادو جگاتے اور قرآن کریم کی آیتیں ان کی آواز کے زیر وبم سے گزرتیں تو عجیب  سماں بندھ جاتا اور ایسا محسوس ہوتا  کہ تھوڑی دیر کیلئے جیسے  کائنات کی حرکت تھم گئی ہو اور زمین  کا ہر ذرہ  خاموش فضا میں انکی آواز میں قر آن  سننے کیلئے گوش بر آواز ہو گیا ہے، اصل اعجاز تو قرآن کریم  کا ہے  اس کا ظہور کبھی قاری کی آواز سےہوتا ہے کبھی خطاط کے قلم  کی نوک سے اور کبھی کسی زباں آورخطیب کے بر محل استشھاد سے اور دل پکار اٹھتا ہے کہ" جا اینجاست"

اجلاس  کی رپور ٹنگ کے دوران سعودی صحافی محمد  محمود حافظ  نے لکھا کہ ایک زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ قاری عبد الباسط عبد الصمد کا گلا (حنجرة)پچاس ہزار لیرہ کا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ اجلاس کے عوامی رنگ اور  کچھ لوگوں کی طرف سے ریشہ دوانیوں نے  ہر نعمت کی ناقدری کی اور ہر لطف کو غارت کیا  ،فالی اللہ المشتکی

شیخ عبد الفتاح ابو غدہ

کانفرنس میں شرکت کیلئے جب میں پہلی بار ریاض پہنچا  "فندق انٹر کونٹیننٹل "ریاض میں رہائش تھی ، ایک دن ہوٹل کے کاونٹر پر پرچی ملی۔

 "الفقیر عبد الفتاح ابو غدہ حضر الساعة السابعة مساء ولم اجدک فی الغرفه " والسلام

مجھے بے حد شرمندگی ہوئی کہ کسی دوسرے کمرہ میں کیوں تھا ؟

ٹیلیفون پر معذرت کی تو شیخ نے اگلے دن دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا اور کہا کہ میں گا ڑی بھیج دونگا تم آجانا

اس سے پہلے" الداعی "کے ذریعہ تعارف توتھا لیکن ملا قات  کی نوبت نہیں آئی تھی ، علامہ انور شاہ کشمیری کے یہاں "تواتر "کی قسموں کا ذکر پڑھ کر انہوں نے دریافت کیا تھا کہ تم نے کہاں سے نقل کیا؟

اگلے دن گاڑی آئی اور انکی رہائش گاہ پر حاضری ہوئی  تو منتظر تھے بڑی محبت سے ملے انکی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ کسی حکمت یا علمی وادبی فائدہ پر مشتمل ہوتا تھا اور کوئی بات رقت آمیز ہو تو آنسو بھی اتنی ہی جلد آنکھوں میں آجایا کرتے تھے وہ نہایت ہی غزیر العلم   ذکی الفہم زکی الطبع  رقیق القلب سریع الدمع  انسان  تھے میں نے ان سے بڑھ کر ان اوصاف میں کسی اور کو نہیں دیکھا

شیخ نے کھانے کے ساتھ بہت سے علمی فوائد اور ادبی فرائد سے بھی ساتھ بیٹھنے والوں کو روشناس کراتے رہتے تھے اور زبان کی غلطیوں پر بھی نہایت لطیف انداز سے تنبیہ کرتے رہتے تھے مثال کے طور پر بر صغیر میں پڑھے لکھے لوگ بھی "مشائخ" ہمزہ سے لکھتے اور بولنے کے عادی  ہیں جب کہ عربی میں مشایخ "ی" سے لکھنا چاہیے ،توجب  شیخ  کسی کو تنبیہ کرتے توفرماتے:    "ھمز المشایخ لایجوز"

انہوں نے اسی مجلس میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتاب" فتح الملھم"شرح صحیح مسلم کا مقدمہ دکھلایا  کہ میں نے اسکی تحقیق وتعلیق کا کام مکمل کرلیا ہے یہ بات 1979م کی ہے ، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر مجھے یہ مقدمہ پہلے مل گیا ہوتا تو مولانا ظفر احمد عثمانی کی "قواعد فی علوم الحدیث" پر اسے ترجیح دیتا اور اسے پہلے شائع کرتا، تقریبا اسکے بعد بھی 25 سال تک مسودہ تحقیق شدہ شیخ کے پاس رکھا رہااور طباعت کی نوبت نہیں آئی ،اب ایک دوسال پہلے  انکے بیٹے شیخ سلمان ابو غدہ کے اھتمام سے شائع ہوا ہے اسکا نام شیخ نے خود ہی " مبادئ علم الحدیث واصولہ "رکھا تھا اور اسی نام سے شائع ہوا ہے فالحمد للہ علی  ذلک،

اسمیں بھی اللہ تعالی کی مصلحت تھی کہ دونوں کتابیں  خود شیخ کی تحقیق وتعلیق کیساتھ شائع ہوگئیں اعلاء السنن کا مقدمہ" قواعد فی علم الحدیث "کے نام سے اور فتح الملھم کا مقدمہ "مبادئ فی علم الحدیث واصولہ "

ایک تو اسلئے کہ ان علماء سے انکو قلبی تعلق ہے اور وہ ان کے علمی مقام سے اچھی طرح واقف ہیں  دوسرے اسلئے کہ تعبیر یا زبان و بیان کی کہیں پیچیدگی ہے تو وہ اسکے پس منظر تک آسانی سے پہنچ سکتے تھے اور اصل مراجع کے صحیح ایڈیشن یا مخطوط نسخہ  سے اسکی تصحیح کر سکتے تھے ،پر انکے یہاں  عبارت کی تصحیح اور الفاظ کی تشکیل وغیرہ کا جتنا اھتمام ہے وہ کسی اور کے یہاں  ممکن نہیں تھا، شیخ جب دوسری با ردیوبند تشریف لائے تو میں گاڑی لیکر دہلی انکو  لانے کیلئے گیا  مسجد عبد النبی میں ٹھہرے ہوئے تھے

میں نےدیکھا کہ انہوں نے  کمرے میں مغرب اور عشا ء کی نماز ایک ساتھ پڑھی یعنی مسافر ہونے کی حیثیت سے جمع بین الصلا تین کیا اور جمع تقدیم کیا  تو میں نے عر ض کیا کہ شیخ آپ تو احناف کے معتمد امام ہیں اور احناف کہتے ہیں کہ" لآجمع الا بجمع "سوائے مزدلفہ کے کہیں جمع مشروع نہیں ہے پھر آپ نے دو نوں نمازیں ساتھ کیسے پڑھیں

وہ مسکرائے پھر فرمایا :آخذت بمذھب تلمیذ تلمیذ امامنا

یعنی میں نے اپنے امام کے شاگرد کے شاگرد کے مسلک پرعمل کرلیا۔

امام شافعی امام محمد کے شاگرد اور امام محمد امام ابو حنیفہ کے شاگرد تو میں نے  اپنے  امام کے شاگرد  کے

 شا گرد کے مذھب پر عمل کر لیا

بڑے اور مستند علماء کے اس طرح کس دوسرے مذھب کے جزئیہ پر کبھی عمل کر لینے  سے ضرورت کے وقت اوروں کیلئے گنجائش نکلتی ہے، جس طرح امام ابویوسف کا اہل مدینہ کے مسلک پر عمل کرنا ہارون رشید کے پیچھے  حجامت کی حالت میں  نماز پڑھ لینا ، دہلی سے دیوبند تک پورے راستے بے حد بے تکلف رہے ،زبان  پرکبھی،

آخر شئ انت فی کل ھجعة

واول شئ انت عند هبو بي

اور کبھی ذکر یا درود کے کلمات،

دیوبند میں تقریر کے بجائے تدریس کو تر جیح دی چنانچہ مقدمہ ابن الصلاح  کا درس دیا، اسٹیج پر میں نے تعریفی کلمات کہے اور کہا کہ:

 البیت يعرفه والحل والحرم

تو ر ونے لگے اور کہا کہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کیا کرو _

 ( جاری ...........)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/dr-baderqasmi/