حج کا سفر ۔۔۔۔ جہاز کا نظم کار (6)۔۔۔   مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

09:39PM Sun 28 May, 2023

یاد آیا کہ ایک بغدادی درویش نے ایک ہندی حاجی سے آج سے پونے دو سو برس پہلے بڑی تسلی بخش بات کہی تھی، مولانا حاجی رفیع الدین فاروقی مراد آبادی ۱۲۰۱ ھ میں حج کو گئے تھے انہوں نے ایک سفر نامہ بھی فارسی میں لکھا تھا جسے ہندوستان کا سب سے پہلا سفر نامہ حج کہا جاتا ہے، ان کا بیان ہے۔۔

"مطاف میں (خانہ کعبہ کے سامنے) ایک درویش علی نام جو بغداد کے رہنے والے ہیں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے، مرد صالح اور عالم ہیں، بعد مکالمہ وحصول تعارف میں نے ان سے کہا کہ تم مرد صالح ہو میرے لئے دعا کرو کہ حق تعالی میری مغفرت کرے اور میرا یہ سفر قبول فرمائے، انہوں نے کہا: کیا تم اس شخص کو جس سے راضی نہیں ہو اپنے گھر آنے دیتے ہو؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا بس اسی طرح اللہ تعالی انہیں لوگوں کو اپنے گھر بلاتا ہے جن سے راضی ہوتا ہے اور بیگانوں کو اپنے گھر میں داخل ہونے نہیں دیتا، انہوں نے مزید کہا حق تعالی اپنے علم قدیم کی رو سے ہمارے ایک ایک عیب کو جانتا ہے اور تم جانتے ہو کہ جب کوئی شخص کسی غلام کو اس کے کسی عیب پر مطلع ہو کر خریدتا ہے تو پھر اس عیب کی وجہ سے اس غلام پر عتاب نہیں کرتا ہم بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے امیدوار ہیں کہ ہمارے ان عیبوں کو جن سے وہ ہمارے پیدا ہونے سے پہلے سے واقف ہے پوشیدہ رکھے گا اور ان کی بنا پر ہم سے مواخذہ نہ کرے گا" یہ تو نہیں کی اس دل جمعی کے بعد پورا اطمینان ہو گیا ہو، کھٹک رہ رہ کر ہونے لگتی تھی پھر بھی جہاز کا بڑا وقت سکون اور اطمینان ہی میں گزرا، دو ایک دن جہاز پر گزار لینے کے بعد سبھی کی طبیعتیں معتدل ہو چکی تھیں اور باہم مل بیٹھنے کے مواقع ہاتھ آنے لگے تھے۔

اتفاق سے کان پور کے بھی کئی حضرات آس ہی پاس مل گئے مثلاً اشتیاق حسین صاحب، محمد شریف صاحب، قديرالدین صاحب، رشید احمد صاحب وغیرہ یہ سب حضرات تقریباً یکجا تھے اور اشتیاق صاحب فنجانی چائے خوب بناتے تھے، انہیں کے درجہ اولی میں چائے نوشوں کی اکثر بیٹھک رہتی تھی اور باتیں یہی ہوا کرتی تھیں، بار بار مولانا رفیع الدین مراد آبادی سے بغدادی درویش کی کہی ہوئی بات یاد آتی اور اپنی طرح کے ساتھیوں کو یاد دلانا پڑتی تھی۔

اس دفعہ پہلی بار حاجیوں کو ایک نئی صورت حال سے محض ناواقفیت کی بنا پر دوچار ہونا پڑا، ہوتا یہ تھا کہ عازمین حج کو روانگی سے قبل جن ایک ہزار روپیے لے جانے کی اجازت تھی ان کے حج نوٹ دیئے جاتے تھے یہ حج نوٹ جہاز پر بھی کام آتے تھے اور حجاز میں بھی، اس سال یہ صورت بدل گئی؛ اب ایک ہزار کے حج نوٹ دینے کے بجائے حجازی سکہ "ریال" کا ایک ڈرافٹ دیا گیا بیشتر حاجیوں نے پورے ایک ایک ہزار کی رقم کا ڈرافٹ بنوا لیا، وہ جہاز پرسوار ہوئے تو خالی ہاتھ تھے؛ اس لئے کہ اور رقم لے جانے کی اجازت نہیں، اس نئی صورت حال کا علم ہمیں بمبئی ہی میں ہو گیا پہلے ہی سے ہم ارادہ رکھتے تھے کہ اگر جہاز پر تیسرے درجے کا کھانا پسند نہ ہوا تو درجہ اول کا کھانا مزید دام دے کر منگالیں گے، مگر جب جیب میں دام ہی نہ ہوں گے تو کیا کریں گے، اس سلسلے میں تھوڑی بہت جانچ پڑتال کے بعد یہ پتہ چل گیا کہ اگر کوئی چاہے تو چالیس روپے حج نوٹ کی شکل میں جہاز کے خرچے کے لئے انہیں ایک ہزار روپے میں سے الگ کرالے اور باقی کا ڈرافٹ بنوالے، ہم نے ایسا ہی کیا، فی کس دس دس روپے کے چار حج نوٹ لے لیے باقی نو سو ساٹھ روپیے فی کس کے آٹھ سو نوے ریال کا ڈرافٹ بنوا لیا۔

ہمارے بہت سے ہم سفروں سے اس سلسلے میں چوک ہوگئی وہ اس مغالطے میں رہے کہ ایک ہزار روپیہ پورا ڈرافٹ بنوانے کے لئے دے کر وہ مزید چالیس روپے جہاز کے خرچ کے لئے ساتھ رکھ سکتے ہیں اور انھوں نے ہندوستان کے نوٹ اس حساب سے رکھ بھی لئے، کسٹم میں حاجیوں سے زیادہ پوچھ گچھ نہیں ہوئی تو کسی کو اپنی غلطی کا احساس بھی نہیں ہوا۔

جہاز پر سگریٹ، چائے، پان اور کولڈ ڈرنک وغیرہ کے لئے جب ان میں سے بعض نے ہندستانی روپیہ پیش کیا تو وہ غیر رائج سکہ قرار پایا، بہتوں کو جو چکر اور متلی میں مبتلا ہوکر لیمنڈ وغیرہ خریدنا چاہتے تھے چکر پر چکر آنے لگے۔

آٹھ دن کا جہاز کا سفر مفلسی میں کیسے بسر ہوگا، خیر یہاں کھانے پینے میں اگر کوئی ضبط و صبر سے کام لے توجیب سے کچھ دینے کا سوال نہیں پیدا ہوگا، لیکن جدے میں اتریں گے، کسٹم میں رکیں گے، نہ معلوم کتنا وقت لگے گا، وہاں کہاں سے خرید کر کھائیں گے، ڈرافٹ تو حجاج منزل میں پہنچ کر بینک سے بھن پائے گا۔

اگر چہ جدے میں قلی کو سامان کا کچھ نہیں دنیا پڑے گا لیکن جو لوگ اپنے سامان کو اپنی نگرانی میں اپنے الگ قلی سے اتروانا چاہیں گے ان کو تو بہرحال مزدوری دینا ہوگی، یہ تو بڑی مصیبت آگئی ۔۔۔ جہاز پر سرکاری طور پر تو نہیں غیر سرکاری طور پر ہمارا ہندستانی روپیہ آٹھ آنے میں چل سکتا تھا لیکن جدے میں تو کوئی بھی شاید ہی اسے قبول کرے۔

سگریٹ پینے والوں کو یہ بھی پریشانی کہ جہاز پر اعلی درجے کی سگریٹ مثلاً پانچسو پچپن یا گولڈ فلیک حج روپے سے آٹھ آنے میں دس مل رہی ہیں، حج نوٹ پاس نہیں یہ حوصلہ کیسے نکلے؟

دیکھتے دیکھتے ہندستانی روپیہ ہی آدھی قیمت پر بے تکلف چل پڑا لیکن یہ غیر قانونی بات تھی ۔۔۔ مگر اضطرار کی حالت ہو تو ناجائز بھی جائز ہو جا تا ہے۔ طبیعتیں سنبھلی ہوئی تھیں لیکن عام شہرت یہ تھی کہ ابھی سقوطره (ایک جزیرہ) آنے والا ہے وہاں کے ہچکولوں میں کوئی بھی سنبھلا نہیں رہے گا، وہ بھی جو آغاز سفر میں ادنی سمندری بیماری (سی سکنس) میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔

اب سب کو سقوطرہ کا تصور ستانے لگا، ایک دوسرے سے پوچھتا تھا کہ یہ سخت مقام کب آنے والا ہے، جہاز والوں سے بھی پوچھتے تھے وہ مشاق لوگ جواب دینا خوب جانتے تھے یعنی کسی نے حتی کہ کپتان صاحب نے بھی ٹھیک ٹھیک نہیں بتایا کہ سقوطرہ کب آئے گا، غالباً اسی وجہ سے کہ پہلے سے بتا دیں گے تو بہت سے وہمی قبل از مرگ واویلا مچانے لگیں گے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں دو ایک کی طبیعت بگڑی اور چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ شاید سقوطره آگیا اور بدنام سقوطرہ ایسے وقت آیا اور چلا گیا جب تمام مسافر ٹانگیں پسارے سو رہے تھے۔

حج کا سفر ۔ جہاز کا نظم کار ۔۔۔ (۵) ۔۔۔ مؤلف: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی*

بمبئی سے جدے تک ساڑھے تیئس سو میل کی مسافت ہے، ہمارے جہاز کی رفتا اوسطاً ۱۴ میل فی گھنٹہ تھی، روزانہ بارہ بجے دن کو امیرالحج کے دفتر کے بورڈ پر یہ اعلان لکھ دیا جاتا تھا کہ اب تک جہاز کتنی مسافت طے کر چکا ہے، کتنی باقی ہے اور کیا رفتار ہے۔

چھٹے دن عدن کی بندر گاہ کے قریب ہمارا جہاز ٹھہرا تقریبا آٹھ گھنٹے ۴ بجے سہ پہر سے ۱۲ بجے رات تک، سمندر میں یہ پہلی بستی تھی جو ہمیں نظر آئی یعنی جس کی روشنیاں نظر آئیں اور کچھ کشتیاں نظر آئیں جوسامان بیچنے جہاز تک آئی تھیں۔

اس وقت عدن میں متحدہ فیڈریشن والوں اور آزادی پسندوں کے درمیان سخت جھڑپیں ہورہی تھیں اور وہاں مارشل لا نافذ تھا؛ اس لئے ہمارا جہاز بندرگاہ سے بہت دور ٹہرایا گیا، دیکھا کہ ساحل کے آس پاس بڑے بڑے جنگی جہاز کھڑے ہیں اور رات کے وقت سرچ لائٹ والی کشتیاں ان جنگی جہازوں کے گرد پہرے دے رہی ہیں۔

بعض مسافروں نے عدن کے ساحل پر اترنے کی خواہش ظاہر کی لیکن کپتان نے اسے خلاف مصلحت قرار دیا، اگرچہ اترنے کے خواہش مندوں نے قول و قرار کیا کہ وہ بس ایک چکر لگا کر چلے آئیں گے، لیکن ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کہ اگر کوئی مسافر مثلاً راستہ ہی بھول گیا یا کسی شرارت پسند کی ٹیکسی پر گھومنے گیا اور اس نے اس کو لوٹ لیا تو جہاز کے ذمہ دار کیا جواب دیں گے یا کب تک جہاز ان گمشدگان کے انتظار میں رکا رہے گا۔

کئی مسافر کشتیاں ہمارے جہاز کے قریب آئیں جو پانچ پانچ روپے فی کس کے حساب سے ساحل عدن تک لے جانے اور واپس لانے پر آمادہ تھیں، مگر شاید دو تین حاجی نظر بچا کر اتر پائے اور گھوم پھر کر واپس اسی طرح آگئے عام طور پر کسی کو جانے نہیں دیا گیا۔

عدن بھی ایسا ہی ساحل ہے جہاں تجارتی سامان پر کوئی ڈیوٹی نہیں لی جاتی، اس لئے بڑا سستا سامان وہاں سے خریدا جا سکتا ہے، ولایتی قیمتی سامان جو یہاں پانچ پانچ سو روپے میں ملے وہ وہاں سو، سوا سو روپے میں بک رہا تھا، وہ بھی ہندستانی سکے میں، کچھ ایسے ضرور تھے جنہوں نے ہندستانی سکے ساتھ رکھ لئے تھے اور خوب دل کھول کر انھوں نے خریداری کی، یہ خریداری ایسے انہماک کے ساتھ ہورہی تھی کہ بہت سی سنجیدہ طبیعتیں ناپسندیدگی ظاہر کئے بغیرنہ رہ سکیں۔

عدن سے جب جہاز روانہ ہوا تو رات گئے کا وقت تھا، سب ہی سو سلا چکے تھے، اب ۳۶-۴۰ گھنٹے رہ گئے تھے جب ہمارا جہاز جدہ پہنچ جانے والا تھا، اب میقات (جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے) بہت قریب تھی، ہندستان سے آنے والے حاجیوں کی میقات یلملم ہے، یہ راستے میں پڑتا ہے مگر حاجیوں کو دکھائی نہیں دیتا، کپتان اپنے نقشے سے اور اگر ضرورت پڑی تو دوربین سے اسے دیکھ لیتا ہے اور جب یلملم قریب آنے لگتا ہے توجہاز ایک سیٹی دیتا ہے، یعنی احرام باندھنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔

لوگ صبح ہی سے تیاری کر رہے تھے، حجامت بنوانا، غسل کرنا، ناخن ترشوانا اور سلے ہوئے کپڑوں کو بند کرکے ایک چادر اور ایک تہمد کو تیار رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

جہاز پر باربر سیلون تھا لیکن تقریباً دو ہزار حاجیوں کی ضرورت کو پورا کرنا ایک حجام کے بس کی بات نہ تھی، حاجیوں میں بھی بعض حجام تھے انھوں نے اپنا استرہ، قینچی نکال کر کام شروع کر دیا، فی کس ایک ریال یا دو ہندوستانی روپے کا ریٹ ہو گیا، سب نے تو نہیں آدھے سے زیادہ حاجیوں نے حجامت بنوانا بھی فرائض احرام میں شمار کیا اس طرح بیٹھے بیٹھے نائیوں کو کئی کئی سو ریال اجرت میں ہاتھ لگے۔

حاجیوں کی مزاجی کیفیت یلملم کے تصور کے ساتھ یکسر بدل چکی تھی، اب نہ چائے نوشی کے دور چل رہے تھے، نہ بیٹھ کر تبادلۂ خیال کا دور دورہ تھا، سب قرب منزل اور مقصد سفر کے تصور میں کھوئے کھوئے سے معلوم ہو رہے تھے؂

اک خلش ہوتی ہے محسوس رگ جاں کے قریب

آن پہونچے ہیں مگر منزل جاناں کے قریب

ذاتی طور پر ہم ایک زحمت میں (جو اس وقت زحمت ہی معلوم ہوتی تھی) پڑ گئے اس میں امیرالحج مولانا شاہد فاخری صاحب کی بڑی ذمہ داری تھی، یہ جاننے والے چند ہی تھے کہ ہمارا سروکار کچھ فتوے نویسی سے بھی ہے، باقی جہاز کے "مولانا" تو ہمارے امیرالحج ہی تھے، لوگ احرام سے متعلق مسائل پوچھنے آتے تھے وہ سیدھے ہمارا پتہ بتا دیتے تھے، لیجئے ہم دارالافتاء کھولے وہاں بھی نظر آنے لگے، خیریت گزری اپنی ضرورت کے لئے بعض کتابیں ساتھ تھیں، ایسے ایسے پیچیدہ معاملے سامنے آرہے تھے کہ کتابیں ساتھ نہ ہوتیں تو کیا کچھ زحمت ہوتی۔

سب سے زیادہ استفسارات حج بدل کرنے والوں کے احرام کے سلسلہ میں ہوتے تھے، وہ افراد کا احرام باندھیں یا قران کا یا تمتع کا ۔۔۔ اردو میں مسائل حج کی بہت سی کتابیں حاجیوں کے ساتھ تھیں اور ان ہی سے پڑھ پڑھ کر اور کہیں کہیں باہم اختلاف پاکر انہیں فیصلہ کرنا پڑتا تھا۔

بہ حج بدل کا معاملہ جس قدر زور و شور سے چل رہا ہے اتنی ہی ناواقفیت یا اتنا ہی زیادہ تساہل اس سلسلے میں کار فرما نظر آتا ہے، مستطیع حضرات حج بدل کے لئے کسی دوسرے کومنتخب تو کر لیتے ہیں مگر جن الفاظ میں حج بدل کرنے کا حکم دینا چاہئے ان سے سراسر بے توجہی برتتے ہیں، آمر کی بے توجہی کا خمیازہ مامور کو بھگتنا پڑتا ہے، اگر اپنی طرف سے حج کرانے والا جس کو بھیج رہا ہے اس کو اجازت دیدے کہ تم حسب مرضی حج کرنا تو مامور پر اقسام حج کے انتخاب میں کوئی پابندی نہ رہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا اور اچھی خاصی الجھن کا سامنا حاجیوں کو کرنا پڑ جا تا ہے۔