حج کا سفر۔۔۔منی وعرفات میں (6)  ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

11:50AM Fri 16 Jun, 2023

مكہٴ معظمہ پہونچتے ہی ہم پانچوں ‏، امی ‏، پھوپھو جان ‏، ممانی ‏، متین میاں اور ہم سیدھے حرم شریف حاضر ہوئے كہ پہلے طواف اور صفا و مروہ كے درمیان سعی كرلیں ‏، پھر اپنی قیام گاہ ‏، بوہرہ رباط جاكر كھانا كھائیں گے ۔

ٹھیك دوپہر كا وقت تھا ‏، مطاف میں بچھے ہوئے سنگِ مرمر سیاہ و سفید خوب تپ رہے تھے اور طواف كرنے والوں كا مجمع بھی خوب تھا ‏، ننگے پاؤں طواف كرنا اس وقت كارے دارد تھا ؛ لیكن كرنا تھا‏، ہم نے امی كا ہاتھ پكڑا انہوں نے پھوپھوجان كا ‏، پھوپھوجان نے ممانی كا آخر میں متین میاں ہوئے ‏، اس دفعہ یہ تہیہ كركے طواف شروع كیا تھا كہ ایك دوسرے كا ساتھ نہیں چھٹنے دیں گے ‏، مگر دوہی ‏، تین چكروں میں ہمارے ساتھ صرف امی اور پھوپھوجان طواف كرتی نظر آئیں ‏، ممانی اور متین میاں غول میں غائب ہوگئے ۔

طواف تو خیر ہوجاتاہے یعنی خانہ كعبہ كے گرد كسی نہ كسی طرح گھوم لیاجاتا ہے ‏، مگر حجرِ اسود كا چومنا كسی طرح ممكن نہیں ہوتا ‏، ایسی كوئی مشكل بات نہ ہواگر لوگ آتے جائیں اور استلام كركے وہاں سے ہٹتے جائیں ‏، یہاں بھی وہی ہوتاہے كہ دس بارہ آدمیوں كی ٹولی خانہٴ كعبہ كے اس گوشے كو گھیرے رہتی ہے جدھر حجرِ اسود نصب ہے ‏، خانہٴ كعبہ كے دربان كپڑے كے بٹے ہوئے كوڑے زیادہ دیر تك حجرِ اسود سے چمٹے رہنے والے یا دھكم ‏، پیل كرنےوالے پر برساتے رہتے ہیں مگر كسی پر كوئی اثر نہیں ہوتا ‏، وہ اپنی كئے جاتے ہیں ‏، یہ اپنی ‏، اسی مصلحت سے حضور انور ﷺ نے حجرِ اسود كو چومنا لازم نہیں فرمایا ‏، موقعہ ہو چومے ‏، نہ موقعہ ہو ‏، تو صرف ہتھیلیوں سے اشارہ كركے اپنی ہتھیلیاں چوم لے ‏، ہم لوگ بھی اپنی ہتھیلیاں ہی ہر شوط (چكر) میں چومتے رہے

ہجوم دیكھ كے كثرت سے سنگ اسود پر

كبھی اشارے سے بھی استلام ہوتا ہے

طواف پوراكرنے كے بعد زمزم پر گئے ‏، لوگوں كی خواہش ہوتی ہے كہ چاہِ زمزم سے خود رسی ڈول كے ذریعہ زمزم نكال كر پئیں اور نہائیں ‏، لیكن اب وہ ٹیوب ویل ہے ‏، پائپ كے ذرریعہ زمزم ابلتاہے ‏، پائپ كے سرے خدام كے ہاتھوں میں ہوتے ہیں وہی پلاتے ہیں اور موقعہ ‏، موقعہ سے انعام بھی مانگےجاتے ہیں ‏، كسی نے كچھ دیدیا ‏، یا دینے والانظر آیا اُسے پلاتے بھی ہیں ‏، نہلابھی دیتے ہیں ‏، اس كے علاوہ بہت سے ٹونٹیاں بھی لگی ہوئی ہیں اسی طرح جس طرح مسجدوں میں وضوكرنے كے لیے ایك قطار میں لگی ہوتی ہیں ‏، ایك سمت مرد اور دوسری سمت عورتیں ٹونٹیاں كھولیں اور خوب چھك كر پی لیں ‏، چاہیں تو نہا بھي لیں ۔

حضور انور ﷺ جب زمزم پر تشریف لائے تھے ‏، تو آپ نے پلانے والوں سے یعنی ان لوگوں سے جن كے سپرد سقایہ الحج تھا یعنی حضرت عباس (حضور انور كے سگے چجا) اور ان كی اولاد سے زمزم مانگاتھا ۔

حضرت عباس نے اپنے بیٹے فضل بن عباس ؓ كو حكم دیا كہ وہ اپنی ماں كے پاس سے زمزم لاكر حضورانور كو پیش كریں ‏، حضورانورﷺ نے فرمایا : یہی زمزم بلاؤ ۔

عباس نے عرض كیا ‘‘ اس میں تو لوگوں كے ہاتھ پڑتے رہتے ہیں ’’؟ آپ نے فرمایا اسی سے پلاؤ اور اسی زمزم سے آنحضرت ﷺ نے نوش فرمایا ‏، اس كے بعد چاہِ زمزم تك حضور انورﷺ تشریف لائے اور دیكھا كہ حضرت عباس اور ان كی اولاد جدوجہد كركے زمزم نكال رہی ہے ‏، آپ نے فرمایا ‘‘ تم لوگ نیك كام كررہے ہو’’ اور یہ بھي فرمایا كہ ‘‘ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا كہ میری دیكھا دیكھی اور لوگ بھی ٹوٹ پڑیں گے ‏، تو میں اونٹنی سے اتركر اپنے كندھے پر رسی ركھ كر زمزم خود نكالتا‏، مطلب یہ كہ یہ عمل نیك ہے جس كو انجام دینے كی خواہش ہوتی ہے ؛لیكن اندیشہ ہے كہ لوگ میرے اس فعل كو سنت قراردے كر اس كی اتباع كرنا چاہیں گے ‏، تو سقایہ كاسارا نظام درہم ‏، برہم ہوجائے گا ‏، آنحضرتﷺ اس وقت اونٹنی پر سوار تھے ؛تاكہ اعمال حج حاضرین بخوبی دیكھ سكیں ۔

چاہِ زمزم سے چل كر صفا اور مروہ كی پہاڑیوں پر سعی كرنے یعنی دوڑنے یا تیز چلنے كے لیے آناتھا ‏، چاہِ زمزم سے یہ چند قدم كا فاصلہ تھا ‏، پہلے یہ سعی بھی خاصی سعی وكوشش چاہتی ہوگی جب دونوں پہاڑیاں كھلی ہوئی تھیں اب پہاڑیاں اور مسعٰی(دوڑنے كی جگہ) مسقف (سایہ دار )اور زمین بالكل ہموار كردی گئی ہے ‏، پہاڑیاں بھی بڑی حدتك زمین دوز ہوچكی ہیں ‏، صرف دو ٹیلے معلوم ہوتے ہیں ۔

صفا سے سعی شروع كركے اور مسعٰی كے درمیان (مسعیٰ كی ابتدا اور انتہاء ظاہر كرنے كے لیے دو پتھر لگے ہوئے ہیں ) دوڑكر مروہ پر جانا ایك چكر ہے ‏، پھر مروہ سے صفاتك اسی طرح آنا دوسرا چكر ہے اس طرح سات دفعہ آنا جانا ہوتا ہے اور مروہ پر سعی تمام ہوتی ہے ۔

آج كے دن مسعٰی میں بھی بڑا ہجوم ہوتا ہے كاندھے سے كاندھا چھلتاہے جانے اور آنے كے راستے بیچ میں لمبی منڈیر سی قائم كركے متعین كردئیے گئے ہیں لیكن جگہ ہی مختصر ہے ۔

ہم تینوں ‏، امی ‏، پھوپھوجان اور ہم سعی سے فارغ ہوكر یعنی تقریباً سوادومیل چل كر اور دوڑكر واپس بوہر ہ رباط آگئے ‏، یہاں متین میاں اور ممانی كا انتظار كرنے لگے جب كافی دیر ہوگئی تو وحشت ہونے لگی ان كی تلاش میں حرم شریف آئے جس دروازے سے ہم لوگ طواف زیارت كے لیے داخل ہوئے تھے ‏، وہیں چپلیں جوتے ركھ دیئے تھے ‏، آئے تو دیكھا كہ ممانی اور متین میاں كی چپلیں ‏ر كھی ہوئی ہیں یعنی وہ دونوں ابھی یہیں ہیں ‏، تلاش كیا تو صفا‏، مروہ كے درمیان دونوں سعی كررہے تھے ‏، پوچھا كہ كتنی سعی باقی رہ گئی ہے ؟ متین میاں نے بتایا كہ ایك چكر اور كرنا ہے ‏، ہم بھی ساتھ ‏، ساتھ چلنے لگے وہ مروہ سے صفاكی طرف آرہے تھے یعنی اب صرف صفا سے مروہ تك جانا باقی تھا۔

جب مروہ تك آنے كے بعد بھی متین میاں كو سعی تمام كرنے پر آمادہ نہ پایا ‏، تو پوچھا كہ كیا ابھی ایك چكر اور باقی ہے ؟ كہنے لگے جی نہیں آخری چكر ابھی پورا كہاں ہوا ؟ كیسے ؟ كہنے لگے صفا پر پہونچ كر ہی پورا ہوگا ۔

تو كیا آپ نے صفا سے مروہ ‏، پھر مروہ سے صفا تك آنے كو ایك چكر قرار دیا ہے ؟

انہوں نے كہا ‘‘اور نہیں تو كیا’’؟

غضب كردیا آپ نے ‏، بچاری ممانی كو جن كے پاؤں میں تكلیف یوں ہی ہے ‏، چودہ چكر كرادئیے یعنی ساڑھے چارمیل دوڑایا‏،

ہماری ممانی اتنی دیر تك سعی كركے یہ سمجھ رہی تھیں كہ آج پوری طرح سعی ہوئے پہلے دن (عمرہ كی ادائیگي كے وقت ) تو معلم صاحب كے كارندے نے كتنی جلدی ٹرخادیا تھا ۔

اس بچارے نے سات چكر كرائے تھے ‏، چودہ چكر متین میاں نے گھاتے میں كرادیئے ۔

خیر اپنی قیام گاہ آئے ‏، عظیم بھائی اور ان كی بیوی بھی آچكی تھیں ‏، دوپہر كا كھانا بازار سیےخریدكر آیا اور سہ پہر سے قبل یعنی نماز عصرسے پہلے منٰی كے لیے روانہ ہوگئے كہ قبل مغرب رمی جمار كرنے كا موقع مل جائے ‏، دوریال فی سواری والی اسٹیشن ویگن پھر مل گئی ‏، اس پر ساتوں كو جگہ بھی مل گئی اور ہم لوگ روانہ ہوگئے ۔

آج پہلی بار مكہ معظمہ میں سناٹا دیكھا تھا ‏، بازاریں بھی خالی اور حرم بھی خالی ‏، خالی تھا ‏، حاجیوں كی اصل تعداد تو منٰی میں قیام پذیرتھي پھر بھی دوكانیں كھلی ہوئی تھیں ‏، یہ وہ دوكاندار تھے جنہوں نے اس سال حج كرنا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔

تعجب ہوگا یہ جان كر كہ كچھ ایسے بھی ہیں جو مكہ معظمہ میں رہتے ہیں اور حج نہیں كرتے جب كہ چودہ لاكھ آدمی دور ‏، دور سے آكر مناسك حج اداكررہے ہیں ۔

مكہ معظمہ سے منٰی واپس ہوہے میں پھر ٹریفك جام ہوئی ‏، یہ تین چار میل كی مسافت طے ہونے كانام ہی نہیں لیتی تھی ‏، ڈرائیور نے عام راستے سے ہٹ كر چكر كاراستہ پكڑااور اس طرف سے منٰی میں داخل ہوا جدھر قربان گاہ تھی ‏، یہاں پہونچ كر اس كی گاڑی قطار میں پھنس گئی اور ایك ہی جگہ اٹك كر رہ گئی ‏، گرمی بھی سخت ہورہی تھی ‏، ہم سب پریشان ہوگئے ‏، عظیم بھائی اتركریہ دیكھنے چلے گئے كہ ٹریفك كیوں جام ہے ‏، كافی دیر كے بعد متین میاں اترے اور عظیم بھائی كو ڈھونڈھنے چلے گئے اور ہم خواتین كی معیت میں رہے اور اسٹیشن ویگن ہماری معیت میں ‏، عصر كا وقت تنگ ہونے لگا اور یہ اندازہ ہوا كہ اگر راستہ صاف ہونے كے انتظار میں رہے ‏، تو نماز عصر بھی جائے گی اور رمی كا مسنون و مستحب وقت بھی ‏، كوئی پون میل دور ہماری گاڑی كھڑی تھی ‏، اتنے میں مولانا علی میاں اور شاہ جعفر میاں پھلواری ہمارے پاس سے پیدل گزرے ‏، ان كی ٹیكسی بھی پھنس گئی تھی ‏، وہ بھی اسے چھوڑكر رمی جمار كے لیے وقت پر پہونچ جانے كے خیال سے پیدل چل دیئے تھے ‏، جہاں وہ ملے تھے وہاں سے جمرہٴ اولٰی تك پہونچتے ‏، پہونچتے یقیناً سورج غروب ہوگیا ہوگا اور انہوں نے بھی بعد مغرب ہی رمی جمار كیا ہوگا ۔

ہم بھی خواتین كو لیكر پیدل چل دیئے ‏، جب اپنے خیمے میں پہونچے ہیں ‏، تو صرف اس كی گنجائش تھی كہ جھٹ ‏، پٹ وضو كركے عصر كی دوركعتیں پڑھ لیں ‏، غروب آفتاب كے بعد وقت مكروہ میں رمی جمار كے لیے جاسكے ‏، یہ عظیم بھائی اور متین میاں جو یكے بعد دیگرے گاڑی سے اتر گئے تھے ٹریفك جام ہونے كا سبب دریافت كرنے كی غرض سے ان دونوں نے لپك كر قبل مغرب ہی رمی جمار كرلیا اور ہم خواتین كے ساتھ بعد مغرب جاسكے ۔

اندازہ ہوا كہ رمی جمار كا كام حاجیوں كے لیے بڑا مشكل ہوتا ہے ‏، لوگ اس فكر میں رہتے ہیں كہ ان كی طرف سے كوئی كنكریاں مارنے كی ذمہ داری قبول كرلے ‏، حالانكہ سوائے معذوروں ‏، بیماروں كے اور كسی كی طرف سے نیابتاً كنكریاں مارنا درست نہیں ہے ۔

شیخ ظہور الحسن صاحب (ریٹائرڈ سكریٹری محكمہ مال یوپی ) نے اس سلسلے میں تازہ ترین واردات سنائی ‏، كہنے لگے ‘‘ سنا آپ نے ! مولانا محمد اویس صاحب نگرامی كے پاس ایك ان كے شناسا دیہاتی ضلع بارہ بنكی كے رہنے والے آئے اور ایك پوٹلی ان كے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولے كہ ‘‘ مولوی صاحب ہم لوگوں كی طرف سے بھی آپ ہی كنكریاں مادیجئے گا ‏، آپ تو جاہی رہے ہیں ’’

مولانا اویس نے مسئلہ بتایا كہ سوائے معذور كے اور كسی كی طرف سے كوئی دوسرا كنكریاں نہیں مارسكتا ہے ‏، مزید وضاحت كرتے ہوئے مولانا اویس نے كہا كہ ‘‘ معذوری كا مطلب یہ ہے كہ آدمی كھڑے ہوكر نماز نہ پڑھ سكے ’’ ۔

پھر اس سے پوچھا كہ جن ‏، جن كی یہ كنكریاں ہیں وہ كھڑے ہوكرنماز نہیں پڑھ سكتے ہیں ؟

اس نے برجستہ جواب دیا : جی ! وہ لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے ہیں ‏، مولانا اویس صاحب تلملاكر رہ گئے ۔

مكہ معظمہ سے اس دفعہ جو منٰی واپس آئے ‏، تو ایك نئی صورت حال سے سابقہ پڑا ‏، قربانی كا دن ایك روز پہلے تھاہی ‏، بڑی پابندی ہے كہ سوائے قربان گاہ كے اور كہیں جانور ذبح نہ كیا جائے ؛لیكن لوگ جہاں ٹہرے ہوئے ہیں وہیں جانور لاكر ذبح كردیتے ہیں ‏، بلكہ عین آپ كے خیمے كے سامنے آكر ذبح كركے اوجھڑی وغیرہ چھوڑ كر چلے جاتے ہیں ‏، پھر جو تعفن ہوتی ہے ‏، تو ایك منٹ ٹہرنا مشكل ہوتا ہے ‏، امی وغیرہ تو حسبِ معمول سفارت خانے چلی گئیں ‏، ہم اور متین میاں خیمے میں رہنے والے تھے ‏، مگر مارے بدبو كے وہاں ٹك نہ سكے اور سامان وغیرہ چھوڑ چھاڑ سفارت خانے چلے گئے ‏، رات وہیں بسر كی ۔

مسٹر مدحت كامل قدوائی جن كی سفارت میں اس سال پہلا حج ہورہا تھا ‏، رواج كے موافق دوارنِ قیام منٰی میں ایك دن شاہ فیصل كو حج كی مبارك باد دینے گئے اور اپنے ساتھ كچھ معزز ہندوستانی حاجیوں كو بھی لے گئے ‏، یہاں سفیروں كا دستور ہے كہ وہ شاہ كو خیریت كے ساتھ حج ہوجانے كی مباركبارد دیتے ہیں اور شاہ ان كا شكریہ اداكرتے ہیں ۔

بحیثیت سلطان نجد و حجاز شاہ فیصل كا بھی یہ پہلا حج تھا ‏، ہم تو  مباركباددینے گئے نہیں ‏، خدا معلوم كسی ہندوستانی ‏، یا پاكستانی ‏، یا كسی اور ملك كے حاجی نے ٹریفك كی پریشانیوں كی طرف بھی شاہ فیصل كو تو جہ دلائی ‏، یا نہیں ؟ یا خالی مباركباد دے كر چلے آئے۔ ہمارے سفیر نے یہ بھی اپنے ذمہ لے لیا ہے كہ ہندوستانی حاجیوں كی قیام گاہوں میں كم از كم ایك دفعہ ضرور جائیں اور ان كی خیریت پوچھ لیں ‏، دور ‏، دور تك یہ قیام گاہیں پھیلی ہوئی تھيں ‏، صبح سہ پہر اور رات كے اوقات میں سفیر صاحب اپنے جاجیوں كی خیریت پوچھنے كے لیے گشت پر نكلتے تھے ‏، رات گئے واپس آكر بستر پر پڑرہتے تھے ۔

ایك دفعہ گشت كركے واپس آئے تو كہنےلگے ‘‘ ایك تم مولوی ہو یہاں پنكھے كے نیچے آرام سے بیٹھے ہو ‏، مولانا علی میاں كو دیكھو كہ دوسو آدمیوں كے درمیان بستر ڈالے ایك شامیانے میں پڑے ہیں ‏، بھئی ہمارے دل میں تو ان كی بہت قدر ہوگئی ۔

پھر انہوں نے ہمیں تلقین كرتے ہوئے كہا ‘‘ معمولی آدمی نہ سمجھنا علی میاں كو ‏، رابطہٴ عالم اسلامی كے وہ نائب صدر ہیں اور جب صدر صاحب (سعودی عرب كے مفتی اعظم) نہیں ہوتے ہیں ‏، تو رابطہٴ عالم اسلامی كے جلسوں كی صدارت علی میاں ہی كرتے ہیں ‏، اتنا بڑا آدمی اور اس طرح عام آدمیوں كی طرح رہ رہا ہے اصلی اسلامی زندگی تو یہی ہے ۔

ان سے تو نہیں كہا كہ اس ‘‘تلقین’’ كا استعمال ہمارے حق میں برمحل نہیں كہ ہم ان كو تیس برس سے قریب سے جانتے ہیں اور پشتو ں سے ہمارے ان كے عزیزدارانہ قسم كے مراسم ہیں اور دیكھا جائے تو پورے دوسو برس ہوئے جب رائے بریلی كے اس خانوادے سے فرنگی محل كے خاندان كے روابط قائم ہوئے تھے ‏، ہمارے اجداد میں مولانا ازہارالحق صاحب تو رائے بریلی میں ہی شاہ لعل نقش بندی سے بیعت كركے وہیں مقیم ہوگئے تھے ۔

رہا سوال آرام اور تكلیف اٹھانے كا تو اقعہ یہ ہے كہ آدمی ‏، آدمی میں فرق ہوتا ہے اور حج ‏، حج میں فرق ہوتا ہے

حج زیارت كردنِ خانہ بود

حج رب البیت مردانہ بود

بعض حاجی واقعی مردانہ طور پر حج كرتے ہیں ‏، باقی سب زیارت خانہ كعبہ كے  آگے كی تمنا نہیں ركھتے ۔

مولانا علی میاں ‏، مولانا منظور نعمانی اور دوسرے مندوبین مؤتمراسلامی شاہی مہمان تھے سب كو بڑی ‏، بڑی موٹریں جن كی پلیٹ نمبروں پر الرابطۃ الاسلامی لكھا ہوا تھا ‏، سواری میں دی گئی تھیں اور قیام كا بہتر سے بہتر انتظام مكہٴ معظمہ اور منٰی میں كیا گیا تھا ‏، علی میاں اور منظور صاحب كے لیے بھی یہی انتظام تھا مگر ان دونوں نے عام حاجیوں كے ساتھ رہنا پسند كیا ۔

ہم نے علی میاں سے مكہ معظمہ میں اپنے سفر كا یہ تاثر نقل بھی كردیا ‏، انہوں نے اپنے عام رویہ كے مطابق آنكھیں جھكاكر اور قدرے مسكراكر بس اتنا كہا : ‘‘جی ! كچھ جماعت سے متعلق امور ہیں جن كے سلسلے میں الگ ٹہرنے میں زحمت ہوتی ’’

منٰی كے یہ تین دن اور اس سے ایك دن قبل عرفات كا تپش اور دھول كھانے كے دن ہیں ‏، ان دنوں كے بعد ‏، یا اسی دوران عام طور پر حاجی بیمار ہوجایاكرتے ہیں ‏، بخار ‏، پیچش ‏، حلق كی خرابی وغیرہ كی بیماریاں ہوجاتی ہیں ‏، ایك سبب یہ بھی ہوتا ہے كہ زیادہ تر بازارسے كھانا خرید كر سب كھاتے ہیں ۔

ان بیماریوں كانام ہی وہاں ‘‘بعدالحج’’ ہے یعنی وہ بیماریاں جو حج كے بعد عموماً حاجیوں كو ہوتی ہیں ‏۔

خدا كے فضل سے ہمارے ساتھیوں میں سے كوئی ‘‘بعد الحج’’ والی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا ‏، مسٹر فرحت علی (آئی ‏، اے ‏، ایس ) جواپنے خسر شیخ ذوالفقار اللہ صاحب كے ساتھ تھے بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئے اور ان كی حالت غشی كی وجہ سے دیكھنے میں تشویش ناك معلوم ہونے لگی تھی ‏، علاج وغیرہ سے قدرے بہتر ہوئی مگر حرارت كا سلسلہ قائم رہا ‏، جہاز پر بھی وہ بخار میں مبتلا رہے ‏، بمبئی پہونچنے پر ان كی طبیعت ٹھیك ہوئی ۔

ہمارے عزیز شیخ ظہیر حسین (لكھنؤ) تو قبل حج ہی بیمار ہوگئے تھے‏، اسی حالت میں انہون نے مناسك حج ادا كئے جو اداكرسكتے تھے ‏، پھر جدے لے جائے گئے جہاں باقاعدہ علاج كے بعد وہ اچھے ہوسكے ۔

سنا ضرور تھا كہ ذوق و شوق سے جانے والے حاجی حج كے بعد اسی قدر بےچینی اور بے تابی سے واپسی كے خواہش مند ہوجاتے ہیں ‏، منٰی میں ہوتے ہیں كہ سفارت خانہ كے افسران سے اپنے جلد واپس ہونے كے وجوہ و اسباب بتاكر ترجیح حاصل كرنے كے لیے سعی شروع كردیتے ہیں ‏، منٰی میں ہمارا بیشتر وقت سفارتخانے میں گزرا اس لیے اپنی آنكھوں سے واپسی كے لیے اضطراب كے مناظر دیكھ لیے ‏، كیسے كیسے لاطائل اعذار لوگ پیش كرتے تھے كہ ہنسی آجاتی تھی ‏، سفارت خانہ اس معاملہ میں سختی كررہاتھا ‏، سوائے ان لوگوں كے جو بیمار ہیں‏، یا جو ملازم ہیں اور چھٹی لےكر حج كرنے آئے ہیں كسی اور كو اس كی ‘‘بیماری’’ سے پہلے جانے كے لیے ترجیحی پروانہ نہیں دے رہا تھا اگر دینا شروع ہوجائے تو سب ہی درخواست لیے كھڑے نظر آئیں ۔

بہرحال تین دن منٰی میں قیام كركے بارہویں ذی الحجہ كو رات كو ایك بجے اپنی سات سو ریال والی ٹیكسی كے ذریعہ مكہٴ معظمہ واپس آگئے ‏، چونكہ ہم آخر ی جہاز سے آئے تھے ؛اس لیے ہمیں كم وبیش ڈیڑھ مہینے مكہٴ معظمہ میں رہنا تھا ؛ اس كے بعد دس دن كے لیے مدینہٴ منورہ جاتے اور وہاں سے واپس جدہ آكر كہیں وسط جون میں بمبئی كے لیے روانہ ہوتے ؛لیكن معاملات كی رفتار مكہٴ معظمہ پہنچ كر مختلف ہوگئی ۔

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/

مکمل سفرنامہ یکجا پڑھنے کے لئے بھٹکلیس ڈاٹ کام کی مذکورہ بالا لنک پر کلک کریں