کیادینی حمیت کے بغیر ملّت کی سیاسی ترجمانی ممکن ہے؟!۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
مسلمانوں کو سیاسی طور پربااختیار اور empowerکرنے کے سلسلے ملک بھر میں میں مختلف ملّی ، سماجی و فلاحی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو ان اداروں کی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوجاتی ہیں۔ یقیناًایسے تمام ادارے، تنظیمیں اور گروہ اپنے مقصد میں انتہائی مخلص ہوتے ہیں اور ان کا سارا زور کسی طرح مسلم سیاسی نمائندگی کی شرح بڑھانے اور سیکیولر قسم کے غیر مسلم سیاسی لیڈروں کو کامیاب کرتے ہوئے ملّی کاذ کو تقویت پہنچانے کی طرف ہواکرتا ہے ۔اس بارکرناٹکا اسمبلی الیکشن کے موقع پربھی ریاستی اور مقامی سطح پر تقریباً ہرجگہ ایسی کوششیں ہوئیں اور بعض مقامات پر اس میں کامیابی بھی ملی۔ اس کے باوجود سنگھی زعفرانی کنول کا اتنی بڑی تعداد میں کھِلنا حیرت واستعجاب کا سبب ایک طرف ہے تو دوسری طرف ایوان اقتدار میں مسلم نمائندگی کی گھٹتی ہوئی تعداد باعثِ تشویش ہے۔
صرف 7اراکین اسمبلی !: گزشتہ دس برسوں میں اس مرتبہ کرناٹکا اسمبلی میں سب سے کم مسلم اراکین ہونگے جن کی تعداد صرف 7رہ گئی ہے۔ اور ان ساتوں اراکین اسمبلی نے کانگریس کے ٹکٹ پر جیت حاصل کی ہے۔ریاست کی کل آبادی کا 13فی صد حصہ رکھنے والے مسلمانوں کی اس قدر کم نمائندگی یقیناًتعجب خیز ہے۔زیادہ توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ یہ تعداد مرحلہ وارگھٹتی ہی جارہی ہے۔ جیسے سال 2018میں مسلم اراکین اسمبلی کی تعداد9تھی۔ پھر 2013 میں اس کے اندر ہلکا سا اضافہ ہوا اور یہ تعداد 11ہوگئی، جس میں کانگریس کے 9اور جنتا دل (ایس ) کے دو اراکین شامل تھے۔لیکن 2018کے تازہ انتخابات میں یہ عدد کھسک کر 7پر رک گیا ہے۔اگر ہم تاریخی حساب سے دیکھیں تو کرناٹکا اسمبلی میں سب سے زیادہ مسلم نمائندگی 1978 ء میں دیکھی گئی تھی جب یہ تعداد17کو پہنچ گئی تھی۔ اور سب سے کمتر حالت اس وقت سامنے آئی تھی جب 1983میں رام کرشنا ہیگڈے کی حکومت میں مسلم اراکین کی تعداد صرف 2رہ گئی تھی۔
تاریخ پر ایک نظر: اگرہم جمہوری طریقے سے ہونے والے انتخابات کے پس منظر میں تاریخی جائزہ لیں تو سلسلہ وار مسلم نمائندگی کی صورتحال کچھ اس طرح دکھائی دیتی ہے۔
۱۔ = 1952 5
۲۔ 1957 = 9
۳۔ = 1962 7
۴۔ = 1967 6
۵۔ 1972 = 12
۶۔ 1978 17 =
۷۔ = 1983 2
۸۔ 1985 = 8
۹۔ = 1989 11
۱۰۔ = 1994 6
۱۱۔ 1999 = 12
۱۲۔ = 2004 6
۱۳۔ = 2008 9
۱۴۔ 2013 = 11
۱۵۔ = 2018 7
اس خاکے کو دیکھنے کے بعد سوچنا پڑتا ہے کہ جب مسلمانوں میں الحمدللہ تعلیمی اور معاشی سطح پر مجموعی حیثیت سے بہتری آنے کے ساتھ سیاسی بیداری بھی آگئی ہے اور سیاسی شعور جگانے کے لئے کام کرنے والے مخلص اداروں کی تعداد اورکارکردگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی سیاسی لیڈرشپ اور نمائندگی میں بھی اضافہ ہوتا اور اراکین اسمبلی کا عددی گراف اوپر کی طرف اٹھتا جاتا۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا ہے۔
کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں کتنی کہانیاں ہیں اسی داستان میں
حالیہ الیکشن میں امیدواروں کی صورتحال: اگر ہم حالیہ الیکشن میں مسلم امیدواری کے تناسب پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس بار انڈین نیشنل کانگریس نے کل 17مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا(جن میں سے 10ہارگئے)۔ جنتا دل (ایس )نے 8امیدوار میدان میں اتارے تھے(جن میں سے ایک بھی جیت نہیں پایا)۔ اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین نے جنتا دل سیکیولر کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ایس ڈی پی آئی نے تین سیٹوں پر انتخاب لڑاجبکہ بی جے پی نے کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ ایم ای پی اور آزاد امیدواروں کے طور پر درجنوں افراد الیکشن لڑنے کے اترے اور اپنی ضمانت ضبط کرواکے گھر لوٹ گئے۔اگر سنجیدہ امیدواروں کی بات کریں تو پھر میدان میں 28امیدوار تھے جن میں سے صرف 7نے جیت کا مزہ چکھا ہے۔ 2018کا انتخاب جیتنے والے : حالیہ اسمبلی انتخاب میں کامیاب ہونے والے7 مسلم امیدوار وں کے نام کچھ اس طرح ہیں:۔ ۱۔سدارامیا حکومت میں پہلے وزیر صحت اور بعد میں وزیر غذا بنے رہنے والے یوٹی قادر نے منگلورو حلقے سے بی جے پی کے امیدوار کو 19,737 ووٹوں سے شکست دیتے ہوئے اپنی کامیابی درج کی۔ پورے ساحلی علاقے میں کانگریس کے یہ واحد امیدوار ہیں جنہوں نے جیت حاصل کی ہے۔ ۲۔ ایک عرصے تک جنتادل ایس میں دیوے گوڈا اور کماراسوامی کے سب سے معتبر دست راست رہے ضمیر احمد خان کو دیگر سات اراکین اسمبلی کے ساتھ پارٹی سے معطل کردیا گیا تھا ۔انہوں نے الیکشن سے دومہینے پہلے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور چامراج پیٹ حلقے سے کانگریس کی ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑتے ہوئے بی جے پی کے امیدوار کو 33,137ووٹوں سے شکست دی۔ جیتنے والے ساتوں مسلم اراکین اسمبلی میں یہ جیت کی سب سے بڑی مارجن ہے۔ ۳۔میسورو کے نرسمہا راجہ حلقے سے جناب تنویر سیٹھ نے 18,127ووٹوں سے جیت درج کی ہے۔ انہوں نے بھی بی جے پی کے امیدوار کوشکست دی۔ تنویر سیٹھ جو کہ سدارامیا حکومت میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے وزیر تھے، پانچویں بار اسی حلقے سے اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے تعلق سے رپورٹس آرہی تھیں کہ ان کی جیت کے امکانات کم ہیں۔ ۴۔جناب این اے حارث جوکہ اپنے بیٹے کی مبینہ غنڈہ گردی کی وجہ سے مخالفت کے طوفان میں گھرے ہوئے تھے انہوں نے بنگلوروشانتی نگرحلقے سے جیت درج کی ہے۔ ۵۔شیواجی نگر حلقہ تو سینئر کانگریسی لیڈرجناب روشن بیگ کا گڑھ ماناجاتا ہے اور انہوں نے اس مرتبہ بھی یہاں سے الیکشن جیت کر یہ بات سچ ثابت کردی۔انہوں نے بی جے پی کے ایک مضبوط امیدوار کٹّا سبرامنیا نائیڈو کو15,040.ووٹوں سے شکست دی۔ ۶۔محترمہ کنیز فاطمہ اہلیہ قمرالاسلام (مرحوم) تنہا مسلم خاتون ہیں جو اس مرتبہ الیکشن جیت کر اسمبلی میں داخل ہوگئی ہیں۔ اس سیٹ پر 2013میں قمرالاسلام( مرحوم )نے جیت حاصل کی تھی۔محترمہ کنیز فاطمہ نے بی جے پی کے امیدوار کو5,940ووٹوں سے شکست دی ہے۔ ۷۔ بیدر میں جناب رحیم خان نے بی جے پی کے امیدوار کو 10,245سے ووٹوں سے شکست دیتے ہوئے اپنی کامیابی درج کی۔ کچھ نامور مسلم امیدوار جو ہارگئے !: حالانکہ اس مرتبہ اسمبلی میں مسلم امیدواروں کی تعداد صرف 7تک محدود ہوگئی ہے، لیکن جانکاروں کاکہنا ہے کہ کانگریس کے خلاف بی جے پی کی جوہوا چلی تھی ، جس نے کانگریس کو مکمل اکثریت سے ایک حد تک دور چھوڑ دیا، اس کے مقابلے میں مسلم امیدواروں کی جیت تسلّی بخش کہی جاسکتی ہے۔ کیونکہ کانگریس کے کئی بڑے بااثر اور نامورغیر مسلم لیڈر زعفرانی ہوا کے سامنے اپنا خیمہ سنبھالنے میں ناکام ہوگئے۔ ایسے میں یہ جاننا بھی تجزیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ کونسے نامور یا بااثر مسلم لیڈرہیں جو اس مرتبہ شکست سے دوچار ہوگئے۔ان ہارنے والوں میں بیلگام سے فیروز نورالدین سیٹھ(کانگریس)، منگلورو سے بی اے محی الدین باوا(کانگریس)، گنگاوتی سے اقبال انصاری (جنتا دل)اور بیجاپور سے عبدالحمید مشرف شامل ہیں۔ اور ان سب کو بی جے پی امیدواروں کے ہاتھ سے شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ سوچنا بہت ضروری ہے!: اس پس منظر میں سوچنا پڑتا ہے کہ اگر مسلم ووٹوں کی تقسیم نہ ہوتو پھر شائد اسمبلی میں مزید سیٹیں آرام سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ ریاست کے تقریباً 19حلقہ ہائے اسمبلی میں مسلم ووٹرس کی شرح 30%سے زیادہ ہے۔اور یہ شرح ووٹنگ کے نتائج کو بدلنے میں کارآمد ہوسکتی ہے۔لیکن اوپر دکھائے گئے چارٹ میں ہم دیکھتے ہیں کہ1952سے 2018کے انتخابات تک اسمبلی میں مسلم نمائندگی کی تعداد دوگنے نمبر میں صرف چار مرتبہ دیکھنے کو ملی ہے۔جو ایک قابل غور نکتہ ہے اور اس پر مسلسل تحلیل و تجزیہ کا کام ہونا چاہیے۔ ایک طرف جہاں مسلم قیادت کو اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور لائحۂ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے وہیں پرجمہوریت اور دستور کی بالادستی میں یقین رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کی عملی کوشش کریں تاکہ مسلمانوں سے متعلقہ مسائل میں وہاں پر مسلم کاذ کی نمائندگی صحیح معنوں میں ہوسکے۔ مسئلہ ووٹوں کی تقسیم کا ہے: دراصل مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلم امیدوار کی جیت کے امکانات سے مطمئن نہیں ہوتی ہیں۔ یہ ایک عجیب صورتحال ہے کہ سیکیولر پارٹی کی جانب سے مسلم امیدوار میدان میں اتارا جاتا ہے تواس پارٹی سے متعلقہ غیر مسلم سیکیولر ووٹ بھی بٹ جاتے ہیں اور مسلم امیدوار کی ہار کا سبب بن جاتے ہیں۔ددوسری طرف جہاں سے مسلم امیدوار کی جیت کے قوی امکانات ہوتے ہیں وہاں پر ایک سے زائدسیاسی پارٹیاں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد اور برساتی مینڈکوں جیسے امیدواروں کی سرکشی الگ ہوتی ہے۔ان سب سے بڑھ کر بھگوا بریگیڈ کا ہندوتووا کا نعرہ الگ ہوتا ہے جو مسلم امیدوارکے حق میں کم پولنگ کا سبب بن جاتا ہے۔ غیر مسلم کی تائید بھی نقصان دہ؟!: اب تو مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلم امیدوار کو اجتماعی حمایت دینا بھی نقصان دہ ہوگیا ہے جیساکہ اس بار بھٹکل اسمبلی حلقے میں دیکھنے کو ملا ۔ کانگریس کے منکال وئیدیا کو ہرانے کے لئے زعفرانی بریگیڈ نے اسی ہندوتوا کارڈ کو کھیلااور منکال وئیدیا کو مسلم حمایتی امیدوار ہونے کی وجہ سے ہندو دشمن قرار دے کر عام ہندوؤں کے ووٹ بھی اس کے خلاف پولنگ کروانے کی کامیاب کوشش کی گئی۔سوشیل میڈیا پر اس چالاکی کے ساتھ منکال کے خلاف سفیدجھوٹ پھیلایا گیا کہ پڑھنے والے ہندوؤں کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔اس میں سب سے سنسنی خیز بات یہ تھی کہ منکال وئیدیا نے بھٹکل میں’ دہشت گرد‘ موجود نہ ہونے کی بات جو ایک موقع پرکہی تھی اس کو بڑے زور وشور سے اچھالاگیا اور اسے’ جہادیوں‘ کی پشت پناہی کرنے والا شخص قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ پریش میستا کے مبینہ قتل کو مسلمانوں کی دہشت گردی سے جوڑ دکھانے کے علاوہ اور بھی کئی سنسنی خیز عنوانات سے منکال وئیدیا کے خلاف ماحول گرم کیا گیا۔اوربالآخر اسے شکست سے دوچار کرکے ہی دم لیا گیا۔ ملت کے ٹاپ فائیو مسائل کوئی بتائے تو!: لیکن ایک گھمبیر مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ مسلم امیدواروں کی ضرورت اوراہمیت جتاتے نہیں تھکتے ، ان سے اگر ہم پوچھیں کہ وہ کونسے ٹاپ فائیو’’خالص ملّی مسائل‘‘ ہیں جو موجودہ سیاسی حالات میں صرف ہمارا مسلم امیدوار ہی اسمبلی میں پہنچ کرحل کرسکتا ہے!...تو شاید قابل عمل فہرست ان کے پاس بھی نہ ہو۔ سچائی یہ ہے کہ ملت کے جو اہم ترین مسائل ہیں جیسے کہ یکساں سول کوڈ، بھگوا دہشت گردی، شریعت میں مداخلت ،گؤ رکھشا کے نام پر ماب لنچنگ ، اخلاقی پولیسنگ کے نام پر غنڈہ گردی، مسلم پرسنل لاء وغیرہ ان پر ریاستی اسمبلی یا ملکی پارلیمنٹ میں کہیں پربھی موجودہ صورتحال میں کوئی بھی مسلم نمائندہ بولنے یا مسئلہ حل کرنے یا اس کے خلاف صف آراء ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اور دوایک لیڈروں کو چھوڑیں توکوئی بھی ملت کے احساسات کی ترجمانی کے لئے تیار بھی نہیں ہے۔ (طلاق ثلاثہ بل پرپارلیمان میں جو ہوا وہ ثبوت کے لئے کافی ہے !)کارپوریشنس، بورڈزوغیرہ کی چیرمین شپ یا ایم ایل سی وغیرہ بناتے ہوئے مسلمانوں کو خالص سیاسی طور پر’ بااختیار‘ کرنے empowermentکی بھی جو بات ہے اس میں بھی ہمارے موجودہ سیاسی لیڈر پوری طرح ناکام ہیں، اس لئے کہ پارٹی پالیٹکس اور پالیسیوں میں وہ کوئی اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ۔بقیہ عام مسائل تو کوئی بھی سیکیولرسیاسی لیڈر حل کرسکتا ہے،شرط یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ خیر سگالی اور باہمی رابطے کی مخلصانہ روش اپنائیں۔ مسلم سیاسی لیڈران اور ملت کی ترجمانی: ایک طرف اسمبلی اور پارلیمان میں مسلم لیڈران کی کمی کا مسئلہ ہے جسے بہرحال سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ لیکن ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ کم تعداد میں ہی سہی ، جتنے مسلم قائدین ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں کیا وہ ملّی حمیت کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں! اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے توآج کے دور میں نہ مرکزی سطح پراور نہ ریاستی سطح پر قومی یا علاقائی پارٹیوں سے وابستہ مسلم لیڈران میں ملّی غیرت اور مسلم کاذ کے لئے لڑنے کا جذبہ رہا ہی نہیں۔سچائی یہ ہے کہ اپنے ووٹ بینک کے لئے دینی شعائر کے ساتھ مصالحت compromise کرنے میں انہیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔کانگریس ، بی جے پی ،جنتادل اے بی سی ڈی ایکس وائی زیڈ، ترنمول کانگریس،این سی پی، سماج وادی، بہوجن سماج اور دیگر تمام (سوائے ایم آئی ایم سپریمو اسدالدین اویسی یا پھر سماج وادی پارٹی کے ابو عاصم اعظمی، کچھ حد تک غلام نبی آزاد جیسے دوایک لیڈروں کے)پارٹیوں کا یہی حال ہے۔ابھی ماضئ قریب میں بھی نیشنل سطح پرجہاں ضیاء الرحمن انصاری اور عبدالرحمن انتولے جیسے چندبے باک سیاسی لیڈر ہمارے پاس تھے تو عارف محمد خان جیسے مسلم کاذ کا نقصان پہنچانے والے لیڈربھی موجود تھے۔اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ جو بھی مسلم سیاستدان ہے وہ اپنی سیٹ بچائے رکھنے کے لئے ملّی مفاد کو بھاڑ میں جھونک کراپنی پارٹی کا ہر ایک ایجنڈا پورا کرنے کے لئے دل وجان سے تیار بیٹھا ہواہے۔ہماری ریاست کے بہت ہی تجربہ کار اور seasonedمسلم لیڈران کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ مندروں میں جاکرپوجاپاٹ کرتی ہوئی کلپس ان کی حقیقی تصاویر پیش کرتی ہیں۔ ساحلی پٹی کے جو مسلم نمائندے اسمبلی میں موجود ہیں ، وہ بھی’ مسلم ملت کی ترجمانی‘ کرنے میں ناکام ہیں۔ ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کے لئے انہیں غیر شرعی اور شرکیہ اعمال میں شریک ہونے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ آئیپّا سوامی اور کورگجّا(ایک بھوت جس کی پرستش ہوتی ہے) کے عقیدت مندوں میں اپنے آپ کو شامل کرنے سے بھی انہیں کوئی پرہیز نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ میر تقی میرؔ نے انہی کے لئے یہ شعر کہا ہو:سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ نہ دیں اپنا ، نہ دل اپنا ، نہ جاں اپنی نہ تن اپنا
اس لئے اصل المیہ تو یہ ہے کہ ’خالص مسلم مسائل کے حل ‘کے لئے دینی شعور اور ملّی حمیت سے عاری ایسے لیڈروں کی انتخابی جیت کو ضروری سمجھنا ،اور ان سے ملّت کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کی توقع رکھنا....... سراب کو جھیل سمجھ کر خوش ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔) *******