ویکسی نیشن یا ٹیکے لگانا کیوں ضروری ہے !!(دوسری قسط)

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
از:۔۔۔ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ ٹیکے لگانے یا ویکسی نیشن کے موضوع پرمیں نے گزشتہ قسط میں بتایا کہ طبی سائنس میں بیکٹریالوجی، مائکرو بایولوجی اور وائرولوجی شاخوں نے انقلابی اضافہ کیا۔اور اس میں تحقیقاتی مہمات کے ذریعے روڈولف ورکاؤRudolph
Virchow، رابرٹ کاخRobert Koch، لوئی پیاسچرLouis Pasteur،ڈبلیو ایم اسٹینلیWM Stanleyنے بیماریوں کی تشخیص اور علاج و معالجے میں بے پناہ آسانیا ں پیدا کردیں۔لیکن خاص کرکے وبائی امراض پھیلانے والے جراثیم کے خلاف صحتمند جسم میں مصنوعی ذریعے سے مستقل دفاع یا immunityپیدا کرنے کے لئے ویکسی نیشن یا Immunization کا طریقہ دریافت کرکے لوئی پیاسچر اور ایڈورڈ جینرEdward Jennerنے عالم انسانیت پر بہت بڑا احسان کردیا۔کیونکہ لوئی پاسچر نے بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کا ایک عام طریقہ ڈھونڈنکالاتھا اور اسے ویکسین vaccineکا نام دیا تھا ۔جس کے بعد ایڈورڈ جینر نے اسی مقصد کے لئے پھٹی ہوئی نوک والی bifurcatedسوئی سے ٹیکے لگانے کا نیا طریقہ ایجاد کیا۔
چیچک دنیا کا خطرناک مرض : ویکسی نیشن کی شروعات سے پہلے دنیا میں جو سب سے زیادہ وبائی اور ہلاکت خیز مرض تھا وہ چیچکsmallpox) ) تھا۔ (جسے مقامی نوائطی زبان میں شیلیو کہاجاتا ہے )اور اس مرض میں جسم پر بڑی بڑی پھنسیاں نکلتی ہیں۔پھر یہ پھنسیاں زخموں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس کے بعد جسم پر اور خاص کرکے چہرے پر گہرے (سوراخ نما) داغ چھوڑجاتی ہیں جو زندگی بھر باقی رہتے ہیں۔جب یہ مرض وبائی صورت میں پھیل جاتا تھاتو پوری کی پوری آبادیاں متاثر ہوجاتی تھیں۔ جو مریض ہلاکت سے بچ جاتے تھے وہ زندگی بھر کے لئے بدشکل بن کر رہ جاتے تھے۔ اور کبھی کبھار یہ پھنسیاں آنکھوں میں پھوٹ جانے کی وجہ سے مستقل اندھے پن کا بھی شکار ہوجایا کرتے تھے۔
بقراط اور وبائی امراض کی نشاندہی: طبی سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ 400سال قبل مسیح یونانی فلاسفر اور حکیم اور طبی سائنس کا باوا آدم بقراط Hippocrates چند بیماریوں کو وبائی امراض کے زمرے میں رکھتا ہے۔ ان میں وبائی یرقان(مقامی زبان میں کامولی) epidemic jaundice خُناقdiphtheria اورکنپٹی یا کانوں کی سوجنmumps (مقامی زبان میں گال گوُن)شامل ہیں۔ طبی سائنس کی تاریخ ہمیںیہ بھی بتاتی ہے کہ آج ویکسی نیشن کا طریقہ جس اصول پر قائم ہے یعنی کسی مرض کے جراثیم سے ہی اس مرض کا علاج کرنا ، تو یہ بھی قدیم زمانے میں رائج تھا۔ گیارھویں صدی عیسوی ترکی ، چین، یوروپ اور افریقہ وغیرہ میں ویکسی نیشن کے جس ابتدائی طریقہ پر عمل کیا جاتا تھااسے Variolationکہا جاتا ہے۔ اس میں مریض کے جسم سے چیچک کے زخم کے سوکھے ہوئے چھلکے کو حاصل کرکے اس میں موجود جراثیم کو دوسرے صحتمند جسم میں داخل کرکے بیماری روکنے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ مگر یہ سب علاقائی اور محدود پیمانے پر ہوا کرتا تھا۔مگر دنیا کسی بھی زمانے میں ایسے دماغوں سے خالی نہیں رہی جن میں یہ ہمیشہ یہ سودا سمایا رہتا تھا کہ :
کر جستجو ئے فن میں ، سفر دور دور کا
ورنہ کھلے گا کیسے ، دریچہ شعور کا
جدیدطبی دنیا میں پہلا ٹیکہ: انگلینڈ کے ایک گاوں برکلی (گلوسیسٹر شائر) کے رہنے والے ایک معالج ڈاکٹر ایڈورڈ جینر نے 1796عیسوی میں پہلی بار ویکسی نیشن کے طریقے پر عمل کیا۔اس نے گائے کے باڑے میں کام کرنے والے یا دودھ دوہنے والوں کو ہونے والی بیماری cow poxکے بارے میں یہ جان لیا کہ جس کسی کو یہ بیماری ہوتی ہے انہیں بعد میں چیچکsmall poxکا اثر نہیں ہوتا۔ یعنی قدرتی طور پر ایک بیماری کی وجہ سے جسم میں کوئی ایسا مادہ بنتا ہے جو اسے دوسری بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔اس نظریے کی بنیاد پرسب سے پہلے چیچک کے مریض سے حاصل کیے گئے جراثیم کو پھٹی نوک والی سوئی کے ذریعے صحتمند انسان کے جسم میں داخل کیا گیا اور جسم کے اندر اسی مرض کا انفیکشن تھوڑی مقدار میں پیداکیا گیا۔اس عمل کو ویکسی نیشن کی ابتدا کے طورپرVariolation یا inoculationکا طریقہ کہا گیا۔
سب سے پہلابچہ جسے ٹیکہ لگا: ماڈرن زمانے میں ٹیکے لگانے کی جو ٹیکنیک استعمال کی گئی اس کا پہلا تجربہ ایڈورڈ جینر نے ایک آٹھ سالہ بچے پر کیا جس کانام جیمس فپس James Phippsتھا۔یہ ایک غریب مزدور کا بچہ تھا ۔14؍مئی 1796کو ڈاکٹر ایڈورڈ جینرنے ایک گوالن (دودھ دوہنے والی) مریضہ سارہ نیمس Sarah Nelmesکے ہاتھ پر موجود cow poxکی پھنسی سے پیپ حاصل کرنے کے بعد جیمس کی چمڑی پر زخم لگاکر اس مواد کو اس کے جسم میں داخل کرتے ہوئے ویکسی نیشن کی ابتدا کی۔جس کا نتیجہ توقع کے مطابق نکلا ۔یعنی اس طریقۂکار سے جسم کے اندر اس مرض سے لڑنے کی قدرتی طاقت یا immunity مستقل طور پر پیدا ہوگئی اور ایسے لوگ جنہیں یہ ٹیکہ لگایا گیا تھا مستقبل میں اس مرض کا شکار نہیں ہوئے۔ڈاکٹرجینر نے تقریباً 20برسوں تک عوام کو ویکسی نیشن کی اہمیت سمجھانے کے لئے جیمس فپس کااستعمال کیا اوراپنے تجربے کی کامیابی کا مظاہرہ demonstrationکرنے کے لئے عوام کے سامنے بار بار جیمس کے جسم میں چیچک کاویکسین داخل کیا اور اس پر بیماری کا اثر نہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو:
تلاشِ آب میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے
میں سوچتا ہوں کہ اب ریت بھی نچوڑی جائے
دنیا چیچک سے آزاد ہوگئی : چیچک کے خلاف immunizationکی یہ مہم تقریباً دو صدیوں تک چلتی رہی جب دی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی The World Health Assemblyنے1966ء میں آواز دی کہ پوری دنیا سے چیچک کو ختم کردیا جانا چاہئے ۔ اورجب چیچک کے خلاف عالمی سطح پر ویکسی نیشن کی مہم چلائی گئی تواس کے نتیجے میں پوری انسانی برادری چیچک جیسے موذی مرض سے مکمل طور پر محفوظ ہوگئی ہے۔کیونکہ اس مرض کا آخری کیس جو ریکارڈ کیا گیا تھا، وہ صومالیہ کے مارکا ضلع میں 26؍اکتوبر1977کو پیش آیا تھا۔اس کے بعد سے اب تک چیچک یا small poxکاکہیں بھی کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ بالآخر 8 ؍مئی 1980 کوورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے تصدیق کردی کہ قدرتی اوروبائی طور پر پھیلنے والا خطرناک مرض چیچک اب روئے زمین سے ختم ہوگیا ہے! طبی دنیا میں انقلابی پیش قدمی : چیچک پر قابو پانے کی وجہ سے طبی دنیا میں تحقیق کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوگئے اوراس کے بعد میڈیکل سائنس میں مولیکیولر بایولوجی molecular biology اور ویکسینولوجی vaccinologyبھی مستقل شعبے بن گئے ۔ اس طرح ان شعبوں میں تحقیق و جستجو کے بعد مختلف ماہرین نے بہت ساری بیماریوں کے لئے ٹیکے ایجاد کیے۔ اس کے بعدمنصوبہ بندی کے ساتھ عالمی سطح پر ٹیکے لگانے vaccinationکی مہمیں چلائی گئیں جس پر اربوں ڈالرکی رقم صرف کی گئی اور آج بھی کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف خطوں میں تپ دِق(ٹی بی) Tuberculosis,،کالی کھانسی pertussis (مقامی زبان میں اُولا خوکلو)، خُناق (کنٹھ روگ) Diptheria،پولیو،ٹیٹانیسTT(کزاز، اکڑبانی)، کن پھیڑیا کنٹھ مالاmumps (مقامی زبان میں گالگون )، خسرہ (گوبری، گھور)measles ،روبیلا rubella ، ورسیلا varicella،ٹائیفائڈ، جنون سگ گزیدگی (پاگل کتا کاٹنے سے ہونے والی بیماری ) Rabies ، دماغ کے تعدیہ bacterial meningitis، امراض جگر hepatitis a,b انفلوئنزا اے اور بی ،برڈ فلو، سوائن فلو، ایچ آئی وی، اینتھراکسanthrax جیسے امراض میں سے بہت ساری بیماریوں پر تقریباً پوری طرح قابو پالیا گیاہے اور انسانی جانوں کو ہلاکت خیز امراض سے بچانے کی کامیاب کوششیں ہوئی ہیں۔ جس کاسب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج کل کی نوجوان نسل کو ان میں سے کئی بیماریوں کے نام بھی نامانوس سے لگیں گے جبکہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک یہ عام اور خطرناک بیماریاں تھیں جس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر بچوں کی ہلاکتیں معمول کی بات تھی۔
(چیچک کے بعد۔۔۔۔بیسویں صدی کا خطرناک مرض پولیو ۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کریں)