نرم روی ، اخلاص و محبت کے پیکر ...مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی علیہ الرحمۃ

Bhatkallys

Published in - Other

02:00PM Sat 9 Sep, 2017

 تحریر : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل ۔ کرناٹک

ammuniri@gmail.com

        دس روز قبل فون آیا تھا کہ منیری صاحب آپ کیسے ہیں ؟ بھٹکل سے جانے کی ہمیں اطلاع بھی نہیں ملی ،صحت کا کیا حال ہے؟اور مجھ پر شرم کے مارے  گھڑوں پانی  پڑ گیا ، فروری میں ہمارا بنگلور میں آپریشن ہوا تھا تو سفر کی تکان کے باوجود بنگلور پہنچتے ہی  دیکھنے اسپتال آگئے تھے ، بنگلور سے بھٹکل پہنچا تو وہاں بھی خیر خیریت دریافت کرنے کے لئے فون آیا ۔ مولانا بہت عظیم تھے ، اور ہمارا کوئی ایسا مقام نہیں تھا کہ آپ کو صرف خیر خیریت کے لئے وقت بے وقت فون کرکے پریشان کیا کریں ۔  لیکن یہ مولانا کی بڑائی تھی ، بلند اخلاقی تھی جو اپنے سے چھوٹوں  سے شفقت کرنا جانتی تھی ،یہ انہیں مدتوں دلوں میں زندہ رکھے گی ۔ یہ مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی صاحب کی شخصیت تھی تھے جو کل مورخہ ۸ ! ستمبر ۲۰۱۷ء  کی شب  اچانک اس دنیا کو چھوڑگئے اور مسلمانا ن ہند اپنے ایک سنجیدہ مشفق اور بردبار دینی رہنما سے محروم ہوگئے  ، اور قحط الرجال کے اس دور کی تاریکی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔

          مولانا مرحوم اس وقت امیر شریعت کرناٹک ، مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلورو، رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل ، رکن انتظامی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے منصبوں پر فائز تھے ،ان کے علاوہ چھوٹے بڑے پندرہ سے زیادہ ریاست کرناٹکا ، ٹامل ناڈواور آندھرا کے اداروں اور مدرسوں کی صدارت اور نظامت آپ کی ذمہ داریوں میں شامل تھیں۔

           آپ جنوبی ہند کے ایک عظیم المرتبت بزرگ عالم دین و مفتی شرع متین حضرت مولانا ابو السعو د احمد علیہ الرحمۃ کے خلف الرشید تھے۔ جنہیں جنوبی ہند میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ حضرت مولانا محمد سعید کیرنوری علیہ الرحمۃ سے خلافت حاصل ہوئی تھی ۔حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ ، حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ  وغیرہ  جملہ اکابرین وقت  سے جنہیں قربت حاصل رہی ۔ مولانا ابو السعود علیہ الرحمہ کی مکمل تعلیم جنوبی ہندکی تاریخی درسگاہ جامعہ باقیات الصالحات ویلو ر میں ہو ئی تھی۔

           جامعۃ الصالحات ویلور کو جنوب میں وہی حیثیت حاصل ہے جو شمالی ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کو حاصل رہی ہے ، اسے اعلی حضرت مولانا عبد الوہاب ویلوری علیہ الرحمۃ نے قائم کیا تھا،جو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلفائے اجل میں شامل تھے ،مشہور ہے کہ حضرت حاجی علیہ الرحمۃ کی ہدایت پر  ہندوستان کے چار کونوں میں اور مکہ مکرمہ میں آپ کے خلفاء میں سے اعلی حضرت ویلوری ؒ  سمیت حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے دارالعلوم دیوبند ، حضرت مولانا انواراللہ خان فاروقی ؒ نے  جامعہ نظامیہ حیدرآباد ، حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ نے جامعہ صولتیہ مکہ مکرمہ ، اور حضرت مولانا  شاہ منور علی دربھنگوی رحمۃ اللہ علیہ نے    جامعہ امدادیہ دربھنگہ بہار  قائم کیا تھا ، اس طرح  ہندوستان کے طول و عرض میں علم دین کا فیض جاری و ساری  رہا ، باقیات الصالحات کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت حاجی امداد اللہ علیہ الرحمہ کے مشرب کا امین ہے ، یہ اہل اللہ کا مسکن رہا ہے ، اور یہاں ملبار ، ٹامل ناڈو، آندھرا پردیش  اور کرناٹک کے طالبان علوم نبوت سیراب ہوتے آرہے ہیں ۔ جنوبی ہند کے دوسرے  بہت سے عظیم بزرگان دین اور اکابر کی طرح یہاں کے اہل علم بھی برصغیر کے مشاہیر کی فہرست میں وہ جگہ نہیں پاسکے جس کے یہ مستحق رہے ہیں ۔

         مولانا ابو السعود علیہ الرحمۃ کو  باقیات میں اپنے دور کے جن مشاہیر و اہل اللہ سے استفادہ کا موقعہ ملا ، ان میں  مفتی اعظم حضرت مولانا شیخ آدم ؒ، شیخ الحدیث مولانا حسن باشا ویلوری ؒ ، مولانا سید محمد سعیدؒ ، مولانا سید عبد الجبار ؒ ،مولانا ضیاء الدین امانی ؒ ،مولانا عبد الصمد علمی ؒ علیہم الرحمۃ کی تربیت کا آپ پر گہرا اثر رہا ،بانی باقیات شمس العلماء حضرت مولانا عبدالوہاب ویلوری ؒ سے کم عمری کی وجہ سے آپ کو استفادے کا موقعہ نہیں ملا ،  البتہ آپ کی زیارت کا شرف آپ کو  ضرور حاصل ہوا، مولانا شیخ آدم ؒ کے علم و حافظے کے بارے میں بتاتے تھے کہ جب کسی کتاب میں انہیں کوئی مسئلہ تلاش کرنا ہوتا تو فہرست اور صفحات گن کر اسے تلاش نہیں کرتے  تھے ، بلکہ کتاب کی جلد کو اٹھا تے اور درمیان سے صفحہ کھولتے ، اور عبارت  زیادہ سے زیادہ ایک صفحہ ادھر یا ادھر  مل جاتی ۔ اپنے ان ساتوں بزرگوں کے احسان کو زندگی بھر انہوں نے یاد رکھا، اور ان کے لئے ہرسال عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی دیتے رہے ۔ آپ نے فراغت کے بعد زندگی بھر علم دین اور اصلاح و تربیت کو زندگی کا مشن بنا یا تھا،محلہ کے بچوں کی تربیت کا خیا ل رکھتے ، ان کے لئے پنچ وقتہ نمازوں کی حاضری کی ڈائری تیار کی تھی ،نماز فجر کے بعد ترجمہ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ، اسے مکمل ہونے کے بعد صحیح بخاری کا درس شروع کیا ۔یہ سب تبلیغی جماعت کی شروعات سے پہلے کی باتیں ہیں ۔

         مولانا مفتی اشرف علی علیہ کی ولادت سنہ ۲۶! فروری ۱۹۴۰ء کو شمالی ارکاٹ کے قصبے ولنجی پور میں ہوئی ، آپ کے والد نے آپ کی تربیت خالص دینی بنیادوں پر کی تھی ، ابھی تین چار سال ہی کے تھے تو والد ماجد نے آپ کو دعائیں یاد کرائی تھی ، سوتے وقت کی وہ طویل دعا ۔۔۔۔۔(اللھم اسلمت وجھی الیک ) آپ کو اسی عمر میں والد کی گود میں بیٹھے بیٹھے یاد ہوگئی تھی ، میل و شارم میں انجمن تبلیغ الاسلام کے ماتحت قائم مدرسہ مدینۃ العلم  کا آغاز آپ ہی کی بسم اللہ خوانی سے ہوا تھا، مفتی اعظم شیخ آدم علیہ الرحمۃنے یہ بسم اللہ خوانی کرائی تھی جو بڑی بابرکت ثابت ہوئی ، یہاں سے آپ نے  ۱۹۵۳ء کے آس پاس باقیات الصالحات ویلور میں داخلہ لیا ، یہاں آپ کو والد ماجد کے کئی ایک اساتذہ  مفتی شیخ آدم ، شیخ الحدیث مولاناحسن باشا، مولانا سید عبد الجبار علیہم الرحمۃ کے ساتھ اس دور کے معزز اساتذہ  مولانا رئیس الاسلام ، مولانا جعفر حسین وغیرہم سے فیض حاصل کیا ، یہاں آپ کے ادبی ذوق کو اس دور کے استاذ فن  مولانا نثار احمد فدوی باقوی اور مولانا کمالی ویلوری مرحوم کی تعلیم و تربیت سے جلا ملی ۔اور ۱۹۶۰ء میں یہاں سے آپ نے دستار فضلیت باندھی ، فراغت کے بعد چند ماہ لال پیٹ میں منبع العلوم کے بانی اور اپنے دور کے مشہور عالم و فقیہ مولانا ضیاء الدین امانی علیہ الرحمۃ  کی خدمت میں رہ کر علم منطق ،فلک ، اوقات الصلوۃ  اور جہت قبلہ کی خصوصی تعلیم حاصل کی ، امانی صاحب کی  مواقیت الصلوۃ پر مشہور کتاب (عمدۃ الادلۃ ) اور غیر عربی میں ترجمہ قرآن پر (زجر الامم فی ترجمۃ القرآن فی لغۃ العجم ) کی ترتیب و تسوید اور ان کی اشاعت  میں  آپ کا حصہ رہا ۔ جنوب کے قدیم بزرگارن دین میں سے آپ کو حضرت مولانا عبد المجید                                                پنگنوری علیہ الرحمۃ خلیفہ حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمۃ و بانی معدن العلوم وانمباڑی کو دیکھنے کا موقعہ ملا ۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالباری  معدنی علیہ الرحمۃ حضرت پنگنوری ؒکے شاگرد خاص اور خلیفہ  تھے ۔

          یہاں سے آپ نے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا ، جہاں آپ کو اس دور کے مشہور اساتذہ  علامہ ابراہیم بلیاویؒ ، مولانا فخر الحسن ؒ اور شیخ الحدیث مولانا فخر الدین مرادآبادی علیہم الرحمۃ سے کسب فیض کا موقعہ ملا ، دیوبند میں خصوصیت سے آپ  نے صدر مفتی اور فقیہ اعظم حضرت مولانا مہدی حسن علیہ الرحمۃ  کے ماتحت افتاء کی تربیت پائی تھی۔

          اسی دوران بنگلور میں دارالعلوم سبیل الرشاد کا قیام میں عمل میں آیا ، جہاں اپنے والد ماجد کے دست راست بن کر اور آپ کی رحلت  کے بعد شیخ الحدیث اور مہتمم کی حیثیت سے نصف صدی سے زیادہ عرصہ علم دین کی آپنے آبیاری کی ۔ اور اس جامعہ کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا ۔

          آپ کے والد ماجد علیہ الرحمۃ نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت پر خصوصی توجہ دی تھی ، آپ کے ایک بھائی مولانا ولی اللہ مرحوم جنوبی ہند کی ایک تاریخی درسگاہ معدن العلوم وانمباڑی کے عرصہ دراز تک مہتمم رہے ، ایک اور بھائی قاری امداد اللہ مرحوم کی قراء ت کی بڑی شہرت رہی ، ملیشیا کے عالمی قراء ت مقابلے وغیرہ میں شریک ہوتے تھے ۔

           مفتی صاحب کو ہم نے پہلے پہل ۱۹۷۰ء کے آس پاس دیکھا تھا ، چنئی جاتے ہوئے بنگلور جانا ہوتا  تو سبیل الرشاد سے  گذر ہوتا ، جہاں ہمارے چچیرے بھائی فضل الرحمن منیری  حفظ قرآن  کے درجے میں زیر تعلیم تھی ، بعد میں مولانا محمد حسین اکرمی اور مولانا محی الدین جیلانی اکرمی وغیرہ کئی ایک بھٹکل کے طالب علم یہاں زیر تعلیم رہے ۔ اس زمانے میں مفتی صاحب کی ایک ادیب کی حیثیت سے بھی شناخت تھی ، اشرف سعودی کے تخلص سے آپ کا کلام اخبارات و رسائل کی زینت بنتا تھا ، چند ہی عرصے بعد آپ نے سبیل الرشاد سے سلسبیل کے نام سے ایک مجلہ بھی جاری کیا تھا ۔

             مولانا ابو السعود علیہ الرحمۃ کے زمانے میں کئی ایک بار تا یا مرحوم الحاج محی الدین منیری صاحب کے ساتھ سبیل الرشاد جانا ہوا ، دونوں باپ بیٹے آپ پر بچھے جاتے تھے ، اور بہت ہی عزت و احترام کا معاملہ کرتے تھے ۔ منیری صاحب کے ساتھ تو ان کے حج کمیٹی کے  دنوں سے  دیرینہ روابط تھے ۔لیکن نرم گفتاری اور احترام و اکرام کا یہ معاملہ دوسروں کے ساتھ بھی ہوتا تھا ، کبھی بلند آواز میں بات نہیں کرتے تھے ، غصہ اور خفگی کا اظہار بھی نرم لب و لہجے میں ہوتا تھا ، لیکن طلبہ پر اس نرم لب و لہجے کی بھی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ شاید سخت و درشت انداز تخاطب میں وہ وہ بات نہ ہو۔

             سبیل الرشاد کے قیام کے مقاصد میں کوئی بڑا دعوی شامل نہیں تھا، کہتے تھے کہ ہمیں اچھے امام اور مبلغ بنانا ہے ، لہذا یہاں پر تجوید اور تلاوت اور تبلیغ سے وابستگی پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ، فکری اور اختلافی امور سے طلبہ و فارغین کو دور رکھا گیا ، اس کا اثر یہ ہوا کہ بنگلور و اطراف میں فارغین سبیل الرشاد کی ایک نسل نے مسجدوں کو سنبھالا ، اور اصلاحی دعوتی کام کیا ، اس مدرسے  کے فارغین ٹامل ناڈو اور آندھرا کے دور دراز اور غریب علاقوں میں پھیل گئے ۔ اور سبیل الرشاد اور اپنے اساتذہ کانام روشن کیا ۔

               زندگی میں مولانا ابو السعود علیہ الرحمۃ اور آپ کے خلف الرشید کو  بنگلور میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ،پرسنل لا بورڈ ، رابطہ ادب اسلامی وغیرہ کے بڑے بڑے اجتماعات یہیں ہوتے رہے ، اور شمالی ہند کے اکابر کرناٹک میں ملی تحریکات کے لئے آپ ہی پر نظریں مرکوز کرتے رہے ۔سنہ ستر کے اوائل میں کرناٹک میں امارت شرعیہ کی   بنا ڈالی گئی ، جس میں ریاست کے مختلف علاقوں کی  علمی شخصیات کی نمائندگی رہی، ۱۹۸۸ء میں دارالقضاء عمل میں آیا ، اس مشن کو لے کر مولانا ابوالسعود علیہ الرحمۃ کی دبی آمد ہوئی تھی ، اور ہماری خوش قسمتی تھی کہ یہاں آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقعہ ملا ، الراس کی مشہور مسجد بن دلموک میں آپ کا بیان بھی  رکھا گیا ۔ دارالقضاء کا افتتاح حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمۃ کے ہاتھوں ہوا تھا، اور اس موقعہ پر تربیت قضاء کا ایک بہت ہی خوبصورت ورک شاپ بھی منعقد ہوا تھا ، قاضی صاحب علیہ الرحمۃ کی اس ناچیز پر بڑی شفقتین رہی ہیں ، جب آپ کو ہماری بھٹکل موجودگی کا علم ہوا تو اصرار کرکے بنگلور پروگرام میں شرکت کی دعوت دی ، یہاں مفتی صاحب سے تعارف کے مواقع نصیب ہوئے ۔ 

              مفتی صاحب ایک باذوق عالم تھے ، انہیں ادبیات کا بھی بہت شوق تھا ، کتابوں کے بھی رسیا تھے ۔ ۲۰۰۵ء میں آپ کو سبیل الرشاد کے کتب خانے کو وسعت دینے کا خیال آیا ۔ شارجہ اکسپو کے زمانے میں تشریف لائے تو دس روز تک مسلسل رفاقت رہی ، چونکہ اللہ تعالی نے گذشتہ (۳۸) سال سے ہماری روزی روٹی کتابوں میں رکھی ہے ، اور کتب خانہ جامعہ اسلامیہ کے لئے کتابوں کے انتخاب کا بھی کچھ تجربہ رہا ہے ، تو یہ باتیں مفتی صاحب کے کام آئیں ، کتابوں کے انتخاب میں اس ناچیز پر بہت اعتماد کیا ، حالانکہ وہ ہمارے اساتذہ کا مقام رکھتے تھے ، اور دینی علوم اور کتابوں میں خود ایک مرجع کی حیثیت رکھتے تھے ۔

           سنہ 2015 میں اکسپو شارجہ کے موقعہ پر آپ کی دوبارہ آمد ہوئی ۔ اس موقعہ پر بھٹکل کمیونٹی کا ایک سالانہ پروگرام بھی تھا ، جس میں اس ناچیز کی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا،  ہماری خوش قسمتی تھی کہ مفتی صاحب کے ہاتھوں ایوارڈ لینالکھا تھا۔

             فروری 15 کو بنگلور میں بھٹکلیس ویب سائٹ کے ایپ۔ اردوآڈیو کا تعارفی اجلاس رکھا گیا تھا، بنگلور میں حضرت مفتی صاحب کو چھوڑ کر نظر کہاں ٹہرتی ، ایپ کا رسم اجرا  کیا اور بہت خوبصورت خیالات پیش کئے ، اجلاس سے قبل راستے میں ہم نے آپ کو سبیل الرشاد کے پہلے دستار بندی کے موقعہ پر پڑھی گئی پروفیسر جلال کڑپوی مرحوم کی آواز میں آپ کی مشہور نظم( دستار میں دس تار) سنائی تو بڑے محظوظ ہوئے اور بڑی دعائیں دیں ، جگر مرادآبادی وغیرہ کے آواز میں کلام سنا تو پرانا ادبی تعلق اور ذوق ابھر کر سامنے آگیا ۔ بڑے شوق سے سننے رہے اور ہل من  مزید کا  تقاضہ بھی کرتے رہے ۔

            مفتی صاحب ایک ایسے مسلک کے امین تھے جس میں روادری اور برداشت تھی ، ان کا احترام برصغیر کی ایک بڑی اکثریت ہمیشہ کرتی آئی ہے ، آپ کے رویوں میں نفرت کی گنجائش نہیں تھی ، اب تو بنگلور آپ کے والد ماجد کے زمانے کا نہیں رہا ، بڑی وسعت ہوگئی ہے اس میں ، باہر سے بھانت بھانت ک کی بولنے والے لوگ یہاں آکر بس گئے  ہیں ، ساتھ ہی ساتھ مختلف قسم کے شدت پسند افکار و خیالات بھی در آمد ہورہے ہیں ، اس میں شک نہیں کہ مفتی صاحب کے زمانے میں سبیل الرشاد کے حلقے کو بڑی وسعت ملی ہے ، یہاں کے فارغ ائمہ و مدرسین کی تعداد بھی اس دوران کافی بڑھی ہے ، لیکن جس رفتار سے بنگلور کی وسعت  ہوئی ہے ، اس تیز رفتار ی کا یہ حلقہ شاید ساتھ نہ  دے سکا ۔ مسلکی رواداری کے مزج کو  اسی رفتا ر سے پھیلنا چاہئے تھا۔  اس کا تذکرہ ہم نے مفتی صاحب سے کیا تھا، اور اس کا انہیں شدت سے احساس تھا۔

             مفتی صاحب کی خدمات اس علاقے میں بہت عظیم رہی ہیں ، امت کو آپ کی صلاحیتوں اور رہنمائی کی پہلے سے زیادہ ضرورت تھی ،لیکن قانون قدرت کو کون ٹال سکتا ہے ۔  یہاں کون رہنے کے لئے آیا ہے ، مفتی صاحب بھی جانے ہی کے لئے آئے تھے ، لیکن آپ نے اپنے اخلاق ، رویے ، علم و دانش ، حکمت و نرم روی ، تعاون اور ملت کے لئے سر جوڑ کربیٹھنے کی ایک نادر مثال قائم کی ہے ، اس سے آئندہ کام کرنے والوں کو روشنی ملتے رہے گی ، اور آپ کی یاد  دلوں کو گرماتی رہے گی ، عظیم شخص تھا ، محفل کو ویران کرگیا وہ ۔ اللہ درجات بلند کرے ۔ آمین

دبی : مورخہ 09/09/2017ء

واٹس اپ : 00971555636151