حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے! (دوسری اور آخری قسط)

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
دوسری اور آخری قسط
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
اسلاف کے پاک سروں کی عظمت کے طفیل جنہیں سرداری کا اعزاز ملا تھا جب ملک گیر سطح پران کے سر محض دنیاوی لذّتِ فانی کے لئے اغیارکے در پر خم ہونگے تو حمیت ملّی سے سرشار دلوں کا خون کے آنسو رونا فطری رد عمل ہے۔طرفہ تماشہ تویہ ہے کہ دعوت دین کے علمبردارکہ جن پر نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کی ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے،وہ سیاسی و سماجی قائدین کی اسی نامبارک و نا مسعود جرأت مندی کے خلاف کھل کر سامنے آنے سے گریز کررہے ہیں۔بلکہ خاموشی سے برداشت کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر ان کی ہمت بڑھار ہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ سیاسی اسٹیج پر موجود قائدین سب کے سب دین بیزار اور ملّی حمیت سے بے پروا ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ اس میدان میں دین کاحقیقی شعوررکھنے اور اپنے مسلمان ہونے کے تقاضے سمجھنے والوں کا کال پڑا ہوا ہے ، ایک آدھ نام کو اگر الگ کر دیں تو باقی سب لوگ اپنی شخصیت اور اپنا سیاسی یا سماجی مقام بنائے رکھنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور صاف لگ رہا ہے کہ :
براہیمیؑ نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
کھلے فاسقوں کی بات چھوڑیئے: دینی شعائر کا مذاق اڑانے، ترقی پسندی اور روشن خیالی کا راگ الاپنے یا بھائی چارگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لبادے اوڑھ کر کھلے عا م فسق و فجور کا مظاہرہ کرنے والوں کی تو بات ہی چھوڑیئے ۔جیسے کہ ہماری فلم نگری میں بہت سارے فلمی "خان "زادے اس کا مظاہرہ ماضی میں بھی کرچکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ میڈیا کی نامور ہستیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ ادب کے محاذ پر بھی ہوسکتا ہے۔ اوردین کے یہ سودائی سیاسی بساط پر بھی چھائے ہوئے مل جائیں گے۔جن کا طرز زندگی ہی دینی شعائر سے ان کی بے رغبتی کا مظہر ہوتا ہے۔ مسلمانوں جیسے نام رکھ کراور "روشن خیال اسلام" کا نمائندہ بن کر خود اپنے گھروں میں ہندو عورتوں کو اپنی بیوی یا رکھیل بنائے رکھنا ، اپنے گھروں کے اندر پوجاپاٹ کے مندر منانا، گنپتی کو اپنے گھروں میں براجمان کروانا،اپنی اولاد کی شادیاں غیر مسلموں سے کروانا، کیا کچھ نہیں کرتے یہ لوگ! اور پھر بھی انہیں یہ غرّہ یہ رہتا ہے کہ' ہم مسلمان' ہیں۔اور ایوان باطل میں ان کی پذیرائی بھی اپنی جگہ مسلّم ہوتی ہے۔میری گفتگوان کھلے فاسق اور فجارکے تعلق سے نہیں ہے۔
لیکن علماء کی مجالس کے یہ شرکاء!: مجھے افسوس اور حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب علمائے دین سے قربت رکھنے ، ان کی مجالس میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جانے ، بلکہ بعض دفعہ توبراہ راست علماء کی سرپرستی میں رہنے والے ہمارے چھوٹے بڑے سیاسی و سماجی لیڈر اپنے عہدے اور قد کو بچائے رکھنے کے لئے مشرکانہ عمل انجام دے جاتے ہیں اور ان کے سرپرست علماء اور ملّی اکابرین کی طرف سے باز پرس نہیں ہوتی ہے، اور نہ ان سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔جب دینی حلقے میں ان کے مراتب اور اکرام میں بھی کوئی فرق نہیں آتا، تو ہمارے لئے دل مسوس کر رہ جانے کے سوا باقی کیا رہتاہوگا!
ظاہر ہے کہ عوام قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور اکابر علمائے کرام جب مصلحت کوشی کے ساتھ ان فاسق و فجار قائدین کو برداشت کرنے لگتے ہیں تو عوام اسی غلط روش کو اپنے لئے بھی قابل تقلید سمجھ لیتی ہے اور پھر برائی کو برائی کہنے اور سمجھنے والا کوئی مشکل سے ہی ملتا ہے۔
مندر میں پوجا کرنے والے یہ شریف زادے: نچلی سطح پر وزراء اورپارٹی لیڈرس کا حال اس سے کچھ الگ نہیں ہے جیسا کہ ملکی سطح پر اعلیٰ اور بلند مقام پر فائزبعض مسلم قائدین کا ہوتا ہے۔دیکھنے والوں نے کھلی آنکھوں سے ایسے بے ہدایت اور بے کردارلیڈروں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے گنیش اتسوا کے دوران خود اپنے ہاتھوں سے گنیش کے بت پر پھولوں کی مالا چڑھائی تھی، شادی بیاہ بھی توخیرکسی مسلم خاتون سے کیا کرتے، موت کے بعد قبر میں دفن ہونا بھی انہیں نصیب نہیں ہوا کیونکہ جیتے جی انہوں نے اپنی لاش کو مرگھٹ پر جلانے کی وصیت کرکے اپنے اخروی انجام کا دنیا میں ہی اعلان کردیا تھا۔
مگر مجھے تو تعجب اس وقت ہوتاہے جب ہمارے صوبے میں شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک بہت بڑے سیاست دان کو شریعت کے محافظین کی نظروں میں عزت و احترام کے مقام پر دیکھتا ہوں اور علماء و اکابرین ملّت کے پہلو میں ملّی قائد کے طور پر براجمان پاتا ہوں۔کیونکہ اس وقت میرے ریفرنس البم میں موجود ایک تصویر نظر کے سامنے گھومنے لگتی ہے جب وہ لیڈرمبینہ طور پر اپناجنم دن منانے کے لئے بنگلورو کے گائیتری مندر میں پنڈت کے ساتھ بیٹھ کرپوجاپاٹ کی رسمیں انجام دے رہا ہوتا ہے!
اورشرمناک سچائی یہ ہے کہ اتنے بڑے گھناؤنے عمل کے بعد بھی نہ عوام میں اور نہ ہی محافظین شریعت کے حلقے میں ان کی شرافت والی امیج پرکوئی منفی اثر نہیں پڑا۔نہ پہ ان کے مقام و مرتبے میں کوئی فرق آیا۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا: اس کے علاوہ بھی ہمارے پاس صوبائی طور پر ایسے سیاسی مسلم لیڈر موجود ہیں جنہیں مسجد، مندر ، درگاہ، گرجا ہرجگہ ایک ہی طرح کا 'روحانی سکون' ملتا ہے ، یا جنہیں اپنے خطابات میں قرآنی آیات یا احادیث کا حوالہ دینے کے بجائے ویدوں کے اشلوک اور بسویشور ا کے وچن سنانے پر زیادہ عبور حاصل ہے اور اس پر انہیں فخر بھی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے قائدین کو جن صلاحیتوں سے نوازا ہے ، اگر وہ شکران نعمت کے طور اس کاصحیح استعمال کریں اور دین کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے اسے اپنے کردارکا حصہ بنائیں، تو کچھ بعید نہیں کہ صورتحال یکلخت بدل جائے اور علامہ اقبال ؒ کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویرہمیں نظر آجائے:
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
سوال غیر مسلموں سے خیر سگالی کا نہیں ہے: ہماری بحث اس سوال پر نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ باہمی رواداری اور خیر سگالی کے تعلقات بنائے رکھنا غلط ہے۔یہ حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ میں مختلف قوموں اور برادریوں کے ساتھ رہتے ہوئے امن و
شانتی بنائے رکھنے کے لئے خوش گوارآپسی تعلقات اور رابطے ازحد ضروری ہیں۔ زندگی کے اہم معاملات اور مسائل میں مختلف قوموں اور برادریوں کے لئے ایک دوسرے کا تعاون حاصل کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔اور یہ ماحول دعوتِ دین کے نقط�ۂ نظر سے مسلمانوں کے لئے مطلوب بھی ہے اور اس کو بنائے رکھنے کی پہلی ذمہ داری بھی مسلمانوں ہی کی ہے۔اور پھرایک تکثیری (pluristic) سماج میں تو اس کی اہمیت اور قدر بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اس لئے غیر مسلموں اور برادران وطن سے تعلقات بنائے رکھنے اور ان کی سماجی تقریبات اور دکھ سکھ میں شریک ہونے کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
قرآن حکیم کی پالیسی کیا ہے ؟: مگر مسلمان چونکہ صرف اور صرف احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے تووہ کوئی بھی اقدام اسلام کے منشاء اور حکم کے منافی کرنے کے لئے آزاد نہیں ہے۔ اسے ہر قدم پراور ہر معاملے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ درپیش مسئلے میں قرآن حکیم کی کیا رہنمائی ہے؟اسلام دیگر اقوام سے سماجی و معاشرتی معاملات میں برادرانہ تعلقات سے منع نہیں کرتا۔ لیکن دینی شعائر کے ساتھ سمجھوتہ کرنے یا تھوڑے سے فائدے کے لئے دینی احکام کا سودا کرنے سے روکتا ضرور ہے او راس خسران سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے مومنوں کو سورۃالمائدہ میں ایک لائن پر مشتمل ایک واضح پالیسی پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے: وتعاونوا علی البر والتقویٰ، ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان۔یعنی خدا ترسی اورنیکی کے کاموں میں تعاون کرو اور گناہ اور برائی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔بس ہر مسلمان جو دنیا وی اعتبار سے کسی بھی منصب اور مقام کیوں نہ فائز ہو، اس کے لئے اس پالیسی پر عمل کرنالازمی ہوگیا۔
بات موجودہ صورتحال کی: لہٰذا قرآن حکیم کی بیان کردہ اسی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ملکی، صوبائی یا مقامی سطح کے سماجی، سیاسی، یا پھر مذہبی قائدین اور جماعتیں غیر مسلموں سے باہمی روابط ، رواداری، خیر سگالی کے نام پر مندروں میں پوجاپاٹ کے وقت بصد احترام شریک ہونے، پوجا پاٹ کی تقاریب میں مندر منتظمین کی جانب سے پیش کردہ مشروبات اور کھانے پینے کی چیزیں (جن کے مندر کا پرساد اور چڑھاوا ہونے کے غالب امکانات اور اشارے موجود ہوں)نہ صرف قبول کرنے بلکہ استعمال کرنے جیسے جو اقدامات کرنے لگے ہیں، وہ کس زمرے میں آتے ہیں۔ تعاون علی البر و تقویٰ کے یا پھرعلی الاثم و العدوان کے ؟
عمل کا انحصار نیت پر: لطف کی بات یہ ہے کہ جو صورتحال گزشتہ دنوں ہمارے یہاں پیدا ہوئی اس پر جہاں ایک طرف بڑی لے دے ہوئی اور تقریباًپوری برادری کی طرف سے اس کی مذمت بھی کی گئی، وہیں پر ایسے" روشن خیال اور وسیع النظر"ارباب سیاست وقیادت کے اندھے مقلدین یا کٹر حوارین بھی ہیں ، جنہیں شریعت مطہرہ کو مکمل طورپر اپنے اوپر لاگو کرنے میں تردد ہے، وہ یاتواس طرح کے اعمال کوسیاسی ووٹ بینک کی ضرورت قرار دے رہے ہیں، یا پھر بڑی دیدہ دلیری سے انمالاعمال بالنیات یعنی عمل کا انحصار نیت پر ہے جیسی حدیث پاک کا سہارا لے کر ان کے عمل کو صحیح اور وقت کی ضرورت قرار دینے کی کوشش کرتے نظر آئے ہیں اور وہ بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ یہ دینی جماعت کے کارکنان اور سیاسی و سماجی قائدین جب مشرکانہ عمل انجام دینے کی نیت سے وہاں نہیں جاتے تو پھر اس پر اعتراض کا جواز کیا ہے؟ان کے اس سوال پر مجھے تو بس علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آیا کہ:
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے ، نہ زاہد ، نہ حکیم
قابل مبارکباد ہیں علمائے بھٹکل: دینی نقطۂ نظر سے جب ملکی اور صوبائی سطح پر سیاسی و سماجی قائدین کی بے راہروی اوربے سمتی پر بڑے بڑے علماء اور اکابرین نے خاموشی اوڑھ رکھی ہو۔ اور مختلف مصلحتوں کے پیش نظر ان سے باز پرس کرنے کو شہد کے چھتے کو چھیڑنے مانند سمجھ رکھاہو، ایسے میں علمائے بھٹکل یقیناًقابل مبارکبا د ہیں کہ جب بھی ضرورت پڑی ہے انہوں نے نہی عن المنکر کا اپنا فریضہ بڑی جرأت اور بے باکی کے ساتھ ضرور ادا کیا ہے۔الحمدللہ بھٹکل کا سماجی تانا بانا کچھ اس انداز سے بنا ہوا ہے کہ اب بھی دینی حمیت اور پاکیزہ کرداری کوزندگی کے ہر شعبے میں کلیدی اہمیت حاصل ہے اور عوامی شعور اتنا بیدارہے کہ اس کی نگہبانی کا کام ہزار کوتاہیوں کے باوجود پورے ملک اور صوبے سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں ہمارے یہاں علمائے دین اور اکابرین ملت کی نگرانی میں اجتماعی سطح پر انجام دیا جا تا ہے۔
کوئی بزم ہو کوئی انجمن ، یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا
اس مرتبہ بھی جو ناپسندیدہ اور شرعی لحاظ سے جو گھناؤنا عمل جس سیاسی لیڈر نے کیا تھا اسے شعبۂ نہی عن المنکر کی نشست میں طلب کرکے بعض پرس کرنے کے بعد قاضی صاحبان کی موجودگی میں اس سے اپنے غیر شرعی عمل سے زبانی اور تحریری توبہ اور رجوع ہونے کا جو اعلان کروایاوہ قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ اس کے بعد مذکورہ سیاسی قائداور دیگر سماجی لیڈران اور دینی کارکنان اپنی سوچ اور عمل کوکسی بھی قدم پر شریعت مطہرہ کے سانچے سے باہر نکلنے نہیں دیں گے ، اور بھٹکل کے مسلمانوں کے دینی تشخص کو مجروح ہونے نہیں دیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تادم حیات صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور ہمارے علماء و اکابرین کو حق پرستی کے محاذ پر جمے رہنے کے لئے اپنی نصرت سے سرفراز فرمائے ۔( آمین)
(۔۔۔آئندہ ہفتے۔۔۔ کسی اور موضوع پربات ہوگی۔۔۔ان شاء اللہ !)