بات سے بات: امام جصاص اور بعض کتابوں کا ذکر۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

11:19AM Sat 6 Mar, 2021

آج بزم میں نورالانوار کا تذکرہ آیا ہے، یہ کتاب ہمارے استاد مولانا محمد حسین بنگلوری مرحوم نے ہمیں پڑھائی تھی۔ مولانا باقیات الصالحات ویلور کے فارغ التحصیل اور افضل العلماء کے سند یافتہ، اور برطانوی دور میں مدراس کی کے  باوقار پریزیڈنسی کالج سے قانون میں یل یل یم پاس تھے، ان کی زندگی زیادہ تر حیدرآباد دکن، بنگلور اور کرنول کے کالجوں کی پروفیسری اور پرنسپلی میں گذری تھی۔

۔۱۹۷۲ء میں جب آپ ہمارے دارالعلوم میں آئے تو پہلے درس میں فرمایا کہ آپ مولوی حضرات فقہ کی درسیات سے فروع یاد کرتے ہو، اور سامنے جب کوئی نیا مسئلہ آجائے تو اگر یہ مسئلہ آپ نے نہیں پڑھا ہے تو چپ ہو جاتے ہو، اگرتم کسی ایسی جگہ پہنچو جہاں پر کتابیں دستیاب نہ ہوں، اور لوگوں کو آپ کی رہنمائی کی ضرورت پڑجائے تو کیا گروگے؟،تو پھر فرمایا کہ آپ کومسائل کے ساتھ ساتھ مصادر شریعت اور اصول و قواعد پر عبور ہونا چاہئے، اور آپ میں اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ کوئی نیا مسئلہ سامنے آئے اوررجوع کے لئے کتابیں دستیاب نہ ہوں تو آپ اصول وقواعد کی بنیاد پر اس کا جواب دے سکیں۔آیات الاحکام چونکہ مصادر شریعت میں اہم ترین مصدر ہے تو آپ نے ہمیں امام جصاص کی احکام القرآن پڑھائی اور اس کتاب سے انسیت پیدا کی، اور مجلۃ الاحکام العدلیۃ کا تعارف کروایا تھا۔

ہمیں تعجب ہے کہ اس کے بعد پھر ہم نے ہندوستان کے مدارس میں ان کتابوں کا تذکرہ ایک طویل عرصہ تک نہیں سنا، جصاص کی کتاب کا تذکرہ تو طلبہ کی زبان پر اب بھی نہیں سنتے، البتہ ۱۹۸۷ء میں جب سبیل الرشاد بنگلور میں محکمہ شرعیہ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر تربیت قضاء کا جو پروگرام ہوا تھا اس وقت حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمۃ کے پاس محمد خالد الاتاسی کی شرح المجلۃ دیکھی تھی، اور آپ سے معلوم ہوا تھا کہ مجلۃ کی سب سے معتبر شرح یہی ہے، پھر یہ شرح کہیں نظر نہیں آئی، آج کا اس کا ایک دارالکتب العلمیۃ کا ایک تحریف شدہ نسخہ کہیں کہیں نظر آتا ہے، اس کا دمشق سے شائع شدہ اصل ایڈیشن یا اس کی آفسیٹ کاپی دستیاب نہیں، اس سے پہلے سلیم رستم باز کی مجلہ کی شرح نظر سے گذری تھی، شاید احباب کو تعجب ہو کہ رستم باز لبنان کے عیسائی وکیل تھے،

ویسے یہ شرح سمجھنے میں مجلہ کی آسان ترین شرح ہے، مجلۃ الاحکام العدلیۃ ایک مستقل عنوان ہے، یہ اور اس کی شروحات کے تفصیلی تعارف کو کبھی آئندہ  کالم کے لئے چھوڑتے ہیں۔

نورالانوار کے ساتھ یہ باتیں اس لئے یاد آئیں، کہ اس کتاب کے ساتھ ہمارا تعارف امام جصاص کی کتاب سے بھی پہلے پہل ہوا تھا، اس سے قبل  ہم نے احناف کے یہاں ملاعلی قاریؒ کی کتابوں کی مظلومیت کا ذکر چھیڑا تھا، جصاص کی مظلومیت ان سے کم نہیں ہے، جصاصؒ کے احکام القرآن کے مرتبہ کی دوسری کوئی کتاب ہے تو وہ  ابن العربی کی احکام القرآن کے علاوہ شاید کوئی دوسری کوئی کتاب نہیں ، تعجب ہے یہ کتاب علوم دینیہ کے طلبہ میں کم ہی رائج ہے، اور اس کے سوسال پرانے ایک ایڈیشن کے علاوہ اس کتاب کا کوئی  دوسرا معیاری ایڈیشن دستیاب نہیں، کتابوں کے معیاری ایڈیشن اسی وقت نکلتے ہیں، جب کتاب کی نکاسی ہو، اصول فقہ پر آپ کی کتاب الفصوص جیسی کتابیں شاذ ونادر ہی لکھی گئی ہیں، ایسی عظیم کتاب بھی ایک غیر حنفی عالم کی محنت سےا بھی چند سال قبل پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی ہے، کتنے افسوس کا مقام ہے، اگر طلبہ علوم دینیہ کو ان کتابوں سے مربوط اور متعارف نہیں کیا جائے گا تو اور کن کتابوں سے کیا جائے گا؟

ابھی چند روز قبل امام شافعیؒ کی اصول فقہ کی اولین کتاب الرسالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض احباب نے لکھا تھا کہ احناف کو اس میدان میں سبقت حاصل ہے، ہمیں اس کے دفاع سے موضوع سے زیادہ دلچسپی نہیں،جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے،  لیکن جو لوگ اپنے اسلاف کی علمی امانتوں کو محفوظ کرکے انہیں عام نہ کرسکیں، ان کی باتوں میں وزن محسوس نہیں ہوتا، یہی دیکھئے گزشتہ بحث میں ذکر آیا کہ جصاصؒ کی کتاب میں عیسی بن ابانؒ کی کتاب کا زیادہ تر مواد محفوظ ہوگیا ہے،یہی دیکھئے جصاص کی وفات ۳۷۰ھ کی ہے، اس کا مطلب ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے اواخر تک یہ کتاب موجود تھی، اس کے بعد یہ بے قدری کا شکار ہوئی ہے، بہت ممکن ہے کہ دوسری کتابوں کی طرح نویں دسویں صدی ہجری تک بھی محفوظ رہی ہو، جس طرح خلافت عثمانیہ کے آخری تین چار سو سالوں میں کتب خانے مزارات میں تبدیل ہوگئے، اور استانبول اور آستانہ میں علمی ورثہ برکت کے لئے رہ گیا، کچھ ایسا ہی سانحہ اس کتاب کے ساتھ بھی پیش آیا ہوا ہو۔ اور اب ترکی کے انمول  کتب خانوں  تک رسائی میں آسانی کے بعد، جب کہ علم زوال پذیر ہے، علم کےاس دور زوال میں کبھی معلوم ہو کہ یہ تو ہمارے پاس مدت سے محفوظ تھی۔

https://telegram.me/ilmokitab/