چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں
تحریر:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
(دوسری/آخری قسط)
ملازم یا خدمت گار اتنی زندگی میں میرے پاس کئی ایک رہے، زیادہ تر گھر ہی کے پروردہ ۔ زمانہ لڑکپن اور جوانی کا میں نے وہ پایا، جہاں بچاروں کے کوئی انسانی حقوق تھے ہی نہیں اور ان کا شمار بس ایک طرح کے معزز جانوروں میں تھا، آنکھ کھول کربرادری بھر میں یہی منظر دیکھا اور پھر میں تو گرم مزاج و تندخو بھی تھا قدرۃً اس سارے طبقہ کے ساتھ برتاؤ ناگفتہ ہی رہا ۔ کس کس سے معافی کیا کہہ کہہ کر مانگوں؟
سب سے زیادہ مدت رفاقت حاجی محب علی (متوفی جون 1951 ء) کے ساتھ گزری ۔ یہ میرے داؤ یعنی مرضعہ کے شوہر کی دوسری بیوی کے اولاد تھے، اور اس طرح میرے سوتیلے رضاعی بھائی تھے، لڑکپن میں نادانیاں کس سے نہ ہوتیں، ان سے بھی ہوئیں، لیکن میری سختیاں اس وقت بھی ان کے قصوروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھیں، اور پھر جوانی سے تو انھوں نے میرے ساتھ اخلاص، دیانت؛ اور ہواخواہی کا ریکارڈ قائم کر دیا ۔ حج بھی میری خوش دامن کے روپیے سے میرے ساتھ ہی کیا چند ماہ انتڑیوں کی دق کے شدائد جھیل کر ماہ مبارک رمضان 1371ھ کے اخیر عشرہ عین افطار کے وقت جان جاں آٓفریں کے سپرد کی ۔ بچپن بھر تو خیر، ان بچارہ پر مار پیٹ بھی خوب ہوا کی لیکن آٓگے چل کر بھی وہ برتاؤ مجھے نصیب نہ ہوا، جو ان کے حسن خدمات کے لحاظ سے واجب تھا ۔ خدانخواستہ مرحوم نے حشر میں کہیں انتقام کا مطالبہ کر دیا تو میرا کیا حشر ہو کر رہے گا
مدتوں میری خدمت میں ایک نو مسلم شخص شعبان علی نامی رہے، مجھ سے سن میں دو تین سال بڑے _ اپنے بالکل بچپن میں کہیں سے لاوارث ہو کر میرے ہاں اگئے تھے، اور میرے ہی سر (حسب ورواج خاندان) چپکا دیئے گئے ۔"میاں لوگوں" کے ہاں خدمت گاری اس وقت لفظاً وعملاً غلامی کے مترادف تھی، وہی سب ان پر بھی گزرتی رہی ۔آج ان وحشیانہ سختیوں کا خیال کر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ شریعت اسلامی تو کجا، مغربی تہزیب میں بھی اس جابرانہ برتاؤ کی کوئی سند جواز نہیں، لڑکپن تو خیر کسی طرح گزر ہی گیا، جوان ہو کر یہ ہم لوگوں کے بڑے مخلص و وفادار ثابت ہوئے، لیکن ہم لوگوں کی جابرانہ و قاہرانہ حکومت میں کیوں کمی آنے لگی تھی۔ اور سب سے بڑا جابر و قاہر تو میں خود بنا ہوا تھا، ان کے حقوق میں وہ وہ شیطانی خیانتیں کیں کہ صفحہ کا غذ پر انھیں منتقل کر نے کی ہمت کسی طرح نہیں ۔ اخیر میں ہمارے ہاں سے مجبوراً الگ ہو کر گئے اور کجھ ہی روز بعد 1919ء میں عین بقرعید کے دن شام کو عالم بقا کو سدھار گئے ۔ روایت یہ سننے میں آئی کہ کسی ظالم ناخدا ترس نے ان کی خوش شکل بیوی سے سازش کر کے انھیں زہر دے کر ختم کر دیا ۔اگر یہ روایت درست ہے تو۔ ا؍ذی الحجہ کی تاریخ تو یوں بھی مبارک ہوتی ہے، ان کی موت شہادت کی موت ہوئی ۔ ﷲ اس مظلوم کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے، اپنے کرتوتوں کو جب یاد کرتا ہوں تو نفرت اپنے سے ہونے لگتی ہے __ تسلی اور ڈھارس کا سامان تو کچھ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ جس زمانہ کا یہ ذکر ہو رہا ہے، وہ عین میرے الحاد و لامذہبی کا دور تھا ۔ از سِر نو مسلمان تو اور اس کے بعد ہوا ہوں ۔ حج کے موقع پر،میدان عرفات میں، اپنے ان گناہوں کی مغفرت کی دعا کر چکا ہوں اور مرحوم کی روح سے رو رو کر معافی مانگ چکا ہوں__ خدا ترس ناظرین سے اس موقع پر بھی التماس دعا ہے " رَبَّنَا ظَلَمنَا اَنفُسَنَا، رَبَّنَا ظَلَمنَا اَنفُسَنَا، رَبَّنَا ظَلَمنَا اَنفُسَنَا ۔
گھر کا پروردہ ایک لڑکا قدرت نامی گیارہ بارہ برس کا ہمارے ہاں 13ء یا 14ء میں تھا ۔ایک روز شام کے وقت کسی معمولی سے قصور پر میں نے اسے خوب مارا، قدرۃً بچارہ چیختا گیا اور میں پیٹتا گیا، اس کے بعد سے وہ ایسا غائب ہوا کہ پھر کچھ پتا ہی نہ چلا، عجب نہیں کہ کہیں اور جاکر انتقال کر گیا ہو ۔ اور میں کوئی ایسی صورت تلافئ مافات کی نہ نکال سکا _درگاہی عرف محمد معین جو کئی سال سے صدق کے گویا دفتر میں ہیں، اور میرے مخلص و خیرخواہ رہ چکے ہیں، اور تیغ علی خان ساماں (حاجی محب علی کے چھوٹے بھائی) بھی مدتوں میرے جبروستم کے تختہ مشق رہ چکے ہیں ۔ ﷲ ان سب کے دلوں میں رحم ڈال دے کہ مجھ سے کسی طرح کے بھی انتقام کے طالب نہ ہوں __ اس وقت میرے خدمت میں کئی سال سے انھیں خانساماں کا چھوٹا لڑکا نثار علی ہے اور اب سیانا ہو چکا ہے، بہ حیثیت مجموعی اس سے خوش ہوں لیکن بہر حال انسان ہی ہے، جب تکلیف دیتا ہے تو اس کے حق میں خاصہ جابر بن جاتا ہوں ۔
اپنی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے ۔ سابقہ والوں کی حق تلفیاں، سب کی عموماً اور زیردستوں و ملازموں کی خصوصاً ۔اور جب اس پہلو پر سوچنے کی توفیق ہوتی ہے، تو دل لرز کر رہتا ہے ۔اپنے وصیت نامہ میں لکھے جاتا ہوں کہ ترکہ کے وہ ثلٰث جس میں وصیت جاری ہوسکتی ہے، اس کا نصف انھیں خدمت گاروں کے حوالہ کر دیا جائے ۔ علاوہ ان سے معافی مانگنے کے، کہ تلافئی مافات کی صورت کسی حقیر درجہ میں تو نکل ہی ائے۔
اپنی والی تکرار بھی جب توفیق مل جاتی ہے اس حدیث نبوی کی بھی کرتا رہتا ہوں ۔
(اللھم انى اتخذ عندك عہداً لن تخلفنیۃ فانما بشراً فایما مومن آذیتہ اوشتمتہ اوجلدتر اولعنتہ فا جعلہالہ صلوٰۃ و زکوٰۃ و قربۃ تقربہ بہا الیک)
اے الله میں آپ سے وعدہ لیتا ہوں ۔ جسے آپ ہرگز نہیں توڑیں گے کہ میں بھی آخر بشر ہی ہوں سو جس کسی مسلمان کو بھی میں تکلیف دوں یا اسے برا بھلا کہوں یا اسے ماروں پیٹوں یا اسے بددعا دوں تو تو اس سب کا اس کے حق میں رحمت و پاکیزگی بنا دیں، جس سے آپ اس کو اپنا مقرب بنالیں ۔
ان اوراق کے پڑھنے والے جو اس اوراق نویس سے نسبت اخلاص رکھتے ہیں، ان سب سے اس موقع پر التماس دعائے خیر ہے ۔
منقول: مولاناعبدالماجد دریابادی، آپ بیتی، مکتبہ فردوس، مکارم نگر، برولیا۔ لکھنٔو، 1989۔
(ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)