ڈاکٹر چترنجن قتل کے بدلے میں مسلم لیڈروں کی سپاری؟! (چوتھی قسط)۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
(گزشتہ سے پیوستہ)
پولیس حراست سے باہر نکلنے کے بعد ہم لوگوں نے اعلیٰ حکام کے پاس مقامی پولیس افسران کے خلاف باضابطہ شکایت کی جس کے نتیجے میں ہمیں بلاوجہ حراست میں لیے جانے کی تحقیقات کا حکم جاری ہوا۔ غالباً اس وقت کے ڈی آئی جی ویسٹرن رینج کے ذریعے تحقیقات کروائی گئی تھی۔ تحقیقاتی افسر کے سامنے ہم نے پولیس کے اس نازیبا اور غیر قانونی رویے کے خلاف بیان درج کروائے۔ مگر پولیس نے تحقیقاتی افسر کے پاس عجیب اور مضحکہ خیز وضاحت کی کہ ڈاکٹر چترنجن قتل کی وجہ سے مسلم لیڈرشپ میں ہم تینوں کے لئے جان کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اس لئے ہمارے ذاتی تحفظ کے پیش نظر ہمیں پولیس کی حفاظت میں رکھا گیا تھا۔یہ وضاحت مضحکہ خیز اس لیے تھی کہ پولیس کو ہماری حفاظت کی اتنی ہی فکر تھی تو اس نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے گھروالوں کی حفاظت کے لئے اس نے کیا اقدامات کیے تھے ۔ پھر بھی اس لنگڑی لولی وضاحت کی وجہ سے مقامی اور ضلع پولیس افسران کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی یا منفی ریمارکس سے بچنے میں کامیاب ہوگئے !
ایک ضروری وضاحت: بات آگے بڑھانے سے پہلے اس بار بھی ایک ضروری وضاحت کرنی ہے۔ ہمارے اُس وقت کے سب سے زیادہ سرگرم ساتھی جناب یحییٰ دامودی نے بنگلوروسے پیغام بھیجتے ہوئے اس سلسلۂ مضامین کی پچھلی دو قسطوں کے تعلق سے کچھ چھوٹی موٹی تصحیح کی طرف نشاندہی کی ہے۔ در اصل یہ جو مضامین ہیں یہ گزشتہ 20تا25برس پرانی یاددں پر مشتمل ہیں۔ ان کے نکات میرے پاس کہیں کسی ڈائری یا کاغذ پر نوٹ کی شکل میں نہیں ہیں۔ صرف جسٹس جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں سنگھ پریوار کے وکیلوں کے ساتھ جو معرکہ ہواتھا وہی اُس وقت الاتحاد اخبار کے صفحات پر محفوظ ہوگیا تھا۔ (ان شاء اللہ اسے آئندہ کبھی پیش کروں گا)بہرحال عمرکی اس منزل پر ذہن کے حاشیے سے اس حد تک recollectکرنا بھی آسان نہیں تھا ۔کیونکہ
ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا ذراسی بات بہت دیر تک رُلاتی ہے
مگر بفضل خدا یہ کام ہورہاہے۔ یحییٰ صاحب نے ایک بات یہ واضح کی ہے کہ ڈاکٹر چترنجن کے قتل کے بعداے ڈی جی پی مسٹر ایس سی برمن کو انہوں نے فون نہیں کیا تھا(جیساکہ سابقہ قسط میں آیا ہے) بلکہ خود ڈی آئی جی نے فون کرکے انہیں ڈاکٹر چترنجن کے قتل کی خبردیتے ہوئے مقامی طور پر حالات کو پرامن بنائے رکھنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے علاوہ دو تین باتیں ایسی ہیں جوکہ اصل واقعات میں نہیں بلکہ chain of eventsکے کچھ micro detailsمیں یہاں وہاں ذرا سا فرق ظاہر کرتی ہیں۔ کتابی شکل میں محفوظ کرنا ہے: چونکہ بہت سے قارئین اور ہمارے ہمدردان کا تقاضہ ہے کہ اس زمانۂ جبرواستبدادکی روئیداد کو کتابی شکل میں محفوظ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے رہنمائی لے سکیں، اس لئے ان شاء اللہ آئندہ کتابی شکل دیتے وقت باہمی مشورے سے ضروری حذف و اضافہ کیا جائے گا۔لگے ہاتھوں یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ حالات کا مقابلہ اور ملّی مفادات کے تحت اقدامات کرنے میں بظاہر ہماری چار پانچ افراد پر مشتمل ٹیم متحرک تھی، لیکن ہمیں تنظیم کی مجلس انتظامیہ اور عوام کی پوری پشت پناہی حاصل تھی۔ اس لئے کہ ہم لوگ تنظیم کی مجلس انتظامیہ کو اور حسب ضرورت مجلس مشاورت کواعتماد میں لے کر ہی کسی معاملے میں قدم آگے بڑھاتے تھے۔ اس کے علاوہ جب کبھی ضرورت پڑتی تھی تو بھٹکل کے مقتدر علمائے کرام سے بھی درپیش مسائل میں رہنمائی حاصل کرنا بھی ہمارے معمولات میں شامل تھا۔ ڈاکٹر چترنجن کا قتل ہوا کیسے تھا: جیسا کہ میں نے اس سلسلے کی پہلی قسط میں کہاتھا کہ یہ ڈاکٹر چترنجن پر دوسرا جان لیوا حملہ تھا۔خبر تھی کہ ڈاکٹر نے اپنی جان کو خطرہ ہونے کی بات اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے رکھی تھی اور اس کے بعدپولیس کے بیان کے مطابق ڈاکٹر کوپرسنل گارڈ فراہم کیے گئے تھے۔لیکن پتہ چلاکہ اس رات جب ڈاکٹر کا قتل ہواتھاتو ان کے گھر پر کوئی گارڈ نہیں تھا۔بتایاجاتا ہے کہ پارلیمانی الیکشن کی مہم کے سلسلے میں ان کے گھرپر میٹنگ چلی تھی۔اور مبینہ طور پر پارلیمانی امیدوار اننت کمار ہیگڈے کے علاوہ دو تین اور لیڈرس موجود تھے۔ دیگر افراد کے چلے جانے کے بعد ڈاکٹر کی بیوی نے کھانا کھانے کے لئے انہیں اندر بلایا تو وہ اٹھ کر ہال کے ایک گوشے میں رکھے ہوئے ٹی وی سیٹ کو آف کرنے پہنچے اور جیسے ہی سوئچ آف کرنے کے لئے جھکے اسی وقت قریبی کھڑکی سے ایک گولی سنسناتی ہوئی ان کے جبڑے سے لگی اور کنپٹی کی اوپری ہڈی کو توڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔اس طرح وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ فورنسک جانچ سے پتہ چلا کہ وہ گولی غیر ملکی ساخت والی بندوق سے نکلی ہوئی تھی اور اندازہ یہ لگایا گیا کہ یہ کسی اناڑی سے نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا گیا شارپ شوٹر کا کام ہے۔ظاہر بات تھی کہ اس کے بعد پولیس ، انتظامیہ ،میڈیا اور سنگھ پریوارکے نشانے پر مسلمان ہی ٹھہرے تھے اور شک کی سوئی مسلمانوں کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھی۔ ڈاکٹر چترنجن کے بدلے میں ہماری سپاری: اس دور میں ہماری ٹیم جس طرح سرگرم تھی اور مؤثر اقدامات کررہی تھی اس کے پیچھے کئی عناصر کارفرما تھے۔ جس میں سے ایک عنصربروقت اور کبھی کبھی پیشگی معلومات حاصل کرنے کے کچھ اپنے ذرائع تھے۔الگ الگ مقامات پر کچھ کار آمدرابطے تھے جن سے ہم لوگوں کو اپنے اپنے طور پر معلومات ملتی رہتی تھیں۔ایک دن بنگلورو سے ایسے ہی ایک خفیہ ذریعے نے مجھے خبر دی کہ ڈاکٹر چترنجن کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے بھٹکل کے پانچ مسلم قائدین میں سے کسی ایک کو قتل کرنے کی سپاری کرایے کے قاتلوں کو دی جارہی ہے۔ خبر دینے والے نے جو پانچ نشانے بتائے تھے ان میں ہم تینوں کے علاوہ جناب عبدالغنی محتشم مرحوم اور جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کا نام شامل تھا۔ہمارا وہ ذریعہ source معتبر تھا،(اللہ اس کی مغفرت فرمائے ،جو بعد کے دنوں میں بھی انتہائی نازک اور سنگین معاملات میں ہمارے لئے بہت ہی کارآمد رہاتھا) اس لئے اس کی دی گئی خبر کو نظر انداز کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔دل نے کہا: نہیں پالا پڑا قاتل تجھے ہم سخت جانوں سے ذرا ہم بھی تو دیکھیں تیری جلّادی کہاں تک ہے
پولیس سپرنٹنڈنٹ نے چلی دوسری چال: میں نے اس خفیہ خبر کو ہماری ٹیم کے سامنے رکھا اورغور وفکر کے بعد طے پایا کہ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ سے ملاقات کرکے حالات کے اس نئے موڑ کو ان کے علم میں لانا ضروری ہے۔ پھر جناب سید محی الدین برماوراور یحییٰ دامودی صاحب کی قیادت میں ایک وفد کاروار پہنچا اور ہمیں اپنے خفیہ ذریعے سے ملنے والی خبر کی تفصیلات ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر آر پی شرما کے سامنے رکھیں۔ وفد واپس لوٹنے پر مجھے ہمارے ساتھیوں نے بتایا کہ ایس پی نے اس طرح کی ڈیل کے امکان کو خارج نہیں کیااور اس معاملے کو بہت ہی سنجیدگی سے لیا ہے۔اورہمیں ضرورت محسوس ہونے پر ذاتی تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ شہر میں امن وامان بحال رکھنے کے لئے ضروری اقدامات فوری طور پر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے دو ایک دن بعد مجھے کسی ذاتی کام سے پولیس اسٹیشن جانا ہواتو سب انسپکٹر نے مجھ سے کہاکہ ایس پی نے پرسنل سیکیوریٹی فراہم کرنے کے بارے میں کہا ہے، تو میں نے اس پیش کش کو مسترد کردیا۔ہمارے دوسرے ساتھیوں نے بھی کوئی سیکیوریٹی طلب نہیں کی۔اس کے علاوہ ڈاکٹر کے قتل کے بعدسنگھ پریوار کی طرف سے کوئی بڑا ردعمل سامنے نہ آنا بھی پارلیمانی الیکشن کے وقت پر کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہا تھا۔اس لئے تنظیم کی طرف سے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر، ریاستی ہوم سکریٹری اور پولیس کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے شہر میں حفاظتی بندوبست اور پرامن پولنگ کو یقینی بنانے پر زور دیاتھا۔اور ہمارے وفد کوافسران کی طرف سے بہت ہی مثبت ردعمل ملا تھا۔ ریپڈ ایکشن فورس کی آمد: اسی پس منظر میں ایس پی سے ہمارے وفد کی ملاقات کو دو چار دن ہی گزرے تھے کہ اچانک ایک دن غالباً عصر کے وقت بھٹکل کی سڑکوں پرپہلی بار ریپڈ ایکشن فورس(آر اے ایف) کی ٹکڑیاں مارچ کرتی ہوئی نظر آئیں۔ عوام حیران و پریشان تھے کہ اچانک کیا بات ہوگئی ہے کہ بھٹکل میں آر اے ایف کو بلالیا گیا ہے۔ اپنی حد تک میں کہہ سکتاہوں کہ میں اس وقت بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ چلو ہمارے وفد کی اعلیٰ افسران اور ایس پی سے ملاقات کا زبردست اثر ہوا ہے ، ہو نہ ہو کوئی اہم سراغ ہاتھ لگاہوگااس لئے شرپسندوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرنے اور ہم مسلمانوں کو پوری طرح تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایس پی نے سخت بندوبست اور انتظام کیا ہے۔میں نے اس کا اظہار اس وقت استفسار کے لئے میرے کلینک کے پاس جمع کچھ نوجوانوں سے بھی کیاتھا اور انہیں مطمئن رہنے کے لئے کہاتھا۔ مگرکچھڑی تو کچھ اورہی پکی: لیکن ہماری توقعات اور اندازے بالکل غلط ثابت ہوئے، کیونکہ ہمارے وفد سے ملاقات کے بعد ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے تو کچھ اور ہی کھچڑی پکا ڈالی تھی۔ شاید مسلم لیڈروں کی سپاری دئے جانے کا راز فاش ہوجانے پر سنگھ پریوار والوں سے مل کر ایس پی نے نئی حکمت عملی strategyبنالی تھی۔جس کے تحت ریپڈ ایکشن فورس کو بھٹکل میں تعینات کرکے بھٹکل کے خاص علاقوں اور ایک خاص اسپورٹس کلب سے وابستہ اراکین کے ٹھکانوں پر چھاپے مارنے اور جدید آلات کے ساتھ تلاشیاں لینے کا سلسلہ شروع کیااس کے ساتھ ہی مختلف مقامات سے ہتھیار برآمد ہونے کی کہانیاں میڈیا میں عام کردی گئیں۔تقریباً ہفتہ عشرہ تک پورے شہر میں پولیس اور آر اے ایف کی دہشت پھیلی ہوئی تھی۔بعض مسلم نوجوانوں کوکئی دنوں تک نامعلوم مقام پر حبس بے جا میں رکھنے کے بعد گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ایک ہی علاقے میں دن اور رات کے کسی بھی حصے میں وقفے وقفے سے چھاپے مارے جارہے تھے اور اس علاقے کے نوجوانوں کا گھروں میں رہنا یا پھر گھروں سے باہر نکلنا دوبھر کردیا گیاتھا۔اور گویا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ:الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کیا
قبرستان میں ہتھیار!: اس چھاپہ مار کارروائی میں سب سے سنسنی خیز معاملہ بھٹکل کے قبرستان کی ایک خالی قبر سے مبینہ طورپر اے کے۔ 47 اسالٹ رائفل(کلاشنکوف) کے زندہ کارتوسوں والی میگزین اور آر ڈی ایکس پاؤڈر بر آمد کرنے کا تھا۔ اس کی تفصیلی رپورٹ روزنامہ ’اودئے وانی ‘میں تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔اسے بھٹکل کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کھلی ہوئی سازش قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ کے خلاف ہم نے تنظیم کی طرف سے ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کیا تھا۔ کیونکہ قبرستان سے مبینہ ہتھیار برآمد ہونے کی اسٹوری ایک دن پہلے اخبار میں چھپی تھی، اور پولیس نے ضبط شدہ ہتھیار عدالت میں دوسرے دن جمع کیے تھے جبکہ واقعی ہتھیارضبط ہونے کی صورت میں اسی دن عدالت میں بھی اسے پیش کیاجانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ پنچ نامہ کے لئے جنہیں گواہ بنایا گیا تھا ان میں ہم سے قریبی تعلقات رکھنے والا رمن نامی ایک جرنلسٹ بھی تھا اور اس نے بتایا تھا کہ اسے پولیس اسٹیشن میں بلاکر ضبط شدہ اشیاء کے پنچ نامے پر دستخط کروائے گئے ہیں۔ جبکہ قانونی طورپر جس مقام پر جو چیز ضبط ہوتی ہے پنچ نامہ کے گواہوں کا اس مقام پر موجود رہنا ضروری ہے۔بہرحال ہتک عزت کا وہ مقدمہ کئی برسوں تک چلا لیکن کچھ ٹیکنیکل بنیادوں پر ہم جیت نہیں پائے۔ ایس پی شرما کے خلاف محاذ: جب سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر آر پی شرما کی قیادت میں بھٹکل کے مسلمانوں پرپولیس کی زیادتیاں حد سے زیادہ ہوگئیں تو صدر تنظیم سید محی الدین برماور کی قیادت میں ایک ٹیم نے ضلع ہیڈکوارٹر کارواریعنی ایس پی کے گڑھ میں پہنچ کر پوری ہمت اور بے باکی ساتھ ایک پریس کانفرنس کی اور بھٹکل کے اصل حقائق اخباری نمائندوں کے سامنے رکھتے ہوئے ایس پی کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں اور من گھڑت کہانیوں کی پول کھول کر رکھ دی۔پریس کانفرنس کے دوران سید محی الدین صاحب نے صاف الفاظ میں کہا کہ ایس پی ڈاکٹر شرما آر ایس ایس کے اشاروں پرکام کررہے ہیں اور وہ آر ایس ایس ہی کے آدمی ہیں۔ بیلگام سے نکلنے والے ایک مراٹھی اخبار ’ترون بھارت‘ نے اسی بات کو اپنی بینر ہیڈلائن بنایاتھا۔اس طرح ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ شرما کے ساتھ ہماری راست ٹکر شروع ہوگئی۔تنظیم کے بینر تلے مسلمانوں کے مفاد اور اصولوں کی بنیاد پرہماری طرف سے دو ٹوک اور واضح رویہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہواکہ پولیس ڈپارٹمنٹ ، ضلع انتظامیہ اور آئی بی وغیرہ کو ہماری اجتماعی قیادت کے وزن اوراور ہمارے پیچھے کھڑی نوجوانوں کی طاقت کا لوہا ماننا پڑا ۔اور حالت یہ ہوگئی تھی کہ پولیس کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے کے باوجود ہمیں نظر انداز کرنے کاخطرہ مول لینا ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔ انکوائری کمیشن اور سی بی آئی تحقیقات: ایک طرف ڈاکٹر چترنجن قتل کیس کی تحقیقات کے لئے جسٹس رامچندریاکمیشن بٹھادیا گیا تھا اور دوسری طرف سنٹرل انٹلی جنس بیوریو کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ تیسری طرف سنگھ پریوارکی طرف سے جلسوں اور میڈیا میں اس قتل کے لئے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دیاجارہا تھا۔ چترنجن کی پہلی برسی کے موقع پربی جے پی اور سنگھ پریوار کی طرف سے بھٹکل بند منایاگیا تھااور اس موقع اننت کمار ہیگڈے نے ہنومان مندر کے پاس منعقدہ ایک عوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس قتل کے پس منظر میں مسلمانوں کے خلاف بڑی زہر افشانی کی تھی۔ علاوہ ازیں مقامی سنگھ پریوار کے لیڈروں نے دہلی جاکر اس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی سے ملاقات کرتے ہوئے چترنجن کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے میمورنڈم پیش کیاتھااور رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے کی طرف سے مسلسل دباؤ بنایا جارہاتھا۔ تنظیم کی جانب سے بھٹکل بند: سنگھ پریوار کی طرف سے خواہ مخواہ ہی ہمارے سیاسی وسماجی قائدین کی شبیہ کو مشکوک بناکر پیش کیاجا رہا تھا اور ہماری برادری کے ایک نامور تاجر پیشہ شخص کو اس قتل میں براہ راست ملوث بتایا جارہا تھا جبکہ ہمارا موقف یہ تھا کہ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے یہ قتل خود سنگھ پریوار کی اندرونی سازش کا نتیجہ ہے۔ اس لئے ڈاکٹر چترنجن کے قتل کی دوسری برسی کے موقع پرسنگھ پریوارسے پہلے خود ہم نے آگے بڑھ کر تحقیقات میں تیزی اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے تنظیم کے بینر تلے بھٹکل بندکااعلان کیا اور10اپریل کومسلمانوں کی طرف سے ایک کامیاب بند مناتے ہوئے حکام کے نام میمورنڈم دیاگیا ۔ اس کے علاوہ ہمارے وکلاء سے مشورے کے بعد چترنجن قتل کی تحقیقات کررہے جسٹیس رامچندریا کمیشن میں جناب یحییٰ دامودی اور میں نے ازخود آگے بڑھ کر گواہ بننے کی درخواست داخل کی تھی۔کیونکہ ہماری ٹیم نے شعوری طور پرحالات کی اس پکار پر لبیک کہنے کا تہیہ کرلیا تھا کہ: سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر یہی ہے موقعِ اظہار ، آؤ سچ بولیں ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا بنامِ عظمتِ کردار ، آؤ سچ بولیں
haneefshabab@gmail.com (جاری ہے......سی بی آئی کی تحقیقات.....ایک باباکی مہربانی.....خفیہ ایجنسی کی سازش.......اگلی قسط ملاحظہ کریں۔) (اس تحریر میں درج مواد سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)