تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (قسط اول)  

Bhatkallys

Published in - Other

09:30AM Mon 10 Oct, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ آج کل بھٹکل میں مجلس اصلاح و تنظیم کے ایک سیاسی فیصلے کی خلاف ورزی کا معاملہ بہت زیادہ گرمایا ہوا ہے۔عوام کے اندر ایک طرف تنظیم کی اجتماعی قیادت کو لے کر تشویش بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف ایک طبقہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے تعلق انتہائی شدید منفی ردعمل کا اظہار کررہا ہے ۔ وہیں پر کچھ لوگ موجودہ حالات کے لئے اجتماعی فیصلہ کرنے والوں کی کوتاہی اور اندرونی سیاست کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔کچھ لوگ اسے مسلمانوں کے اندر مقامی اور غیر مقامی مسلمانوں کی تفریق کا رنگ بھی دے رہے ہیں۔لیکن کسی بھی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس مسئلے کا ہر پہلو سے جائزہ لینا اور حالات کو صحیح تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ تنظیم کی سیاسی قیادت : یقیناًمجلس اصلاح و تنظیم وہ ادارہ ہے جومسلمانوں کے سماجی اور فلاحی امور کے لئے رہنما ہونے کے ساتھ اس علاقے کا قدیم ترین سیاسی پلیٹ فارم بھی ہے ۔ عام الیکشن اور مقامی بلدی اداروں کے انتخابات کے موقع پر تنظیم کی رہنمائی اس علاقے کے لئے ایک ایسی نعمت ہے جس کی مثال قرب وجوار میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بس یہی وجہ ہے کہ یہ جو متحدہ قوت کا مظاہرہ تنظیم کے بینر تلے ہوتا ہے وہ دشمنوں اور سیاسی مفاد پرستوں کی آنکھ کا نٹا بنا ہوا ہے۔ہر سیاسی لیڈر اور پارٹی کی طرف سے یا تو اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اسے توڑنے اور کمزور کرنے کی سازش رچی جاتی ہے۔ بے شک اس متحدہ طاقت کو بچائے رکھنا یہاں کے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ،کیونکہ ملک گیر سطح کے سیاسی قائدین نے بھی کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جس طرح کامنظم سیاسی پلیٹ فارم تنظیم کی شکل میں یہاں پر ہے ، ملک کے دوسرے حصوں میں اس طرح کی اجتماعیت کی کوئی نظیر انہوں نے نہیں دیکھی۔ تنظیم کے اپنے حدود ہیں : اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ سیاسی میدان کے کھیل قانونی اعتبار سے اور غیر قانونی طریقوں سے بہرحال نرالے ہوتے ہیں۔اس کے داؤ پیچ اور قانونی حد بندیاں اپنی جگہ ہوتی ہیں۔اس پس منظر میں قانونی طور پر تنظیم کی حد سیاسی رہنمائی اور اجتماعی شعور بیدار کرنے تک ہوتی ہے۔ یہ کوئی رجسٹرڈ سیاسی پارٹی نہیں ہے ، جو اپنے نمائندے میدان میں اتارتی ہے تو پارٹی کا ہر کارکن اور عہدیدار اس کے فیصلے کا پابند ہو جاتا ہے۔ پھر جو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ پارٹی قوانین کے اعتبار سے اینٹی پارٹی سرگرمیوں کا مجرم گردانا جاتا ہے اور اسے پارٹی کا باغی قرار دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھیں توکم ازکم شہریوں کے قانونی سیاسی حقوق کی روشنی میں تنظیم کا کردار بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں تنظیم پر یہ جو دباؤ بنانے کی کھلے عام کوشش ہورہی ہے کہ تنظیم کی سیاسی رہنما ئی کی (قانونی طور پر اسے فیصلہ نہیں کہا جاسکتا) خلاف ورزی کرنے پر کسی کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے یا کسی کو غدار قرار دیا جائے ۔ اوراس مقصد کے لئے سوشیل میڈیا کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے ،یہ کہاں تک تنظیم کے حق میں سود مند ہوسکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ طریقہ کارتنظیم کو اپنے حدود سے باہر لے جانے کے مترادف ہے اس سے تنظیم کے لئے بے جا مسائل اور پیچیدگیا ں پیدا ہوں گی،(ایسی پیچیدگی ماضی میں پیش آچکی ہے ، جس کاتذکرہ آگے آئے گا)ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کے اپنے کچھ قوانین ہیں ۔ معاشرے میں افراد کے بنیادی دستوری حقوق ہیں۔جس کو سلب کرنے کااختیار بہرحال کسی فرد یا ادارے کونہیں ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دنوں تنظیم کی اجتماعیت اور اتحادی قوت کو زک پہنچانے کے لئے اپنے اور غیر دونوں تاک میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ تنظیم کا اپنا دستور ہے اوراس کے تحت تنظیم کے مفاد (جو اجتماعی او ر ملی مفاد ہی ہوتا ہے) کے خلاف کسی بھی قسم کی سرگرمی میں ملوث ہونے والے تنظیم کے اراکین پر تادیبی کارروائی کے لئے دفعات موجود ہیں۔ لہٰذا تنظیم کی انتظامیہ کو اس ضمن میں کارروائی کرنے کے لئے چھوڑ دینے اور عام زندگی میں اسے موضوعِ بحث بنانے سے گریز کرنے میں ہی عافیت ہے۔

وقت جنگل میں شکاری کی طرح بیٹھا ہے آ لگے تیر جو دھیرے سے بھی بولا جائے

کیا خلاف ورزی پہلی بار ہوئی ہے؟: ایسا نہیں ہے کہ تنظیم کے اجتماعی سیاسی موقف کی خلاف ورزی پہلی بار ہوئی ہو۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ خلاف ورزیاں صرف غیر مقامی یا کسی مخصوص برادری اورطبقے کے افراد نے کی ہوں۔ جیسا کہ موجودہ مسئلے میں بعض احباب اس قسم کا تاثر دے رہے ہیں کہ غیر مقامی یااکثریتی برادری سے باہر والے فرد نے "ہمارے آدمی"کو ہرانے کے لئے غداری کی ہے۔جو لوگ تنظیم کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں ان کے سامنے ماضی قریب اور بعید کا ریکارڈ موجودہے جہاں بیرونی مقامات سے آ کربسنے والے یا کسی اقلیتی غیرنوائط برادری کے افراد کے ساتھ زیادہ تر مقامی اور اکثریتی نوائط برادری کے بڑے معتبر اور خاندانی احباب نے بھی کئی بار تنظیم کے اجتماعی فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے۔ہمارے اپنے معاشرے کے ہر طبقے کے افراد اس جرم یا دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔کئی بارسیاسی وابستگی کی بنیاد پراپنی پارٹی یا گروپ کے مفاد کو سامنے رکھ کر عوام میں خلاف ورزی کروانے کے لئے مہمیں چلائی گئی ہیں۔ ایک موقع پرتنظیم کے فیصلے کو سبوتاژ کرنے کے لئے خود مجلس انتظامیہ میں شامل اراکین نے پورے اسمبلی حلقے میں منفی پروپگنڈہ کرنے والے پمفلٹ رات کے اندھیروں میں تقسیم کیے ہیں ۔ صرف اس لئے کہ فیصلہ ان کی پسند کی پارٹی کے حق میں نہیں ہوا تھا۔تنظیم کے ٹیبل پر ہی اپنی برادری کے لیڈر کومیدان میں اتارنے کے فیصلے میں شامل رہنے والوں میں سے ہی چند بااثر قومی لیڈروں کے ایک گروپ نے عین موقع پر تنظیم کے موقف کو الٹ کر غیر مسلم امیدوار کو میدان میں اتارنے کا کام بھی کیا ہے۔کچھ نوجوانوں کی جانب سے تنظیم کے حمایت کردہ امیدوار کے خلاف پولنگ بوتھ کے پاس ٹیبل لگانے اور کھلے عام کینویسنگ کرنے کے واقعات بھی ہوئے۔ اور کبھی توکچھ افراد نے خود تنظیم کے حمایت کردہ یا مجوزہ امیدوار کے خلاف میونسپالٹی، پنچایت ، اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات تک میں بطور امیدوار حصہ لیاہے،جس میں کبھی وہ ہار گئے اور کبھی جیت بھی درج کردی ہے۔

زخم بھرے تو برسوں بیتے ، چبھتے ہیں احساس میں اب تک آنکھوں میں جو بیٹھ گئے ہیں ایسے بھی کچھ منظر ہیں

(کیااس سے پہلے تادیبی کارروائی نہیں ہوئی؟! ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں) ضروری وضاحت: اس مضموں میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔