ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی

Bhatkallys

Published in - Other

03:53PM Wed 19 Feb, 2014
از: مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی (ہمارا ملک دعوتِ دین کے لیے اب بھی بہت غنیمت ہے) بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم بات کرنے کا سلیقہ چاہیے ’’آپ کو شرم نہیں آتی ،ہماری مسجد کے بیت الخلاء میں آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہیں،اس کے چھینٹے ادھر اُدھراڑتے ہیں،کل سے آپ یہاں مت آئیے،کہیں اور جاکراپنی ضرورت پوری کیجئے،کتنی بار آپ کو بتایا، کل بھی بتایاتھالیکن آپ سمجھتے نہیں‘‘ یہ تنبیہ کوئی استاد اپنے شاگرد کویا آقا اپنے ملازم کو نہیں کررہاتھابلکہ ایک دیندارمسلمان ایک غیرمسلم پولیس والے کو کررہاتھا،وہ بھی مسجد کے باہر صحن میں سب لوگوں کے سامنے،اس اللہ کے بندے کو یہ تو یاد تھا کہ غلطی پر ٹوکناکارِ ثواب ہے، لیکن کس کو ،کب اور کس طرح ٹوکنا چاہیے؟ اسلام کے یہ اصول اسے مستحضر نہیں تھے ،حق گوئی کے ایک فرض کی ادائیگی کے پس منظر میں ایک بندہ خداکی وہ سب کے سامنے رسوائی کررہاتھا، اس کو عار دلاکر خود اس سے بڑے گناہ کا مرتکب ہورہاتھااور اس کاخود اس کو احساس نہیں ہورہاتھا، یہ اس کا ہی نہیں ہم سب کا حال ہے ، ہم گناہ کو بھی نیکی سمجھ کر کرتے ہیں ، اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کا ہمیں احساس نہیں ہوتا ، لیکن دوسروں سے سنت چھوٹنابھی ہمیں گوارہ نہیں ، دوسروں کی چھوٹی سی غلطی بھی ہمیں پہاڑ کے مانند نظر آتی ہے اور اپناپہاڑ کے مانند قصور بھی رائی کے دانہ کے برابر، اپنے حریف کی کوتاہی کا چھید بھی نظروں میں کھٹکتا ہے اور اپنے گناہوں کا ڈھیر بھی ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے، اسی کو کہتے ہیں ’’ عدم احساس گناہ بدتر از گناہ ‘‘ اس سے بچنے کا بہترین نسخہ ہمیں شریعت مطہرہ میں دعا کی شکل میں عطا کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سے یوں دست بدعا ہونے کی ہمیں ترغیب دی گئی ہے کہ اے اللہ ! ہمیں حق کو حق بنا کر دکھا اور باطل کو باطل اور اس کی اتباع کی ہمیں توفیق عطا فرمااور باطل سے بچنے کی۔اللھم أرنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارقنا اجتنابہ دراصل ۳/ماہ قبل بھٹکل میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے ،فرقہ وارانہ تصادم کا خطرہ تھا،کسی نے لبِ سڑک واقع درخت کے کنارہ بنے ہوئے مندر نمااحاطہ میں گائے کاگوشت پھینک دیاتھا،اسی کو بہانہ بناکرکچھ فرقہ پرست حالات بگاڑنے کے درپے تھے ،پولیس نے حفاظتی قدم اٹھاتے ہوئے بندوبست کیا، ضرورت کے پیش نظر احتیاطاً پولیس کی ایک بڑی گاڑی اس مسجد کے باہربھی جہاں سے ہندومسلم دونوں کا آناجانا رہتاتھاکھڑی کردی گئی تھی،دن بھر اس گاڑی میں بیٹھ کر ہمارے شہر میں پرسکون ماحول کو برقرار رکھنے میں ہماری مددکرنے والے ہی نہیں بلکہ دوسرے الفاظ میں ہمیں امت دعوت ہونے کی حیثیت سے اس شہر میں پُرامن فضافراہم کرنے میں بھی تعاون کرنے والے (ملکی یا علاقائی سطح پر چند کومستثنی کرکے) پولیس کے یہ لوگ اپنی گاڑی سے متصل واقع مسجد کے بیت الخلاء کو بھی کئی دن سے استعمال کررہے تھے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ قضاء حاجت کے آداب تو ان مسلمانوں کو بتائے جاتے ہیں جو اللہ رب العزت پر ایمان لاچکے ہیں ، جوابھی تک اللہ کو تنہا خالق ومالک اور رب ہی تسلیم نہیں کررہے ہیں ان کو آداب اسلام واحکام دین کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ان کوتو پہلے اسلام اورایمان کی دعوت دی جاتی ہے ،لیکن یہاں معاملہ نہ صرف اس کے برخلاف تھا بلکہ اسلام کی غلط تصویر پیش کی جارہی تھی،میں نے قریب بلاکر موصوف کو سمجھایاکہ آپ ایک غیر مسلم کو ڈانٹ رہے ہیں ،وہ بھی سب کے سامنے اور اس مسئلہ میں اس سے الجھ رہے ہیں جس کے گناہ ہونے کا اس بیچارے کے پاس تصور بھی نہیں ،دن بھر مسجد کے سامنے ان بیچاروں کے رہنے کا ہمیں دعوتی اعتبار سے فائدہ اٹھاناچاہیے ،ان سے کہناچاہیے کہ آپ لوگ ہاتھ پیر دھوکر مسجد میں آسکتے ہیں ،مسلمانوں کے وضوطہارت کے طریقہ کوسمجھ سکتے ہیں ، مسجد کے اندر مسلمانوں کی صف بندی ،پرسکون حالت میں قیام ،رکوع اورسجود کے روحانی منظرسے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ،مسجد میں آکر بھی نمازی کسی تصویر یا مجسمہ کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے بلکہ ایک اللہ ہی کا نام لیکر اسی کی عبادت کرتے ہیں،اس کاخود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکتے ہیں اس دعوتی پہلوسے بھی ہمیں سوچناچاہیے ،لیکن موصوف نہیں مانے بلکہ کہنے لگے کہ کل سے اس پولیس گاڑی ہی کو مسجد کے سامنے سے ہٹانے کوشش کریں گے،بالفاظ دیگر وہ کہہ رہے تھے کہ دعوت کے اس اچھے موقع کو کل سے ہم گنوادیں گے۔ سنگاپور کی چولیہ مسجدیادآگئی:۔ دوسال قبل جاپان سے اپنے دعوتی سفر سے واپسی میں ایک دن میں سنگاپورمیں رکا تھا ،وہاں اور خود جاپان میں جس طرح کا منظم اندازمیں دعوتی کام ہورہاہے سفرنامہ کی شکل میں اس کی تفصیل پھر کبھی لیکن آج کا یہ مضمون لکھتے ہوئے اسی مناسبت کا ایک اہم دعوتی پہلو مجھے یادآگیا جو دنیا کے ہرعلاقہ میں بآسانی اپنایاجاسکتاہے اور کم وقت اور کم خرچ میں دعوت کا مؤثر ترین اور کامیاب تجربہ بن کر سامنے آسکتاہے،مولاناحنیف سلطان صاحب جن کی دعوت پر میں وہاں رکاتھامجھے سنگاپور کی سب سے قدیم جامع مسجدچولیہ لے گئے جہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کے اسلامیات کے امتحانات کا مرکزی سنٹر بھی ہے ،مسجد کھپریل کی سادہ طرز تعمیر کی ،زیاد ہ سے زیادہ سوسال پرانی ،اس طرح کی ہزاروں مسجد یں ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ہرصوبہ اور ضلع میں ہم کو نظر آئیں گی،لیکن سنگاپور آنے والے عالمی سیاحوں کے لیے اس لیے یہ مسجدتاریخی عمارت کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہاں کے مسلمانوں نے بڑی حکمت عملی سے حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے سیاحتی کتابچہ (ٹورسٹ گائیڈ)میں اس کو شامل کیا ہے،نتیجہ یہ ہے کہ ہرآنے والا سیاح ٹورسٹ گائیڈپڑھ کر مسجد تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچ جاتاہے ،مسجدکے ذمہ داروں نے صدردروازہ میں داخل ہوتے ہی اپنا دفتر بنادیاہے جس میں پہنچنے کے بعد ہر سیاح سے گذارش کی جاتی ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے ،بے ہودگی اور نیم برہنہ جسم کے ساتھ اس میں داخلہ مناسب نہیں ، اس لیے آپ مرد وعورت چو غہ طرز کے یہاں رکھے ہوئے کپڑے وقتی طور پر پہن کراندر تشریف لائیں ،بڑی عقیدت سے لوگ بغیر کچھ کہے صاف ستھرے عمدہ چوغے پہن لیتے ہیں، ساتھ میں ایک گائیڈ جوانگریزی زبان کا ماہر اور تجربہ کار داعی ہوتاہے ان کو سب سے پہلے وضوخانہ لے جاتاہے ،وہاں کچھ دیر وضوکرکے دکھاتاہے کہ اس طرح پاکی صفائی کے بعد ہی مسلمان اپنی عبادت کرسکتاہے ،اسلام میں طہارت اورنجاست کے موضوع پر قرآن وحدیث کی روشنی میں وہ اس کو پانچ دس منٹ سمجھاتاہے ، اس کے بعد مسجد میں داخل ہوتاہے اورقبلہ کی جانب محراب میں اس کو لے جاتاہے ،محراب کی مناسبت سے منبر ، قبلہ اور کعبۃاللہ کی اہمیت اور ضرورت پر سائنٹفک انداز میں ایک دعوتی لکچردیتاہے، پھرنماز پڑھ کردکھاتاہے اور نماز کے موضوع پر بھی گفتگوکرتاہے ،ان تمام موضوعات پر پوری مسجد میں جگہ جگہ چارٹ مکہ،مدینہ، حج اورنماز وغیرہ کے لگے ہوئے ہیں اور اس میں تصویروں کے ساتھ تعارفی کلمات بھی درج ہیں،اسی طرح مسجد سے باہر لاکر اس کو استنجاخانہ بھی دکھاتاہے اور اسلامی طریقہ قضاء حاجت سے بھی واقف کراتاہے ،اخیر میں جب وہ گائیڈ واپس اس کو لیکر دفتر پہنچتاہے تو قرآن مجید، کعبۃ اللہ ،نماز ،طہارت، مسجد ،محراب اورمنبر وغیرہ پر آدھ پون گھنٹے کے لکچرس سن کر وہ کم از کم ایک تہائی اسلام سے واقف ہوجاتاہے، اس کے بعد ہر موضوع پر اسکو چھوٹے چھوٹے کتابچوں کا ایک سیٹ بھی تحفۃً دیاجاتاہے ،اس کے بعد کہاجاتاہے کہ اسلام کے متعلق مزید مطالعہ اگر آپ کرناچاہتے ہیں تو یہاں رکھے بُک اسٹال سے مزید کتابیں خرید سکتے ہیں ، الحمدللہ اس بک اسٹال سے ہزاروں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مولانا حنیف سلطان صاحب نے بتایا کہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور الحمدللہ سیاحت کے نام سے سنگاپور آکر اس مسجد میں آنے والے تین سو سے زائدبندگان خدا اوسطاً سالانہ اس حکمت عملی سے ایمان میں داخل ہورہے ہیں ، یہ سن کر میرے دل میں خواہش ہوئی کاش! ہماری دہلی کی جامع مسجد میں بھی ایسا ہوتا جہاں روزانہ ہزاروں سیّاح اس عالمی تاریخی مسجد کے مشاہدہ کے لیے پہنچتے ہیں اور نیم برہنہ حالتوں میں مسجد گھوم پھرکر وہاں لگے ہوئے انگریزی کے بورڈ تو پڑھ کر مسجد کی تعمیروتاریخ سے تو واقف ہوجاتے ہیں لیکن جس رب کی عبادت کے لیے اس کو تعمیر کیا جاتاہے اس کی معرفت کے بغیر ہی خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں، جب ۲۸/کلومیٹر کے چھوٹے سے ملک سنگاپور کی ایک مسجد سے سالانہ تین سواور دس سال میں تین ہزار سے زائد لوگوں کو اللہ تعالی ایمان کی توفیق دے رہے ہیں تو ہمارے ملک میں یہ دعوتی نتائج انشاء اللہ صرف ایک ماہ میں برآمد ہوسکتے ہیں، ہندوستان میں پھیلی ہزاروں تاریخی مساجد اور سینکڑوں درگاہوں میں جہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی روزانہ آتے ہیں ہم کیوں اس دعوتی اسلوب کو اختیار نہیں کرسکتے ،نہ آثار قدیمہ کے حکومتی شعبہ کی طرف سے ہمارے لیے اس کی ممانعت ہے اور نہ وقف بورڈ سے رکاوٹ ۔ توہی اگر نہ چاہے تو بہانے ہزارہیں آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ دہلی اور دوسرے کئی شہروں میں متعدد تاریخی مندروں اور گرجاگروں کے ذمہ داروں نے سنگاپور کی اس دعوتی حکمت عملی کو اپنے باطل مذہب کی تبلیغ کے لیے اپنایا ہے اوروہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔ ہمیں کیا سبق ملا:۔ بھٹکل میں پیش آئے مذکورہ واقعہ اور سنگاپور کے اس کامیاب تجربہ سے ہمیں جو سبق ملاوہ یہ ہے کہ داعی کو ہمیشہ مدعو کی نفسیات کو پہلے سمجھنا چاہیے، جو سرے سے خدا ہی کا منکرہے اس کو آپ اللہ کے ایک ہونے کے دلائل سے دعوت نہیں دیں گے بلکہ پہلے اس کو کائنات میں خدا کی ضرورت کا قائل کریں گے،جب وہ خدا کی ضرورت کو سمجھے گا تو پھرآپ ایک خداکے ہونے کے دلائل دیں گے ،اسی طرح جب کسی کی اصلاح مطلوب ہے اور آپ اس کو اس برائی سے بچاناچاہتے ہیں تو حکمت وموعظت سے پہلے اس کی خوبیوں کا ذکر کریں گے ،پھر ناصحانہ وخیرخواہانہ انداز میں اس برائی سے باز آنے کی اس کو ترغیب دیں گے،اس اصول کی روشنی میں اس غریب پولیس والے سے ہمیں کہنا چاہیے تھاکہ ماشاء اللہ آپ کتنے اچھے ہیں ،دوسروں کی طرح راستہ میں کھڑے ہوکرپیشاب نہیں کرتے سرِ راہ اپنی ضرورت پوری نہیں کرتے ،اس کے بعد موقع کا فائدہ اٹھاکر اس کو مسجد میں لاکر طہارت وغسل کے اسلامی آداب اور اس کی حکمتوں سے واقف کراکر بالواسطہ اسلام کا پیغام بھی دیتے،اس طرح ان کے تئیں ہمارادعوتی فریضہ بھی انجام پاتا اورسنگاپور کے دعوتی نتائج اللہ کے فضل سے یہاں بھی برآمدہوتے۔ ایک واقعہ اوریاد آیا:۔ کئی سال پہلے ہمارے جامعہ کے آخری درجہ کے فارغین سے الوداعی جلسہ میں ایک عالم ہونے والے طالب علم کے تأثرات میں نے سنے تو میری آنکھیں ڈبڈباگئیں، انہوں نے کہاکہ میں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر درمیان ہی میں پڑھائی سے رخصتی کا ارادہ کرلیاتھااور کئی ماہ مدرسہ سے غائب بھی رہا، مکتب کے میرے ایک استاذ نے آکر مجھے سمجھایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو جنت میں اعلی درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن آپ اسے لینا نہیں چاہتے ،میں چونک گیا پوچھا کیسے ؟ فرمانے لگے اسلام کی نعمت دے کر جنت اور دینی تعلیم سے آراستہ کرکے اعلی جنت دینا نہ ہوتا تو اللہ تعالی آپ کو مدرسہ میں داخل نہ کرواتا،اللہ تعالی کوآپ سے آخری درجہ کی محبت ہے اسی لیے مدرسہ میں داخل کرایا،اسی ایک محبت بھرے جملہ نے میری کایاپلٹ دی اور میں نے الحمدللہ دینی تعلیم کی تکمیل کا فیصلہ کیا،اس کے بر خلاف ایک طالب علم وہ بھی تھاجو دینی تعلیم کے شوق میں کالج کو خیر باد کہہ کر مدرسہ میں آیاتھا عا لمیت کی تکمیل میں صرف ایک سال کا وقفہ رہ گیا تھا،ایک استاذنے کسی بات پر اس کو اتناسخت سست کہااوراس طرح طعنہ دیا کہ اس نے اسی وقت مدرسہ چھوڑنے اور عالم نہ ہونے کا فیصلہ کیا،دوسرے الفاظ میں سال بھر کی نہیں زندگی بھر کی محنت ایک سخت جملہ نے اکارت کردی۔ سوچنے کا ایک اور انداز:۔ ایک ہی واقعہ کے متعلق سوچنے اورتجزیہ کرنے کے دو الگ الگ انداز ہیں ،مثلاً ہم ہندوستانی مسلمان اس ملک میں اقلیت میں ہیں لیکن دوسرا سوچنے کااندازیہ ہے کہ ہم اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں اور انڈونیشیا کے بعد دنیاکی سب سے بڑی مسلم آبادی کا اعزاز رکھتے ہیں ، پہلاانداز آپ کو احساس کمتری میں مبتلاکردے گااورہمت وحوصلہ پست کردے گا دوسرا انداز آپ میں حوصلہ پیدا کرے گا اور دعوت کے میدان میں خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہیں کھول دے گا۔ تین بھائی ہیں ، درمیانی بھائی اگر احساس کمتری کا شکارہوگاتو سوچے گا کہ میں بڑے سے چھوٹا ہوں ،اگر اس میں خود اعتمادی ہوگی تو یوں کہے گا کہ میں تیسرے نمبر سے بڑا ہوں یا کم از کم بڑا نہیں تو چھوٹا بھی نہیں ہوں ،درمیانی ہوں ۔ کسی کی اصلاح مطلوب ہو اور آپ نیک نیت ہوں تو اس گناہگار سے گناہگار انسان میں کوئی ایسی خوبی ضرور آپ ڈھونڈ لیں گے جو اس کے علاوہ کسی اور میں بہت کم ہوگی، آپ جب اس کے حوالہ سے اس سے گفتگو کریں گے تو وہ آپ کا گرویدہ ہوجائے گااور آپ کی سخت سست اور کڑوی بات کو بھی ہضم کرنا اس کے لیے آسان ہوگا اس کے برخلاف اگر آپ اس کی خامیوں ہی کا ذکر کریں گے اور وہ بھی سب کے سامنے اس کو طعنہ دے کر رسواکر کے تو ہونے والی اس کی اصلاح سے بھی آپ ہاتھ دھو بیٹھیں گے ، یہ معقول اور منطقی اصول حدیث شریف میں پہلے ہی سے موجودہے کہ دنیا کے معاملہ میں انسان اپنے سے کم تر کو دیکھے تو اس کی زبان ہمیشہ اللہ تعالی کے شکر سے رطب اللسان ہوگی ،اسی طرح دین کے معاملہ میں اپنے سے اونچے درجہ والے پر نظر رکھے تو ہمیشہ خیر وبرکت کے میدان میں آگے بڑھنے کی فکر ہوگی ۔ تعمیر کے لیے سالوں سال لگ جاتے ہیں، تخریب کے لیے کچھ کرنانہیں پڑتا، صرف بنیادوں میں کہیں شگاف ڈال دیں تو منٹوں میں سالوں میں بنی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے ، اسی طرح دین اسلام اور شریعت سے قریب کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس سے دور کرنے ،نفرت دلانے اوروحشت پیداکرنے کے لیے ایک ہی ہمارا نازیبا جملہ کافی ہوجاتاہے۔ ہمارا ملک اب بھی دعوت کے لیے بہت غنیمت ہے :۔ مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر موجودہ ناگفتہ بہ حالات کے باوجودملت اسلامیہ کو اس وقت دعوت کے جتنے اچھے مواقع حاصل ہیں اس سے پہلے اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں تھے، جدید سائنسی تحقیقات، نت نئے ذرائع ابلاغ کے وسائل نے کمزور ایمان کے باوجود نہ صرف اسلام اور ایمان کو سمجھنا بلکہ اس پر عمل کرنا اور دوسروں تک اس ابدی پیغام کو پہنچانا جتنااس وقت سہل کردیاہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی،اسی طرح ہزاروں خرابیوں کے باوجود ہمارا ملک ہندوستان دعوت کے لیے موزوں فضاکے اعتبار سے اکثر مسلم ممالک سے بھی بڑھ کرنہ صرف غنیمت بلکہ اپنی سازگار فضا کے ساتھ اکثرمسلم ممالک سے بھی بہتر حالت میں ہے۔ ۳/ سال قبل فلسطین کے تاریخی دورہ کے موقع پر راقم الحروف کو ملک شام میں بھی دو دن قیام کا موقع ملا،رات میں استاذ محترم مولانا فاروق صاحب ندوی کے ساتھ ہم اپنے عرب میزبانوں کی معیت میں گولان کی ان پہاڑیوں کودور سے دیکھنے کے لیے جارہے تھے جن پر اسرائیل نے سالوں سے ناجائز قبضہ کررکھاہے ،میں نے گاڑی میں عرب میزبان سے پوچھا کہ شامی حکومت کاکوئی فیصلہ کن موقف ان پہاڑیوں کو واپس لینے کے سلسلہ میں کیوں سامنے نہیں آرہاہے ،اس لیے کہ یہی پہاڑیاں بیت المقدس کی فتح میں رکاوٹ بن رہی ہیں، اس پر عرب میزبان نے کہا لب پر ہاتھ رکھئے :۔ آپ کسی دینی موضوع پر چاہے وہ بیت المقدس کا موضوع ہی کیوں نہ ہوہمارے سامنے بات مت کیجئے ،دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ،اگر حکومت کے جاسوسوں کو معلوم ہوجائے کہ ہم نے اس موضوع پرلب کشائی کی ہے توہماری جلاوطنی یقینی ہے ، میں نے دل میں کہاکہ یااللہ:۔ ہمارا ملک دسیوں فسادات اور فرقہ پرست طاقتوں کی ناکام کوششوں کے باوجود کتنااچھاہے کہ ہم اگر صدر جمہوریہ کو بھی سرراہ عوامی مجمع میں برابھلاکہیں تو اس کو جرم نہیں ماناجاتااور نہ ہمیں اس کی پاداش میں جیل کی ہواکھانی پڑتی ہے، ۲۰۱۱ء ؁ سے ۲۰۱۳ء ؁ تک الحمدللہ مشرق وسطی اور مشرق بعیدکے مصر،اردن ،شام ،فلسطین ،جاپان ،چین ،سنگاپور، ملیشیا، قطر ،بحرین ،سعودیہ ،کویت ،عمان، نیپال ، مالدیپ ، سری لنکا اور تھائی لینڈ سمیت سولہ ملکوں کے دعوتی سفر کاراقم الحروف کو موقع ملا،جب بھی سفر سے واپسی پر جامعہ یا اکیڈمی میں روداد سفر سنانے کے لیے کوئی مجلس منعقد ہوئی تو میں نے ہرسفر سے واپسی پریہ ضرور کہاہے کہ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کہ دعوتی اعتبار سے جتناموزوں اس وقت ہمارا ملک ہے اورجتنی اچھی فضا ہمارے اس ملک میں ہم کو میسر ہے کہیں اور مسلم ملک میں بھی نظر نہیں آتی۔ آج ہم اپنے اس ملک میں کوئی بھی دعوت کا بڑا یاچھوٹا منصوبہ بناکر اس کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں ،کیا عرب ممالک میں آپ اس کا تصور بھی کرسکتے ہیں ؟ جمعہ کے خطبات میں ہم اپنے عوام کے ساتھ ملّی قائدین ،سیاسی پیشواؤں اور علماء تک کا محاسبہ کرسکتے ہیں ، کیا کسی خلیجی ملک میں بھی یہ ممکن ہے ؟ دین پر قائم رہنے کے لیے ملک کے کسی بڑے شہر سے لیکر چھوٹے سے چھوٹے دیہات میں ہم مدارس قائم کرسکتے ہیں ، کیا شرق اوسط کے کسی مسلم ملک میں یہ قابل عمل ہے ؟ پڑوسی مسلم ملک میں گذشتہ دنوں اپنے ملک کو متحد رکھنے کی کوششوں کی جو سزا ایک داعی دین کو شہادت سے ہمکنار کرکے دی گئی کیا ہمارے ملک میں آپ اس کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟ کیا ہماری مسجدوں میں خود اپنوں کے ہاتھوں نمازیوں کے شہید ہونے کا سلسلہ ہے ؟ اسلامی شریعت کی ہندوستانی عدالت کے ذریعہ بیس سال پہلے غلط تشریح پر شاہ بانو کیس میں ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے جو احتجاجی مظاہر ے ہوئے اور لاکھوں لوگ سڑک پر نکل کر اسلام زندہ تو ہم زندہ کا نعرہ لگاتے ہوئے سراپا احتجاج بن گئے اس کی مثال کیا آپ کسی مسلم ملک میں پاسکتے ہیں؟ وہاں تو اسلامی احکام میں مداخلت پر آواز بلند کرنے پر پسِ دیوار زنداں کرکے پابند سلاسل کیا جاتاہے ، کیا ہندوستان میں موجود مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرح آپ کسی عرب ملک میں ایسا ادارہ دکھاسکتے ہیں جو دین میں حکومتی مداخلت کے امکان پر بھی چوکنّا ہوکر پوری مسلم قوم کو جگانے کا فریضہ انجام دیتاہے ، کیا تحریک اسلامی کے لیے خود پڑوسی مسلم ملک میں وہ عشرعشیر بھی دین کی تبلیغ کی آزادی ہے جو ہمارے ملک میں ہے، تحریک دعوت وتبلیغ ہویا تحریک اسلامی ،دینی مدارس ہوں یا دینی مراکز پوری دنیا میں ان کے مراکز ہمارے ملک ہی میں ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے ان دعوتی مواقع سے جو ہمارے ملک میں حاصل ہیں اب تک کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایاہے اور اس وقت مسلمانان ہند کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے وہ اپنے دعوتی فرائض کی ادائیگی میں ان کی اسی غفلت کا نتیجہ ہے ۔ ضرورت اس با ت کی ہے کہ ہم مواقع سے بھر پورفائدہ اٹھائیں،اس لیے کہ اب بھی ۹۹فیصد لوگ اس ملک میں اسلام سے متعلق بدگمانی سے خالی ہیں ،وہ خالی الذہن ہیں،اسلام کا صحیح تعارف اگر ان کے سامنے آجائے تو وہ نہ صرف اسلام سے متعلق اپنی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے بلکہ حق کوقبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے بھی نہیں چوکیں گے، اس کے لیے سب سے مؤثر ترین ہتھیار ہمارا کردار اور ہمارا طرز عمل ہے ، اگر ہم سب خود اسلام پر کامل عمل پیرا ہوجائیں اور شریعت اسلامی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر ہدایت سے محروم ان بندگانِ خدا کے سامنے اعلی اخلاق وکردار کا نمونہ بن کر سامنے آئیں تو ہمیں الگ سے تبلیغ کے نام سے کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہماری یہ اخلاقی وشرعی زندگی ہی ان کے لیے مبلّغ بن کرسامنے آئے گی اور ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے گی۔