چند باتوں کی وضاحت

Bhatkallys

Published in - Other

12:19PM Tue 31 May, 2016
حفیظ نعمانی 25مئی کو چھپنے والے شوکت بھارتی صاحب کے مضمون میں شیخ محمد بن عبد الوہاب ؒ پر جو بہتان آپ نے پڑھے ہونگے وہ انکی تحقیق یا تصنیف نہیں ہے بلکہ 1934ہجری میں لکھی ہوئی کتاب ’’خلاصۃُ الکلام فی بیان امراء بلد الحرام‘‘می مکہ مکرمہ کے مشہور عالم مفتی شافعیہ شیخ احمد ذہنی دحلان نے لگالئے ہیں ۔انکے الزامات تو اور بھی ہیں جنکا ذکر لاحاصل ہے ۔ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سیکڑوں برس پہلے تو شارٹ ہینڈ بھی نہیں تھاکسی بیان کا ریکارڈ ہونا یا اخبارات ورسائل میں شائع ہوکر ثبوت بننے کا سوال ہی کیا ۔اس لئے وقت پر تردید نہ ہو سکی ۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے آخری برسوں میں وفات سے دو سال پہلے 1204ھشریف مکہ غالب بن ساعد نے اس زمانہ کی سعودی حکومت کو لکھا کہ آپ اپنی جماعت کے کسی عالم کو بھیجئے جو محمد بن عبد الوہاب اور ان کی جماعت کی دعوت اور انکے مسلک کی وضاحت کرسکے ۔شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنے ایک شاگرد کو بھیجا اور ایک خط لکھ کر دیا جس میں لکھا تھا کہ۔ ’’آپ حضرات پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں وبرکتیں ‘‘ ہمارے بارے میں جو شورش اور فتنہ برپاہے اسکی اطلاع آپ حضرات کو پہنچ چکی ہے ۔اسکا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے علاقہ نجد میں بزرگوں کی قبروں پر بنے قبوں کو گرادیا ہے ۔اور لوگوں کو سختی کے ساتھ منع کیا ہے کہ وہ اپنی حاجتوں اورضرورتوں کے لئے بزرگوں سے نہ مانگیں ۔اور حکم دیا ہے کہ صرف اللہ سے مانگیں ۔اور ہم نے حکم دیا ہے کہ وہ سب صرف اللہ تعالی سے ہی دعا کریں اور اسی کو پکاریں ۔ہم نے جب ان باتوں کا حکم دیا تو جاہل عوام بر افروختہ ہوگئے ۔اور بعض مدعیان علم نے بھی ان اسباب ووجوہ سے انکا ساتھ دیا ۔اور ہمارے بارے میں پروپیگنڈہ کیاکہ ہم بزرگوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ۔اور ہمارامسلک جمہور علمائے امت کے خلاف ہے ۔ ہم لوگ الحمد للہ ائمہ سلف کے متبع ہیں ۔کوئی نئی بدعت نکالنے والے نہیں ہیں ۔ہم امام احمد بن حنبل کے طریقہ پر ہیں ۔اور میں اللہ کو اور اسکے فرشتوں کو اور آپ حضرات کو بھی اسکا گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ اور اسکے رسول کے دین پر ہوں ۔اور علما ء سلف کا متبع ہوں ۔ آخر میں اسی مکتوب میں لکھتے ہیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ توحید خالص کی دعوت اور شرک سے لوگوں کو منع کرنے اور روکنے کے علاوہ مخالفت کے جو اسباب ذکر کئے گئے ۔وہ سراسر اخترا ع اور بہتان کے قبیل سے ہیں ۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت، انکے مسلک کی وضاحت اور ان پر لگائے گئے بہتانوں کی تردید میں ایک جامع اور واضح رسالہ انکے فرزند شیخ عبد اللہ بن محمد نے 1218ہجری میں یعنی والد کے انتقال کے 12سال بعد اسوقت لکھا جب پہلی دفعہ مکہ معظمہ پر سعودی اقتدار قائم ہو ا ۔لکھتے ہیں ’’اصول دین ،ایمانیات و اعتقادات میں ہمارا مسلک اہل سنت والجماعۃ کا مسلک ہے ۔اور ہمارا طریقہ ائمۂ سلف کا طریقہ ہے ۔اور فروع یعنی فقہی مسائل میں امام احمد بن حنبل کے مسلک پر ہیں ۔اور جو کوئی ائمہ اربعہ میں سے کسی کی بھی تقلید کرے ہم اس پر نکیر نہیں کرتے ۔اور ہم اپنے اجتہادکو مطلق کا مستحق نہیں سمجھتے ۔اور نہ ہم میں سے کسی کو اسکا دعوی ہے ۔ اور لوگوں کو حق سے دور رکھنے اور ہمارے بارے میں گمراہ کرنے کے لئے جو جھوٹے بہتان ہم پر لگائے جاتے ہیں ۔تو ان سب بہتانوں کے بارے میں (قرآن پاک کے الفاظ میں )ہمارا جو اب بس یہ ہے ’’سبحانک ہذا بہتان عظیم‘‘آگے لکھتے ہیں ۔ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اور مرتبہ تمام مخلوقات میں سب سے اعلا و افضل ہے۔اور آپ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں ۔اور آپ کی یہ حیات ’’برزخی حیات ‘‘ہے اور یہ شہدا ئے کرام کی حیات سے زیادہ بلند درجہ کی ہے ۔کیونکہ بلاشک و شبہ آپ شہدا سے افضل ہیں ۔اور آپ سلام عرض کرنے والے کا سلام سنتے ہیں ۔اور آپ کی زیارت مسنون ہے لیکن (شرّرمال کی ممانعت کی مشہور حدیث کے پیش نظر صحیح طریقہ یہ ہے کہ )مسجد نبوی کی حاضری اور اس میں نماز ادا کرنے کی نیت سے سفر کرے اور اگر اسکے ساتھ زیارت کا مقصد بھی شامل کرے تو کوئی حرج نہیں ۔اور جو کوئی اپنا قیمتی وقت آپ پر درود شریف پڑھنے میں صرف کرے تو اسکو دنیا وآخرت کے لئے سعادت وخوش بختی حاصل ہوگی ۔اور اسکے سارے غم وفکر اور پریشانیوں کے لئے وہی کافی ہوگی ۔جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ۔(چند سطر کے بعد لکھتے ہیں ) اور ہم اسکے قائل ہیں کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہوگی اور اس طرح دیگر انبیا علیہم السلام اور ملائکہ اور اولیا اللہ اور معصوم بچوں کی بھی شفاعت ہوگی ۔جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے ۔اور ہم اس شفاعت کا سوال اللہ تعالی سے کرتے ہیں اور زکاح وتضرع کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ’’ اے اللہ قیامت کے دن ہمارے بنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہمیں بھی نصیب فرما اور ہمارے بارے میں آپ کی شفاعت قبول فرما ۔اسی طرح ہم اللہ کے نیک بندوں اور فرشتوں کے بارے میں بھی اللہ تعالی سے عرض کرتے ہیں ۔پس یہ نہ کہا جائے کہ اے اللہ کے رسول یا اے اللہ کے ولی آپ سے شفاعت کا سوال کر تا ہوں ۔یا آپ میری مدد اور دستگیر ی فرمائیں وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہ سب شرک کے اقسام ہیں ۔ شیخ بن عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ابتدا سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے اور اپنی جماعت کے علاوہ سب کی تکفیر کرتے ہیں ۔یہ سب شوکت بھارتی صاحب نے بھی وہیں سے نقل کیا ہے ۔اسکے بارے میں شیخ کے فرزند لکھتے ہیں کہ۔ اور ہم کسی ایسی شخصیت کی تکفیر نہیں کرتے جس کے تدین اور صلاح وتقوی اور زہد وحسن سیرت کی شہرت ہو اور جس نے تعلیم وتدریس یا تصنیف و تالیف وغیرہ کے ذریعہ دین و علم دین اور امت مسلمہ کی خدمت کے لئے جا ن کھپا ئی ہو ۔ اگر چہ اس سوال شفاعت کے مسئلہ میں یا اس طرح کے کسی اور مسئلہ میں اس سے خطا اور غلطی ہوئی ہو جیسے ۔ابن ہجر ہیشمی مکی (شافعی)انہوں نے اپنی کتاب’’الدر المنظم‘‘ میں ان مسائل میں ہمارے مسلک کے خلاف جو کچھ لکھا ہے اس سے واقف ہونے کے باوجود ہم انکی وسعت علم کے معترف ہیں ۔ان کی کتابیں ’’شرح اربعین‘‘اور ’’الزواجر‘‘وغیرہ کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں اور مطالعہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ان کی نقل پر اعتماد کرتے ہیں ۔وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد واکرام علمائے امت میں سے ہے ۔ شوکت بھارتی صاحب نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کو بھی شیخ بن عبدالوہاب کے ہی ساتھ لگا دیا تھا ۔جبکہ ان دونوں کے بارے میں شیخ نے لکھا ہے کہ۔ اور ہمارے نزدیک ابن قیم اور انکے استادشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اہل حق اور اہل سنۃکے امام و پیشوا ہیں اور ان دونوں بزرگوں کی کتابیں ہمیں نہایت عزیز ہیں ۔لیکن ہر مسئلہ میں ہم انکے بھی مقلد اور پیرو نہیں ہیں ۔اور متعدد مسائل میں ان سے ہمارا اختلاف معلوم ا ورمعروف ہے ۔منجملہ ان کے ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ ہے اس میں ہم ان دونوں بزرگوں کی تحقیق کے خلاف ہیں ۔ائمہ اربعہ کے متفقہ مسلک کا اتباع کرتے ہیں ۔ اور ہم طریقۂ صوفیہ اور تزکیہ باطن کی کوشش کے بھی منکر نہیں ہیں ۔بشرطیکہ اس راہ کا سالک شریعت وسنت کا پابند و پیرو ہو ۔لیکن ہم ان لوگوں کے اقوال و افعال میں زبردستی کی تاویلیں نہیں کرتے ۔اور ہم اپنے تمام امور میں صرف اللہ تعالی پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ۔اور صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔اسکے سوا کسی کو مدد گار وکار ساز نہیں سمجھتے ۔ ’’وہوحسبناونعم الوکیل نعم المولی ونعم النصیر وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ صحبہ وسلم ‘‘(الہدیۃ السنۃ صفحہ50) 1206ہجری یعنی سو دو سوسال پہلے شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی وفات ہوگئی ۔اور یہ الزام وہ اپنے ساتھ لے گئے کہ وہابی تحریک کے وہ قائد تھے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک کے بانی اور داعی انکے بیٹے شیخ عبد اللہ بن محمد تھے ۔اور جن حرکتوں کی وجہ سے تحریک بدنام ہوئی وہ انتہا پسند بد و تھے جو کم علم بھی تھے اور جذباتی بھی ۔اور وہ کیا تھے یہ ہم نے اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ۔ہر کسی کو حدیث اکرمو کریم قوم کا لحاظ کرنا چاہئے ۔اختلاف جائز ہے دل آزاری ناجائز اور بہتان بہت بڑا گناہ ہے ۔