سچی باتیں ۔۔۔ میدان جنگ اور ذکر الہی ۔۔۔ تحریر : ،مولانا عبد الماجد دریابادی

45 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ الانفال
ا ے ایمان والو جب تم سے اور کسی گروہ سے (میدانِ جنگ میں) مقابلہ پیش آجائے تو ثابت قدم رہو اور ذکرِ الٰہی کثرت سے کرتے رہو کہ تمھیں فلاح ہو۔
تذکرہ میدانِ جنگ اور جہاد کا ہو رہا ہے اس موقع اور وقت کے خطرات ظاہر ہیں قیاس یہ ہوتا ہے کہ اس وقت تو سارا زورخالص جنگی مشاغل پر ہوگا اور حکم یہ ملے گا کہ جس طرح اور جس حد تک بھی ممکن ہو اپنی ساری قوتوں کا مرکز اسی کو بنائے رکھو لیکن بر عکس اس کے ارشاد یہ ہوتا ہے فَاثْبُتُوا ثابت قدم رہو، پیر نہ ڈگمگانے پائیں، گویا پہلی چیز ثبات قدم ہوئے لیکن قدم کا ثبات خود محتاج ہے قلب کے ثبات کا اگر قلب ثابت و قائم نہیں تو قدم کب ثابت و قائم رہ سکتاہے؟ اور ثبات قلب کا ذریعہ کیاہے؟ ذکرِ الٰہی اس لیے معاً بعد ارشاد ہوتا ہے کہ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ذکرِ الٰہی کثرت سے کرتے رہو، ذکرِ الٰہی کی تاکید اور وہ بھی کثرت کے ساتھ دنیا کے کسی دوسرے لشکر کو اس طرح کا حکم ملاہے؟
یورپ آج دنگ ہے کہ مٹھی بھر عربوں نے بغیر کسی اعلیٰ سازو سامان حرب کے، بغیر اعلیٰ آلاتِ جنگ کے، بغیر اعلیٰ قواعد دانی کے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی بڑی پُر قوت سلطنتوں اور پُر شوکت حکو متوں کو کس طرح شکست دے دی یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ دوسری سپاہ آج تک ان اسلحہ سے بھی مسلح ہو کر میدانِ جنگ میں آئی ہے؟ اللہ کا نام لیتے ہوئے اللہ کو زبان سے پکارتے ہوئے، اللہ کی یاد کو دل میں چھپائے ہوئے اللہ کے دین کی خاطر اللہ کے حکم کی تعمیل میں اور کس نے تلواریں چمکائی ہیں؟ کس نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر پیش کی ہیں؟ کس نے اپنی گردنیں کٹائی ہیں؟ انگریز جب لڑے گا تو زیادہ سے زیادہ انگلستان کی خاطر، جرمن جب اٹھے گا تو بہت سے ”فادرلینڈ“ اپنے وطن کے لیے، ہندو انتہائی عالی خیالی وحوصلہ مندی کے جوش میں بھر کر بڑھے گا بھڑکے گا تو مادرِ ہند کی خاطر آریہ ورت کے خاطر، اپنے دیش اور جنم بھومی کی خاطر، لیکن مسلمانوں کو کیا حکم ملتا ہے؟ مٹی کے گھر وندوں کے لیے نہیں، زمینی حدود کے لیے نہیں، دریاؤں اور پہاڑوں کے لیے نہیں، ندیوں اور پہاڑیوں کے لیے نہیں، کھیتوں اور باغوں کے لیے نہیں، تجارت کی منڈیوں اور غلہ کے بازاروں کے لیے نہیں، بلکہ اس کے لیے اور صرف اس کے لیے لڑے جو زمین و آسمان، آفتاب و ماہتاب، یورپ و ایشیا، امریکہ و افریقہ سب کا خالق ہے، جو تمام مقصدوں کا منتہٰی ہے اور جس کے آگے نہ کوئی مقصد خیال میں آسکتاہے نہ کوئی مطمح نظر!
اور پھر حکم کے ساتھ حکمت بھی موجود لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ فلاح پاؤ۔ گویا مقصود بالذات جنگ و قتال نہیں مقصود تو وہی فوزوفلاح دینی و دنیوی ہے، جہاد وقتال اپنے شرائط کے ساتھ اس مقصود کاایک ذریعہ ہے، لڑو اور جانیں دو، لیکن یادِ الٰہی سے اس وقت بھی غفلت ہوناکیا معنی اور اس کی کثرت کا حکم ہے کیا جن کے دل اللہ کی یاد سے، اللہ کے خوف سے، معموررہیں گے، ان سے بھی دنیا کے عام لشکروں کی طرح لوٹ مار اور طرح طرح کے جرائم کا اندیشہ ہوسکتاہے؟ پھر جب کثرت ذکرِ الٰہی سے عین معرکہ جنگ کے وقت غفلت روانہیں تو ہم لوگ جو پڑھنے لکھنے، ملازمت و تجارت وغیرہ کے معمولی بہانوں سے نماز وغیرہ سے جی چرانے لگتے ہیں یہ کسی طرح اور کسی حد تک بھی روا ہوسکتی ہے۔