سفر حجاز ۔۔۔(۱۶)۔۔ آثار مدینہ۔۔۔ از: ،مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:02PM Thu 15 Jul, 2021

مدینہ و حوالی مدینہ میں مقامات زیارت کی کیا کمی، ذرہ ذرہ مقدس اور چپہ چپہ زیارت گاہ ، مزوروں کے ہاتھ میں آپ کو دیدیجئے، تو خدا معلوم کتنے مقامات کی زیارت کرادیں، مقبرے ، مسجدیں، پہاڑیاں، کنویں، ولادت گاہیں، اور کتنے ہی اور مقد س آثار و مشاہد یا زیادہ مشہور زیارت گاہوں کے نام یہ ہیں، مسجد قبا، مسجد ذو القبلتیں، جبل احد، بئر اریس ، بیررومہ، مقتل شہدائے احد، ان میں سے کوئی مقام بہت زیادہ فاصلہ پرنہیں عموما دو دو چار چار میل کے اندر ہیں، اگر پیدل چلنے کی عادت و ہمت ہو اور وقت کافی ہو تو پاپیادہ ہی زیارت ہو سکتی ہے،ورنہ یہاں کی سواریاں جو اعرابی کہلاتی ہیں چند روپے کے کرایہ پر آمدورفت کے لیے لئے طے ہو سکتی ہیں دوستوں اور رفیقوں نے اکثر مقامات پر حاضری دی اور خصوصا مولانا مناظر احسن صاحب تو ہمہ تن ذوق و شوق بنے ہوئے ہر جگہ تمتع زہر گوشۂ یافتم! پر عمل کرتے رہے اور ہر با برکت زمین سے مشرف ہوتے رہے،لیکن قافلہ میں ایک کاہل و بے ہمّت ایسا بھی تھا جو باوجود خاصے طویل قیام کے کہیں نہیں نکلا،اور اس کا نفس ہمیشہ یہ تاویل کرتا رہا،کہ آستان پاک مسجدِ نبوی سے کہیں ہٹنا آفتاب کو چھوڑ کر قندیلوں اور مشعلوں کی روشنی تلاش کرنا ہے۔البتہ ایک مسجد قبا اس سے مستثنیٰ تھی،اس کی زیارت کی فضیلت کسی ظن و قیاس سے نہیں نص سے ثابت ہے اور حدیث میں وارد ہو چکا ہے کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا اجر عمرہ کے اجر کے مساوی ہے- " من تطهر في بيته، ثم أتى مسجد قباء فصلى فيه صلاة کان كأجر العمرة" اسلام میں جو مسجد سب سے پہلے تعمیر ہوئی،وہ یہی مسجد قبا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے جب مدینہ کو ہجرت فرمائی ہے تو اول قیام اسی مقام قبا میں فرمایا تھا،اور یہیں اس مسجد کی تعمیر شروع فرمادی،اللہ اللہ! بڑے بڑے صدیقین اور ایک سے ایک بڑھ کر اولیاء امت یعنی حضرات صحابہ کرام جس مسجد کے مزدور اور معمار ہوں اور جس کی تعمیر میں خود رسول اکرم صلی ا؅ علیہ و سلم کا دست مبارک شامل ہو اس کی نورانیت اور اس کے تقدس کا کوئی اندازہ ہو سکتا ہے! بہت سے مفسرین اس جانب گئے ہیں کہ آیت کریمہ:۔ "أسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيه"-التوبة:۔ 108۔ میں جس کی مدح آئی ہے وہ یہی مسجد ہے۔۔ حدیث میں آیا ہے کہ عادت مبارک یہ تھی کہ ہر شنبہ کو اس مسجد میں تشریف لے جاتے تھے، ایک سنیچر کی صبح کو مولانا مناظر احسن صاحب کی رہنمائی میں اپنے چھوٹے سے قافلہ کو ہمراہ لے کر اس مسجد میں حاضری کے لیے روانگی ہوئی۔شہر مدینہ سے کچھ ایسا زائد فاصلہ نہیں مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم سے تخمیناً ڈھائی میل ہوگی۔ عورتیں ہمراہ تھیں، ایک اعرابی کرایہ پر کرلی تھی، کرایہ یوں بھی بہت ارزاں رہتا ہے۔لیکن حج و زیارت کے موسم میں قدرتاً بڑھ جاتا ہے۔ آمد و رفت کے لئے غالباً آٹھ روپئے طے ہوئے شہر سے باہر نکلے تو دیہات کا سماں نظر آیا، کھجور کے درخت اور باغ ہر طرف لگے ہوئے۔ اکثر نہایت سرسبز و شاداب، عرب کی خشکی پر ہندوستان کی شادابی کا دھوکا ہوتا تھا۔ راستے بھر چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں نعت و سلام کے اشعار پڑھتی ہوئی اور گاتی ہوئی کثرت سےملتی رہیں، صبح کا سہانا وقت ہر طرف سناٹا، معصوموں کی زبان کا پیارا لب و لہجہ۔ ہر قلب متاثر اور ہر روح کو وجد تھوڑی دیر میں یہ سفر ختم۔مسجد قبا خاصی بلندی پر واقع ہے۔اچھی خاصی وسیع،سفید رنگ۔ پرانی وضع کی بنی ہوئی ہر قسم کی تصنع اور آرائش سے خالی۔سادگی کی مؤثر تصویر ض یہاں نہ کسی ہجوم کاکھٹکا،نہ کسی چپقلش کا اندیشہ،پورے سکون و اطمینان،یکسوئی وفراغ خاطر کے ساتھ،جہاں جتنی دیر تک چاہیے نماز پڑھئے۔سجدے کیجئے عبادت کیجئے صحن میں ایک مسقف چبوترہ،اور اس پر عربی میں یہ عبارت کندہ کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی ذہ ا ذرہ آنکھوں سے لگانے کے قابل، یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ کے سب سے زیادہ تعریف کرنے والے اور سب سے زیادہ تعریف کیے گئے بندہ کو اس وقت پناہ ملی تھی جب اس کے وطن والے اس کےخون کے پیاسے ہو چکے تھے، ؛غَنیٌ عَنِ الْعالَمِین؛. کی شان بے نیازی کا کوئی ٹھکانہ ہے! پناہ اسے ڈھونڈنی پڑی تھی۔ جو خود اس واسطے بنایا گیا تھا کہ سارا عالم اس کی پناہ میں آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آئینے میں امت کی ساری تاریخ کا عکس دکھایا گیا،جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک روز مکہ کی زمین تنگ کر دی گئی تھی آج اس کی امت پر عرصہ عالم تنگ ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن ایک ابوجہل اور ایک ابولہب تھے،رسول کی عزت کے رسول صلی وسلم کے پیام کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کے دین کے دشمن آج خدا معلوم کتنے ابوجہل اور کتنےابولہب پیدا ہوگئےہیں،ان مکی دشمنان حق کا خاتمہ ہلاکت وبربادی پر ہوا تھا،کیا یہ بیسویں صدی عیسوی کے روشن خیال اور وطن پرست ابو جہل وابو لہب اب ہمیشہ مہلت ہی پاتے رہیں گے؟مکہ کے مہاجر کو اپنے رب کا نام پکارنے توحید کا کلمہ بلند کرنے کو قبا کا ایک ٹھکانہ مل گیا تھا ،کیا اس محبوب کے امت کی قسمت میں کوئی قبا نہیں ،اور کیا اسے خدا نخواستہ ہمیشہ بھٹکتے ہی رہنے دیا جائے گا!. مسجد نبوی میں ایک روز حاضر تھا عصر کی جماعت کےبعد سلام پھیرا تو ایک صاحب نے ایک دستی خط لا کر دیا،حیرت ہوئی کہ یہاں خط بھیجنے والا کون؟لفافہ کھول کر پڑھا تو امیر مدینہ کا کرم نامہ تھا۔″مدیر جریدہ سچ″ کے نام شام کو جلالۃ الملک سلطان عبدالعزیز ابن سعود سیدھے ریاض سے مکہ جاتے ہوئے مدینہ سے گزریں گے ان کے ورود مدینہ کے دن سہ پہر کو امیر مدینہ کی طرف سے ان کی دعوت ہوگی، اس میں شریک ہوں مزید حیرت ہوئی کہ مدیر سچ نے تو یہاں اپنے تئیں مخفئ وگمنام رکھنے کا پورا اہتمام کر لیا تھا،اس کے باوجود اس کی خبر سرکاری حلقوں کو کیوں کرہو گئی، بہت کھوج لگایا کچھ پتہ نہ چلا،اب سوال یہ پیدا ہوا کہ آیا اس دعوت نامہ کو قبول بھی کیا جائے؟جس نے آغاز سفر حج سے اخبارات کا پڑھنا تک ترک کر دیا ہو اس کے لیے ایسے سرکاری مجمع اور شاہی دعوت میں شرکت آسان نہ تھی۔بڑی اندرونی کشمکش رہی،حیص بیص اور ایک بزرگ دوست کے مشورے کے بعد بالآخر طے پایا کہ جب تحریک خود اسی طرف سے ہوئی ہے تو چلنا چاہیئے اور سلطان سے مل کر مسجد نبویﷺ اور بقیع وغیرہ سے متعلق جو زیادتیاں بدانتظامیاں اور بدتمیزیاں مشاہدہ میں آچکی ہیں،سب ان کے گوش گزار کردینا چاہیئے،یہ سوچ کر تمام اصلاح طلب پہلوؤں کی ایک مفصل یادداشت قلمبند کرلی اور مولانا مناظر صاحب سے اس کا عربی ترجمہ کرالیا کہ ملاقات کے وقت ایک مختصر تمہیدی گفتگو کے بعد سلطان کی خدمت میں پیش کردیا جائے گا،سلطان کی آمد ایک مدت تک برابر ملتوی ہوتی رہی،آخر کار ایک صبح کو ان کا ورود ہوا،اور اسی روز بعد عصر وہ دعوت ہوئی۔دعوت کا مقام وہ تھا جہاں حجاز ریلوے اسٹیشن بنا ہوا ہے۔اتفاق سے فوراﹰ بعد عصر بارش شروع ہوگئی،کچھ دیر یوں ہوئی ،اور پھر جب بارش کے ہلکے ہوتے ہی مولانا مناظر صاحب کو بطور ترجمان اپنے ہمراہ لےکر روانہ ہوا ہوں تو مقام دعوت کا فاصلہ اندازہ سے زائد نکلا،غرض جب پہونچے ہیں تو وقت سے کچھ دیر ہوچکی تھی،اسٹیشن کی عمارت جھنڈیوں وغیرہ سے خاصی آراستہ تھی، صحن میں فوج پولیس،چوکی پہرہ کا ہر طرف انتظام، بدوی سادگی کے دیکھنے کی حسرت ہی رہ گئی۔آرائش اس درجہ کی تھیں ،جیسے ہندوستان میں اوسط درجہ کے والیان ریاست کے دربار کے موقع پر ہوتی ہیں،دعوت اندر بڑے ہال میں ہورہی تھی،اور دروازوں پر بجائے اس کے کہ میزبان یا ان کے نائب مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے،بندوق اور سنگین لیے پہرہ دار نے کہا کہ نہ ہم اس کی زبان سمجھ سکتے تھے،اور نہ وہ ہماری،جانے سے روک دیا۔عربی اخلاق اور میزبانی کا یہ تجربہ شاید نجدی دور سے پیشتر کسی کو نہ ہوا ہو! مجبوراً برآمدہ میں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد سلطان مع اپنے رفقاء کے کھانے سے فارغ ہوکر برآمدے میں آئے اور ایک آراستہ صوفہ پر جلوس فرمایا،سلطان کے لباس و وضع میں واقعتہً کوئی امتیازی شے نہ تھی،ان کی اس ذاتی سادگی کی داد جس قدر بھی دی جائے درست ہے۔ان کے اسٹاف کے لوگ ان سے کہیں زیادہ زرق برق لباس میں تھے،اور اگر کوئی بتانے والا نہ ہوتا تو محض وضع و لباس سے سلطان کو پہچاننا ممکن نہ تھا ،کاش جس طرح سلطان کا لباس اور ظاہر سادہ ہے۔ایسی سادگی حق تعالیٰ انھیں زندگی اور اخلاق کے ہر شعبہ میں نصیب کردے،آمین۔بہرحال جب سلطان صوفہ پر آکر بیٹھ لیئے تو لوگ ان کے سامنے پیش ہونے لگے۔ ہم لوگوں نے اس وقت پھر اپنے میزبان امیر مدینہ کو تلاش کرنا شروع کیا کہ جنھوں نے خط بھیج کر مدعو کیا تھا وہ دعوت کے بعد ہی سہی ،کم از کم مل تو لیں،تلاش ناکام رہی انتظار کے بعد مجبوراً ہم دونوں پر دیسی خود ہی بغیر کسی تعارف کرانے والے کے ہمت کرکے سلطان کے صوفہ کی طرف بڑھے اور قریب پہونچ کر السلام علیکم کہا سلطان نے وعلیکم السلام کہا اور کھڑے ہوکر مصافحہ فرمایا۔ہم لوگوں نے اپنا تعارف (یا اپنی تعریف خود کرنا چاہا، لیکن ابھی زبان سے صرف دو لفظ ″نحن ہندیون″ نکلنے پائے تھے کہ شاہی چوبدار نے ہاتھ پکڑ کر ہم کو فوراً کھینچ لیا اور کہا کہ یہ گفتگو کا محل نہیں، ہم لوگوں نے ہرچند سمجھانا چاہا کہ ہماری حاضری کا مقصد ہی ضروری گفتگو کرنا تھا، لیکن بھلا وہ چوبدار صاحب ہمارے سمجھائے کیا سمجھ سکتے تھے، اتنے میں دوسرے لوگ سلطان کے سامنے پیش ہونے لگے، اور ہمیں ایک بار پھر جبراً صبر اختیار کرنا پڑا ، اتنے میں سلطان کا موٹر آلگا اور وہ سوار ہوگئے، آخری بار امیر مدینہ کی تلاش پھر شروع کی، اور ابکی وہ مل گئے، ہم نے ان کے سامنے ساری سرگزشت سنائی، بغیر کسی اظہار تاسف ومعذرت کے فرمایا کہ آج تو موقع نہیں رہا، اور کل سلطان چلے جائیں گے، البتہ کل صبح اگر آجاؤ تو ملاقات کرادوں گا۔ تو موقع نہیں رہا، اور کل سلطان چلے جائیں گے، البتہ کل صبح اگر آجاؤ تو ملاقات کرادوں گا۔ مشیت الہی میں جو کچھ ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے، طبیعت کچھ خراب پہلے تھی، سلطانی دعوت گاہ سے واپسی پر طبیعت زیادہ بگڑ گئی، اور شب میں اچھا خاصا تیز بخار ہوآیا، ضعف اس درجہ ہوگیا کہ سلطان کے ہاں جانے کا کیا ذکر کوٹھے سے اترنے اور عشا و فجر کی نماز جماعت کے لئے مسجد نبویﷺ تک حاضر ہونے کی سکت باقی نہ رہی، مجبوراً صبح کو ایک مختصر خط مولانا مناظر احسن سے عربی میں لکھوا کر سلطان کی خدمت میں بھیج دیا، جو صاحب لے کر گئے تھے، ان کا بیان ہے کہ سلطان پڑھ کر اپنے ایک سکریٹری کو دے دیا اور فرمایا ″ اسے رکھ لو، مکہ میں حج کے زمانے میں یاد دلانا اس وقت ان صاحب سے ملاقات کروں گا، اور اسی واقعہ پر سلطان و گدا ناتمام ملاقات تمام ہوگئی، یاد داشت جو ان کی خدمت کرنے کے لئے لکھی گئی تھی اس کا لکھنے والا محض سچ کا مدیر ہی نہ تھا، بلکہ ہند کی مرکزی خلافت کمیٹی کا بھی ایک خادم تھا، اور یہ دونوں حیثیتیں اس میں واضح کردی گئی تھیں،لب ولہجہ میں آداب شاہی کا پورا لحاظ کرلیا گیا تھا، اور اس کا شائبہ بھی آنے پایا تھا کہ سلطان کی کسی قسم کی اہانت ہو، ادب کے ساتھ اصلاح طلب امور کی فہرست نمبروار درج تھی اور آخر میں پورے زور کے ساتھ یہ گزارش کی گئی تھی کہ مسجد نبوی، مقصورہ شریفہ جنت البقیع وغیرہ پر ساے اسلامی فرقوں کے یکساں حقوق ہیں، اس لئے یہاں کے آداب زیارت و انتظامات میں بڑی فراخدلی سے کام لینا چاہئے، اور تابہ امکان ہر فرقہ کے ، یہاں تک کہ گمراہ وباطل اسلامی فرقوں کے معتقدات ومزعومات کی رعایت تاوقتیکہ وہ صحیح اصول اسلامی سے معارض نہ ہوں، رکھنی چاہئے، اور دولت حجاز کے محکمۂ مذہبی خدمت میں یہ مشورہ پیش کیا گیا تھا کہ دوسرے اسلامی ملکوں کے متدین و مصلحت فہم علماء سے برابر مشورہ جاری رکھنا چاہئے، ہندوستان کے گروہ اعظم اہل سنت میں خدا کے فضل سے متعدد بزرگ ایسے موجود ہیں جو دولت حجازیہ سعودیہ کی مشکلات میں اضافہ کئے بغیر اس باب میں اسے بہترین مشورے دے سکتے ہیں، مولانا حسین احمد صاحب، مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب جماعت اہلحدیث کے مولانا محمد سلیمان منصور پوری (مصنف رحمتہ للعالمین ) شیخ الاسلام مملکت آصفیہ مولانا شردانی شیخ الحدیث جامعہ عثمانیہ مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی ،فاضل محترم مولانا سید سلیمان ندوی،اور اسی قسم کے دوسرے صاحب علم و نظر علمائے اہل سنت سے اگر حکومت حجاز آداب و زیارت وغیرہ کے باب میں مشورہ کرتی رہے تو ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک خاصے بڑے گروہ کے دل میں اس کی طرف سے جو تلخیاں پیدا ہورہی ہیں وہ یقیناﹰ بڑی حد تک دور ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کے تذکرے جو بار بار اس سفر نامہ میں آرہے ہیں اس سے اگر ایک طرف لوگوں کو صحیح حالات اور ضروری معلومات سے باخبر کرنا ہے تو دوسری طرف حکومت حجاز اور اس کے ہوا خواہوں کو خود اپنی فلاح و اصلاح پر توجہ دلانا ہے اور یہ جو کچھ لکھا جارہا ہے حاشا نجدیوں کی مخالفت و عناد میں نہیں ان کی بدنامی و رسوائی کے لئے نہیں بلکہ ان کی سچی دوستی اور حقیقی خیر اندیشی میں وہ لاکھ برے سہی پھر بھی بہرحال وہ کلمہ گو ہیں،دائرہ اسلام سے خارج نہیں،خاطی ہیں، کافر نہیں،نادان نہیں، باغی نہیں،بھائی ہیں دشمن نہیں ان کی رسوائی مسلمانوں ہی کی رسوائی ہے۔ان کی پردہ دری کرکے خوش ہونا،محمد ﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں کی پردہ دری پر خوش ہونا ہے،خانہ جنگی قابل داد کبھی بھی نہ تھی،لیکن آج تو اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی گناہ ہو،آج وقت نجدی حجازی کی آویزش کا ،حنفی و حنبلی کی جنگ کا،اہل سنت و اہل بدعت کے کارزار کا نہیں،وقت اس کا ہے کہ سب مل کر یاجوج کے اس بےگنتی اور بےتعداد لشکر سے مقابلہ کریں،جو بیشمار ناموں اور نشانوں کے ساتھ بےحساب لباسوں اور نقابوں کے ساتھ ہر سمت اور ہر جہت سے،ہر پہلو اور ہر گوشہ سے اللہ کے دین پر،رسول کی شریعت پر،اسلام کے پیام پر حملہ آور ہورہا ہے،اور جس کی زد سے نہ ہندوستان محفوظ ہے نہ نجد اور نہ مرکز اسلام کے وہ مقدس و محترم مقامات۔۔۔۔نام لکھنے کی جرات قلم کہاں سے لائے۔جن کے شرف سے اسلام کا شرف قائم ہے اور جن کے شرف سے اسلام کا شرف قائم ہے اور جن کی عظمت سے اسلام کی عظمت وابستہ ہے! جہاد کی ضرورت ان کے مقابلہ میں نہیں جنھوں نے عثمان غنیؓ کے قبہ مزار کو گرادیا اور فاطمہ زہرا ؓ کی تربت کو کھنڈر بنادیا ،جہاد ان پر کرنا ہے جو عثمانؓ و فاطمہؓ کے دین کے دشمن ہیں جو قبہ عثمانؓ کو نہیں خود عثمانؓ کے کارناموں کو فنا کررہے ہیں،اور جو تربت فاطمہؓ کی نہیں خود فاطمہؓ کی تحقیر اور بے وقتی دلوں میں پیدا کررہے ہیں۔۔۔۔!. اہل دل بزرگوں اور نیک نفس دوستوں کی ایک جماعت ،حسرت و تاسف خلوص و ہمدردی کے لہجہ میں زیر لب کہہ رہی ہے کہ مشاہد متبرکہ کےانوار و برکات کی شرح کرنے کے بجائے یہ بےمحل سیاسی رجز خوانیاں کیسی شروع ہوجاتی ہیں،لیکن بزرگو اور دوستو ! للہ کوئی بتائے کہ کلمہ توحید کی بنیاد نفی غیر اللہ پر کیوں ہے؟ انوار و تجلیات کا مشاہدہ جنھیں ہوتا ہوگا ایک عامی اور دنیا دار تباہ کار سے اس کی توقع ہی کیوں قائم کی گئی ،وہ تو وہی لکھے گا جو کچھ اس نے محسوس کیا،اس کا مال گھٹیا سہی،ناقص سہی،ادنیٰ درجہ کا سہی لیکن بہرحال اس کا اپنا مال ہوگا،کیا دوسروں کا حسن ظن قائم رکھنے کے لیے صوفیوں کی بول چال کی نقالی شروع کردی جائے؟ کیا خود وہ بزرگ اس سے خوش ہوں گے کہ ان کے خوش کرنے کے لئے جھوٹے موتی کشتیوں میں لگا لگاکر پیش کیے جانے لگیں؟ یہاں تو مسجد نبوی کے ہر ہر ستون اور ہر ہر محراب سے ایک ایک در اور ایک ایک دیوار سے قبا کی ایک ایک اینٹ سے بقیع کے ذرہ ذرہ سے شہر مدینہ کے چپہ چپہ سے ایک ہی پکار سنائی دی اور وہ پکار من انصاری الی اللہ کی تھی،ہر جگہ ایک ہی جلوہ دکھائی دیا اور وہ جلوہ دین کی تقاضائے نصرت کا تھا!. آج اللہ کے بجائے یاجوج کی الہیت و الوہیت کا کلمہ ہر جگہ پڑھا جانے لگا ہے۔عدالتوں میں حاکم مسلمان بنائے جاتے ہیں،اور ان مسلمان حاکموں سے شریعت کے فیصلوں میں ترمیم کرائی جاتی ہے،کونسلوں میں ممبر مسلمان لیے جاتے ہیں اور مسلمان ممبروں کی تجویزوں اور تقریروں سے شریعت کی دھجیاں اڑاتی جاتی ہیں۔وزارت و امارت کی کرسی پر مسلمان بٹھائے جاتے ہیں،اور ان مسلمان امیروں اور وزیروں کے احکام سے شریعت کو توڑا جاتا ہے،یونیورسٹیاں اور درسگاہیں مسلمانوں کی قائم کرائی جاتی ہیں اور مسلمان ماہرین فن کے مقالات و مضامین سے شریعت پر قہقہے لگائے جاتے ہیں حب قوم کا جذبہ مسلمانوں میں پیدا کرایا جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترک ترکیت کی،مصر مصریت کی پرستش شروع کردیتے ہیں اور ہندی مسلمان بھی اپنے اسلام کو چھوڑ کر اپنی ہندیت پر فخر ناز کرنے لگ جاتا ہے:۔قوالی کی محفلیں بہت دیکھ لیں،نعتیہ نظمیں بہت سی سن لیں،شعر و شاعری بہت ہوچکی،اب اللہ کے ہاں سے پکار ہےتو یہ اور محمدﷺ کے دربار سے طلب ہے تو اس کی کہ کچھ اللہ کے بندے اور محمد ﷺ کے امتی اٹھیں اور دین کی غیرت سے مست و دیوانے ہوکر،دوستوں اور عزیزوں سے بیگانے بن کر یاجوج کے لشکر کے مقابلے میں صف بستہ ہوکر کانھم بنیان مرصوص باہر نکلیں اور اس ہاری ہوئی لڑائی میں حق کا علم بلند کرکے اپنے سر اور اپنی جانیں نذر کردیں!۔