کیا پھر بھٹکل میں خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ ! (دوسری قسط) 

Bhatkallys

Published in - Other

01:39PM Mon 3 Oct, 2016

از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........

بھٹکل کے اس بھیانک اور مسلم کش فساد کو آج دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ ایک طرف وہ نسل ہے جو اس خونریز دور سے گزر چکی ہے۔اور آگ و خون کی گزری ہوئی اس ہولی کے مناظر ابھی اس کے ذہن و دل پر تازہ ہیں۔ دوسری طرف ایک پوری نئی نسل وجودمیںآئی ہے جوان خوفناک دنوں سے نابلد اور ناآشنا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندو فسطائی طاقتیں اس کے بعد ہماری طرح خاموش ہوکر بیٹھ نہیں گئیں۔بلکہ انہوں نے اپنی نئی نسل کو اپنے زاویۂ نگاہ سے باخبر رکھا۔ حالانکہ فساد کا عذاب تو سب سے زیادہ مسلمانوں نے جھیلا تھا مگر منظر نامہ ایسا لکھا گیا کہ یہاں بھی مسلمان ہی ظالم اور ہندوؤں کی جان کے دشمن نظر آتے ہیں۔ اس طرح ان کی نئی نسل میں اس فساد کے حوالے سے بھی مسلمانوں کے خلاف زہر پوری طرح سرایت کروایاگیا۔ مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا: اس فساد کے بعدہندو جاگرن ویدیکے نے مسلمانوں کے خلاف عام ہندوؤں کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے کی مہم تیز کردی تھی۔ اس میں پریس کے ایک خاص سیکشن نے بھی بڑا اہم کردارادا کیاتھا۔بھٹکل کے مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرنا۔مسلمانوں کی ملک دشمن سرگرمیوں کی من گھڑت کہانیاں پھیلانا۔ بھٹکل کو غیر قانونی سرگرمیوں اور جرائم کا مرکز قرار دینا اور سب سے بڑھ کر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایجنٹ کہہ کر بدنام کرنے کی فسطائی گروپ نے ایک مہم چلارکھی تھی۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے مگر اس میں مزید شدت آگئی ہے اور مزیدنئے پہلو جیسے داعش اور انڈین مجاہدین سے براہ راست رابطے کے الزامات شامل ہوگئے ہیں۔

تری تلوار نے تو کچھ کمی باقی نہیں رکھی مگر وہ سخت جاں ہم ہیں کہ اب تک دم نہیں نکلا

اب سری رام سیناکی باری ہے!: اور اب موجودہ بدلتے ہوئے حالات اور آثار کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ ہندو جاگرن ویدیکے نے جو کردار 93 ؁ء کے فساد میں ادا کیا تھا، اب وہی کردار پرمود متالک کی سری رام سینا ادا کرنے جارہی ہے۔کیونکہ جنوبی کینرا اور اطراف میں اگرچہ ایچ جے وی موجود ہے ، مگر وہاں بجرنگ دل اور سری رام سینا اب صف اول کی ہندتووادی شدت پسند تنظیمیں بن کر ابھر چکی ہیں۔ جبکہ ضلع شمالی کینرا میں اورخاص کر بھٹکل میں ایچ جے وی کا زور کم ہوتا اورسری رام سینا کا زور بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی پہلے جس طرح ایچ جے وی کے شدت پسند عناصر کو بی جے پی نے الیکشن کی سیاست میں داخل کرلیا تھااسی طرح اب سری رام سینا کے فداکاروں کو پارٹی میں شامل کرنے کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے۔ خود بھٹکل میں سری رام سینا کے لیڈر شنکر کا معاملہ لیں تو پچھلے کچھ عرصے سے اس کی زبان بہت ہی تیز ہوگئی ہے اورانتہائی اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ اس نے چھیڑ رکھا ہے۔ اسی پس منظر میں دیکھیں تو حال ہی میں اسے بی جے پی کے یوا مورچہ کا ذمہ دار بنایا جانا بڑا معنی خیز لگتا ہے۔جس کے دوسرے معنی یہی ہیں کہ:

بچ بھی جائیں گے اگر آج ہم اک قاتل سے کل کسی دوسرے قاتل کے حوالے ہونگے

شنکر نائک کی اشتعال انگیزی: یہ شنکر نائک یوں تو ہروقت سوشیل میڈیا میں بھٹکل کے مسلمانوں کے خلاف مواد شائع کرتا رہتا ہے۔ مگرپچھلے دنوں ٹی ایم سی کی دکانوں کی نیلامی کے پس منظر میں اس نے حد سے گزرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اکسانے کی مہم چلائی تھی۔ حالانکہ اس سے پہلے ہی اس کے بیانات اورنفرت بھرے بھڑکاؤ پیغامات کے ثبوت کے ساتھ ہمارے مرکزی ادارے کے ذمہ داران نے پولیس کے اعلیٰ افسران سے شکایت کی تھی اور اطلاع کے مطابق افسران نے اس کے خلاف ایک سخت قدم اٹھانے کا ارادہ کرلیا تھا، مگر پولیس فورس میں ہی موجود فسطائی طاقتوں کے گُرگوں نے قبل از وقت یہ راز فاش کردیا اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ۔ اب تو حد ہوگئی !: اب تو اس کی اشتعال انگیزی کی حد ہوگئی ہے۔ اس کے تازہ بیانات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے مندروں میں بڑے کا گوشت یا پھر دیگر قابل اعتراض چیزیں پھینک کرمسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور فساد بھڑکانے کی سازش ناکام ہونے کے بعدان فرقہ پرستوں نے شاید کوئی نیا ہتھکنڈہ اپنانے کا من بنالیا ہے۔خیال رہے کہ بھٹکل ٹاؤن پولیس اسٹیشن کی معطل شدہ پی ایس آئی مسز ریوتی نے ہوم منسٹر کو لکھے گئے خط میں تحریری طور پر یہ بات کہی ہے کہ مندروں میں بڑے کا گوشت پھینک کرفساد بھڑکانے کی سازش میں ہندتوا کے علمبرادر فسطائی لیڈر ملوث ہیں۔ ادھر شنکر نائک نے حال ہی میں جاری کیے گئے اپنے بیان میں کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ جلد ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑنے والی ہے ۔ اور ایسی صورت میں بھٹکل کے مسلمان پاکستان کی حمایت میں اپنے آس پاس بسنے والے ہندوؤں کو قتل کرنے اور لوٹنے کی کارروائیاں انجام دیں گے ۔ لہٰذا اس نے مسلمانوں کے گھروں کے آس پاس بسنے والے ہندوؤں سے اپیل کی ہے کہ جنگ کا ماحول بنتے ہی وہ اپنی جان بچاکر دوسرے محفوظ علاقوں میں پہنچ جائیں۔ مسلمانوں کو اپنے اچھے دنوں کا ہمدرد اور دوست مانتے ہوئے برے وقت میں ان پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں۔اوراگر انہوں نے اس کی بات پر کان نہیں دھرا تو پھر اپنی جان گنوانے اور تباہی و بربادی کا شکار ہونے کے ذمہ دار وہ خود ہونگے۔اس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے بھٹکل کے مسلمانوں کی مساجد میں ذخیرہ کی گئی تلواریں ہندوؤں کا خون پینے کے لئے ترس رہی ہیں۔ اس لئے ہندو جاگ جائیں اور اپنی حفاظت کی تیاری کا سامان خود کرلیں۔ بات تشویشناک ہے ۔۔۔لیکن !: اس طرح کا اشتعال انگیز مواد سوشیل میڈیا پر عام کرنے کی پاداش میں اگر پولیس چاہے تو ایک کیادس شنکر نائک کوبھی پلک جھپکتے میں قانون کے شکنجے میں جکڑ سکتی ہے اور اس کی زبان کو لگام دے سکتی ہے۔مگر سچائی یہ ہے کہ ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اس کے پیچھے ہنگامہ آرائی کرنے اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا کرنے والا ٹولہ موجود ہے۔ ایسے میں تشویش کی بات یہی ہے کہ ایک عرصے سے بھٹکل کو دوبارہ فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جھونکنے کی جو تیاری چل رہی تھی وہ کہیں مکمل نہ ہوگئی ہو۔ اور اس سے زیادہ توجہ دینے کی بات یہ ہے کہ خود شنکر نائک نے اس سے پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اب کی بار جو فساد ہوگا وہ 93ء کے فساد سے کہیں زیادہ تباہ کن اور فیصلہ کن ہوگا، کیونکہ 93ء کا فساد ہندوؤں کی طاقت کا بس ایک ہلکا سا مظاہرہ تھا! اللہ کرے کہ فسطائی عزائم اور سازشیں بری طرح ناکام ہوجائیں اور شہر کا امن و امان ہمیشہ بحال رہے۔   ضروری وضاحت: اس مضموں میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔