’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘

Bhatkallys

Published in - Other

12:31PM Fri 1 Apr, 2016

اطہر علی ہاشمی خبر لیجیے زباں بگڑی پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس میں ’کا‘ رہ گیا ہے‘ یعنی ’لوہے کا قلم‘ ہوگا لیکن سہوِ کاتب سے ’کا‘ رہ گیا۔ روزنامہ کی لوح پر لکھا ہے ’’عوام کے ہر مسائل پر نظر‘‘۔ ’ہر‘ کے ساتھ اگر ’مسئلے‘ لکھ دیتے تو کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن لوہے قلم کے لیے جائز ہے۔ یہ فیصل آباد سے بروقت شائع ہونے والا واحد کلر پرنٹ اخبار ہے۔ جب کوئی نیا اخبار نکالنا چاہے تو سب سے بڑا مسئلہ نام کا ہوتا ہے۔ محکمہ اطلاعات کی فہرست میں ہر نام موجود ہوتا ہے خواہ وہ اخبار باقاعدگی سے شائع ہوتا ہو یا نہیں۔ ممکن ہے ’لوح و قلم‘ نام کا کوئی اخبار بھی فہرست میں موجود ہو اسی لیے نام ’لوہے قلم‘ رکھ دیا، اس یقین کے ساتھ کہ یہ نام کسی کے پاس نہیں ہوگا۔ یوں بھی ’لوح و قلم‘ ایسا نام ہے جو کسی کی توجہ مبذول نہ کراتا۔ ’لوہے قلم‘ اچھوتا ہے جس پر اس کے بانی چیف ایڈیٹر کو داد دینی چاہیے۔ ’’’غتربود‘‘ کی ترکیب کیسے وجود میں آئی؟ شیخ سعدی کا مصرع ہے ’’سعدی کہ گوئے بلاغت ربود‘‘ یعنی سعدی بلاغت کی گیند چھین لے گیا۔ ’گوئے‘ فارسی میں گیند کو کہتے ہیں اور گیند سے کھیلنے والے کو ’گوئے باز‘ جسے ہم بیٹسمین کہتے ہیں۔ اسی سے ایک محاورہ ہے ’’گوئے سبقت لے جانا‘‘۔ کاتب نے شیخ سعدی کے مصرع کی کتابت کرتے ہوئے بلاغت ربود کو ملا کر بلاغتربود لکھ دیا۔ اس سے فارسی کا محاورہ ’’غتربود شدن یاکردن‘‘ اور اردو میں غتربود ہونا یا کرنا وجود میں آیا جس کے معنی ہیں ’گڈمڈ ہونا‘ یا ’خراب کردینا‘۔ اس حوالے سے ایک قصہ بھی مشہور ہے۔ استاد نے اس مصرع کے بارے میں شاگرد سے پوچھا کہ کیا مطلب سمجھ میں آگیا؟ اس نے کہا ’’استاد جی’بلا‘ تک تو سمجھ میں آگیا، اس سے آگے غت ربود سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔ اور یوں اس نے معنی غتربود کردیے۔ معروف ہوجانے والے کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں جذبات میں بہہ کر لکھ ڈالا کہ ’’ہم (مسلمان) ایک ہزار سال سے آکسفورڈ اور کیمرج کے مرہونِ منت ہیں‘‘۔ یہ نہ صرف مبالغہ بلکہ خلافِ حقیقت بھی ہے۔ ایک ہزار سال پہلے آکسفورڈ اور کیمرج کا وجود ہی نہیں تھا، البتہ اُس وقت اسلامی یونیورسٹیاں جامعہ قرویین (فاس، مراکش۔ تاسیس 895ء) اور جامعہ ازہر (قاہرہ 971ء) موجود تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی 1167ء میں، اور کیمرج 1230ء میں وجود میں آئی۔ ایک ہزار سال پہلے سے مسلمانوں کے ان کا مرہونِ منت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اُس زمانے میں تو یورپ سے علم کے متلاشی فاس، قاہرہ اور قرطبہ آکر اسلامی جامعات کے مرہونِ منت ہوتے تھے۔ مشرق کے مسلمان تو گزشتہ ڈیڑھ، دو سو برس میں آکسفورڈ اورکیمرج کے مرہونِ منت ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ برعظیم پاک و ہند سمیت کئی مسلم ممالک پر انگریزوں کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کا اپنے تعلیمی اداروں کے بارے میں احساسِ کمتری۔ اور یہ احساس بھی انگریز نوازوں کا پیدا کردہ تھا۔ ورنہ برعظیم میں اُس وقت بھی متعدد تعلیمی ادارے کام کررہے تھے اور انہی سے انجینئر، طبیب اور دیگر ماہرینِ فن نکلتے تھے۔ بعض لوگوں میں یہ احساسِ کمتری اب بھی موجود ہے۔ برسبیل تذکرہ، ہمارے قارئین کو یہ تو معلوم ہوگا کہ مرہون کا مادہ رہن ہے۔ رہن رکھنا عام استعمال ہوتا ہے۔ مرہون عربی کا لفظ اور مذکر ہے، مطلب ہے رہن کیا گیا، گرو (گروی) رکھا گیا۔ مرہونِ منت یعنی احسان مند، شکرگزار۔ عربی میں رہن کی ’ر‘ پر زبر ہے لیکن اردو میں بکسر اول بھی بولتے ہیں۔ اردو میں ایک لفظ اسی شکل صورت کا ہے یعنی رَہن بمعنی رہائش، دستور، قاعدہ۔ اسی سے رَہن سَہن ہے یعنی معاشرت، طرز، بودو باش وغیرہ۔ ایک خاتون کالم نگار نے چین کے بارے میں اپنے کالم میں لکھ ڈالا کہ اس کے سب دریا بحراوقیانوس میں گرتے ہیں۔ اب کہاں مغربی سمندر بحر اوقیانوس جو یورپ، افریقہ اور امریکہ کے درمیان واقع ہے، اور کہاں مشرقی ملک چین…… اس کے دریا بحرالکاہل میں گرتے ہیں، شاید اسی لیے کبھی چینی کاہل ہوا کرتے تھے اور انقلاب کے بعد شاعر کو کہنا پڑا کہ ’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘۔ یورپ نے ان کو افیون کا عادی بنادیا تھا۔ افیون پر پابندی لگانے کی وجہ سے یورپ کی چینیوں سے دو جنگیں ہوئیں جو جنگِ افیون (OPIUM WAR) کہلاتی ہیں۔آج وہی مغرب دوسروں پر منشیات فروشی کا الزام لگاتا ہے۔ لیکن آج کل چین کی مصنوعات کی ناپائیداری کا چرچا ہے۔ ایسی اشیا وہ اپنے ملک کے لیے نہیں دوسروں کے لیے بناتے ہیں۔ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کا حال سب پر آشکار ہے۔ ایسے میں کسی پاکستانی مبصر نے کہہ دیا کہ عمر اکمل اور شہزاد پاکستان کے روہت شرما ہیں، تو بھارتی کھلاڑی یوراج سنگھ بولے ’’ہاں، مگر وہ چینی روہت شرما ہیں‘‘۔ اس تبصرے پر سوائے شرمندہ ہونے کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ بحرالکاہل کو عربی میں ’’المحیط الھادی‘‘ کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جسے دریا کہتے ہیں فارسی میں اسے ’رود‘ کہا جاتا ہے (پہاڑوں سے آنے والے دریاؤں، نالوں کو یہاں بھی رود کوہی کہا جاتا ہے)۔ فارسی والے سمندر کو دریا کہتے ہیں، مثلاً بحرہند کو دریائے ہند۔ ہم نے یہ بحرہند بھی عربوں کے البحرالہندی سے لیا تھا، مگر اب عرب اسے المحیط الہندی کہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی لیے ’محیط بیکراں‘کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ہم نے بحر، بحیرہ اور نہر کے الفاظ عربوں سے لیے مگر عربوں نے ان کے معنی ہی بدل ڈالے۔ ادھر ہمارے برقی ذرائع ابلاغ پر بُحیرہ کو غلط طور پر بَحیرہ پڑھا جاتا ہے، جب کہ قرآنی لفظ بَحیرہ کے معنی ہیں ’’کسی بت کے نام وقف کی گئی اونٹنی۔‘‘ سمندروں میں سفینہ رواں ہو ہی گیا ہے تو یہ ذکر بھی دلچسپ ہوگا کہ بحراوقیانوس کو یونانیوں نے OKEANUS کا نام دیا تھا جسے عربوں نے معّرب کرکے اوقیانوس بنالیا۔ عربی اور فارسی سے یہ نام اردو میں آیا۔ لطیفہ یہ ہوا کہ اوقیانوس اسم معرفہ تھا مگر یورپ والوں نے اسے نکرہ بناکر OCEAN (بڑا سمندر) کے ساتھ معرفہ اٹلانٹک لگالیا اور عربوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے اسے ’’المحیط الاطلنطی‘‘ کہنا شروع کردیا، جب کہ ہم بدستور عربوں کے دیے ہوئے اوقیانوس سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ایک اور بات…… عربی کی مشہور لغت ہے القاموس۔ قاموس بڑے سمندرکو کہتے ہیں۔