پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا (پہلی قسط)۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
جب بھی دسمبر کے مہینے میں رات دیر گئے تک کچھ علمی و ادبی کام ختم کرکے میں گھر کے لیے نکلتا ہوں اور شدید سردی کا عالم ہوتا ہے ۔تو یادوں کے جھروکے میں دودہائیوں قبل کی ایسی ہی رگوں کو کاٹتی ٹھنڈاور برفانی راتیں در آتی ہیں، اور اس کے ساتھ ہی لہو لہو موسم کے چند کرب انگیز مناظر ابھرنے لگتے ہیں، جو رات بھر کے اضطراب اور کشمکش کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ کرب اور اضطراب پورے سال میں صرف دسمبر کے مہینے میں پیدا ہوتا ہے، بلکہ 93 مسلم کش فسادات کے دوران ہماری قوم و ملت پر لگے ہوئے یہ زخم کبھی پوری طرح مندمل ہوہی نہیں پائے بلکہ گاہے بگاہے ہرے ہوتے اور رِستے رہتے ہیں۔ لیکن دسمبر کی سرد راتوں میں اس کی شدت کچھ بڑھ جاتی ہے۔اور اس مرتبہ تو الیکشن کے پس منظر میں ہمارے شہر اور اطراف کے علاقوں میں پیدا کیے جارہے فرقہ وارانہ تناؤ اور کشیدہ ماحول نے پرانی یادوں کو تازہ کردیا ہے جس نے فطری طور پرمجھے اور زیادہ مضطرب کردیا ہے۔
خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے
دسمبر کی سردیاں اور ہینڈلگا سنٹرل جیل: آج سے تقریباًپچیس سال قبل انہی دنوں میں یعنی12دسمبرسے 17 دسمبر1993 تک کچھ انتہائی سرد اورعذاب بھری راتیں ہم نے بیلگام کی ہینڈلگا سینٹرل جیل میں گزاری تھیں۔شایدہمارے علاقے کے بہت سارے قارئین کو احساس ہو گا کہ بیلگام کی سردیاں اور وہ بھی د سمبر کے مہینے کی کیسی شدید ہوتی ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ انگریزوں کے زمانے میں بنائی گئی سخت پہرے والی سنٹرل جیل کی عمارت اوراس میں بغیر دروازوں کے پاٹ والی صرف لوہے کی موٹی سلاخوں( گرِل )کی کھلی کھڑکیاں اور دروازے ، تقریباً پچاس ساٹھ فٹ کی اونچائی پرپہلے منزلے کا بہت بڑا اور وسیع وعریض ہال میں جس کی گنجائش دو تین سو افراد کی ہو، وہاں محض 22 افراد کو قید رکھاگیاہو، سرد ہوا کے جھونکے کھڑکیوں اور دروازوں کی سلاخوں سے گزرتے ہوئے جسم کی ہڈیوں تک پہنچ رہے ہوں،سِل کے پتھروں کی دیواریں اور فرش برف کی چادر بن گئے ہوں۔ اوڑھنے اوربچھونے کے نام پر صرف ایک چادر ملی ہو، تو اندازہ لگائیے کہ وہ راتیں کیسی کٹی ہونگی! اننت کمارہیگڈے کی گرفتاری: یہ 1993 ء کے دسمبرکے پہلے ہفتے کاواقعہ ہے، جسے بھٹکل کے خونریز مسلم کش فسادات کے آخری ایام کہا جا سکتا ہے۔ 6دسمبر کو بھٹکل میں بابری مسجد کی شہادت کی پہلی برسی کے تناظر میں ماحول کافی کشیدہ تھا۔ ہم لوگوں نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا تھا۔ دکانوں اور بازاروں میں کالے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ دوسری طرف مسلسل فسادات سے عوام بھی تھک چکے تھے اور پولیس اورایڈمنسٹریشن بھی show downکرنے کے موڈ میں تھے۔ ایسے میں بی جے پی سے وابستہ تنظیم ہندوجاگرن ویدیکے (HJV)جو بھٹکل فسادات کے دوران ہندوشدت پسند نوجوانوں کی قیادت رہی تھی ، اس کے نوجوان لیڈر سرسی کے اننت کمار ہیگڈے (موجودہ ایم پی )کو اس دن کسی کی بائک پر کہیں جاتے وقت پولیس نے راستے پرہی دھر دبوچا ۔ کیونکہ پولیس کے حساب سے مبینہ طور پر بھٹکل فسادکے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا، اور وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگ رہاتھا۔ان دنوں عوام کے اندر یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ اننت کمارنے سرسی سے بھٹکل آکر منڈلی کے علاقہ میں خفیہ جائے پناہ بنالی ہے، اور وہیں سے ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکساتے ہوئے مبینہ طورپر فسادیوں کی کمان سنبھال رہا ہے۔یونہی نہیں مشہورِ زمانہ مرا قاتل اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی
پولیس اسٹیشن کا محاصرہ: بس پھر کیا تھا، HJVکے شدت پسند نوجوان لیڈراننت کمار کی گرفتاری کی خبر جیسے ہی پھیلی منڈلی، نستارجالی اور بندرکے علاقہ سے اس کے حمایتی افراد کا ہجوم شہر میں امڈ پڑا جس میں کھاروی اور موگیر سماج کی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ اوراس ہجوم نے پولیس اسٹیشن کا محاصرہ کر لیا۔ تھوڑی دیر میں مظاہرہ پرتشدد ہونے لگا تو پولیس نے بھی بھر پور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو کافی مشقت کے بعد شہر سے باہر اپنے اپنے علاقوں کی طرف بھاگ جانے پر مجبور کردیا۔مگر حالات چونکہ بہت ہی دھماکو تھے،فوراًامتناعی احکامات جاری کر دئے گئے۔ پولیس پارٹی پر حملہ: شہر میں سناٹا چھاتے ہی پولیس پارٹیاں حالات کی نگرانی patroling پرنکل پڑیں۔ایسی ہی ایک پولیس پارٹی پٹرولنگ کرتے ہوئے ان احتجاجیوں کے مذکورہ علاقوں میں سے ایک مقام پرپہنچی تو وہاں ان لوگوں نے پولیس پر پلٹ وار کرتے ہوئے نہ صرف پولیس جیپ کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پولیس سب انسپکٹر اور اس کے ساتھیوں کو درخت سے باندھ ڈالا اور ان کا سروس ریوالور اور واکی ٹاکی بھی چھین لیا۔ پولیس اسٹیشن کواس کی خبر ملی تو مزید فورس بھیج کر ان پولیس والوں کو بچالیا گیا۔ وہ نظارہ آج بھی میری نظروں کے سامنے گھومتا ہے جب کشیدگی اورامتناعی احکامات سے ویران پڑی ہوئی سڑک پر بری طرح ٹوٹی پھوٹی حالت میں پولیس کی اس جیپ کومنڈلّی کے علاقے سےtowingکے ذریعے پولیس اسٹیشن کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ اس گاڑی کی حالت دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا، جیسے پولیس پارٹی پر نکسلائٹس نے حملہ کردیا ہو۔اس حملے کے بعد دو تین دن تک پولیس کی پٹرولنگ اور چھاپہ ماری پر نکلنے والی گاڑیوں کے نمبر پلیٹس کو ڈھانپ دیا گیا تھا، شاید اس لئے کہ فسادی کسی مخصوص گاڑی پر گھات لگاکر حملہ نہ کردیں۔ پولیس کے ہوش ٹھکانے آگئے : اس واقعے کے بعد تقریباً پورے نو مہینوں تک فساد برپا کرنے میں ملوث ان فرقہ پرستوں اور فسطائی طاقتوں کو ڈھیل دیتی آئی ہوئی پولیس کے گویا ہوش ٹھکانے آگئے، اور اس نے ان شدت پسندوں کے خلاف اپنا رخ ایک دم کڑا کر لیا۔اس وقت کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اوم پرکاش نے باگ ڈور پوری طرح اپنے ہاتھوں میں لی اور فساد پر مکمل روک لگانے کا تہیہ کرلیا۔ کہتے ہیں کہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے پہلے تو سنگھ پریوارکے اس وقت کے سب سے بڑے لیڈر(جو اب اس دنیا میں نہیں ہے)اور اس کے ساتھیوں کوبلا کر بس چند گھنٹوں کا وقت دیا کہ وہ فوراً اس علاقہ میں جائیں جہاں پولیس پارٹی پر حملہ ہوا تھا اورکسی بھی حالت میں چھینا گیا ریوالور اور واکی ٹاکی اپنے لوگوں سے مانگ کرواپس لائیں اور پولیس کے حوالے کریں ، ورنہ پولیس کی اگلی کارروائی بہت خطرناک ہوگی۔ سنگھ پریوار کے لیڈروں کی گرفتاری: مبینہ طورپراس کے بعد اس لیڈر نے ماہی گیروں کی بستی میں جاکراس معاملے میں ملوث افراد سے بات چیت کی اور پولیس کی لوٹی گئی چیزیں واپس دلوائیں۔ایک بار یہ چیزیں مل گئیں تو پولیس نے اپنا رویہ اور زیادہ جارحانہ کر دیا اور پہلے اسی لیڈر اور اس جیسے دیگر بڑے بڑے لیڈروں کو بشمول اننت کمار ہیگڈے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اوراس کے ساتھ ہی آدھی آدھی رات کو غیر مسلم علاقوں میں چھاپے مار کر فسادات میں ملوث نوجوانوں کو گرفتا ر کرنا شروع کردیا۔چونکہ پولیس والے اپنے ہاتھ لگنے والوں کی خوب پیٹائی کررہے تھے۔ اس لئے خوف کے مارے بہت سارے غیر مسلم نوجوان اپنے علاقوں سے غائب ہوگئے۔جب مطلوبہ افراد ہاتھ نہیں لگے تو ان کی سائیکلیں اور دیگر سواریاں پولیس نے اپنے قبضہ میں کر لیں۔ ایک طرح سے پولیس نے ان علاقوں میں اپنی دہشت سی پھیلا دی اور صرف دو دنوں میں 80اسّی سے زیادہ لوگوں کو فسادپھیلانے اورامن برباد کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے کاروار، بیلگام اور بلاری کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔بیلگام سنٹرل جیل میں نوجوانوں کے ساتھ ان کے بڑے بڑے لیڈر جیسے ڈاکٹر چترنجن، سریندر شانبھاگ، کولّے وغیرہ کوقید رکھا گیا تھا۔ ہماری لیڈر شپ کا موقف: اس وقت ہماری لیڈر شپ wait and watchکا موقف اختیار کئے ہوئے تھی، اورنوجوان صبر و تحمل سے حالات کو پلٹا کھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔لیکن ایک خاص بات یہ تھی کہ اس وقت ہماری سماجی لیڈر شپ بھی دو سطحوں پر آگئی تھی۔ ایک طرف پرانی قیادت تھی جو پہلے سے ہی تمام حالات کو کنٹرول میں رکھنے کی ذمہ دار تھی اور پولیس اور ایڈمنسٹریشن سے اسی کے روابط تھے۔ دوسری طرف ایک نوجوان قیادت ابھر رہی تھی جو موجودہ قیادت کی جانب سے حالات کو قابومیں کرنے یا پولیس اور ایڈمنسٹریشن پر دباؤ بناکر ہمارے لیے کسی قسم کا تحفظ حاصل کرنے میں ناکامی سے نالاں اور برہم تھی، اورایک نئے طریقۂ کار کے ساتھ میدان عمل میں اتر چکی تھی۔ ستمبر ۹۳ ء کے ایک دن دوپہر کے وقت بھرے بازار میں دن دہاڑے مسلمانوں پر تلوار بردار نقاب پوشوں کے منظم اورخونریز حملے کے بعداس نے 'مسلم ویاپاری منڈل'کے بینر تلے ایک زبردست اور کامیاب احتجاجی بھٹکل بند مناکرپولیس اور انتظامیہ سے روبرو ہونے کی شروعات کردی تھی اورنئی قیادت کا بگل بجا دیا تھا، اوراس نئے بینڈ ویاگن میں خاکسار بھی شامل تھا۔ ایسے میں حالات کے اس بدلتے موڑاور غیر مسلم فسادیوں اور ان کے لیڈروں کے خلاف پولیس ایکشن کو مختلف زاویوں سے دیکھااور پرکھا جارہا تھا ۔ عوام کے بیچ یہ اطمینان بھی ظاہر ہو رہا تھا کہ چلو پولیس والوں کوبالآخر اصل حقیقت کا علم ہو گیا ہے اور اب حقیقی مجرموں پر جب پولیس نے ہاتھ ڈالا ہے تو پھرآئندہ مسلم نوجوانوں کے لیے آسانیاں پیدا ہونگی۔ لیکن!.......................یہ ایک خام خیالی تھی..............کیونکہ اس کے بعد...................مسلم نوجوانوں کی باری تھی!چھلک پڑیں مری آنکھیں کہ درد گہرا تھا
نہ جانے کب سے یہ پانی یہاں پہ ٹھہرا تھا
(۔۔۔جاری ہے ۔۔۔ملاحظہ کریں دوسری قسط) (اس مضمون میں درج پورا مواد مضمون نگار کی ذاتی آرائ اور ان کےاپنے خیالات پر مبنی ہے۔اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں)