مولانا عبد الحليم چشتی کی وفات۔۔۔ڈاکٹر بدر القاسمی( کویت)

Bhatkallys

Published in - Other

08:14PM Tue 13 Oct, 2020

مولانا عبد الحلیم چشتی برادر خرد مولانا عبد الرشید نعمانی بھی آج 12ستمبر 2020 کو ا س دنیا سے رخصت ہوگئے اور علم تحقیق کی ایک اور بزم سونی ھوگئی جس طرح مولانا عبد الرشید نعمانی کی کتابیں مکانة الامام ابی حنیفه فی الحدیث اور الامام ابن ماجہ وعلم الحدیث بر صغیر ہی نہیں عالم عرب کے نامور علماء کے لئے بھی نادر علمی تحفہ کی حیثیت رکھتی ہیں اسی طرح مولانا عبد الحلیم چشتی کی البضاعة المزجاةاور فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ اور بعض دوسری تحقیقات علمی دنیا کے لئے نادر علمی تحفہ کی حیثیت رکھتی ہیں مولانا سے میری ملاقات تو اتفاقا ہی کبھی مکہ مکرمہ میں واقع مدرسہ صولتیہ وغیرہ میں ھو جاتی تھی البتہ انہوں نے ازراہ عنایت اپنی بعض تصنیفات اور الرخیم اکیڈمی کی مطبوعات سے نوازنے کا سلسلہ برقرار رکھا گوکہ میں ان کی بعض فرمائشوں کی تکمیل نہیں کر سکا وہ بلا شبہ ایک محقق عالم تھے اور تقوی وطہارت کے ساتھ ہمیشہ علمی تحقیق جستجو میں رہتے تھے ماسٹر اورڈاکٹریٹ کے تحقیقی ومعیاری علمی مقالوں کی نگرانی کے ذریعہ طلبہ کو وہ برابر فیض یاب کرتے رہتے تھے کتابوں کی دنیا ہی ان زندگی تھی انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی اسلامی کتبخانوں کے موضوع پر لکھا تھا وہ علمائے امت کی قدیم نسل اور بر صغیر کے اسلاف و اکابر کی سادہ وزاھدانہ زندگی کے خوگر تھے شہرت طلبی سے دور اور ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ سے بے نیاز تھے قاضی اکرم سندھی کی امعان النظر کا الرحیم اکیڈمی کاشائع کردہ نسخہ اور مرآة الانساب کا نسخہ بھی مولانا نے ہی میرے پاس بھجا تھا ان کے ارد گرد ہم عصر محقق علماء کی پوری جماعت تھی جن سے علم وتحقیق کی دنیا آباد اور بارونق تھی ان میں سر فہرست علامہ محمد یوسف بنوری مفتی محمد شفیع مولانا عبد الرشید نعمانی مولانا ظفر احمد عثمانی اور دوسرے ارباب علم فضل کا پورا قافلہ چند سال پہلے تک سرگرم عمل تھا خود ان کے ہم وطنوں میں مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی مولانا محمود حسن خاں ٹونکی مولانا ڈاکٹر محمد مظہر بقا اور دوسرے بہت سےارباب فضل وکمال کا وجود بھی علمی ذوق کو نکھارنے اور علم وتحقیق کا حوصلہ پیدا کرنے میں معاون ھو تا ہے مولانا عبد الحلیم چشتی کی پیدائش اپریل 1929کی تھی اور وفات 12 اکتوبر 2020 کو ہوئی اسطرح وہ 90 سال کی عمر میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اسکے باوجود ان انتقال کا حادثہ المناک ہے کیونکہ اسطرح کا ذوق رکھنے والے اہل علم اب خال خال ہی نظر آتے ہیں خاص طور پر ایسے لوگ علم وتحقیق کے ذوق کے ساتھ عمل صالح اور تقوی وطہارت کے وصف سے بھی بہرہ ور ہوں دعا ہے کہ رب کائنات انہیں فردوس بریں میں جگہ دے اور امت کو انکا نعم البدل عطا فرمائے