موبائیل میرا ،کرنسی میری اورفائدہ ان کا۔۔۔۔از:محمد الیاس بھٹکلی ندوی

Bhatkallys

Published in - Other

02:43PM Tue 30 Oct, 2018
کچھ ماہ قبل بنگلور میں برادر م مولوی یوسف بیگ صاحب ندوی کی اسکوٹر پر اپنی قیام گاہ سے صبح دس بجے جامع مسجد سٹی آتے ہوئے میرا موبائیل راستہ میں کہیں گرگیا اور مجھے اس کا پتہ بھی نہیں چلا،میں بہت دیر تک اس خوش فہمی میں رہاکہ اللہ کا شکر ہے کہ آج مجھے اپنے کاموں میں خلل ڈالنے والی باربار بجنے والی گھنٹی سے نصف یوم تک چھٹی ملی ہے لیکن میری یہ وقتی خوشی اس وقت کافور ہوئی جب میں نے ظہر بعد کسی کام سے فون کرنے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہواکہ وہ کب کا مجھ سے روٹھ کر کسی اور کی خدمت میں پہنچ چکا ہے ،کچھ دیر کے بعد مولوی یوسف صاحب کے فون پر ایک صاحب کا فون آیا، وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے،اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے اپنا مدعابیان کرتے مجھ سے رابطہ کرنے میں اپنے وقت اوراپنے پیسے کے ضائع ہونے کی شکایت کرنے لگے،کہنے لگے: آپ سے بہت دیر سے رابطہ کررہاہوں ،آپ فون رسیو ہی نہیں کررہے ہیں ؟میں نے پوچھا آپ کو اس پر شبہ تو نہیں ہوا کہ میں کسی حادثہ کا شکار ہوگیا ہوں ۔ کہنے لگے اتناتویقین تھا کہ آپ سلامت ہیں اور زندہ ہیں، میں نے کہا کیسے آپ کو یہ یقین تھا ؟ کہنے لگے کوئی حادثہ ہوتا یا ناگہانی بات ہوتی تو یہ بات ہمارے شہر میں منٹوں میں جنگل میںآگ کی طرح ہرجگہ پھیل جاتی ،ایسی تو کوئی بات سننے میں نہیں آئی، پھر میں نے پوچھا کیسے یاد کیا؟ کہنے لگے وہ میں بعد میں بتاؤ ں گا،مجھے آپ سے رابطہ کرنے میں جتنامیرا وقت اور اس سے زیادہ میرے پیسے ضائع ہوئے وہ سنئے :۔ میں نے کہا ارشاد:۔کہنے لگے جب مسلسل تین چار بار گھنٹی بجنے کے باوجودآپ نے فون رسیونہیں کیا تو میں نے دفتر جامعہ فون کیا تو بتایاگیاکہ آپ آج آئے نہیں ،پھر میں نے آپ کے ٹراویل آفس فون کیا تو بتایاگیا وہ مغرب بعد یہاں آتے ہیں،وہ شہر میں ہیں یا نہیں ہمیں مغرب بعد ہی پتہ چلتاہے،پھر میں نے آپ کے گھرفون کرناچاہالیکن گھر کا نمبر معلوم نہیں تھا، آپ کے ایک قریبی رشتہ دار کو فون کرکے ان سے نمبرلے کر آپ کے گھر کال کیا ،وہاں سے معلوم ہوا کہ آپ بنگلور گئے ہوئے ہیں ،میں نے کہا ان کا فون گم ہوگیا ہے مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے ،کسی ساتھ والے کا یا قیام گاہ کا نمبر دے دیجئے،تو مجھے گھر والوں نے اکیڈمی کا نمبر دیا اوربتایاکہ وہاں سے آپ یہ سب تفصیل لے سکتے ہیں،ایک بجے میں نے اکیڈمی فون کیا تو گھنٹی بجتی رہی لیکن آفس میں کوئی فون رسیونہیں کررہاتھا،پھرمجھے خیال آیا کہ مولوی قذافی صاحب سے تفصیل معلوم ہوسکتی ہے، ان کانمبر میرے پاس نہیں تھاان کے ایک دوست کو فون کرکے ان کا نمبر لیا اور ان کوپوری تفصیل بتائی تو مولوی قذافی صاحب نے مولوی یوسف بیگ کا نمبر دیا اور بتایا کہ بنگلور کے سفر میں عام طوروہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں،ان کے فون سے آپ رابطہ کریں ۔ صبح سے اتنے پاپڑ بیلنے اور مشقت کے پہاڑ سرکرنے کے بعد اب آپ سے رابطہ ہواہے ،اس دوران مجھے پانچ چھ جگہ فون کرنے پڑے اور دس بارہ روپئے میرے ضائع ہوئے اور جووقت ضائع ہوا وہ الگ تھا،اس پر میں نے کہااس کا صاف مطلب یہ ہواکہ اگر میرا فون سلامت ہوتا تو میرے اس فون سے صرف آپ کو فائدہ ہوتا، اس جگہ مجھ سے رابطہ کرنے میں ہونے والے خرچ ووقت سے آپ بچ جاتے اور صرف ایک کال ہی میں آپ کا مجھ سے ربط ہوجاتااور آپ کا کام ہوجاتا، میرے پاس موبائیل کے نہ ہونے کا مجھے کوئی نقصان نہیں ہوا، آپ کو اپنی ایک اہم ضرورت سے جب مجھ سے رابطہ ناگزیر تھا تو کسی طرح آپ نے مجھے ڈھونڈ نکالا،خلاصہ یہ نکلاکہ میرے فون سے اب تک آپ فائدہ اٹھارہے تھے اور آپ کا وقت اور پیسہ بچ رہاتھا،فون میرا ،کرنسی میری اور فائدہ آپ کا۔بات آئی گئی ختم ہوگئی ،مجھے بھٹکل واپس آکردوبارہ وہی اپنا نمبر SIMکے ساتھ حاصل کرنے میں دودن لگے اور میں نے یہ دودن زندگی کے پرسکون گذارے ،فالتو اور غیر ضروری خیر خیریت پوچھنے والے فونوں سے نجات مل گئی،مجھے احساس ہواکہ جس طرح یہ دودن بغیر کسی دشواری کے گذرے میرے بقیہ ایام بھی موبائیل کے بغیر گذرسکتے ہیں ، جیسا کہ ہمارے ناظم جامعہ شہ بندری شفیع صاحب اور مہتم جامعہ مولانا عبدالباری صاحب ندوی شہر کے مصروف ترین انسان اور مختلف اداروں میں متعددذمہ داریوں کو سنھالنے کے باوجود بغیر موبائل کے زندگی گذاررہے ہیں اور اس کے نہ ہونے سے ان کے کاموں میں کوئی حرج بھی نہیں ہورہاہے،میرے لیے اس کے بغیر رہنا اس لیے بھی آسان ہے کہ موبائیل سے فون کرنے کی ضرورت مجھے کم ہی پیش آتی ہے ،عام طور پر اس پر آنے والے فون ہی رسیوکرتاہوں ،دن بھر کا نظام الاوقات توطے ہے ،جامعہ، دفتر ارمغان،اکیڈمی ،علی پبلک اسکول، آفس یا پھرگھر کے علاوہ وقت کہیں اوربہت کم ہی گذرتاہے اور ہرجگہ فون موجود ہوتاہے، اسی سے کام چل جاتاہے،البتہ سفر میں اس کی ہلکی سی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ بھی مسرفانہ خرچ کے ساتھ ،پہلے جب موبائیل نہیں تھا تو چار پانچ دن کے سفر اور قیام میں بھی صرف خیریت سے پہنچے اور نکلنے کی اطلاع گھر S.T.D بوتھ سے دیتاتھا،اب تو جیسے ہی گاڑی میں بیٹھے یہ خبر دیناپڑتاہے کہ اب گاڑی نکل رہی ہے پھردوایک گھنٹہ کے بعدکہ اب یہاں پہنچے،اگلے دن پھر فون کہ اب منزل پر پہنچنے والے ہیں یا دو ایک گھنٹے باقی ہیں ،دن میں دو تین بار فون نہ کریں تو گھروالے اس سے زیادہ تنگ کرکے خود چار پانچ بار دن میں فون کریں گے کہ اب آپ کہاں ہیں ،دوپہر میں کھانے میں کیاتھا؟ شام کو کیا پروگرام ہے ؟ یامنّا آپ کو یاد کررہاہے اوربات کرنا چاہتاہے یامنّی آپ کو یاد کرکے رورہی ہے اس سے بات کریں۔غرض یہ کہ رومنگ میں رہنے کی وجہ سے وقت تو صرف ہوتاہی ہے اس سے زیادہ پیسے،بعض اوقات چھوٹی موٹی باتوں کے لیے آفس سے جوباربارفون کرکے ذہنی الجھنوں میں ڈالتے ہیں اس کا تو پوچھنا ہی کیا۔ اس موبائیل فون کی آفت بلکہ لعنت نے خاموشی سے مغربی انداز میں ہماری جیبوں کو کس طرح خالی کرنا شروع کیا ہے وہ بھی سنئے ،میرا ماہانہ موبائیل خرچ دوتین سوروپئے سے زیادہ نہیں ہوتاتھا،میرے موبائیل میں جو اسکیم تھی اس کے مطابق ایک منٹ بات کرنے پر دیڑھ روپئے لگتے تھے،میرے ایک ساتھی نے کہا کہ آپ وہ اسکیم لیجئے جس میں آٹھ آنہ فی منٹ اور سکینڈ کے حساب سے رقم کٹتی ہے جبکہ آپ کے فون پر ایک سکینڈ بات کرنے پر بھی ایک منٹ مان کر دیڑھ روپئے کٹتے ہیں،میں نے بھولے پن میں ہاں کہہ دیا اورپانچ سو کی کرنسی ریچارج کی، یہ سوچ کر کہ دوماہ تک حسب معمول کام آئیگی ، لیکن بارہ تیرہ دن کے بعد یہ جان کرمیری حیرت کی انتہانہیں رہی کہ ایک صاحب کو فون کرنے پرکمپنی سے جواب آیا کہ آپ کابیلنس ختم ہوگیاہے ،براہ مہربانی پہلے ریچارج کریں پھر فون لگائیں،مجھے شبہ ہوا کہ غلطی سے میرے پیسے ختم تو نہیں ہوئے ہیں،لیکن جب میں نے ٹھندے دل سے سوچا تو قصوراپنا ہی نکل آیا،پہلے جب دیڑھ روپیہ فی منٹ کی اسکیم تھی تو میں زیادہ سے زیادہ ایک منٹ میں بات کرکے فون رکھ دیتاتھا،جب سکینڈ کے حساب چلنے والی فی منٹ آٹھ آنے کی اسکیم لی تو میں یہ سوچ کرکہ اب احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں ،آٹھ آنے تو ہی ہیں،ایک منٹ کی جگہ آٹھ دس منٹ بات کرنے لگا،فی منٹ آٹھ آنے کے حساب سے ایک دفعہ بات کرنے کے پانچ روپئے ہوئے ،کہاں میں دیڑھ روپئے فی منٹ مہنگی کال میں دیڑھ اور زیادہ سے زیادہ تین روپئے میں کام چلالیتاتھااور کہاں یہ سستی کال کے فریب نے دس منٹ میں پانچ روپیہ لے کر میرا وقت تو ضائع کیا ہی میری دوماہ کی کرنسی بھی تیرہ دن میں ختم کردی ،یہ تو سستی اسکیم کاقصہ تھا ، اسی طرح فری اسکیم کاایک دلچسپ قصہ بھی سنئیے۔ مچھر مارنے کی گڈنائٹ مشین سے مجھے الرجی تھی کہ اس کے زہریلے اثر سے تنفس کی شکایت ہوسکتی تھی ،لیکن میری گھر والی کا مجھ سے باربار اصرار رہتاتھا کہ میں اس کو خریدوں تاکہ رات میں مچھروں سے نجات ملے ،لیکن میں ہر بار انکارہی کرتارہا،انکا ر میں صحت کے نقصان سے زیادہ ماہنانہ بجٹ میں اضافہ کا خدشہ تھا،ایک دفعہ سوپرمارکیٹ میں مال خریدتے وقت کسی آئٹم کو خریدنے پر فری گڈنائٹ مشین کا آفرتھا، میں مفت سمجھ کر اس کو گھر لے آیااوراپنے بیڈ روم میں لگایا،واقعی کمرے سے مچھر بھاگ گئے اور آرام کی نیند آئی ،لیکن دوسری طرف مہینے کے آخر میں گھر کے سامان کے ساتھ بجٹ میں ایک اور آئٹم بڑھ گیا، دوسرے لفظوں میں ہرماہ مجھے پچاس روپئے دے کر اس مشین میں ڈالنے والی لیکویڈ(دوا) خریدنے پڑی، اس طر ح سالانہ چھ سور روپئے کا خرچہ میرے سر آگیا،دیڑھ سو روپئے کی یہ مشین دے کر اس کمپنی نے مجھے بے وقوف بناکر کس طرح مجھ سے چھ سو روپئے وصول کئے میں سوچتاہی رہ گیااور ان کی اس عیاری ومکاری پر داد دئیے بغیر نہیں رہ سکا، بات اگر یہیں تک رہتی تو غنیمت تھی اورآگے سنیئے: چند ماہ کے بعد گھروالی نے پُرزور وکالت کے ساتھ کہہ دیا ہم تو آرام سے سوتے ہیں بچے اور بچیوں کے روم میں بھی گڈنائٹ مشین لگنی چاہیے ،ہماری طرح ان کو بھی رات میں مچھر پریشان کرتے ہیں،ارشاد نبوی کے مطابق مردوں کے مقابلہ میں خواتین ناقصات عقل تویقیناًہوتی ہیں لیکن اپنی بات منوانے کا جو گُر اللہ نے ان کو دیا ہے اس میں وہ مردوں سے بھی زیادہ عقل مند ہوتی ہیں،مجھے ان کی بات معقول لگی اورفیصلہ ان کے حق میں ہوا،غرض یہ کہ ایک کمرہ میں اب دو اورکمرے جڑنے والے تھے ،سوپر مارکیٹ جاکر دیکھا تو فری اسکیم نہیں تھی ،بادل ناخواستہ دومشینیں تین سو روپئے میں خریدنی پڑی اور تین کمروں کاخرچ سالانہ دوہزار کے قریب ہوگیا ،کچھ دن پہلے طویل بیرونی سفر سے واپس لوٹا تو گھرکے بڑے ہال میں بھی گڈ نائٹ مشین کا اضافہ ہوگیا تھااور اب دوہزار میں پانچ سو کا اضافہ ہوکر ڈھائی ہزار ہورہاتھا،اب تو یوں لگتاہے کہ کچھ دنوں بعد کچن روم اور ڈائنگ ہال بلکہ باتھ روم اور ٹوئلیٹ میں بھی اس ظالم اور جیب میں ڈاکہ ڈالنے والی مشین کا نہ صرف مطالبہ گھر والی سے ہوگا بلکہ بچوں کے پڑھائی کے کمروں اور برآمدے بھی اس میں شامل ہوں گے اور فالتو میرے پانچ ہزار سالانہ صرف اس گڈنائٹ پر خرچ ہوں گے جس کو میں فری سمجھ کر گھرلایاتھا،مجھے احساس اب ہورہاہے کہ کاش میں یہ مفت دیڑھ سووالی گڈنائٹ مشین نہ لے آتاتو آج اس کی نو بت نہیں آتی ،آج میں تلاش میں ہوں کہ کوئی میرے گھر سے ان تمام گڈنائٹ مشینوں کو لے جائے،نہ صرف مفت میں دوں گابلکہ اگر میں اس کے ساتھ اس کوقبول کرنے والے کو اس پرمیں دو ہزار روپئے بھی دوں تو بھی میں فائدہ میں رہوں گا،اس لیے کہ سالانہ پانچ ہزار کے فالتو خرچ سے تین ہزار روپئے پھر بھی بچ جائیں گے،لیکن لے جانے والے کے لیے مجھے اس کی تحریری ضمانت لینی ہوگی کہ میرے گھر گڈنائٹ مشین پھرکبھی نہیں آئیگی،اگر گھروالوں کے اصرار پرغلطی سے آبھی گئی تو اس کے اخراجات وہ برداشت کریگا۔ مجھے یقین ہے کہ ان تینوں واقعات کے پس منظرمیں اس تحریر کے ہر قاری کو مفت اسکیم یا سستی اسکیم میں اپنے پھنسنے کا کوئی نہ کوئی قصہ ضرور یادآئے گااور وہ اپنی سادگی پر کفِ افسوس ملے بغیر نہیں رہے گا،کاش آپ بھی اس کومیری طرح ضبطِ تحریر میں لائیں تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو ۔   (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج تمام مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں)