سفر حجاز۔۔۔(۲۷)۔۔۔ آغاز حج۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

04:12PM Sun 18 Jul, 2021

۷ ذی الحجہ پنجشبہ آج کے دن کی کوئی مخصوص مشغولیت نہ تھی، عمرہ  بفضلہ ادا ہی ہو چکا تھا، اب ارکانِ حج کے آغاز کا انتظار تھا، آج ہی کے دن حرم شریف میں باضابطہ اعلان ہوتا ہے کہ پرسوں ۹ ذی الحجہ کو عرفات میں حاجیوں کا اجتماع ہوگا اور آج ظہر کے بعد حرم شریف میں امام خطبہ پڑھتے ہیں جس میں مسائلِ حج کی تشریح ہوتی ہے۔ دوپہر کی شدید گرمی میں شوق کے ساتھ اس خطبہ کے سننے کی ہمت کس کو اور پھر اتنے بڑے مجمع میں خطیب کے قریب خطبہ کے الفاظ سننے کے لیے جگہ ملنے کہاں نصیب اور جگہ گھس پل کر مل بھی جائے تو خطبہ کی زبان سمجھنے والے ہندوستانیوں میں کتنے ابا ایں ہمہ ،جہاں تک ممکن ہو خطبہ سننے کی فضیلت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے، رسول ﷺ و اصحابِ رسول ؓ کے اتباع کا شرف اسی میں ہے اور پھر اس مجمع میں خدا معلوم کیسے کیسے برگزیدہ بندے اور مقبولانِ حق شامل ہوتے ہیں، ان کی ہم نشینی خود کیا کم ہے خطبہ تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو جاتا ہے۔ طواف، نماز و تلاوت کے لیے رات اور دن کا سارا وقت ہے اور حرم شریف کے دروازے ہر وقت کھلے ہوئے، جتنی دیر جس شغل میں چاہے لگا رہے، ہمارے قافلے والوں میں سے جس کے نصیب میں جو کچھ آنا تھا آیا، وطن کے متعدد حاجی دکھائی دئیے، ان سے ملنے جلنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کل منیٰ و عرفات کے مختصر لیکن اہم سفر پر روانگی ہے، اس کی تیاریاں بھی شام سے ہوتی رہیں۔

حجِ قران کا ذکر اوپر ہو چکا ہے جو لوگ قارن تھے، ان کے احرام تو بندھے ہوئے تھے ہی، انہیں کسی جدید احرام کی ضرورت نہیں، باقی دوسرے لوگوں کو ۸ ذی الحجہ کی صبح کو احرام باندھ کر روانہ ہو جانا چاہیے لیکن اس کے قبل ہی احرام باندھ لیا جائے تو بہتر ہے اور فقہاء نے اسے مستحسن لکھا ہے۔ مولانا شفیع الدین مدظلہ نے بھی یہ خاص طور پر ارشاد فرمایا کہ احرام ۷ اور ۸ کی درمیانی شب ہی میں بعدِ عشا حرم شریف ہی بلکہ حطیم کے اندر باندھ لینا۔ حطیم کا ذکر شاید پہلے نہیں آیا، حطیم مطاف کے اندر خانہ کعبہ کے شمالی صحن کا نام ہے جو ایک قوسی دیوار سے گھرا ہوا ہے۔ دیوار اچھی خاصی چوڑی اور کچھ کم قد آدم بلند ہے، ذیل کے نقشہ سے حطیم بآسانی سمجھ میں آ جائے گا۔

خلیل اللہ کے بنائے ہوئے کعبہ میں یہ چھوٹی ہوئی زمین بھی کعبہ کے اندر تھی، قریش نے جب اپنے زمانے میں عمارت کعبہ کی تجدید کرنی چاہی تو کچھ سامان کم پڑ گیا، رائے یہ قرار پائی کہ تعمیرِ ابراہیمی سے کچھ کم کر دینا چاہیے، چنانچہ اتنا حصہ چھوڑ دیا گیا اور اس میدان کو دیوار سے گھیر دیا گیا۔ حطیم کے لفظی معنی ٹکڑے کے ہیں اور چونکہ یہ زمین خانہ کعبہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، اس لیے اس کا نام بھی حطیم پڑ گیا۔ رسول خدا ﷺ نے ایک بار حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ حطیم کو ازسر نو خانہ کعبہ کے اندر شامل کر لیا جائے لیکن قریش خواہ مخواہ بھڑکیں گے کہ ہماری ہر شے سے مخالفت کی جاتی ہے، اس لیے ایسا نہیں کرتا، ایک عباسی خلیفہ نے اپنے زمانے میں چاہا کہ حضور ﷺ کی اس مرضی مبارک پر عمل کی سعادت حاصل کرے اور امام مالک ؒ سے استفتا کیا، امام نے فتویٰ دیا کہ ایسا کرنے سے خانہ کعبہ ملعبۂ ملوک و سلاطین ہو جائے گا، جو بادشاہ اس میں ترمیم کرنا چاہے گا، اسے ایک سند مل جائے گی، اس لیے ایسا کرنا مناسب نہیں، غرض اس وقت سے حطیم برابر اسی حالت میں چلا آرہا ہے اور حرم مقدس کے اندر مقدس ترین مقامات میں سے ہے اور چونکہ حلقہ مطاف کے اندر ہے، اس لیے قدرۃ طواف خانہ کعبہ کے ساتھ ساتھ اس کا بھی ہوتا رہتا ہے اور اس کے اندر نماز پڑھنا خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے مساوی رکھا گیا ہے، گویا حکماً یہ بھی خانہ کعبہ ہی ہے، حطیم کا دوسرا نام ”حجر“ ہے، ایک روایت یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ حضرت ہاجرہ صدیقہؑ اور ان کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبیح اسی زمین کے نیچے مدفون ہیں، واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔

ایک سونے کا پرنالہ جسے میزاب رحمت کہتے ہیں اور جو کعبہ کی شمالی سمت میں چھت کے اوپر نصب ہے، اس کا پانی بھی برسات میں حطیم ہی میں آ کر گرتا ہے،  میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر دعا مانگنا، ایک خاص محل اجابت میں دعا مانگنا ہے، کتابوں میں اس موقع کے لیے یہ دعا منقول ہے۔

۔″اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا لایَزُوْلُ وَیَقِیْنًا لایَنَفَدُ وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ﷺ اَللّٰہُمَّ اَظِلَّنِیْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِکَ یَوْمَ لاظِلَّ اِلاَّ ظِلُّکَ وَاسْقِنِیْ بِکَأْسِ مُحَمَّدٍ ﷺ شَرْبَۃً لااَظْمَأُ بَعْدَہَا اَبَدًا [تبیین الحقائق ۲/۱۷]″۔

اے اللہ میں تجھ سے طلب کرتا ہوں، وہ ایمان جو زائل نہ ہو سکے اور وہ یقین جو ختم نہ ہو سکے اور وہ یقین جو ختم نہ ہو اور تیرے نبی محمد ﷺ کی رفاقت، اے اللہ مجھے اس روز جب کوئی سایہ بجز تیرے سایۂ عرش نہ ہوگا، اپنے سایہ عرش میں جگہ عطا فرما نا اور محمد ﷺ کے حوض سے وہ جام پلانا، جس کے بعد میں کبھی پیاسا نہ ہوں

حطیم و میزابِ رحمت کا ذکر یہاں ضمناً آ گیا لیکن تھا ضروری، بہرحال مولانا  کےارشاد کے ایک جز کی تعمیل تو ہوگئی یعنی احرام کے لیے ۸ کی صبح کے طلوع ہونے کا انتظار نہیں کیا گیا بلکہ شب ہی میں باندھ لیا گیا، البتہ اس کے لیے مقام حطیم نصیب نہ ہوسکا، یہ اس وقت احرام کا باندھ لینا صرف ہمارے ہی قافلہ والوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے وقت حرم شریف کے اندر خاصی بڑی تعداد احرام پوشوں کی نظر آئی، آج ہی عصر کے بعد اپنے معلم عبدالقادر سکندر کو کل کے سفر کے متعلق تمام ضروری ہدایات دے دیں، سولہ آدمیوں کے لیے آٹھ اونٹوں کے انتظام کو کہہ دیا گیا، جن لوگوں کو مشق و عادت ہے، وہ اونٹ کی ننگی پیٹھ پر یا محض کجاوہ رکھ کر بہ آرام و اطمینان سفر کر سکتے ہیں، ہم لوگوں کو بھلا اس کی عادت کہاں، ایسے لوگوں کے لئے بہترین صورت شغدف کی ہے، یہ مثل دوہرے چھوٹے پلنگ یا بڑے کھٹولے کے ایک چیز ہوتی ہے جس پر معمولی قد و جسامت کا آدمی لیٹ سکتا ہے، ہر شغدف کے اندر دو دو پلنگڑیاں ہوتی ہیں اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے یہ پلنگڑیاں، چٹائیوں کی چھت اور دیواروں سے منڈھی ہوئی ہوتی ہیں، جیسے ہاتھی کا ہودج۔ اونٹ پر اگر شغدف کو اچھی طرح کس کر باندھ دیا جائے اور دونوں پلنگڑیوں پر وزن مساوی رہے تو خاصی آرام دہ سواری ہے اور اونٹ کے چلنے کے جھٹکے بہت کم لگتے ہیں۔ ۸ ذی الحجہ کو منیٰ میں منیٰ و عرفات میں عام لوگ بیچارے تو یوں ہی کھلے میدان میں بسر کرتے ہیں، ہم جیسے آرام طلبوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا، معلم سے دو خیموں کی بابت بھی معاملت طے ہوگئی، ہر خیمہ اتنا بڑا کہ آٹھ آٹھ آدمیوں کی گنجائش اس میں نکل سکے، اونٹوں کا کرایہ شغدفوں کی قیمت، اونٹ پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی قیمت، خیموں کا کرایہ جو کچھ معلم صاحب نے بتایا بغیر کسی سوال و بحث کے، بلاتامل منظور کرلیا گیا اور ہر شے کا انتخاب بالکل انہیں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ خیموں کا کرایہ غالباً دو دوگنی فی خیمہ قرار پایا، ضروری سامان سفر میں سب سے پہلا نمبر پانی کی صراحیوں کا آتا ہے، فی اونٹ مٹی کی دو دو صراحیاں خرید کی گئیں، بسترے، پکانے کا ہلکا اور مختصر سامان، خیموں میں بچھانے کے لیے دریاں، پانی کے کنسٹر، لالٹین، منیٰ میں قربانی و غسل کے بعد پہننے کے لیے ایک ایک جوڑا کپڑا اور کچھ ناشتہ جس کا سب سے اہم جزو ستو تھے، رکھ لیا گیا اور رات ہی میں یہ سب سامان درست کر لیا گیا کہ صبح سویرے دن نکلتے ہی چلنا ہوگا، معلم صاحب نے حرم شریف کے اندر بیٹھ کر بیت اللہ کے سامنے یہ وعدہ مکرر اور موثق لہجے میں فرمایا کہ بعد نماز فجر قبل طلوعِ آفتاب روانگی کے لیے اونٹ دروازہ پر آ جائیں گے اور اس پر قدرتاً نہ ہم لوگ مطمئن ہوگئے۔

۸ ذی الحجہ یوم الجمعہ آج کا دن یہاں کی اصطلاح میں یوم الترویہ کہلاتا ہے، آج ہی وہ مبارک دن ہے جب سارے حاجی مکہ سے منیٰ و عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ مسنون اور افضل وقت روانگی کا، بعد نمازِ فجر سورج نکلنے کا وقت ہے۔ حضور ﷺ نے مع جماعت صحابہ کرام نماز فجر مکہ میں پڑی تھی اور آفتاب نکلنے پر روانہ ہوگئے تھے۔ ہم لوگ نمازِ فجر حرم شریف میں پڑھتے ہی جلدی جلدی اپنی قیام گاہ پر واپس آئے کہ معلم نے قبل طلوع اونٹ پہنچا دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کہیں اونٹ والے ہمارے انتظار میں گھبرا نہ جائیں۔ یہاں جو پہنچے تو نہ ان  کا پتا نہ معلم صاحب کا۔ لیجئے اب تو آفتاب بھی نکل آیا اور اچھی طرح بلند ہوگیا، اب تک اونٹوں کے نہ آنے کی آخر کیا وجہ؟ ٹھنڈے ٹھنڈے نکل جاتے تو دھوپ کی تمازت سے بچ جاتے اور سفر بہت لطف سے کٹ جاتا، اتباع سنت کا جو اجر ملتا ہے وہ الگ خیرو ہ تو نکل ہی گیا اور دیر بہرحال ہو چکی، اب چائے اور ناشتے سے یہیں نہ فراغت کر لی جائے۔ لیجئے اب تو ناشتہ سے بھی فراغت ہوگئی اور چائے کے دور بھی ختم ہوچکے اور اونٹوں کا اب بھی پتہ نہیں!  کس کو خبر تھی معلم صاحب اسی موقع پر یوں اپنے شترمرغ غمزوں کی مشق ہم پردیسیوں پر کریں گے! بار بار اضطراب میں نگاہیں دروازے تک دوڑتی ہیں اور پیر سڑک تک دوڑتے ہیں لیکن نہ معلم صاحب کا نشان ملتا ہے، نہ ان کے کسی کارندہ و ملازم کا، سیکڑوں ہزاروں اونٹ اسی سڑک سے ہمارے دروازے کے سامنے سے گزر رہے ہیں، حسرت و محرومی شاید ہمارے ہی حصہ میں ہے! ہندوستان کی گھڑیوں کے حساب سے آٹھ بجے، ساڑھے آٹھ بجے، نو بجے، دس بج گئے اور ہنوز وہی انتظار! اوسط مئی کا زمانہ، عرب کی دھوپ اس ٹھیک دوپہر میں کس سے سفر کیا جائے گا؟ اور تنہا یہی ایک فکر ہوتی تو بھی غنیمت تھا، دوسرا دھڑکا یہ لگا ہوا کہ جمعہ کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جمعہ حرم شریف کا بھی جائے اور منیٰ کا بھی! جمعہ کے دن قبل زوال ہی کوچ کر جانا اور منیٰ میں جا کر نماز پڑھنا افضل ہے۔ یہاں کھٹکا اس کا لگا ہوا کہ فاضل و مفضول کی بحث ا لگ رہی، کہیں سرے سے نماز جمعہ ہی سے محروم نہ رہنا پڑے، دس بجے کے بعد مولانا مناظر احسن صاحب اور ایک رفیق سفر معلم صاحب کے مکان کی تلاش میں نکلے، بصد دشواری و زحمت بڑی تلاش کے بعد مکان تو ملا لیکن مکین غائب! انا للہ۔۔۔ گھنٹہ بھر کی حیرانی و سرگردانی کے بعد دونوں صاحب خستہ و خراب مایوس واپس آئے۔

ایک ایک گھڑی پہاڑ ہو رہی تھی، دلوں کے اندر خون جس طرح کھول رہا تھا، اس کا اندازہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جس کے پہلو میں دل ہے، بعض زبانوں پر بھی دل کے جذبات بے تکلف آنے شروع ہو گئے تھے اور وہ وقت جو تکبیر و تہلیل، ذکر و دعا میں بسر ہونے کا تھا، سب ظالم سکندر کی دعا گوئیوں ”اور منقبت سرائیوں“ میں صرف ہو رہا تھا، وقت کچھ اور کھسکا اور کھسکتا رہا، یہاں تک کہ حرم شریف کے مناروں سے جمعہ کی اذانیں بلند ہونے لگیں! اس وقت ہمارے مہربان خدا خدا کر کے تشریف لائے اور اس معصومیت اور بھولے پن کی ادا کے ساتھ کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں، بلا کسی معذرت و اظہار، افسوس کے فرمانے لگے کہ اونٹ فوراً بعد نمازِ جمعہ آ جائیں گے، اس سے پہلے کیوں کر لاتا، ہجوم کے اندر اونٹوں کو راستہ کیسے ملتا؟ گویا یہ ہجوم اونٹوں کا نہیں کسی اور کا تھا اور ہجوم سیکڑوں، ہزاروں دوسرے اونٹوں کے گزرنے کا مانع نہ تھا، صرف انہیں کے اونٹوں کا تھا؟ بہرحال صبر کے سوا چارہ کیا تھا، بھاگتے ہوئے حرم شریف کی طرف چلے، مسجد کا کونہ کونہ بھرا ہوا، اتنی دیر کے بعد جگہ کہاں مل سکتی تھی، جوں توں گھس پل کر ایسی جگہ کھڑے ہونے کو ملی، جہاں امام و خطیب کی آواز الگ رہی مکبروں کی تکبیر بھی بمشکل ہی سنائی دیتی تھی، نماز کے بعد فوراً  گھر آئے اور پھر صبر و تحمل کی آزمائش شروع ہوئی، گھنٹہ سوا گھنٹہ کے مزید انتظار کے بعد معلم صاحب مع اونٹوں کے نمودار ہوئے، کچھ وقت سامان کے چڑھانے اور سواریوں کو چڑھنے میں لگا، اونٹ کی سواری ہم لوگوں کے لیے ایک نئی سواری تھی، عورتوں کو خوف معلوم ہونا واجبی تھا، جب مردوں کی طبیعت ہچکچا رہی تھی۔۔۔داروغہ حبیب اللہ بیچارے اگر مدد نہ دیتے تو تنہا معلم صاحب تو اس مرحلہ کو بھی جلد نہ طے کرا سکتے، دوپہر ڈھل چکی تھی اور ظہر کا وقت قریب ختم تھا کہ ہمارا قافلہ روانہ ہوا، ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ معلم نے بڑھ کر سوال کیا کہ منیٰ میں آپ ٹھہریں گے کہاں؟ حیدرآباد کے سرکاری مکان میں؟ سوال کا سننا تھا کہ پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی! آنکھیں فرطِ حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں اور ٹکٹکی معلم صاحب کے چہرہ پر لگ گئی، پہلے تو دل نے اپنے کو یوں سمجھایا  کہ معلم صاحب اس وقت مزاح و ظرافت سے کام لے رہے ہیں لیکن ان کے کڑے تیوروں پر جو نظر گئی تو یہ خیال بھی چند لمحوں سے زیادہ قائم نہ رہنے پایا، جی کڑا کر کے جواب دیا کہ یہ سوال آپ ہم سے کر رہے ہیں؟ ہم تو آپ کے بھروسے پر چل رہے ہیں کہ آپ جہاں ٹھہرائیں گے، ٹھہریں گے، الٹے آپ ہم سے دریافت کر رہے ہیں کہ تم کہاں ٹھہرو گے؟ سبحان اللہ! اور ہم تو دو خیمے اپنے لیے آپ سے ٹھہرا ہی چکے تھے، کیا ان کے ملنے میں کچھ شک پیدا ہو گیا ہے، جواب گرجتی ہوئی آواز میں ملا کہ ”وہ خیمے تو عرفات اور وہاں سے واپسی پر منیٰ کے لیے ہے، آج وہ خیمے نہیں مل سکتے، آج میدان میں شغدفوں پر رہنا ہو گا۔“ انا للہ وانا الیہ راجعون! گویا آج سہ پہر سے لے کر کل صبح تک کا سارا وقت کھلے میدان میں کاٹنا ہے، صرف مردوں ہی کو نہیں عورتوں کو بھی کھانے، سونے اور حوائجِ ضروری سے فراغت، سب کو اسی میدان میں ہزاروں، لاکھوں کے مجمع کے درمیان کرنا ہے! اور یہ وہ شخص پوری ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کے ساتھ کہہ رہا ہے، جو یہی نہیں کہ لکھنؤ میں ہم لوگوں کے اور ہماری مستورات کے طرزِ معاشرت سے خوب اچھی طرح واقف ہو چکا ہے بلکہ جو کل صراحت کے ساتھ خیموں کا وعدہ کر چکا تھا! لوگ حیرت سے کہتے ہیں کہ مکہ والوں پر بار بار تباہی و بربادی کیوں نازل ہوتی ہے، کاش وہ دیکھتے کہ خود مکہ والوں کا اللہ کے مہمانوں کے ساتھ، غریب الوطن پردیسیوں کے ساتھ برتاؤ کیا رہتا ہے! مکہ کا مالک، ساری دنیا جہاں  کا مالک ہے، اس کے ہاں مہلت ملتی رہتی ہے لیکن غفلت اسے کسی حال سے بھی نہیں رہتی!

تومشو مغرور برحلم خدا

دیرگیرو، سخت گیرو مرترا!

ہندوستان میں بیٹھے بیٹھے جب سفرِ حج کی سختیوں کا خیال آتا تھا تو اس خیالی فہرست مصائب و شدائد میں ایک عنوان انکساری کا بھی ضرور ہوتا تھا۔ تجربے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اور بہت سے محو خطرات کی طرح یہ تخیل بھی بہت مبالغہ آمیز تھا۔ بہت سے منزلوں کا طویل اور مسلسل سفر ممکن ہے تکلیف دہ ہوتا ہوں اس کا تو تجربہ ہوا نہیں، لیکن آٹھ دس میل کے مختصر سفر میں تو کوئی قابلِ ذکر تکلیف نہیں ہوتی اور جس حد تک ہوتی ہے، وہ بھی ناگزیر اور لازمی نہیں بلکہ اس کا انتظام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہی ہے کہ شغدف کی بندش اچھی ہونی چاہیے اور توازن قائم رہے۔ توازن اور بندش جتنی اچھی ہو گی اسی نسبت سے ہچکولے کم لگیں گے، تکلیف کم ہوگی اور راحت زیادہ ملے گی۔ اچھی بندش کے بعد شغدف میں لیٹ کر بہ آرام تمام سونا ممکن ہے۔ نیند بغیر دقت آ جاتی ہے، دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اونٹ کے ساتھ چلنے والے جو بدو ہوتے ہیں اور جنہیں جمال کہتے ہیں (یہ سن رکھئے کہ یہ لوگ ان کے اوپر سوار نہیں ہوتے بلکہ پیدل اونٹ کے ساتھ چلتے ہیں۔) انہیں خوش رکھا جائے۔ ان کو خوش رکھنا آسان ہے، بہت تھوڑے انعام اور خوش خلقی سے خوش ہو جاتے ہیں۔ موٹر کے شوفروں کی طرح ان کے لیے ہرگز ضروری نہیں کہ ان کے ہاتھ میں کم از کم دس پانچ روپے رکھے جائیں،جب جا کر ان کا منہ سیدھا ہو۔ آنہ دو آنہ ( یہاں ایک آنہ کو قرش کہتے ہیں) یہ چند بسکٹوں، یا شربت پانی کے دو ایک گلاس سے، چائے کی ایک دو پیالیوں سے انہیں باآسانی خوش کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو کچھ بھی دیا جائے ازخود اور خوش دلی کے ساتھ دیا جائے۔ لڑ جھگڑ کر تیوروں پر بل ڈال کر بڑی سے بڑی رقم بھی بے کار رہے گی۔ تھوڑی سی دل دہی اور خاطر داری کے بعد آپ کا ”جمال“ آپ کا بندۂ بے دام ہو جائے گا۔ دوڑ کر آپ کے لیے پانی اور شربت لائے گا، آپ کا اسباب خوشی خوشی اتار دے گا، سوار ہونے میں آپ کو مدد دے گا، شغدف ڈھیلا ہونے لگے گا تو خود ہی لپک کر اسے درست کر دے گا، غرض ہر حیثیت سے آپ کا بہترین رفیق سفر خادم ثابت ہوگا۔

ناقل: محمد بشارت نواز