حج کا سفر۔۔۔ روانگی اور بمبئی میں(5)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:17PM Mon 4 Jul, 2022

یہ ساری مصیبت محض اس وجہ سے ہے كہ ساری طاقت ایك مركز پر سمٹ كر آگئی ہے ‏، اگر اس كو ڈی سنسٹر لائز (لامركزیت سے ہم كنار ) كردیا جائے اور وہ حج ایكٹ میں ترمیم كیے بغیر ممكن نہیں ‏، تو بڑی راحت نصیب ہو ‏۔

ریاستوں كا كوٹہ مقرر ہی كیاجاچكا ہے اور ریاستوں میں حج كمیٹیاں موجود ہی ہیں ‏، اس میں كیاحرج ہے كہ ریاستی حج كمیٹیوں كو مجاز كردیا جائے كہ وہ اپنی ریاست كے عازمین حج كی درخواستیں وصول كریں ‏، جگہیں الاٹ كریں ‏، بكنگ بھی ریاست ہی میں ہو ‏، كرنسی (زرمبادلہ) كا مسئلہ بھی اپنی ہی ریاست میں طے ہوجائے اور ایك ریاست كے بیشتر عازمین ِ حج ایك متعین جہاز سے روانہ كردیئے جائیں ۔

اس امر كے پیشِ نظر كہ ہرریاستی حج كمیٹی اپنی طرف سے ایك حج ویلفیر آفیسر (دیكھ بھال افسر) بھی اب بھیجنے لگی ہے ‏، ایك ہی جہاز سے ایك ریاست كے عازمینِ حج كی روانگی ایك ویلفیر افسر كی نگرانی میں بہت زیادہ مفید ثابت ہوگی ۔

ہوتایہ ہے كہ مغل لائن سے نشست محفوظ ہونے كی اطلاع آتی ہے ‏، اب خوش قسمت عازمِ حج اپنے شہر ‏، یا قصبے ‏، یا گاؤں میں انجكشن اور ٹیكہ لگواتا ہے ‏، سامان درست كرتا ہے ‏، روپیہ یكجا كرتا ہے اور جس جہاز پر اس كو جگہ ملی ہے ‏، اس كی روانگی سے چار‏، چھ روز قبل بمبئی پہونچ جاتا ہے ‏، ابھی اس كے پاس صرف ٹیكے ‏، انجكشن كا صداقت نامہ اور مغل لائن كا پروانہ ہے اور بس ‏، ہاں بمبئی پہونچ كر صابو صدیق مسافرخانے مین پڑ رہنے كا اجازت نامہ بھی!۔

بمبئی پہونچے‏، با لكل اجنبی ہیں ‏، وہاں آپ اگر اردو ‏، یا انگریزی بول لیتے ہیں ‏، تو خیر اور اگر آسام ‏، بنگال وغیرہ كے مضافات كے رہنے والے اور محض مقامی بولی بولنے والے ہیں ‏، تو آپ ایك ترجمان بھی ساتھ لائے ہیں ‏، یا نہیں ؟ یہاں آپ كی بولی كوئی سمجھ نہیں پائے گا اور یہاں سینكڑوں ضروری امور پر آپ كو بات چیت كرنا ہے ‏، امورِ حج ہی متعلق بات چیت !۔

اس وقت ویلفیر آفیسر كی ضرورت بہت پڑتی ہے ‏، لیكن دستور یہ بن گیا ہے كہ ویلفیر آفیسر عموماً پہلے ‏، یا دوسرے جہاز سے حجاز روانہ كردیا جاتا ہے ؛تاكہ وہاں اپنی ریاست كے حاجیوں كی ضروریات كا كفیل ہو ‏، وہاں تو ہمارا حاجی ‏، زبان ‏، آداب ‏،مقام اور ضروریات كی فراہمی كے دستور وغیرہ سب سے ناواقف ہوتا ہے ‏، پھر حاجیوں سے متعلق جو ضوابط سعودی حكومت كے عائد كئے ہوئے ہیں ‏، ان سے بھی وہاں ہی سابقہ پڑتا ہے ‏، وہاں واقعی ایك مددگار اور رہنما كی ضرورت شدید ہوتی ہے ۔

بمبئی میں ہرریاست كا عازمِ حج پہنچ گیا ‏، مگر یہاں كے مراحل میں اس كا كوئی پرسانِ حال نہیں ‏، پاسپورٹ بنوانا ہے ‏، كرنسی جمع كرانا ہے اور بہت كچھ بمبئی میں ضروری امور طے كرنا ہیں۔

ہم لوگ كھڑے پاسپورٹ بنوارہے تھے ‏، بڑا مجمع تھا ‏، ایك عورت كا پاسپورٹ ایك كلرك بنارہا تھا ‏، كوئی عورت بغیرمحرم كے سفرِ حج كرنہیں سكتی ‏، اسے پاسپورٹ بنواتے وقت بتانا ہوتا ہے كہ كون محرم اس كے ساتھ ہے ‏، ایك بنگالی اور ایك میواتی عورت تھی جس سے پاسپورٹ كلرك ساتھ جانےوالے مرد كا رشتہ پوچھ رہا تھا ‏، اپنی ‏، اپنی زبان میں وہ كچھ بتارہی تھیں اور كلرك سمجھنے سے قاصر بالآخر ساتھ والے مردوں سے اس نے پوچھا ‏، بنگالی نے  اپنی زبان سے جو كہا وہ كچھ ‘‘ماں’’ كے لفظ سے ملتا جلتا تھا ‏، حالانكہ مرد سن رسیدہ تھا اور بنگالی عورت نوجوان ‏، ماں كا رشتہ ہونہیں سكتا تھا ‏، اب تفتیش شروع ہوئی بڑی دیر كے بعد یہ حقیقت كسی طرح منكشف ہوئی كہ ساتھ جانے والی نوجوان عورت اس كی بہو ہوتی ہے ‏، خدا جانے بہو كے لیے بنگلہ میں جو لفظ ہے وہ ہماری سماعت میں ‘‘ ماں ’’ كیسے معلوم ہوا ۔

اب سوچئے كہ ایك پاسپورٹ بنانے میں اتنی دیر اگر لگے گی ‏، تو چار روز كے اندر چارہزار عازمینِ حج كے پاسپورٹ كیسے بن پائیں گے ؟؟

اس میں كیا قباحت ہوگی كہ تمام ضروری مراحل ریاست ہی میں حج كمیٹیوں كی نگرانی میں طے ہوجائیں ‏، صرف ویزا لینا رہ جائے ‏، سعودی حكومت كے سفارت خانے كی طرف سے عازمینِِ حج كو ویزا دینے كا  ایک  ضمنی دفتر بمبئی میں قائم ہے ‏، تمام مراحل ریاست میں طے كركے عازمینِ حج بمبئی جائیں اور ویزا حاصل كریں اور روانہ ہوجائیں ‏، مسافرخانے كی دھكم پیل بھی ختم ہو ‏، حج كمیٹی كا دردِسر بھی دور ہو اور عازمینِ حج كی بمبئی كے ایسے یاجوجی شہر میں حیرانی اور سرگردانی میں بھی تخفیف ہوجائے ‏، ایك جہاز میں ایك ہی ریاست كے عازمینِ حج كی روانگی كی صلاح پیش كرنا ایك تجربے كی بنیاد پر ضروری معلوم ہوا ‏، سمندری جہاز كے مسافروں كو كھانا جہاز ہی كی طرف سے ملتا ہے ‏، جس كے دام ٹكٹ كے ساتھ وصول كرلیے جاتے ہیں ‏، ہندوستان كے ایسے بڑے ملك میں كھانے كا ذوق ہر ہر خطے كا الگ ہے ‏، كہیں چاول ‏، دال ‏، كہیں روٹي سالن ‏، كہیں كڑھي ‏، كھچڑی اصل كھانا ہے ‏، باقی چیزیں پیٹ پھراؤں ہیں ‏، پھر كسی علاقے میں كھٹا اور مرچ بہت چلتا ہے ‏، كہیں سیٹھا‏، پھیكا كھانا پسند كیاجاتا ہے ‏، اب اگرایك جہاز پر كئی ریاستوں كے عازمینِ حج ہوں جیساكہ ہوتے ہیں ‏، تو سب كے مذاق كا كھانا دینا جہازوالوں كی قدرت سے باہر ہوجاتا ہے اور ہرایك اپنے مذاق سےمختلف كھانا پاكر بڑی بے اطمینانی ظاہر كرتا ہے ‏، ایك ‏، دو وقت كی بات ہو ‏، تو سہ لی جائے آٹھ ‏، دس دن لگاتار ایسا كھانا ‏، كھانا جو پسند نہ ہو بہت مشكل ہے ‏، تمام حاجی شاكی رہتے ہیں اور جہاز والے عاجز اور پریشان ۔

دونوں وقت كھانا تقسیم ہونے سے پہلے جہاز كا كپتان جہاز كا ڈاكٹر اور امیرالحج كھانا چكھنے باورچی خانے جاتے ہیں ‏، جب وہ اطمینان ظاہر كردیتے ہیں ‏، تب كھانا تقسیم ہونا شروع ہوتاہے ‏، كسی كو شكایت ہوتی ہے كہ مرچ بہت ہے ‏، كوئی كہتا ہے بالكل پھیكا ہے ‏، یہ اختلافِ رائے اختلافِ مذاق كی وجہ سے ہوتا ہے ‏، معمولی اختلاف ِ مذاق تو ہر دو آدمیوں میں ہوگا ؛ لیكن ریاستی پیمانے پر ذائقہ اور پسند كا جو اختلاف ہے اسے آخر كس طرح حل كیا جائے ؟

پیش کش: محمد رضی قاسمی