حج کا سفر۔۔۔منی وعرفات میں (5)  ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

11:47AM Fri 16 Jun, 2023

حضور انور ﷺ نے آج یہاں زبردست خطبہ دیا تھا حاضرین سے دریافت فرمایا : یہ كون سامہینہ ہے ؟

صحابہ جواب میں كہ سكتے تھے : ذی الحجہ كا مہینہ ‏، مگر ایك طرف پاس ادب كہ حضور كے سامنے اپنی واقفیت جو آپ كے علم و واقفیت كے سامنے كوئی حقیقت نہیں ركھتی ظاہر كركے اپنے كو واقف كار جتانا مناسب نہیں ‏، دوسری طرف ایك بدیہی امر كے بارے میں حضور كا سوال ہے جس كا جواب سب پر عیاں ہے ‏، یقیناً یہ استفسار جواب كے لیے نہ ہوگا بلكہ اس میں كوئی حكمت ہوگی ۔

بہرحال صحابہ نے ادب و حكمت كا خیال كرتے ہوئے وہی جواب دیا جو عموماً حضور انور ﷺ كے استفسار كا دیا كرتے تھے‏، یعنی ہم جاننے كا دعویٰ نہیں كرسكتے ‏، اللہ اور اس كا رسول بہتر جاننےوالاہے ۔

ارشاد فرمایا: كیا یہ ذی الحجہ كا مہینہ نہیں ہے ؟

صحابہ نے عرض كیا : كیوں نہیں ؟

حضرت تھوڑی دیر خاموش رہے ‏، یہاں تك كہ صحابہ كو خیال ہونے لگا كہ شاید اس مہینے كا كوئی دوسرا نام حضور ﷺ تجویز فرمانے والے ہیں ‏،

پھر ارشاد فرمایا: یہ شہركون ساہے ؟

صحابہ نے عرض كیا : اللہ اور اس كا رسول بہتر جاننےوالاہے ۔

حضرت نے تھوڑی دیر سكوت فرمایاكہ صحابہ كو خیال ہونے لگا كہ شاید مكہٴ معظمہ كا دوسرانام تجویز فرمانے والے ہیں ‏،

ارشاد ہوا : كیا یہ مكہٴ معظمہ نہیں ہے ؟

صحابہ نے عرض كیا : كیوں نہیں ؟

ارشاد ہوا : آج كا دن كون سادن ے ؟

وہی جواب صحابہ نے دیا : اللہ تعالٰی اور اس كا رسول بہتر جاننےوالا ہے ۔

پھر حضور ﷺ نے سكوت اختیار فرمایا كہ صحابہ سمجھے كہ شاید آج كے دن كا كوئی اور نام تجویز ہونے والا ہے ‏،

ارشاد فرمایا: كیا آج قربانی كا دن نہیں ہے ؟

صحابہ نے عرض كیا : كیوں نہیں ؟

جب اس قدر اہتمام كے ساتھ مہینے ‏، شہر اوردن كے بارے میں آپ نے استفسار فرماكر ذی الحجہ كے مہینے مكہٴ معظمہ كے شہر اور یوم النحر (قربانی كے دن) كی اہمیت كا احساس پوری طرح ذہنوں میں پیدا فرمادیا ‏، تو ارشاد فرمایا: تو سنو! جس طرح اس شہر كے اندر اس مہینے میں یہ دن محترم و معظم ہے اسی طرح تمہاری جانیں ‏، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایك دوسرے كے لیے قابلِ احترام و تعظیم ہیں ‏، وہ وقت آنے والا ہے جب تم اپنے پروردگار كے حضور میں حاضر ہوں گے اور وہ تمہارے اعمال كے بارے میں تم سے باز پرس كرے گا ‏، دیكھو! ایسا نہ ہونے پائے كہ میرے بعد تم لوگ گمراہی میں مبتلاہوكر ایك دوسرے كی گردنیں كاٹنے لگو ۔

پھران ہی حاضرین سے اپنے فریضہٴ تبلیغ اداكرنے كا اقرارلیتے ہوئے دریافت فرمایا: كیا میں نے تبلیغ كا فرض كما حقہ ادا كردیا ہے ؟

سب صحابہ نے ایك زبان ہوكر اقرار كیا : جی ہاں ! بے شك ‏، آپ نے پروردگار كی طرف رجوع ہوتے ہوئے كہا : اے پروردگار تو گواہ رہنا (ان لوگوں كے اقرار پر )

كیسا بلیغ اندازِ خطابت اختیارفرمایا آپ نے اس موقعہ پر ! اور كس طرح انسانی نفسیات كو پیشِ نظر ركھتے ہوئے كھلے ڈلے امور كے بارے میں سوالات فرماكر ذہنوں كو نئے جواب سننے كے بے چین كردیا !۔

جیسا كہ روایتوں میں ملتا ہے كہ صحابہ سراپا انتظار ہوگئے جواب سننے كے لیے ‏، ایسی بات جو شدید انتظار كی حالت میں گوش گزار ہو وہ كس حد تك جاگزیں ہوجاتی ہے ‏، اس كی تفصیل كے لیے ایك دفتر دركار ہوگا ‏، علمِ بلاغت كا ہی نہیں ‏، علمِ نفسیات كا بھی سارا نچوڑ اس ایك اندازِ خطابت میں سمویا ہوا ہے ‏۔

پھر ارشاد ہونےوالی بات بھی تو نوعِ انسان كی حیات كے لیے كس قدر اہم ہے اس كے لیے اگر ایسا نازك اور دلوں میں اترجانے والا انداز اختیار نہ كیا جاتا تو كب اختیار كیا جاتا ؟

بات یہیں پر تمام نہیں فرمادی آپ نے ! اگر چہ اس میں ادنٰی سا شبہ بھی نہ تھا كہ جو بھی ارشاد ہوگا وہ سب حاضرین گرہ میں باندھ لیں گے۔

سب نے كرلی حرزِ جاں دردِ زباں

بات جو نكلی لبِ اعجاز سے

لیكن بات اور پیغام كی اہمیت كے پیشِ نظر حضور انور ﷺ نے صراحت كے ساتھ حكم دیا : حاضرین كو لازم ہے كہ وہ اس پیغام كوغیرحاضر افراد تك پہونچادیں اس لیے كہ ایسا بھی ہوتا ہے كہ براہِ راست سننے والے سے وہ زیادہ یادركھنے اور سمجھنے والا ہوتا ہے جسے سن كر بات سنائی جائے ۔

توایك دوسرے كی جان و مال اور آبرو كے احترام كا پیغام اتنا اہم پیغام ٹہرا كہ حضور انورﷺ نے كنایتاً نہیں صراحتاً اس پیغام كو عام كرنے كا حكم دینا ضروری سمجھا !

كسی پیغام كو عام كرنے یا اس كو بار ‏، بار یا دلانے كی ضرورت كبھی اس پہلو سے بھی ضروری ہوتی ہے كہ اندیشہ ہوتا ہے كہ اسی معاملے میں لوگوں سے بے احتیاطی زیادہ ہوگی ‏، حضور انورﷺ پر بلاشبہ انسانی ذہن كے سارے پیچ و خم منكشف تھے ‏، عجب نہیں كہ بعد میں پیش آنے والے قتل و غارت گری كے تاریخی واقعات كی كثرت كے تحت جان ومال و آبرو كے احترام كی غیرمعمولی اہمیت جتائی گئی ہو اور آج بھی اس كی ضرورت باقی ہے كہ جو اس پیغام كو حدیث وسنت سے جانتا ہے وہ نہ جاننے والوں تك پہنچاكر فرمانِ نبوی كی تعمیل بجالائے ۔

حضور انور ﷺ نے یہ خطبہ یوم النحر(دسویں ذی الحجہ) كو دن چڑھے دیا تھا ‏، آپ اس وقت ایك سفید خچر پر سوار تھے ‏، حاضرین میں كچھ بیٹھے تھے اور كچھ كھڑے تھے اور حضرت علی ارشادات نبوی كو دہراتے جاتے تھے كہ جو  دور پر كھڑے ‏، یا بیٹھے ہیں وہ بھی سن لیں اور حجت تمام ہوجائے ۔

حجت بے شك تمام ہوگئی جن سب لوگوں تك براہِ راست پیغام مبارك پہونچ گیا انہوں نے اس كا پوری طرح پاس بھی كیا؛ لیكن جن تك واسطہ در واسطہ یہ اہم پیغام پہونچا ان كا عمل درآمد معلوم ‏، ان سے پروردگار عالم كی باز پرس كا انجام بھی مشتبہ و مخفی نہیں ‏، مگر یہ پیغام سنانے والا ہی وہاں شفیع بن كر اپنے لطف وكرم سے نجات دلائے

دیورہ زن در مكیں ‏، نفس وہو ا اعداء دیں

زیں ہمہ باسایہٴ لطفت پنہ آوردہ ام

زاں نمی گویم كہ بودم سالہا درراہ تو

ہستم آں گمرہ كہ اكنوں روبرہ آوردہ ام

تیسرے شیطان كو كنكریاں مارنے ‏، قربانی كرنے اور حلق كرانے كے بعد چوں كہ كوئی خاص كام آج كے لیے نہیں تھا ؛ اس لیے باہم ایك دوسرے سے عرفات ومنٰی كی وارداتیں كیسے پہونچے ‏، كیسے آئے ؟ كیا ‏، كیا گزری وغیرہ وغیرہ بیان ہونے لگیں ۔

جن لوگوں كو مسئلے ‏، مسائل سے كچھ واسطہ ہے ان كے سامنے لوگوں كی الجھنیں بھی پیش ہونے لگیں ‏، مناسكِ حج میں یوں كرلیا ٹھیك ہوا ‏، یا نہیں ؟فلاں بات رہ گئی اب كیا كیا جائے ؟ یہ غلطی ہوگئی اس كا تدارك كیسے ہو ؟ وغیرہ ‏، وغیرہ ۔

یہ صورتحال اتنے بڑے مجمع میں ہمیشہ پیش آتی ہوگی ‏، مناسك حج سے ہر ایك كی وقفیت یكساں درجے كی كہاں ہوسكتی ہے۔

حضورانورﷺ كی موجودگی میں جب كہ آپ حج كے ہرركن كو اس نمایاں طور پر انجام دے رہے تھےكہ حاضرین میں ہرایك بآسانی  اسے دیكھ سكے ‏، صحابہ سے ہیر پھیر ہوگیا اور حضور انور ﷺ كو منٰی ہی میں لوگوں كی الجھنوں کو رفع كرنے كے لیے وقت نكالنے كی ضرورت پیش آئی ۔

ایك صاحب آئے عرض كیا : مجھے معلوم نہ تھا میں نے قربانی سے پہلے حلق كرالیا : ارشاد فرمایا : اب قربانی كرڈالو كوئی حرج نہیں ۔

دوسرے نے دریافت كیا : مجھے علم نہ تھا رمی جمار سے پہلے ہی میں نے قربانی كرڈلی ؟

ارشاد فرمایا اب رمی كرلو كوئی حرج نہیں ۔

احادیث كے مطابق اركانِ حج میں تقدیم و تاخیر كے بارے میں كسی نے بھی كچھ دریافت كیا آپ نے یہی جواب دیا ‘‘ اب كرلو كوئی حرج نہیں ہوا’’ ۔ ائمہ اربعہ میں اس بارے میں اختلاف ہے كہ رمی جمار قربانی اور حلق میں ترتیب جو حضور انورﷺ نے ملحوظ ركھی وہ سنت ہے جس میں ردو بدل سے كوئی تاوان لازم نہیں آتا ‏، یا واجب ہے كہ ادل ‏، بدل سے دم دینا پڑے گا ۔

ہمارے امام ابوحنیفہ ؒ وجوب مانتے ہیں اور امام مالك بھی ‏، ان كا كہنا یہ ہے كہ حضرت كے ارشاد ‘‘كوئی حرج نہیں ’’ كا مطلب یہ ہے كوئی گناہ نہیں ہے ؛ اس لیے كہ نادانستہ ہوا ؛لیكن دم واجب ہے اگر ہیر پھیر ہوگیا ۔

ہمیں تو حنفی كی حیثیت سے امام ابوحنیفہ ؒ كی رائے ماننا ہے ؛لیكن ایك بات كہنا ضروری ہے وہ یہ كہ مناسكِ حج میں عام لوگوں سے بہت سی ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں جو دم واجب كردیتی ہیں ‏، ایك دم دینے كا مطلب یہ كہ چالیس ریال كے قریب كا خرچ‏، كئی ہوئے تو  سو ڈیڑھ سو تك یہ خرچ پہونچ سكتا ہے ۔

ایسی صورت میں جب اتنی محدود رقم سے جس كے پورے دورانِ قیام كے لیے كافی ہونے پر اتفاقِ رائے نہیں ہے اور جس سے زیادہ لےكر كوئی حاجی جانہیں سكتا اگر جنایتوں كے دم پر اخراجات طے كرنے كامعاملہ ہے كہ موجودہ حالات میں كیا مناسب نہ ہوگا كہ كوئی حنفی ‏، غیرحنفی مسلك پر مجبوراً عمل كرے ۔

سب كاموں سے فراغت پاكر لوگ اپنی ‏، اپنی قیام گاہوں میں آگئے اور اپنے اپنے اشغال و اعمال میں مشغول ہوگئے۔

تین روز قیامِ منٰی میں ہرروز رمی جمار كے علاوہ كوئی اور پروگرام حج سے متعلق نہ تھا سوائے طوافِ زیارت كے لیے مكہ معظمہ جانے اور آنے كے ‏، جانے ‏، آنے كے سلسلے میں ٹریفك كی افراتفری سے ہرروانگی كے بعد اچھا خاصا سابقہ پڑتا رہا تھا ‏، ایسا كوئی انتظام سوچ رہے تھے كہ پھر ایسا سابقہ نہ پڑے ‏،

مكہ سے منٰی اور عرفات جانے كے لیے اور تین روزہ قیام منٰی كے بعد واپس مكہ معظمہ آنے كے لیے ہم سات غریب الدیار بڑی سیر چشمی اور اولوالعزمی سے جو سات سو ریال میں ایك ٹیكسی كرچكے تھے ‏، وہ از روئے معاہدہ طواف زیارت كے لیے منٰی سے مكہ معظمہ پہنچانے اور واپس لانے كی ذمہ دار نہ تھی ‏، اس كے لیے از سرِنو انتظام كرنا تھا ‏، معلوم ہوا كہ ٹیكسی والوں كا یہ عام قاعدہ ہے كہ وہ طوافِ زیارت كے لیے لانے لےجانے كو معاہدہ میں شامل نہیں كرتے ‏، دوسرے دن (11 ذی الحجہ كو ) طواف كے لیے مكہٴ معظمہ جانا تھا ‏، صلاح و مشورہ كے بعد طے پایا كہ ٹھیك دوپہركو یہاں سے چلیں اس وقت سواریوں كا ہجوم كم ہوگا ؛ اس لیے كہ بیشتر افراد ٹھنڈے ٹھنڈے یہاں سے روانہ ہوجائیں گے اور دوپہر تك شاید واپس بھی آجائیں كہ آج رمی جمار (شیطان كو كنكریاں مارنے ) كا وقت زوال كے بعد سے مغرب تك ہے ۔

چودہ لاكھ حاجیوں میں اكیلے ہم ہی ہوشیار و عاقل نہ تھے ‏، دوسروں نے بھی اسی رخ سے سوچا ‏، اسی لیے جب دوپہر كی دھوپ میں ہم لوگ سواری كی تلاش میں نكلے ‏، تو حاجیوں كی وہی چہل ‏، پہل نظر آئی گویا چودہ لاكھ كے  ‏، چودہ لاكھ اسی وقت روانہ ہونے كے لیے نكلے ہیں ۔

بہرحال دو‏، دو ریال فی سواری كے حساب سے بسیں اور اسٹیشن ویگنیں منٰی یے مكہ پہنچارہی تھیں ‏، ایك اسٹیشن ویگن ہم لوگوں كے حصے میں بھی آئی ‏، ہمارے سفارت خانے كے بالکل قریب ہی سواریاں مل رہی تھیں ‏، امی وغیرہ سفارتخانے ہی میں تھیں ‏، وہاں سے ان كو لےكرسواریوں كے اڈے تك آئے ‏، اڈے تك آتے ‏، آتے چودھری عظیم الدین اشرف صاحب اور ان كی اہلیہ كا ساتھ چھوٹ گیا ‏، كھڑے ان كا انتظار كرتے رہے آخر میں وہاں سے چلنے پر مجبور ہوگئے ‏، عظیم بھائی بھی ہمارا راستہ دیكھتے ‏، دیكھتے تھك كر اپنی بیوی كے ہمراہ چل پڑے ۔

مكہ میں انہوں نے اپنی روئداد سنائی كہ ایك ٹیكسی پر جو تین ریال فی سواری كے حساب سے سواریاں لے رہی تھی یہ دونوں میاں ‏، بیوی سوار ہوگئے ‏، اس كے بعد كچھ سواریاں اور آئیں ‏، ڈرائیور سے كرایہ چكایا اور بیٹھ گئیں ‏، ان سواریوں كو كچھ پہلے اترنا تھا ‏، انہوں نے جوكرایہ دیا اس پر ڈرائیور سے تكرارہونے لگی جو مارپیٹ كی حد تك پہونچ جانے والی تھی كہ وہ سواریاں جو عرلی االنسل معلوم ہوتی تھیں بغیر كرایہ ادا كئے چلدیں ‏، ڈرائیور بھی ان كے پیچھے كرایہ كا تقاضا كرتا چلاگیا ‏، عظیم بھائی اور ان كی بیوی ٹیكسی میں ڈرائیور كی واپسی كی منتظر ‏، آدھ گھنٹے تك تو وہ واپس نہ آیا ‏، مجبوراً یہ دونوں میاں ‏، بیوی ٹیكسی سے اترے ‏، اب كرایہ كس كو دیں ؟ڈرائیور تو تقاضے كے لیے گیا ہوا تھا ‏، عاجز آكر ٹیكسی كا نمبر نوٹ كیا اور كرایہ اداكرنے كی صدقِ دل سے نیت كركے وہاں سے پیدل مكہ معظمہ آئے ‏، قریب ہی آچكے تھے ‏، پھر نہ اس نمبر كی ٹیكسی نظر پڑی ‏، نہ وہ ڈرائیور ہی كرایہ وصول كرنے كی فكر میں ان كو كہیں تلاش كرتا نظر آیا ‏، خدا جانے اس كا كیا حشرہوا؟ اگر ان عرب سواریوں سے بھی كرایہ نہ وصول كرسكا ‏، تو اس كی اچھی دلیل ہوئی ۔

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/

مکمل سفرنامہ یکجا پڑھنے کے لئے بھٹکلیس ڈاٹ کام کی مذکورہ بالا لنک پر کلک کریں