(مولانادریابادی کایہ انٹرویو آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی کی فرمائش پر لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسراحتشام حسین نے لیا تھا جو 8جون 1960ءکونشرہوا۔اس نشریہ میں سوال وجواب کی شکل میں درج تفصیلات سے مولاناکی ادبی زندگی کے مختلف پہلوؤں سےمتعلق بہت سی گراں قدر معلومات فراہم ہوتی ہیں، جن میں عبرت بھی ہے درس بھی۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آل انڈیاریڈیوکے ارباب حل وعقد نے آج آپ سے ایک "ادبی ملاقات" کا موقع فراہم کردیا۔ اس سلسلے میں کچھ ایسی باتیں پوچھنے کوجی چاہتاہے، جوادب اور خاص کر اردوادب کے طالب علموں کے لیے مفیدہوں یہ عرض کردوں کہ میں آپ کی فلسفیانہ ، نفسیاتی ،مذہبی اور دوسری علمی تحریریں بھی بڑے ذوق وشوق سے پڑھتا ہوں، اور ان کے متعلق بھی بہت کچھ پوچھنا چاہتاہوں، کیونکہ مجھے ان میں بھی ادبی حسن نظرآتاہے۔ لیکن اس وقت صرف خالص ادبی مسائل پرآپ کا وقت لوںگا۔ ممکن ہے میرے بعض سوالات رسمی یاغیرضروری معلوم ہوں لیکن جوابوں کی افادیت کے پیش نظرمجھے امیدہے کہ آپ ان کے جوابات بھی ارشاد فرمائیں گے۔ تواجازت ہے۔؟
مولانادریابادی: جی جواب کیوں نہ دوں گا۔ اب توآپ اورریڈیو والے میری رسوائی پرتل گئے ہیں۔ مگرجناب دام بالا حتشام آپ سے بات کرتے ڈرہی لگتاہے۔ تمہید میں تو آپ نے وہ لام باندھ دیا کہ آپ کیاکچھ پوچھ بیٹھیں? آپ ٹھہرے ایک تو یونیورسٹی کے استاداورپھرنقاد
احتشام صاحب: توسب سے پہلے یہ فرمائیے کہ آپ کی ادبی زندگی کی ابتدا کب ہوئی یہ تو مجھے معلوم ہے کہ اپنی طالب علمی ہی کے زمانہ میں آپ نے مضامین لکھنا شروع کردیا تھا لیکن میں ذرا سی ابتداکی تفصیل جانناچاہتا ہوں؟
مولانا: جی کیاعرض کروں ۔ یہ سمجھیے کہ یہ خبط پیدائش کے ساتھ ہی لے کرآیا۔ جب سے اردوکی شدبدآئی ۔ الّم غلّم جوچیزبھی چھپی ہوئی سامنے آگئی،کیااخبار، کیارسالہ، کیاکتاب بس بے پڑھے نہ چھوڑی۔ سمجھ میں آئے نہ آئے۔ کام پڑھ ڈالنے سے تھا۔ شررصاحب کے "دل گداز" کی ایک جلد مل گئی، اس میں ناول "حسن انجلینا" نکل رہاتھا۔اسے چاٹ گیا۔ مذہبی کتابیں بھی چھان ڈالیں ، خصوصاً عیسائیوں سے مناظرہ والی۔ 12برس کے سِن میں تھا اور ساتویں درجہ کا طالب علم کہ پہلامضمون "اودھ اخبار" لکھنؤ میں چھپ گیا۔مگر گمنام۔ نام دینے کی ہمت کہاں سے لاتا، اورپھروالدماجد کاڈرالگ۔ نویں درجہ میں پہنچا توسوفوکلیز (Sophocles) یونانی کے ڈرامہ انٹی گونی کا ترجمہ انگریزی سے اردومیں شروع کردیا۔
احتشام صاحب: کیاادبیات سے دلچسپی کے کچھ خاص محرکات تھے؟ میرامطلب یہ ہے کہ کسی خاص قسم کی ادبی تحریروں سے یا بعض اہم ادیبوں سے متاثر ہوکرآپ نے لکھنا شروع کیا، یااس وقت ادبی زندگی کومقصدحیات بنانے کاخیال تھا؟
مولانا: شوق ایک توطبعی اوراُدھر مولانا شبلی کی زندگی دل میں رچ بس گئی۔ انھیں کی انگلی پکڑکرقلم نے چلنا سیکھا۔ اوربرسوں مچل مچل کرانھیں کی نقالی کی۔ پھرجب ادبی جوانی پرپہنچ گیا توایک دور اور آیا اور اب ہادئ راہ ،مرزا محمد ہادی بنے۔ وہی امراﺅجان والے رسوا۔معلم اول شبلی تھے تویہ معلم ثانی۔ باقی تھوڑابہت فیض تو بہتوں سے حاصل کیا۔ نام اس مختصر صحبت میں کہاں تک گناﺅں۔ادھربعض رسالے والوں نے خوب چنگ پر چڑھایا ۔ اُدھرواہ واہ کہنے والوں کی پلٹن نے پراجمایا۔ بس لکھنے لکھانے کی ایک لت سی پڑگئی۔
احتشام صاحب: کیا آپ نے کبھی شعر بھی کہے؟ یہ اس لیے پوچھتاہوں کہ آپ کے اس دورکے ہم عصروں میں تقریباً سبھی نثرنگاربھی تھے اورشاعر بھی ، مہدی افادی اور مولانا عبدالحق کوچھوڑ کر ۔ مجھے خیال ہواممکن ہے آپ کوبھی اس سے دلچسپی پیدا ہوگئی ہو۔
مولانا: دیکھیے آپ نے سوال کرڈالا نہ، جی ہاں ایک زمانہ میں کچھ ہذیان بکا تھا ۔ جان غالب پرجاتی تھی۔ مگراُن حضرت کی ریس اس مغلوب کے بس میں کب تھی۔ آخردل حسرت موہانی سے لگایا۔ غزلوں کی تک بندی جو کی، انھیں کا دیوان سامنے رکھ کر، یہ شاعری، عجم کی طرح خیالی اورفرضی نہ تھی۔ عرب کی طرح واقعاتی تھی۔ شادی اپنی پسند کی عنقریب ہونے والی تھی۔ بس وہی آئیڈیل سامنے رہا۔ ڈرتے ڈرتے ایک آدھ چیزحضرت اکبرکی خدمت میں روانہ کردی، دل بڑھانے کے خیال سے انھوں نے خوب پیٹھ ٹھونک دی۔ کلام زبانی سنانے کا کبھی ہیاﺅ نہ کھلا۔ خدابخشے، مرزامحمد ہادی عزیز بھی بڑے کرم فرماتھے۔ ان بیچارے نے لاکھ سرمارا، زبان نہ کھلنا تھی نہ کھلی ۔ یہ دور 1913ءسے تین چارسال تک رہا۔ پھردوسرا دورسنہ 22 و سنہ 23میں آیا، اب طبیعت پرمذہب کارنگ غالب آچکاتھا۔ مولانا محمدعلی جوہر نظربندتھے ۔ انھیں کی نعتیہ غزلوں پر کچھ کہاکیا،گویا جس کو منھ چڑھایا ۔ اڑوس پڑوس کے قوال لے اڑے۔عرسوں میں اب بھی ایک آدھ چیز گائے جاتے ہیں۔ گاتے کیاہیں۔ اُترا ڈھول بجائے جاتے ہیں ۔
احتشام : عام طورسے آپ کواردو، فارسی، عربی، انگریزی یادوسری زبانوں کے کن ادیبوں نے سب سے زیادہ متاثرکیا، اورکیا وہ تاثر عمرکے تقاضوں کے ساتھ زیادہ بدلا؟
مولانا: اردوکے اصل استادوں کے نام توابھی عرض کرچکا، فارسی میں صاحب مثنوی حضرت مولانائے روم کاکیاکہنا۔ برسوں ان کے ایک ایک شعرپر وجد کاعالم رہا۔ اب بھی ہے۔ اُن کے بعددل میں جگہ خسرو اورجامی کی ہے، اورپھراپنے غالب واقبال کی۔ انگریزی میں طلب علمی کے زمانہ بھرسکہ شکسپیرکاجمارہا۔ بعد کوکیٹس، میکالے، ہیکسلے، مارلے، ڈی ایچ لارنس کی جانب رہی یاپھربعض فرنچ ناول نویسوں کے انگریزی ترجموں پرتوجہ رہی۔ اور اپنے دیس والوں میں گاندھی،ٹیگوراورمحمدعلی پر۔
احتشام : زودپشیماں کے علاوہ آپ نے کوئی اورچیز لکھی ہے جسے عرف عام میں تخلیقی کہتے ہیں؟
مولانا: جی نہیں۔ اسی ایک زودپشیماں پریشمانی اس "دیر پشیماں" کوآج تک چلی آرہی ہے، خیریت گزری کہ وہ نام کے ساتھ نہ چھپا۔ سِن اس وقت 23 سال کاتھا۔ ڈرامے کا اس وقت رسیا بناہواتھا۔ پڑھنے کابھی اورناٹک دیکھنے کابھی۔ اسکولی زندگی میں دومرتبہ ایکٹری پرانعام بھی پاچکا تھا۔ 1915ءمیں آغاحشرکی کمپنی لکھنؤ آئی ، ان سے یارانہ گٹھ گیا۔ معاً بعد بمبئی جانے کا اتفاق ہوا، راہ میں ریل پر بیکاری کاشغل، اورپہیوں کاترنم ۔ آتیوں جاتیوں میں اس ڈرامہ کاپہلامسودہ تیارہوگیا۔ "تخلیقی" ادب تومیں سمجھانہیں کہ کیابلاہے۔ باقی محض ادب فرمائے تو ایک ٹوٹے پھوٹے قلم سے محمدعلی :"ذاتی ڈائری"دوجلدوں میں کچھ اسی صنف میں نکل چکی ہے۔
احتشام: کیاکسی خاص قسم کی ذہنی کشمکش کی وجہ سے آپ نے تخلیقی ادب کی طرف سے کنارہ کشی اختیارکی ، یاآپ کی افتادطبع اس سے بغاوت کرتی تھی؟
مولانا: خالص ادبی زندگی پہلے بھی نہ تھی۔ اس دورمیں فلسفہ غالب تھا! اورنفسیات بھی فلسفہ ہی کی ایک شاخ اس وقت تک تھی، سائنس کی شاخ ابھی تک نہیں بنی تھی، اور بعدکو مذہب غالب آگیا۔ ادبی حیثیت ضمنی اورثانوی جب بھی رہی اب بھی ہے ۔
احتشام: آپ کے جوادبی مضامین مضامین ماجد"مقالاتِ ماجد" اور"اکبرنامہ" میں شامل ہیں، کیا اُن کے علاوہ بھی کوئی مجموعہ زیرطبع یازیرترتیب ہے؟
مولانا: اب کیاعرض کروں ۔"مضامین" نامی ایک کتاب ایک ناشرصاحب نے بغیرمیری اجازت کے چھاپ ڈالی۔"مقالات" بے شک میری ترتیب دی ہوئی ہے، لیکن یہ نام ایک ناشرصاحب کا طبع زادہے۔ میں تو اسے 'انشاء ماجد' کہلاتا یا پھرادبی مقالات۔ 'اکبرنامہ' البتہ میرا چھپوایا ہواہے۔ لیکن معاذاللہ !غلطیوں کی پوٹ کی پوٹ ۔ اچھاہے کہ میری بدخطی کی سزا مجھے جی بھرمل گئی۔
احتشام: آپ کے مضامین کے مطالعہ سے کبھی کبھی یہ خیال ہوتاہے کہ آپ ادبی اقدار کواخلاقی اقدار کے تابع رکھناچاہتے ہیں، یاکم سے کم اس کے بغیرادب کوقابل تحسین نہیں سمجھتے ، اگرایساہے توکیاآپ ادب میں کسی خاص طرح کی مقصدیت یاافادیت کے قائل ہیں؟
مولانا: تری آواز مکے اورمدینے ۔صحیح سمجھے آپ، مذہب جب سے سمجھ میں آیا، اس کی ہمہ گیری اس کی جانداری بھی سمجھ میں آگئی، ادب کی تکمیل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ادب صالح وصحت مند وہی جوصحیح مذہبیت کے تحت میں ہو۔
احتشام: ادب میں ایک اہم مسئلہ شخصیت کے اظہارکابھی ہے۔ آپ کے خیال میں اس اظہارکی نوعیت کیاہے؟ کیا اس کاتعلق محض اسلوب اورطرز ادا سے ہے، یا خیالات سے بھی؟
مولانا: جی دونوں ہی سے ۔ خیالات سے بیشتر، اسلوب سے کم تر۔
احتشام : آپ کی ذہنی تعمیر میں توفلسفہ ،منطق اورنفسیات کا کافی ہاتھ رہا ہے، پھر آپ نے فلسفئہ ادب یافلسفئہ تنقید جیسے مسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں کی؟ یا آپ تنقیدکے معاملہ میں سرے سے نظریہ اورنقطہ نظرکے مخالف ہیں؟
مولانا: جی ہاں، اب یاران طریقت نے تنقیدکو ایک مستقل فن بنالیاہے۔ شاخ دار اور پیچ درپیچ، اورنقادی کوایک پیشہ ٹھہرا لیاہے۔ میں اتنادماغ کہاں سے لاﺅں ، اور اپنی زبان کی ترکیب وترتیب فرنگی سانچے میں کیسے فٹ کرلوں؟ میرے جی کو تو وہی سیدھی سادی روش مولاناشبلی اورحسرت موہانی کی لگتی ہے اورمرزاہادی رسوا کا یہ قول نہیں بھولتاکہ "بھئی میں تو غالب کاعاشق رہاہوں ۔ مدتوں دیوانِ غالب سرہانے رکھ کرسویاہوں۔ لیکن جوشعر پہلی مرتبہ سمجھ میں نہ آیا، اسے دوبارہ نہ پڑھا۔ یہ سمجھ لیا کہ یہ میرے لیے نہیں۔ شعر پرجب غورکرناپڑا، تووہ فلسفہ ہو گیا، شعرکہاں رہا۔"
احتشام: اس وقت اردو میں جوکچھ لکھاجارہاہے اس میں رطب ویابس سبھی ہے، پھر بھی اگرآپ کوکچھ تحریریں پسندآئی ہیں تو کیا ان کوپیش نظر رکھتے ہوئے آپ موجودہ رفتار ادب سے مطمئن ہیں۔ آپ نام نہ لیناچاہیں تو نہ لیں، میں آپ کاعام ردعمل جدید ادب کی طرف سے جاننا چاہتا ہوں؟
مولانا: جی، عام رفتار توبگاڑ اورفسادہی کی جانب ہے، زبان بگڑی ہوئی ۔ ترکیبیں بے ڈھنگی ،محاورے غلط سلط، خیالات اُول جلول، عبارت ایسی خشک اور اکھڑی ہوئی کہ جیسے کوئی آموختہ یاد کررہاہے، وہ بھی ہجے لگا لگار کر ۔ ہاں کوئی ۰10فیصد ی اب بھی ایسے ہیں جواردو ایسی لکھتے ہیں جیسے مادری زبان لکھی اوربولی جاتی ہے۔
احتشام: غالب اپنے ناکردہ گناہوں کی حسرت کی دادچاہتے تھے اورمولانا! ہم سب کوئی نہ کوئی "حسرت تعمیر" دل میں لیے بیٹھے ہیں، کیاآپ کوبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ ادبی میدان میں آپ جوکچھ کرناچاہتے تھے وہ نہ کرسکے؟
مولانا: جی ، کیوں نہیں ۔بلکہ یوں کہیے کہ تعمیر کی ہی کہاں۔ جوکچھ ہے تعمیر کی حسرت ہی حسرت ہے۔
احتشام: آپ کی علمی اورمذہبی تصانیف کاسلسلہ توجاری ہے کیاکسی ادبی مسئلے پر بھی کوئی مستقل تصنیف مرتب کرنے کاخیال ہے؟
مولانا: جی نہیں۔ اب کسی خالص ادبی سطح پرنزول کی مہلت کہاں، مجذوب مرحوم تو آپ کو یادہوں گے۔ اسی لکھنؤ میں برسوں گزارے ۔ راہِ طریقت کے سالک نام کے مجذوب ۔کیاخوب کہہ گئے ہیں
چسکاپڑاہے جام کاشغل ہے صبح وشام کا
اب میں تمھارے کام کاہم نفسو رہانہیں
اورعارف رومیؒ کا تو کہنا ہی کیا
قافیہ اندیشم ودل دارمن
گویدم مندیش جز دیدارمن
احتشام: ایک آخری سوال اور! کیا اس وقت بھی کبھی کبھی آپ کو تفریحی ادب کے مطالعہ کاوقت ملتاہے؟ اگرملتاہے تو آپ کس قسم کی اورکن مصنفوں کی تحریریں پڑھتے ہیں؟
مولانا: جی ہاں، کسی حدتک کیوں نہیں۔ سرشارکافسانہ آزاد آج بھی مزہ دے جاتا ہے، اورحال کے لکھنے والوں میں خواجہ شفیع دہلوی ہیں، دہلی ریڈیوکے حضرت آوارہ ہیں۔ اوردس پانچ اوربھی بزم اردوانھیں کے دم سے قائم ہے۔
احتشام: مولانا! میں آپ کابے حدممنون ہوں کہ آپ نے اپنے جوابات سے مجھے سرفرازفرمایا۔
مولانا: یہ کہیے کہ دنیاکے سامنے اپنی رسوائی وتشہیر کا سامان فراہم کردیا۔