بے تاج بادشاہ ، پیکر عمل عالم ، داعی اور مربی ۔4

Bhatkallys

Published in - Other

10:22AM Fri 25 Mar, 2016

از : عبد المتین منیری یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیمی نظام ہویا معاشرتی سسٹم ان میں تبدیلیاں دو ایک و روز میں نہیںآیا کرتیں ، نہ ہی یہ کسی ایک فرد کی مرہون منت ہوتی ہیں ، یہ ایک تاریخی تسلسل ہوتا ہے ، جس کے دوران کسی ایک فرد یا مجموعے کے نصیب میں ان میں تبدیلی کی رفتار کو مہمیز لگانا ہوتا ہے ۔اس شرف کے وہ افراد بھی حقیقی حقدار ہوتے ہیں جن کے حصے میں شہرت و ناموری نہیں آتی ، نہ ہی وہ عام طور پر جانے پہچانے گئے ،لیکن تنہائی میں بیٹھ کر کی گئی ان کی دل سوزی ، اس فکر میں ان کی شب بیداری ، اگر شخصیت سازی پر ایسے افراد کی جد جہد مرتکز نہ ہو تی تو شاید ترقی اور تبدیلی کی رفتار کو مہمیز لگانے والے افراد پیدا نہ ہوں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ معاشرے میں امر بالمعروف کاسلسلہ بند ہوجائے اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی سزا نہ ملے ، لہذا جب سے بھٹکل میں ہمارا مسلم معاشرہ قائم ہواہے ، یہاں پر اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے والے افراد موجود رہے ہیں ، لیکن مولانا ئے مرحوم نے موثر خطابت کا جو نمونہ یہاں پیش کیا اس کی دوسری مثال پہلے نہیں دیکھی گئی ، یہاں ایک محترم شخصیت اور مولانا کے رفیق کا تاثر حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ تعزیتی خطبات میں کسی نکتہ پر ماحول میں شگفتگی اور مسکراہٹ لاناصرف آپ ہی کا امتیاز تھا۔یہی خطابت کا کمال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عام حالات میں سوسال جینے والا شخص روزانہ معمولات میں سے جتنا وقت تدریس وتعلیم وتربیت اور اصلاح معاشرہ اور قوم کی فلاح وبہبود کے لئے دے سکتا ہے اتنا مولانا نے نصف صدی میں دے دیا ، لہذا یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس دنیا کی متعینہ مدت میں ایک مشن دے کر بھیجا تھا ، اسے آپ نے پورا کیا اور مالک حقیقی کی طرف واپس لوٹ گئے ، پرانے لوگوں میں ایسی لاتعداد مثالیں ملتی ہیں جن سے کم عمری میں اللہ تعالی نے بڑے بڑے کام لئے ، حلقہ ندوہ میں بھی ایسی کئی ساری مثالیں آغاز ہی سے ملتی ہیں ، علامہ شبلی نعمانی ؒ نے عمر کی پچاسویں دہائی ہی میں داعی اجل کو لبیک کہا ،باوجود اس کے کتنا بڑا کام انجام دیا،وقفے وقفے سے اس سنہری کڑی میں مولانا عبد الرحمن نگرامیؒ ، مولانا مسعود عالم ندویؒ ، مولانا عبد اللہ ندویؒ (مترجم ماذا خسرالعالم ) مولانا محمد الحسنی ندوی ؒ ، مولانا اسحاق جلیس ندویؒ ، مولانا عبداللہ حسنی ندوی ؒ وغیرہم بھی ملتے گئے ،ان میں سے کئی ایک نے پچاس کا ہندسہ بھی پورا نہیں کیا ، لیکن آسمان علم و دعوت پر چاند اور سورج بن کر چمکے ۔ ان کی روشن کی گئی قندیلیں آج بھی روشن ہیں ۔ مولانا نے ۱۹۸۳ء میں جامعہ میں تدریس کے ساتھ زندگی کا جو سفر شروع کیا تھا ، وہ تا سفر دم واپسیں جاری و ساری رہا ، اس دوران کچھ عرصہ آپ نائب مہتمم بھی رہے ، غالبا ۱۹۹۹ء میں آپ کے سر پر اہتمام کا تاج رکھا گیا جو آپ کی وفات تک تقریبا سولہ سال تک سر پر رہا ، اس دوران جامعہ کو جو استقرار حاصل ہوا ، اس کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ کسی مہتمم کا اپنے عہدے پر طویل ترین دور تھا ، اس دوران مولانا کے ساتھ اساتذہ کی ٹیم نے ایک خاندان ہونے کا ثبوت دیا ۔ مولانا نے طلبہ اور اساتذہ پر اپنے اخلاقی رویوں کے جو نقوش چھوڑے ، اس کی تفصیلات مسلسل آرہی ہیں ۔ اس موضوع پر مولانا عبدا لسلام خطیب صاحب استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء کا مضمون پڑھنے کے قابل ہے ۔ مولانائے مرحوم کی تعلیم وتربیت کے عناصر حسب ذیل تھے ۔ (الف) عملیت اور پریکٹیکل پہلو (ب) پرکشش شخصیت (ج) طلبہ سے شفقت اور محبت (د) وقت کی پابندی (ھ) طلبہ کی تربیت کی فکر (و) طلبہ کے ساتھ خیر خواہی (ز) کورس میں شامل کتاب کے ساتھ گہر اتعلق (ح) جذباتی باتوں اور تبصروں سے اجتناب (ط) اخلاص اور فن کا اختصاص ( ی) تعمیری روح (ک) تواضع اور وقار ۔ مولانا کے دور اہتمام میں جامعہ کو کافی شہرت اور مقبولیت ملی ، اس دوران کئی ایک معیاری علمی سیمینار بھی ہوئے ، جن میں اہم ترین رابطہ ادب اسلامی کابچوں کے ادب اطفال کے موضوع پر ہوا سیمینار ۲۰۰۰ء ہے ، جس میں پہلی مرتبہ ایک بڑی تعداد میں علم و ادب سے وابستہ عالم و دانشور ، اساتذہ جامعات تشریف لائے اور علمی مقالات پیش کئے ، ۷؍فروری ۲۰۰۹ ء کو جامعہ میں منعقدہ آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کا مشاورتی اجلاس اور تحفظ شریعت کانفرنس بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، ۱۸؍۳؍۲۰۱۲ء جامعہ کی تاسیس کے پچاس سال گذرنے پر جامعہ آباد میں منعقد ہ تعلیمی کانفرنس آپ کے خوابوں کی تعبیر تھی ، اس تاریخی موقعہ پر جہاں پوری قوم بلاتفریق اسے کامیاب کرنے میں شریک رہی ، ا س میں مرحوم کی جد و جہد اور کاوشیں بہت نمایاں تھیں ۔ جامعہ کے طلبہ و فارغین اس کانفرنس کیلئے کوششیں کرتے تو اس کے ذکر کی بڑی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، لیکن جامعہ سے ہٹ کر انجمن اور عصری اداروں کے طلبہ اور فارغ نوجوانوں نے اسے اپنی چیز سمجھ کر جس طرح دن رات ایک کئے اس میں مولانا کی توجہات کا حصہ شکار میں شیر کے حصے برابر ہے۔ مولانا نے جامعہ میں خود کو تعلیم و تدریس تک محدود نہیں رکھا، بلکہ چھوٹی بڑی ہر چیز ان کی نگاہ وں میں رہی ۔ جامعہ آباد میں دعاسے پہلے وہ پہنچتے ، ٹمپوپر چڑھتے وہ طلبہ کے آگے پیچھے وہ دوڑتے بھاگتے ، غیرمسلم باغبان( سننو) اور( ایرپا) اور صفائی کے ملازمین کے پیچھے وہ جاتے ، تکمیل کے مرحلے میں جامعہ کی مسجد کی تعمیر کے لئے تعاون کی انہوں نے بہت فکر کی ، اور بہت ساری مادی ضروریات سے منتظمین جامعہ کو بے فکر کرنے کے لئے انہوں نے جتن کئے ۔ آپ کے دور میں جامعہ میں طلبہ کا ڈراپ اپ سب سے کم رہا ۔ ایسے کئی ایک طلبہ جو اپنی شرارتوں اور غیر ذمہ داران اخلاق کی بنا پر شاید نکال ہی دئے جاتے ، انہیں آپ نے انعام و اکرام سے نوازا ، ان میں سے کئی ایک آج عالم فاضل ہوکر دینی خدمت انجام دینے اور معاشرے کے لئے مفید بن گئے ہیں ۔ آنے والے مہمانوں کے لئے ان کی ذات بڑی مانوس تھی ، آپ کی موجود گی میں انہیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ پچاس سالہ تعلیمی کانفرنس کے جہاں دوسرے بہت سے مقاصد تھے ، ان میں اہم ترین مقصد فارغین جامعہ اور مستفیدین کو یک جا کرکے ان کا محاسبہ کرنا اور انہیں اپنا فریضہ منصبی یاد دلانا تھا، لیکن بعد ناگزیر حالات کی وجہ وہ نکتہ ہاتھ سے چھوٹ گیا ، اس کا ازالہ آپ نے ۷؍۸؍۲۰۱۴ ء ابنائے جامعہ کے عالمی کنونشن میں کیا ، اس کے اختتامی اجلاس سے ہوا مولانا کا خطاب، جس میں آپ نے مروت اور لحاظ کو بالائے طاق رکھ وکرابنائے جامعہ کو جس طرح جھنجھوڑا ، انہیں فرض منصبی یاد دلایا ، اور اپنا کلیجہ نکال کر سامنے رکھ دیا ، یہ اپنی نوعیت کی منفرد مثال تھی ، مولانا نے علماء و فارغین سے مخاطب ہوکر اس وقت نہایت واضح انداز میں بہت سی نصیحتیں کی تھیں ،ان میں خود اپنی ذات کو بھی مخاطب کیا تھا۔ اس خطاب کا محور علماء تھے ، اس کے اہم نکات حسب ذیل تھے : (یہاں سے اپنی اصلاح کا فیصلہ کرکے جائیں ۔۔۔ احساس ذمہ داری پیدا کریں ۔۔۔ہمارے علماء میں وہ علمی دینی صلاحیتیں نہیں پیدا ہورہی ہیں جن کا وقت مطالبہ کررہا ہے ۔۔۔ علم و تعلم سے تعلق رکھیں ، کیونکہ علم ٹہرتا نہیں ، بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے ۔۔۔ مطالعہ کا دامن تھام کے رکھیں ۔۔۔عوام اور علماء کے اعمال میں فرق ہونا چاہئے ۔۔۔ عوام تہجدپڑھ رہے ہوں اور تلاوت کررہے ہوں تو علماء کو ان سے بڑھ کر عبادت گذار بننا پڑے گا ۔۔۔حضور اکرمﷺ کی کڑھن دل میں پیدا کرنی چاہئے ۔۔۔علماء میں ایمان کی کمی اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کی کمی نہیں ہونی چاہئے ۔ ۔۔ بڑا انسان صرف پڑھنے اور کتابوں کو چاٹنے سے نہیں بنتا ، اس کے لئے دلوں کو بھی بدلنا چاہئے ۔۔۔دوسروں کا جائزہ لینے سے قبل اپنے دل کو ٹٹولنا چاہئے ۔ ۔۔کسی اللہ والے کو اپنا رازدان بنانا چاہئے ، جس سے اپنے دل کی تمام کیفیات بیان ہوں ، اور جس سے مشورہ لیا جاسکے ۔۔۔حسد ،کینہ ،راحت طلبی سے دل و جان کو خالی رکھنا چاہئے ۔۔۔بھٹکل میں مادیت کی جو ریل پیل ہے اگر اس وقت جامعہ نہ ہوتا ، اور اس کے اولین فارغین کی قربانیاں نہ ہوتیں ، ان کی قناعت پسندی نہ ہوتی ،تو اخلاقی اور معاشرتی حالات اس سے زیادہ دگرگوں ہوتے ۔۔۔آپ نے حفاظ ، علماء ، اور مستفیدین کرام سے درخواست کی کہ وہ جامعہ سے پیوستہ رہیں ، جو پتہ درخت سے کٹ جاتا ہے وہ سوکھ کر ختم ہوجاتا ہے ۔۔ آپ نے حفیظ میرٹھی کا شعر پڑھ کر بات ختم کی کہ : میں بھی پھروں ہوں مارا ماراچھوڑ کے تیرے دامن کو *پیڑ سے جو پتہ ٹوٹے ہے وہ آوارہ ہوجائے ہے*صرف زبانی نقالی سے بات نہ بن پائے گی حفیظ*دل پر کاری چوٹ لگے تب میر کالہجہ آئے ہے ) مولانا کا یہ یادگار خطاب تھا ، اور غالبا اس کے بعد فارغین جامعہ اور اپنے شاگردوں کے سامنے دل کی بات اتنی صفائی سے رکھنے کا آپ کو دوبارہ موقعہ نہیں ملا ۔ مولانا نے کوکن و اطراف کے طلبہ کو جامعہ میں لانے کی بہت کوششیں ۔ حیدرآباد اور ملبار سے بھی شوافع طلبہ یہاں آنے لگے تھے ۔بھٹکل کے دیگر اداروں انجمن ، تنظیم میں بھی آپ کی باتیں اور مشورے بڑی عزت اور باوقار انداز سے سنے گئے ۔ آپ مولانا سید ابو الحسن ندوی اسلامک اکیڈمی اور علی پبلک اسکول کے ذمہ داران اور سرپرستان میں ابتداہی سے رہے ۔ اور ہرجگہ ان اداروں کی رہنمائی کی اور ان کو تقویت پہنچائی ۔ جامع مسجد کی امامت اور خطابت سے وابستگی نے قوم کے ایک ایک فرد کے دل تک پہنچنے کے لئے آپ کوپلیٹ فارم عطا کیا ، اس کے ذریعہ اصلاح معاشرے کی وہ خدمت انجام دی، جو کم ہی لوگوں کے نصیب میں آتی ہے ۔ اس کے لئے آپ نے بڑی قربانی دی ،برسات ہو یا سوکھا، ٹھنڈی ہو یا گرمی روزانہ پانچ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے نماز فجر سے آدھ گھنٹے قبل جامع مسجد تشریف لاتے ، پہلے قبرستان جاکر یہاں کے خفتگان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ، نماز فجر کے بعد تفسیر کا درس ہوتا ، جس میں دور دورسے لوگ جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی شریک ہوتے ۔ سارا دن جامعہ میں گذار کر مغرب کو جامع مسجد جاتے تو یہاں شبینہ مدرسہ کی کی دیکھ بال کرتے اوررات دیر گئے لوگوں کے مسائل حل کرتے کرتے گھر پہنچتے ، انجینرئینگ کالج میں ہفتہ وار درس قرآن الگ سے ہوتے ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بھٹکل کے اکثر نوجوان جن کی عمریں پینتیس اور اس سے کم ہوگی آپ کی شاگردی میں آگئے ۔ بلاتفریق آپ سے نوجوانوں کی محبت اور احترام کا اندازہ مجھے پہلی مرتبہ تب ہواجب اگست ۱۹۸۹ء سفر حج سے واپسی پر آپ دبی تشریف لائے تھے ، اس وقت بھٹکل لئے مجھے مہمان بنے ایک عشرہ بیت رہا تھا ، اوروہاں کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں تھا ، لیکن دیکھا کے جامعہ کے وابستگان سے زیادہ آپ کو چاہنے والے دوسرے اداروں کے پڑھے ہوئے ہیں ، پھر جنوری ۲۰۰۰ء میں دبی جماعت کی دعوت پر آپ کی آمد ہوئی تو یہ مقبولیت کئی گنا بڑھ گئی تھی ، ۲۶؍ جنوری کو مسجد بن دلموک میں آپ کا خطاب نوائطی زبان میں ہوا تھا ، اس وقت اس وسیع و عریض مسجد کے باہر تک لوگ جمع ہوکر آپ کا خطاب دلچسپی سے سن رہے تھے ، ۲۹؍مارچ ۲۰۱۳ء کو مدرسہ اطفال کے پروگرام میں آپ کی حاضری کے موقعہ پر شرکاء کی تعداد کے تعلق سے احباب کی رائے تھی کہ جماعت کے عید ملن پروگرام کی یاد تازہ کردی ، حالانکہ اس قسم کے پروگراموں میں حاضرین کی تعدا د بہت کم ہوتی ہے ۔ مقبولیت اور محبوبیت اللہ کی دین ہے جسے چاہے عطا کردے ۔ بھٹکلیس پر جب صوتیات کی اشاعت شروع ہوئی تو ہمیں یہ شرف ملا کہ مولانا کے جمعہ بیان کے ذریعہ جو پیغام آپ امت مسلمہ کو دیتے ہیں انہیں آفاقیت دی جائے ۔ ہمارے علم کی حد تک اس وقت تک اردو میں اس قسم کا کوئی سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ۔ چودہ سال قبل بھٹکلیس پر جب خطبات کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو انٹرنٹ کی دنیا میں یہ ایک نئی جدت تھی ، الحمد اللہ اس کے بعد ہمیں جنوبی افریقہ ، انگلینڈ اور اسٹریلیا سے پیغامات موصول ہوئے کہ وہ انہیں مسلمانوں کے مقامی ریڈیو اسٹیشنوں پر ریلے کرتے ہیں ۔ حرم شریف میں بھی دوران حج کینیڈا وغیرہ کے بعض باشندوں کا بھٹکل کا تذکرہ کرتے مولانا کے سامنے خطبات کی تعریف کرنا ، اور خطیب کے بارے میں دریافت کرنا مشہور سی بات ہے۔ ۱۱،۱۲،۱۳ فروری ۱۹۸۹ء کی تاریخیں بھٹکل کے لئے بڑی نیک فال ثابت ہوئیں ، ان تاریخوں میں الحاج محی الدین منیری مرحوم کی کنوینر شپ میں کالیکٹ میں بین الجماعتی پہلی کانفرنس منعقدہ ہوئی ، اس میں جامعہ کے فارغ علماء کی بہترین صلاحیتوں اور معاشرے کے مسائل پر ان کی گہری نظرکا مشاہدہ واضح انداز سے ہوا ۔ ا س وقت معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کے لئے جو بین الجماعتی نہی عن المنکر کمیٹی تشکیل پائی تھی ، اس کے لئے آپ اور دیگر حضرات علماء نے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں ، پھر اس کے مقاصد کو تقویت پہنچانے کے لئے جماعت المسلمین میں شعبہ تبلیغ قائم ہوا ، مولانا کو رہتے دم تک اس کے مقاصد کی حصولیابی کی فکر دامن گیر رہی ، چند سال قبل آپ کی رہنمائی میں شعبہ کا ایک نٹ ورک بھی قائم ہوا تھا، عرصہ تک کسی کو ساتھ لے کر یا تنہا شادی بیاہ کی بدعات و خرافات سے منع کرنے کے لئے محفل نکاح سے قبل دولہا سے ملاقات کے لئے جانے کا اہتمام کرتے رہے، بیماری سے کچھ دن قبل فاروقی مسجد میں شہر قصاب پیشہ اور خانسامانوں کو اکٹھا کیا تھا ۔ فکر جاری تھی ، لیکن وہاں سے بلاوا آگیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، اب مولانا نے جاتے جاتے بڑی ذمہ داریاں چھوڑ دی ہیں ۔ بات ختم کرنے سے ہماری وہ بات یاد آتی ہے جو ہم نے ۱۱؍مارچ ۲۰۱۶ء کی شام ابنائے جامعہ دبی کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہی تھی کہ (جب جامعہ میں قریب ایک عشرہ نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت میں صرف کرنے کے بعد اللہ تعالی نے مولانا ملااقبال صاحب کو فاروقی مسجد اور دختران ملت کی تربیت کے لئے جامعۃ الصالحات میں اور مولانا محمد صادق اکرمی صاحب کو سلطانی مسجد اور نونہالان قوم کی تربیت کے لئے انجمن میں قبول کیا تو یہاں سے اصلاح معاشرہ کو ایک نئی جان مل گئی ، مرحوم اسی جدو جہد کا تسلسل تھے ۔ جب کوئی انجینیرکسی گھر کا نقشہ نمونے کے بغیر بناتا ہے تو نقشہ بنانے اور اس پر تعمیر کرنے میں مدت لگ جاتی ہے ، لیکن جب نمونہ سامنے ہو، اور نمونے کو سامنے رکھ کر نقشہ تیار ہو، تو نقشہ کی خامیاں فورا سامنے آجاتی ہیں، اور نمونے کی موجودگی میں بڑی آسانی سے کم مدت میں نقشہ اور گھر تیار ہوجاتا ہے ، مرحوم کی زندگی کے نمونے نے علماء حضرات کو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے ، ایک بہتر ماڈل کی موجودگی میں اس سے بہتر ماڈل تیار کرنا بہ نسبت آسان ہو تاہے ۔ لیکن اس کے لئے صرف محنت اور صلاحیت کافی نہیں ہوا کرتی ، اللہ تعالی کی جانب سے توفیق بھی ملنی لازمی ہے ۔ اگرصلاحیت کے ساتھ ساتھ ، انتھک جدو جہد، اخلاص ، محنت میں تسلسل اور توفیق یزدی بھی شامل حال رہی ، توبعید نہیں کہ اس چراغ سے مزید روشن چراغ جل اٹھیں ، اور خیر وبرکات کی نہ تھمنے والی بارش نازل ہو) کیوں نہ ہم مرحوم کے اعلی درجات کے ساتھ اس کے لئے بھی دست بدعا ہوں ، آمین