کیا یہ اردوپریس پر حملے کی شروعات ہے؟......از: ڈاکٹرظفرالاسلام خاں

Bhatkallys

Published in - Other

03:47PM Fri 22 Jul, 2016
لندن کے اخبار ڈیلی میل(۱)نے ۶جولائی ۲۰۱۶کے شمارے میں  کسی طفیل احمد کا لکھا ہوا مضمون"مسلم نوجوانوں کو انتہا پسند بنانے کا الزام انٹرنیٹ پر کیو ں لگایاجائے،اخباروں نے خود ہی اپنی مرضی سے یہ لکھا ہے" شائع کیا ہے۔ طفیل احمد پہلے بی بی سی کی اردو سروس میں کام کرتے تھے اور اب اچانک"اسلامی ماہر" کے طورپر ابھرے ہیں کیونکہ تسلیمہ نسرین، طارق فتح وغیرہ کی طرح وہ بھی وہی لکھتے ہیں جو دشمنان اسلام‌کو خوش کرنے والا ہوتا ہے۔ ان خدمات کی عوض  طفیل کو اب صہیونی پروپیگنڈا تنظیم میمریMEMRIنے اپنے یہاں ملازمت دے دی ہے۔ اس مضمون کو دوسرے ہی دن انڈیا ٹوڈےکی ویب سائٹdailyo.in(۲)نے  بھی شائع کیا۔ اور پھر یہ ۱۱جولائی کے اوپنOpenمیگزین میں بھی شائع ہوا ۔ ڈیلی میل نے  کچھ معاصر تصویروں‌کو مضمون کی تزیین کے لئے استعمال کیا، جبکہ dailyo.inنے "غزوۂ بدر" کی ایک پینٹنگ کو منتخب کرنا پسند کیا۔لیکن افسوس ہے کہ تاریخ کی بنیادی واقفیت رکھنے والاشخص بھی فورا ہی یہ جان جائے گا کہ اس تصویر کا جنگِ بدر سے کوئی تعلق نہیں ہے جو عرب کے ایک ریگستان میں لڑی گئی تھی۔ نیٹ پر تھوڑی سی ہی تلاش سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ تصویر جنگ بوداکی تصویر کشی  کرتی ہے جو ہنگری میں ۱۶۸۶ء میں ہولی لیگ اورافواج عثمانیہ کے درمیان لڑی گئی تھی۔ طفیل احمد کے اس سطحی مضمون کا بنیادی مقصد یہ باورکرانا ہے کہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں کے ریڈی کلائیزیشن کا الزام ڈالنا درست نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے اردو پریس کا کیا دھرا ہے ۔ طفیل احمد کے مطابق اصل مجرم ہندوستان کا اردو پریس ہے جو بھڑکانے والی خبریں اور مضامین روزانہ شائع کرکے مسلم نوجوانوں کو ریڈیکلائز کررہا ہےیعنی انقلابی بنارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ بھی تھوڑی بہت میڈیامیں ہندوستانی مسلمانوں کی آواز  باقی ہے اس کو بھی خاموش کردیا جائے۔ مصنف نے سلطان شاہین کے الفاظ کو نقل کرتے ہوئے ان کو ایک"معروف سماجی مصلح" بتایا ہے اور ان سے روایت کی  ہےکہ جب انٹرنیٹ نہیں تھاتو‌بھی تقریباً ۱۸۰۰۰ہندوستانی مسلمانوں نے ترکی میں خلافت عثمانیہ کے لئے لڑنے کے لئے اپنے مکانات اور کاروبار چھوڑدئے تھے۔ یہ سلطان شاہین ، جن کے تعلقات مشکوک ہیں،  ایک بالکل ہی مسلم مخالف ویب سائٹ چلا تے ہیں۔ یہ دونوں آدمی ،یعنی طفیل احمد اور سلطان شاہین ، ایک بالکل ہی جھوٹے دعوے سے اپنے قارئین کو بے وقوف بنارہے ہیں جسے ہندوستان اور دوسرے مسلم مخالف عناصر یعنی اسلام دشمن جلد ہی رٹنے لگیں گے اور اس طرح سے ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔جس بات کے بارے میں یہ لوگ غلط بیانی کررہے ہیں وہ دراصل ۱۹۲۰کی ہندوستانی تحریک‌ہجرت ہے جو ترکی میں خلافت کے خاتمہ کے مکمل چار سال قبل واقع ہوئی تھی۔۱۹۲۰کی تحریک ہجرت،جو برطانوی سامراج کے ساتھ عدم تعاون تحریک کا حصہ‌تھی، دراصل برطانوی حکومت کے خلاف ایک مہم تھی اور مہاجرین استنبول نہیں بلکہ کابل گئے تھے۔ وہاں سے کچھ لوگ روس بھی چلے گئے تھے جن میں شوکت عثمانی جیسے لوگ بھی شامل تھے جہاں وہ اشتراکیت کے حامی ہوگئے تھے۔شوکت عثمانی،جن سے ۱۹۶۰کی دہائی کے آخر میں قاہرہ میں میری کئی بار ملاقات ہوئی تھی،ہندوستان میں اشتراکی تحریک کے ستون تھے اور اس وقت وہ قاہرہ میں بمبئی کے اخبار فری پریس جرنل کے نمائندے تھے۔ان مہاجرین میں ہندوستانی تحریک آزادی کے دلیر اور ثابت قدم لیڈرخان عبد الغفار خاں جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ان میں سے جلد ہی بہت سے لوگ کابل میں پریشانیاں جھیلنے اور یہ محسوس کرنے کے بعد کہ وہاں سے ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنا ممکن نہیں ہے، واپس آگئے تھے(۳)۔ طفیل اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ "ہندوستانی مسلمانوں میں مظلومیت،خود کو محصور سمجھنااور مین اسٹریم سے علیحدگی کا احساس اور ساتھ ہی ساتھ وہ موافق دانشورانہ ماحول جس میں جہادی خیالات اور رویہ کو فروغ ملتا ہےوہ انٹرنیٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلم علماء اوراردوپریس اور اخباروںوغیرہ کی وجہ سے ہے"۔ اس کے بعد اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے طفیل نے ہندوستانی اردو پریس سے کچھ مثالیں بھی دی ہیں۔انہوں نے خاص طور پر اردو کے دو اخبارات روزنامہ سنگم اور"صحافت" پراعتراض کیاہے۔ پہلے یعنی "سنگم" میں جنگ بدرپر ایک اداریہ کے لکھنے کی وجہ سے ،اور دوسرے یعنی" صحافت" میں شائع شدہ ایک مضمون پر جو جنگ بدر کی برسی پر ۱۷رمضان یعنی ۲۳جون ۲۰۱۶کو چھپا  تھا۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اسلامی تاریخ کے ایک بہت اہم واقعے پر مسلمانوں کے لئے ،یا ایسے اخبار میں جسے زیادہ تر مسلمان ہی پڑھتے ہوں، ایسا مضمون لکھنا کیوں اور کیسے غلط ہے یا ہوسکتا ہے۔ پٹنہ کے روزنامہ سنگم نے  جنگ بدر پر ایک مختصر اداریہ شائع کیا  تھا(۴)  جو کہ اسلامی تاریخ میں ایک بہت اہم واقعہ ہے۔ یہ ایک روایتی تحریر  تھی جس کا موجودہ حالات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جنگ بدر جیسے اہم واقعے پر صرف بطور یادگار کسی مضمون کے چھپنے پر اعتراض کرنے کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور تاریخ کو ہی بھول جائیں۔ ہم نے صحافت اخبار کی تینوں اشاعتیں یعنی لکھنؤ، دلی اور ممبئی کے ای پیپرکو تلاش کیا جو دی ہوئی تاریخ (یعنی ۲۳نومبر) کے تھے لیکن ہمیں اس تاریخ میں وہ مضمون نہیں ملا جو طفیل احمد کی نظر میں بہت بھڑکاؤ اور قابل اعتراض ہے۔ "صحافت"  اخبار کے مذکورہ مضون میں لفظ "مال غنیمت" کا ترجمہ طفیل احمد نے "وہ مال واسباب جو غیر مسلمین سے چھینا یا قبضہ کیاجائے" کیا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے جاہل یا چالباز وبے ایمان ہیں۔مال غنیمت کا مطلب ہے وہ مال واسباب جو کسی جنگ میں ہارے ہوئے دشمن سے اس کی ہار کے فوراً بعد ہی میدان جنگ میں حاصل کیا جائے۔اس کے علاوہ کسی بھی جیتے ہوئے علاقہ سے ایسے لوگوں کے مال واسباب، جائیداد وغیرہ جو جنگ میں شامل نہیں تھے لینےیا قبضہ کرنے سے مسلمانوں کو قطعی طورسے منع کیاگیا ہے۔ طفیل احمد نے "صحافت" کا ایک مرتبہ پھر حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اخبار  میں ۲۲جون ۲۰۱۶  کے شمارے میں شائع شدہ ایک مضمون میں ،جواورلانڈو شوٹنگ کے بارے میں تھا ،کہا گیاہے کہ یہ حملہ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنانے کی سازش تھی۔ طفیل کے دعوے کے مطابق اس مضمون میں یہ لکھا گیا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ہی ۹/۱۱کا حملہ کروایا تھا۔ ہم نے اس مضمون کو صحافت کے صرف لکھنؤ ایڈیشن کےای‌پیپر ایڈیشن میں ہی پایا(۵)۔لیکن جوکچھ اس میں کہا گیا ہےوہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اورلانڈ وحملہ کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے  خواہش مند ہیں۔ اس مضمون میں آگے یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ (ڈونلڈ) ٹرمپ کو اس حملہ سے بہت فائدہ ہوگا کیونکہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ مسٹر طفیل، اس میں غلط کیا ہے؟ کیا دنیا بھر کے اخبارات اس وقت یہی نہیں کہہ رہے تھے کہ اورلانڈو شوٹنگ کو ٹرمپ اپنی بیان بازی کے لئے استعمال کریں گے اور جیسا کہ انہوں نے کیا بھی۔ طفیل‌نے نئی دنیا میگزین (۲۳۔۳۱مئی ۲۰۱۶)کا بھی حوالہ دیا ہے اور اس میں لکھے ہوئے ایک مضمون کا  تذکرہ کیا ہے جس میں مدینہ میں بنو قریظہ کے قتل کو صحیح اور جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس بات سے واقف ہے کہ بنو قریظہ کا قتل ان کی مذہبی کتابوں کے مطابق ان کے عالم دین کے ذریعے دی گئی سزاتھی اور ان کے قتل  کا حکم ان کےاپنے ہی حلیف قبیلہ  "اوس"کے سردار سعد بن معاذ نے جاری کیا تھا کیونکہ بنو قریظہ نے مدینہ کے دشمنوں کی مدد کرکے اور انہیں‌مدعوکرکے مدینہ پر حملہ کرانے کی غداری کی تھی ۔آج بھی دنیا کے کسی ملک میں کسی بھی ایسے غدار کی جو دشمنوں کی مدد کرے اور ان سے اپنے ہی ملک  پر حملہ کرائے، یہی سزاہوگی۔ طفیل احمد نے ممبئی کے اردو ٹائمز(۲۶دسمبر۲۰۱۴) کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں ان کے دعوے کے مطابق  یہ لکھا ہے کہ کسی بھی مرتد کو قتل کردینا چاہئے ۔ چونکہ اردو ٹائمز کے اس وقت کے شمارے ای پیپر کی شکل میں دستیاب نہیں ہیں ،اس لئےیہ جانناممکن نہیں ہے کہ مسٹر طفیل نےکتنی ایمانداری سے ان باتوں کو نقل کیا  ہے ۔ لیکن انہوں نے جس نیت اور جس لہجے میں اپنے مضمون کو لکھا ہے اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ بجاطورپر کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو ٹائمز کو بھی غلط طریقے سے پیش کیا ہوگا اور غلط بیانی سے کام لیا ہوگا۔ کسی مرتد کو قتل کرنا آسان بات نہیں ہے اور کسی بھی پرائیویٹ شخص کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔معاصر قوانین میں خیانت عظمیٰ کی طرح ارتداد بھی ایک پیچیدہ  مسئلہ  ہے جو صہیونی‌پروپیگنڈا مشین کےزر خرید   ملازم  کی سمجھ سے باہر ہے۔ ہندوستان کے اردو پریس کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے غلط اور مشکوک دعوے ان کے لئے بہت مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ صرف اردو پریس ہی آج کل آزادانہ طورپر مسلمانوں کے حالات، خیالات اور مسائل  کی صحیح ترجمانی کا واحد ذریعہ رہ گئے ہیں اور اب ان کو بھی  لگام دینے کی تیاری ہو رہی ہے۔      (انگریزی سے ترجمہ)