مسلم نام مٹانے کی مہم۔۔۔۔۔از:حسام صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

01:28PM Sat 17 Nov, 2018
الٰہ آباد کا نام پریاگ راج، فیض آباد کا ایودھیا اورمغل سرائے کا نام دین دیال اپادھیائے کرنے کے پیچھے کوئی ثقافتی وجہ نہیں بلکہ مسلم دشمنی ہے۔ ابھی مظفر نگر، آگرہ، اعظم گڑھ، غازی پور، شاہجہاں پور، مرادآباد، غازی آباد اور لکھنؤ سمیت ان درجنو ں شہروں کے نام بھی تبدیل کئے جانے ہیں جنہیں مسلمانوں نے بسایا تھا یا مسلمانوں سے ان کا کوئی خاص تعلق رہا ہے۔ وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کو مسلمانوں اور مسلم ناموں سے نفرت ہے یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ابھی تو وہ اترپردیش کے مالک بن چکے ہیں جب گورکھپور سے لوک سبھا ممبر ہوتے تھے اور نگر نگم پر ان کے لوگوں کا قبصہ تھا تبھی انہوں نے اردو بازار کو ہندی بازار، میاں بازار کو مایا بازار، ہمایوں پور کو ہنومان پور، علی نگر کو آریہ نگر میں تبدیل کرا دیا تھا۔ اسمبلی الیکشن سے پہلے لکھنؤ میں ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے صاف طور پر کہا بھی تھا کہ ابھی تو اور بہت سارے شہروں اور جگہوں کے نام وہ تبدیل کرائیں گے۔ بہانہ یہ ہے کہ مغل حملہ آ وروں نے آکر ہمارے جن  شہروں کے نام تبدیل کرکے مسلم ناموں پر کردیئے تھے ان تمام شہروں اور مقامات کو وہ پرانی صورتحال میں بحال کرائیں گے۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ مغلوں اور مسلم حکمرانوں نے کسی بھی شہر کا ہندو نام ہٹا کر اسے مسلم نام دینے کا کام نہیں کیا تھا۔ جتنے شہروں کے نام مسلم ناموں پر ہیں یہ سب کے سب مسلمانوں نے بسائے تھے اور اپنے بسائے ہوئے شہروں کے نام یا تو اپنے نام پر یا پھر اپنے بزگوں کے نام پر رکھے تھے۔ اگر مغلوں کو ہندو ناموں سے کوئی چڑھ ہوتی تورام پور، گورکھپور اور بنارس کے نام کیا وہ تبدیل نہ کرتے؟ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی ہوں یا ملک میں سو اسمارٹ شہر بسانے کا وعدہ کرکے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے ان کے استاد نریندر مودی کسی میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ کوئی نیا شہر بسا سکے۔ اسی لئے وہ دوسروں کے بسائے ہوئے شہرو ںپر اپنی مرضی کے نام چسپاں کرنے کا کام کررہے ہیں۔ الٰہ آباد کا نام تبدیل کئے جانے کے خلاف ریاست کے ایک ریٹائرڈ افسر اور وکالت کرنے والے ہری شنکر پانڈے نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل کے ذریعہ دستک دی ہے۔ ہائی کورٹ کے جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس راجیش سنگھ چوہان کی بینچ نے الٰہ آباد کا نام تبدیل کئے جانے کی وجہ معلوم کرتے ہوئے ریاست اور مرکزی سرکاروں کو نوٹس  جاری کرکے جواب طلب کیا۔ ہری شکر پانڈے ایڈوکیٹ نے اپنی پی آئی ایل میں کہا ہے کہ کسی بھی شہر یا جگہ کا نام تبدیل کرنے سے پہلے ریونیو مینوئل کی دفعہ-۶(۲) کے تحت عوام کی رائے اور اعتراضات طلب کرنا ضروری ہے۔ الٰہ آباد کا نام تبدیل کرتے وقت اس قانون کو نظر انداز کیا گیا۔ ایک پی آئی ایل  سنیتا شرما ایڈوکیٹ نے داخل کی تھی اس پر تیرہ نومبر کو جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس سی ڈی سنگھ نے سنوائی کرکے خارج کردیا، کہا کہ نوٹیفکیشن میں غلطی ہوئی ہے تو پہلے آپ سرکار کےپاس شکائت درج کیجئے۔ اترپردیش میں نارائن دت تیواری جیسے بڑے دل اور بڑے ذہن کے چیف منسٹر بھی ہوئے انہوں نے کئی شہر بسانے کا فیصلہ کیا تھا جو اترا کھنڈ کے اونچے پہاڑی علاقوں سے دہلی کی سرحد تک بسے ہیں نوئیڈا جیسا شہر بسانے کا خواب انہی کا تھ ا آج نوئیڈا دنیا کے چند ایڈوانس شہرو ں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔ وہ دور کی سوچتے تھے اور اتنے بڑے کام کرنے کی ان میں صلاحیت تھی۔ یوگی اور مودی میں نارائن دت تیواری جیسی صلاحیتیں نہیں  ہیں اس لئے یہ لوگ مغلوں اور مسلم حکمرانوں کے بسائے ہوئے شہرو ںکے ناموں کوہٹا کر ان پر ا پنے نام چسپاں کرنے کے فیصلے کررہے ہیں۔ یہ اپنی طرف سے ملک اور ریاست کو کچھ دے ہی نہیں سکتے اسی لئے  دوسروں کے کارناموں پر کالک پوت کر اس پر اپنی مرضی کے نام درج کرنے کی کاروائیاں کررہے ہیں۔ اب خبریں ہیں کہ احمد شاہ کے بسائے ہوئے تاریخی شہر احمد آباد کا نام تبدیل کرکے کرن وتی کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ مسلم ناموں کو مٹانے کی کاروائیوں کی حمائت کرنے والوں کی دلیل ہے کہ ہم تو مسلم حملہ آوروں کے ذریعہ ختم کی گئی اپنی پرانی ثقافت کو دوبارہ ہندو ثقافت میں بحال کرنے کی غرض سے حملہ آوروں کے دیئے ہوئے نام ہٹا کر اپنی ثقافت کے مطابق نام رکھ رہے ہیں۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اگر یہ دلیل ٹھیک ہے تو یہ لوگ بتائیں کہ مغل سرائے کا نام پہلے کیا تھا اور اگر تھا تو اسے ہی دوبارہ بحال کرنے کے بجائے دین دیال اپادھیائے کے نام پر اس کا نام رکھنے کا کیا جواز ہے؟ پنڈت دین دیال اپادھیائے کون تھے اور ملک کے لئے ان کا کیا تعاؤن تھا۔ اگر مغل سرائے نام ہٹا کر اس جگہ کا دوسرا نام رکھنا ہی تھا تو ملک ہی نہیں دنیا کے حکمرانوں میں انتہائی ایماندار وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے نام پر اس کا نام رکھا جانا چاہئے تھا کیونکہ لال بہادر شاستری مغل سرائے میںہی پیدا ہوئے تھے۔ شاستری کے تقریباً تمام وارث اب بی جے پی میں ہی ہیں۔ ان کے نواسے سدھارتھ سنگھ تو یوگی کی وزارت میں کیبنٹ منسٹر ہیں۔ مغل سرائے کا نام تبدیل کرکے اسےشاستری کے بجائے دین دیال  کے نام پر کیا جانا تو شاستری کی توہین ہے۔ حیرت ہے کہ سدھارتھ ناتھ سنگھ بھی اپنے نانا کی اس توہین پر خاموش رہے۔ اگر دین دیال اپادھیائے سے یوگی آدتیہ ناتھ کو اتنی ہی محبت تھی تو انہیں بنارس اور مغل سرائے کے درمیان زمین اکوائر کرکے ایک نیا عالیشان شہر ان کے نام پر بسانا چاہئے تھا۔ اسی طرح کا کام ایودھیاکے لئے ہونا چاہئے تھا۔ فیض آباد اور ایودھیا شہروں کے درمیان کوئی آٹھ دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اسی میں نیا شہر بساتے جس میں بننے والی تمام عمارتیں بھگوان رام کے دور کی  طرز  پر بنتی تو  سمجھ میں آتا کہ یوگی آدتیہ ناتھ سرکار نے بھگوان رام کی خدمت میں کوئی بڑا کام کیا ہے۔ برہان الملک نواب استاد علی خان کے ذریعہ کوئی سوا دو سو سال قبل بسائے گئے فیض آباد شہر کے بورڈ پر ایودھیا چپکا دینا کون سا بڑا کارنامہ ہے۔ مغلوں اور مسلم حکمران کے آنے سے پہلے کی ثقافت ہی اگر واپس بحال کرنے کی منشا یوگی آدتیہ ناتھ کی ہوتی تو محض دو ندیوں ورونا اور اسی کے نام پر بسے وارانسی(بنارس) شہر کا نام بھی تبدیل کرکے شنکر گڑھ یا شیوپوری کرنا چاہئے کیونکہ بنارس تو’ بھولے شنکر‘ کی ہی نگری ہے پھر تو متھرا کا نام تبدیل کرکے کرشنا نگر یا کرشنا پوری کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح مرزا پور کو میرزا پور کرنے کے بجائے’وندھاپوری‘ کرنا چاہئے۔ ملک بھر میں اس سے پہلے بھی کئی شہروں کے نام تبدیل کئے گئے لیکن ان کے نام مغلوں  اور مسلمانوں کے نام مٹانے کی غرض سے تبدیل نہیں کئے گئے تھے۔ مثلاً بامبے کا نام تبدیل کرکے ممبئی کیا گیا جس کا باقاعدہ آندولن آج کے اترپردیش کے گورنر رام نائک نے ہی چلایا تھا بامبے کو ممبئی کرنے کے لئے وہاں کے تمام باشندے ہندو مسلم عیسائی اور پارسی سبھی کی مرضی اور خواہش شامل تھی۔ مدراس کو چنئی کیا گیا کسی  کو اعتراض نہیں ہوا۔ کرناٹک میں تو انگریزوں کے دیئے ہوئے تمام شہروں کے نام تبدیل کئے گئے بنگلور کو بنگلورو، میسور کو میسورو، مینگلور کو منگلورو کیا گیا کسی کو اعتراض نہیں ہوا کیونکہ یہ تبدیلی  ملک کی پرانی ثقافتی کے مطابق تھی ۔ اس سے بھی پہلے انگریزوں کے رکھے ہوئے وائی جیک کانام وشاکھا پٹنم کیا گیا تھا۔ ترویندرم کا تروننت پورم، کالی کٹ کا کوزی کوڈ، راجہ مہیندرا راؤ، گوہاٹی کا گواہاٹی، کوچن کا کوچین، راج ہمودری کا اری کوڈ، پونا کا پونے، پنڈاری کا پانڈو پنڈاری،لینڈجوواڑی کا  نرسمہا گاؤں، کھٹرکلاں گاؤں کا بڑی کھاٹو، مہنگوا چکا کا مہنگوا سرکار، مچھوا ٹیلا کا مچھاون گھاٹ، شکاتل کھادر کا سکھتی کھادر، شکراتل باگڑ کا سکترتھی باگڑ، مشرکھ کا نیمیشرن اور آؤٹرہاویلر آئی لینڈ کا اے پی جے عبدالکلام نام رکھا جا چکا ہے۔ ممتا بنر جی نے مغربی بنگال کا نام بانگلا رکھنے کی تجویز بھارت سرکار کو بھیج رکھی ہے۔ ان تبدیلیوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان ناموں کی تبدیلی کے پیچھے کی منشا یہ نہیں تھی کہ کسی مغل یا مسلم حکمراں کے بسائے ہوئے شہر سے اس کا نام مٹانے کے لئے نیا نام رکھا جائے۔ ۲۰۱۳ میںہوئے مظفر نگر دنگوں کے ملزم رہے بی جے پی ممبر اسمبلی سنگیت سوم نے اب مطالبہ کیا ہے کہ مظفر نگر کا نام تبدیل کرکے اسے لکشمی نگر کیا جائے۔ انہی کی طرح آگرہ نارتھ سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی جگن پرساد کہہ رہے ہیں کہ آگرہ کا نام تبدیل کرکے اگرون کیا جائے۔ دنیا جانتی ہے کہ سکندر لودھی نے صاف پینے کے پانی اور بہترین آب و ہوا کی وجہ سے جمنا کے کنارے رہنا شروع کیا تھا۔ اسی آبادی کو آگرہ نام دیا گیا تھا۔ پانی اور جمنا جیسی  مقدس ندی کی وجہ سے ہی اکبر نے آگرہ قلعہ بنوایا اور شہر مغلوں کی راجدھانی بنا تھا۔ مسلم نام والے شہروں کے نام تبدیل کرکے یوگی آدتیہ ناتھ اگر یہ سمجھیں کہ وہ مغل اور مسلم دور کو ہی تاریخ کے صفحات سے مٹا دیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ تاریخ کچھ کرنے سے تبدیل ہوتی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح وہ کرناچاہتے ہیں۔ (ضروری وضاحت: مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)