پیاسا کوئی بچہ کل بھی تھا، پیاسا کوئی اصغر آج بھی ہے

از: حفیظ نعمانی
۲۰۱۴ء کے ابتدائی مہینوں کی ان تقریروں کو کون بھولا ہوگا جو انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے وزیر اعظم کے امیدوار شری نریندر مودی نے کی تھیں کہ اب ملک کو کانگریس مکت بھارت بنانا ہے اور اسے بھی کون بھولا ہوگا کہ کانگریس نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۴ تک کے پانچ سال میں جیسی حکومت کی اس کی وجہ سے پورا ملک شری مودی کی اس آواز کو ا پنے دل کی آواز سمجھنے لگا اور شاید ہی ملک میں کچھ ایسے لوگ ہوں جنھیں یہ بات ناگوار محسوس ہوتی ہو۔
شری نریندر مودی کو خودبھی اور رجت شرما جیسے ان کے اندر سے حمایتی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ اگر الیکشن میں جیتنے کے لیے ملک کے زخم خوردہ عوام سے چاند ستاروںکی برسات کردینے جیسے دعوے نہ بھی کرتے اور ۱۵-۱۵ لاکھ کالادھن ہر کسی کے کھاتے میں ڈالنے کی سپاری کا وعدہ نہ بھی کرتے اور اگر بے روزگار نوجوانوں سے دو کروڑ کو ہر سال روزگار دینے اور اچھے دن آنے کا یقین نہ بھی دلاتے تب بھی زیادہ سے زیادہ ۳۰ سیٹیں کم ہوسکتی تھیں اس سے زیادہ اس لیے نہیں کہ ملک کا ہر حساس شہری کانگریس کی بدکرداری کی وجہ سے صرف ووٹر نہیں رہا تھا بلکہ امیدوار بن گیا تھا اور ہر ایک نے فیصلہ کرلیا تھا کانگریس کو سبق پڑھانا ہے۔
شری نریندر بھائی مودی کوئی ناگپور سے خاکی نیکر، کالی ٹوپی اورسفید قمیص اتار کر سیدھے مسٹر گڈکری کی طرح نہیں آئے تھے بلکہ ۱۲ برس وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر اور حکومتی دائوں پیچ پوری طرح سیکھ کر آئے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ دوسرے ملکوں میں جو کالا دھن ہے اس کالا نا اتنا ہی مشکل ہے جتنا چاند کی ندیوں سے زمین پر پانی لانا۔ جنھوں نے وہاں جمع کیا ہے وہ جیسے ان جیسے نہ جانے کتنے گجرات میں مودی کے پروردہ ہیں اور سونیا گاندھی ہوں یا ان کے شوہر راجیو گاندھی ان کے تعلقات دوسرے ملکوں کی حکومتوں سے اس سے بہت زیادہ ہیں جتنے ہندوستان کے ان سرمایہ داروں کے ہیں جو مودی جی کے بھکت ہیں۔ اس کے باوجودبے وجہ انھوں نے ا تنا گھٹیا بات کہی جو آزادی کے بعد نہ کسی کی زبان سے نکلی اور نہ کسی کے خیال میں آئی اور اس پر ستم یہ کیاکہ اس بابا رام دیویا دو کو اپنا مذہبی وکیل بنا لیا اور اس نے ہر جگہ ۲۵۰ ورقوں کی فائل کھول کر رکھ دی کہ اگر وہ روپیہ آگیا تو ہندوستان کا روپیہ ڈالر نہیں پونڈ کے برابر ہوجائے گا۔ اور شریف عوام نے بابا کی باتوں پر اس لیے بھروسہ کرلیا کہ بابا نے اپنے اوپر گینڈے کی کھال سے زیادہ موٹا پردہ ڈال رکھا تھا کہ اگر میں چاہوں تو پارٹی بنالوں اگر چاہوں تو الیکشن لڑکر حکومت بنا لو مگر میں تو سنیاسی ہوں اور یہ بات تو ان کی اصلیت جاننے کے بعد معلوم ہوئی کہ وہ جوہر بار بابا رام دیو کے گیت گاتے ہوئے ہزاروں جمع ہوجاتے تھے وہ سب آر ایس ایس کی فنکاری اور مودی کی سیاست تھی ورنہ باباتو امبانی سے بڑا دنیا دار صنعت کار اور سرمایہ دار ہے ۔
گذرے ہوئے دو سال میں ملک کو اندازہ ہوگیا کہ ع خواب، تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ اب دو سال کے بعد راہل گاندھی مودی مکت بھارت کا نعرہ لے کر میدان میں آئے ہیں اور وہ تین ہزار کلومیٹر کی کسان یاترا ۲۶ دن میں پوری کرکے کل دہلی آئے اور انھوں نے آنے کے بعد جس لہجہ میں وزیر اعظم پر حملہ کیا اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ اترپردیش کے الیکشن میں آدھا حساب بے باق کردینا چاہتے ہیں۔ مودی جی کے جگر کے ٹکڑوں نے دانتوں میں زبان دبالی جب سنا کہ وزیر اعظم جوانوں کے خون کے پیچھے چھپے ہوئے دلالی کررہے ہیں اورکہا کہ ساتویں پے کمیشن کے حساب سے ان کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے ان کے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مودی جی نے اپنا الیکشن نوجوانوں کے بل پر لڑا تھا اوراب یہ بھی حقیقت ہے سب سے کم سرکاری نوکریاں مودی جی کے زمانے میں ملی ہیں، کل جو ہم نے پاکستانی پارلیمنٹ کی تقریروں کا ذکر کیا تھا، وہاں بھی نواز شریف نے اپنی تقریر میں مودی جی کی اس تقریر کا حوالہ دیا تھا جس میں انھوں نے پاکستان کو اپنے ملک کی غریبی، بے روزگاری، دہشت گردی اور بد عنوانیوں سے جنگ کرنے کا مشورہ دیا تھا، نواز شریف نے کہا تھا کہ جس کھیت میں بارود ڈالی جائے اس میں پھول اور پھل نہیں آتے، ان کا مقصد جو بھی رہا ہو، بات وہی ہے کہ اب مودی جی کا اعتبار نہ اندر ہے نہ باہر۔
بلیا سے دہلی تک کی کسان یاترا اور تین ہزار کیلو میٹر کے روڈ شو میں راہل کو جونظر آیا اس نے ہی انھیں اتنی جرأت دی کہ اب مودی مکت کا نعرہ لگانے کی ہمت ہوگئی اور اسے مودی کی غلطی ہی کہا جائے گا یا ان کی جو ان کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال رہے تھے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں مودی جی نے جتنے سنہرے خواب دکھائے ان کے بارے میں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ کوئی پورے نہیں کرسکتا تھا اور اس کے بعد بہار کے الیکشن میں اپنے داہنے بازو کی یہ حرکت کہ انھوں نے گائے اور پاکستان کو الیکشن کا موضوع بنایا اور ۱۵ لاکھ والی بات کے لیے کہہ دیا کہ یہ الیکشنی جملہ تھا۔ حیرت ہے کہ شری مودی ایسے آدمی کو پارٹی کا صدر بنائے ہوئے ہیں جو نائب صدر بننے لائق بھی نہیں۔
یاد ہوگا کہ لوک سبھا کا پورا الیکشن اتر پردیش میں مودی جی نے گجرات ماڈل پر لڑا تھا اور جو ووٹ مانگے تھے اس میں یہ شرط نہیں تھی کہ صوبہ میں بھی ہماری حکومت بنوانا، اس وقت وہ ایک ہی ہتھیار استعمال کررہے تھے کہ کانگریس نے جو وعدے کیے تھے یا ملائم سنگھ نے جووعدے کیے تھے وہ پورے کیے یا نہیں؟ اور اب وہی ہتھیار راہل گاندھی کے ہاتھ میں ہے اور وہیں الیکشن یادو کے ہاتھ میں کہ اترپردیش نے مودی کو ۷۳ سیٹ دیں لیکن مودی نے اترپردیش کوکیا دیا؟ ۱۵-۱۵ لاکھ آئے۔مہنگائی ختم ہوگئی، اچھے دن آگئے، داغی شہرت والوں کو جیل بھیج دیا۔ یا صدر بھی اسے بنایا جو قتل کی سازش میں بند تھا۔ اب ضمانت پر ہے اور صوبہ کا صدر بھی اسے بنایا ہے جس پر گیارہ مقدمے ہیں اور سب سے بڑی بات گجرات ماڈل ہے جہاں دلتوں کو کار سے باندھ کر اور ننگا کرکے مارا جاتا ہے اور اب گجرات میں کسان خود کشی کررہے ہیں۔ وہ خود کشی جو صرف مہاراشٹر میں ہوتی تھی اب پنجاب کا کسان بھی خود کشی کررہا ہے۔ صرف اس لیے کہ مودی نے راج ببر کا انصاف کا ترازو تو ڑ کر پھینک دیا ہے۔
بات اترپردیش کی نہیں ہر جگہ کی ہے اور وجہ صرف یہ ہے کہ مودی جی نے ان چیزوں کا وعدہ کرلیا جو ان کے کیا کسی کے بس میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ راہل گاندھی جو ۲۰۱۴ء میںصرف امیٹھی کی سیٹ وہ بھی اپنی ماں اوربہن کی بدولت جیت سکے تھے وہ اب پورے اترپردیش میں اکیلے دم پر کانگریس کو واپس لانے کی ہمت کررہے ہیں اور منجھے ہوئے صحافی کہہ رہے ہیں کہ اترپردیش میں کچھ ہو کر رہے گا۔
موبائل نمبر:9984247500