حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں (4)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:48PM Sun 11 Jun, 2023

ہمیں مكہ معظمہ میں دو ہی چار ہندوستانیوں سے ملاقات كا موقع ملا ‏، ان میں سے ایك تو ہمارے لكھنؤ كے سید نیاز علی ساویكار تھے جو یہاں معلوم ہوا كہ ہمارے شاگرد ہیں جب ہم مدرسہ نظامیہ (فرنگی محل)میں معلمی كرتے تھے ‏، تو وہ ابتدائی درجوں میں وہاں پڑھتے تھے اور ہم سے بھی پڑھا تھا ‏، بلكہ ان ہی كے بیان كے مطابق ہمارے ہاتھ ماربھی كھائی تھی ‏، انہوں نے خوب یاد ركھا اور ہمیں اس وقت یہ بات انہوں نے یاد دلائی جب ہم ایك پر تكلف دعوت ان كے یہاں سے كھاكر رخصت ہورہے تھے ۔

مرزا غالب كے ایك شاگرد تھے سید صاحب انہوں نے حقِ شاگردی ادا كرنے كے لیے استاد كے پاؤں دبانے كا ارادہ كیا ‏، مرزا نے پاؤں سمیٹ لیے كہ تو سید ہے ؛كیوں گنہگار كرتا ہے ‏، شاگرد نے كہا :‘‘ میں پاؤں دباتا ہوں آپ اس كی مزدوری دیجئے گا ‏، حساب بے باق ہوجائے گا ’’ استاد راضی ہوگئے ‏، پاؤں دبا چكنے كے بعد شاگرد نے كہا لائیے استاد ! دام ‏، استاد غالب نے جو حیوانِ ظریف تھے كہا: تو نے میرے پاؤں دابے ‏، میں نے تیرے دام دابے ’’ حساب بے باق ! تو شاگرد نیاز علی نے ہماری مار كھائی ہم نے ان كی دعوت كھائی چلئے حساب بے باق ہوگیا ۔

ہمارے خالو مولوی سمیع اللہ انصاری فرنگی محلی (ریٹائرڈ اسسٹنٹ كمشنر انكم ٹیكس ) نے ہمیں كچھ روپے اور كچھ نئے كپڑے دیے تھے كہ مكہٴمعظمہ اور مدینہ منوّرہ میں وہاں كے اصلی باشندوں كو جو ضرورت مند ہوں نذر كردینا ‏، بھیك مانگنے والے حرمِ كعبہ كے چاروں طرف بہت ملے ‏، یہ شرط كہ نسلاً مكّی ہوں كیسےپوری ہو ؟ ہمارے دوست مولانا عبد اللہ العباس ندوی مكہ معظمہ میں مقیم اور رابطہ عالمِ اسلامی كے سكریٹریٹ میں ملازم ہیں ‏، ان سے اس سلسلے میں رجوع كیا ‏، كہنے لگے یہاں كے جو اصلی باشندے ہیں ان سے ہم كہیں ‏، تو وہ خو د حاجتمندوں كو دوچار سو ریال دے دیں گے ‏، آپ كے دس ‏، بیس روپے سے خدمت كے وہ محتاج نہیں ہیں ۔

خالوجان نے خانہ كعبہ كے كبوتروں اور مسجدِ نبوی كے كبوتروں كو دانہ دینے كے لیے بھی روپے دیئے تھے ‏، خانہ كعبہ میں دیكھا ‏، تو كبوتروں كی ضیافت كے لیے اتنا گیہوں پڑا ٹھوكریں كھایا كرتا تھا كہ مزید گیہوں لوگوں كے روندنے كے لیے ڈالنا صرفِ بے جا نظر آیا ۔

یہ تو اچھے پھنسے ! خیرات لینے والا ملتا نہیں ‏، اناج رائیگاں كرتے اچھا لگتا نہیں ‏، یہ بارِ امانت لیے كہاں ‏، كہاں پھریں ؟ یہ ذمہ داری باعثِ پریشانی بن گئی تھی ‏، اس سلسلے میں ایك تاریخی واقعہ یادآگیا جو اسی سرزمین مكہ معظمہ سے تعلق ركھتا ہے ‏، امانت اور دیانت ‏، ریاضت اور كسبِ حلال كے ملے ‏، جلے جذبات كا حامل  بڑا پُر اثر واقعہ ہے ! مستند مؤرخ و محدث علامہ ابنِ جوزی (متوفٰی 597ھ ) نے لكھا ہے : ابن الرواس التمار كہتے ہیں كہ میں ایك صاحب ابوالحسن مكی كے پڑوس میں بصرے میں رہتا تھا ‏، حج كو جانے لگا ‏، تو پڑوسی سےرخصت ہونے گیا‏، انہوں نے بتایا كہ ان كی ایك بیٹی مكہ معظمہ میں رہتی ہے جس كے لیےتیس درہم وہ ہرسال كسی حاجی كے ہاتھ بھیجتے ہیں ‏، میں نے ابولحسن سے یہ خدمت انجام دینے كا وعدہ كیا اور خواہش كی كہ میرے لیے دعا فرمائیے‏، انہوں نے تیس درہم اور ایك خط بیٹی كے نام دیا اور كہا كہ مكہ میں فلاں جگہ‏، فلاں نام كی خاتون كو تلاش كركے دے دینا ‏، میں مكہ پہونچا اور پوچھا معلوم ہوا كہ وہ یہاں عبادت و ریاضت میں اس قدر مشہور ہیں كہ پتہ دریافت كرنے كی حاجت ہی نہیں ‏، اب میرا جی چاہا كہ ایسی عابدہ ‏، زاہدہ بی بی كے لیے كچھ رقم میرے طرف سے بھی نذر كی پیش ہو ‏، سیدھے ‏، سیدھے پیش كروں گا ‏، تو وہ قبول نہ كریں گی ‏، میں نے ان كے والد كا بھیجا ہوا خط كھولا اور اس میں جہاں تیس درہم بھیجنے كی بات لكھی تھی وہاں میں نے پچاس درہم بنادیا اور پھر اسی طرح لفافے كو بند كردیا اور بند لفافہ ان كی عابدہ زاہدہ بیٹی كو دیدیا اور پچاس درہم بھی ‏، انہوں نے اپنے والد كی خیریت پوچھی میں نے كہا ٹھیك ہیں ‏، كہنے لگیں : كیا انہوں نے یاِدِ خدا میں كچھ كمی كردی ہے اور دنیا كی طرف زیادہ لگ گئے ہیں ؟میں نے كہا : نہیں تو بولیں ‏، اچھا تمیں خدا كی اور اس كی جس كا حج كرنے آئے ہو قسم دیتی ہوں كہ جو كچھ میں پوچھوں تم سچ سچ بتانا : انہوں نے پوچھا : ان درہموں میں تم نے اپنی طرف سے بھی كچھ ملادیا ہے ؟ہاں صاحب ! ملایا ہے ‏، مگر آپ كو كیسے اندازہ ہوا ؟میں نے پوچھا : كہنے لگیں : میرے والد تیس درہم سے زیادہ مجھے بھیجنے كی حیثیت ہی نہیں ركھتے ہیں ‏، زیادہ اس وقت بھیج سكتے ہیں جب وہ عبادت ترك كركے كمائی میں لگ جائیں ‏، اگر تم كہو كہ عبادت میں انہوں نے كمی كردی ہے ‏، تو میں ان درہم میں سے كچھ بھی نہیں لوں گی ۔

اس كے بعد ہی وہ بی بی بولیں ‏: یہ سب درہم (پچاس كے پچاس ) واپس لیجاؤ ‏، میں نے كہا : یہ كیوں ؟ كہنے لگیں : میں صرف اپنی كمائی اور اپنے باپ كی كمائی سے كھاتی ہوں ‏، اس مال سے میں نہیں كھاسكتی جس كے بارے میں یہ نہ جانتی ہوں كہ كس طرح وہ كمایا گیا ہے ۔

میں نے كہا : تو وہ تیس درہم تو لے لیں جو آپ كے والد نے آپ كو بھیجیں ہیں ‏، انہوں نے كہا : اگر بعینہ وہ تیس درہم جو میرے باپ نے بھیجے ہیں ‏، ان پچاس دراہم میں سے نكال كر دے سكتے ہو ‏، تو لے لوں گی ‏، تم نے تو اس میں وہ دراہم بھی ملادیئے ہیں جن كی حیثیت میں نہیں جانتی اور ان ملے ہوئے دراہم سے میرے باپ كے بھیجے ہوئے دراہم كی شناخت ممكن نہیں ‏، اب آیندہ سال موسم حج تك میں ادھر اُدھر گری ‏، پڑی چیزوں سے اپنا پیٹ پالوں گی ؛ كیوں كہ سال بھر كے لیے میر ی روٹی ‏، دال كے لیے جو رقم آتی تھی وہ تم نے اپنے درہم میں ملاكر میرے لیے حرام كردی اور مجھے زحمت میں مبتلا كردیا ‏، اگر تمہاری اس حركت میں نیك نیتی نہ ہوتی ‏، تو میں تمہارے حق میں بددعا كرتی ۔

مجھے واقعی بہت رنج اور صدمہ ہوا اور وہ درہم لے كر حج و زیارت كے بعد واپس بصرہ لوٹا اور ابوالحسن مكی كے پاس آكر سارا قصہ سنایا ‏، ان سے بڑی معذرت بھی كی كہ میری اس حركت سے آپ كی بیٹی سال بھر تك زحمت میں رہے گی ‏، میں نے ان كے درہم انہیں واپس كیے ‏، انہوں نے لینے سے یہ كہ كر انكار كرردیا كہ : تم نے میرے مال میں دوسرا مال ملادیا ‏، اب میں اس میں سے اپنا مال چھانٹ كہاں سكتا ہوں ‏، تم نے مجھے بھی محروم كردیا اور میری بیٹی كو بھی محروم كردیا ۔

میں نے پریشان اور عاجز ہو كر كہا : تو اب آپ ہی بتائیے میں ان دراہم كاكروں كیا ؟ انہوں نے كہا : میں كیا جانوں ؟

میں بار‏، بار ان كے پاس جاتا اپنی حركت پر معافی مانگتا اور پوچھتا آخر كیا كروں میں آپ كے ان تیس درہموں كا ‏، ایك لمبے عرصے كے بعد انہوں نے كہا : خیرات كردو اور میں انہیں خیرات كركے اس جنجال سے نكل پایا ۔

خیر ایسی مصیبت تو ہم نے ہرگز محسوس نہیں كی جیسی تمار صاحب كو آج سے پہلے مكے اور بصرے میں پیش آئی تھی ‏، گو عام حالات میں ہم كچھ بھی محسوس نہ كرتے مگر مقدس مقامات میں پہونچ كر جی یہی چاہتاہے كہ اپنے عمل كی ذرا نوك پلك درست رہے ‏، اسی وجہ سے كبوتروں كا دانہ مكی اور مدنی باشندوں كا نذرانہ ہمارے سر پر لٹكارہا ‏، نجات مدینہ منوّرہ میں اس وقت ملی جب ہمارےایك فرنگی محلی بزرگ مہاجر مدنی نے وعدہ كرلیا كہ وہ مدینہ منوّرہ كے بعض اصلی باشندوں كو جو شریف و غیور ہیں اور جن كے احتیاج كا دوسروں كو علم بھی نہیں ہوپاتا ‏، یہ رقم پہونچادیں گے ‏، ہم سے اتنی بات خلافِ شرط ضرور ہوئی كہ مكے والوں كی نذر بھی مدینہ شریف ہی میں حیدر بھائی صاحب كےحوالے كردی جو وہاں حج كرنے كے بعد سے 14 برس سے مع اہل وعیال مقیم و مہاجر ہیں اور حدودِ مدینہ سے باہر تك نہیں جاتے ہیں :

دور سے خانہ كعبہ كو بھی كرلیں گے سلام

زندگانی ہے ‏، تو ہم ہوں گے مدینہ ہوگا

مكہ معظمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام كی دعا كی تاثیر ہرطرف دكھائی پڑی ‏، انہوں نے وادی غیرذی زرع (بے كھیتی باڑی زمین )میں بود وباش اختیار كرتے ہوئے دعا كی تھی ‏، وارزقہم من الثمرات (اے اللہ ! میری اولاد كو پھلوں سے رزق عطا فرما ) خود مكہ میں كھیتی ‏،باڑی اور باغ وغیرہ كہاں ؛لیكن دنیا كا كوئی پھل نہیں جو بازاروں میں بھرا ہوا نہ ہو اور تمول اور فراغت كا ثمر بھی بے پایاں ہے ‏، اتیب دولت اللہ تعالٰی نے اس خہی كو دے دی ہے كہ شاید اس كے مالكوں كو بھی (شاہ فیصل اور ان كے خاندان والوں كو بھی) اس كا اندازہ نہیں ہے ‏، دولت كے بہت سے دفینے ایسے پڑے ہیں جن كو حكومت نے ابھی ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے ‏، اب تو صرف پٹرول كی آمدنی سے عیش بافراغت كے مزےلوٹے جارہے ہیں ۔

شاہ فیصل کی زیارت بھی ہوئی ان ہی چار دنوں میں جو حج سے پہلے ہمارے پاس خالی تھے ایك دن رات كو شاہی محل میں حجاج  كی شاہ كی طرف سے دعوت كی گئی۔ موتمر اسلامی کی دوسری کا نفرنس کے معزز مہمان ساری دنیا سے آئے ہوئے تھے مولانا علی میاں نے ہمیں بھی شاہی دعوت میں مدعو کرا دیا اور ہمارے سفیر مدحت کامل قدوائی صاحب نے بھی ہمارا نام دے دیا تھا۔ لیکن طبیعت کا تقاضا دعوت میں شرکت کا نہیں ہوا اور ہم گول ہو گئے ۔ زیارت ہوئی شاہ فیصل کی حرم محترم میں وہ کعبہ کو غسل دینے آرہے تھے پہلے سے پتہ نہ تھا۔ دوپہر سے بہت پہلے تلادت کے لئے حرم میں بیٹھے تھے۔ نظر پڑی کہ کانسٹبلوں کی ایک پلیٹن قریب ہی براجمائے کھڑی ہے۔ خیال آگیا کہ غسل کعبہ ہونے والا ہے اور شاہ دستور کے مطابق آنے والے ہیں سوچا چلو یہاں سے، غسل کے لئے اندر جانے کا سوال کیا ، یوں بھی اپنی اوقات ایسی نہیں کہ اندرون خانہ کعبہ جانے کی جسارت کریں ، ہم چلے باہر جانے کے لئے وہاں بھی پہرہ چوکی  تھا ،واپس آتے تو مشکل آئے، جاتے تو مشکل اتنے میں شاہی سواری آگئی۔ لوگ باب السعود کے اندر جدھر سے شاہ داخل ہو رہے تھے ۔ دور ویہ استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے اور شاہ فیصل اندر داخل ہوئے۔ استقبال کرنے والوں نے حرم محترم کے اندر تالیاں بجا کر ان کا خیر مقدم کیا۔ شاہ کی زریں عبا کی چمک پھر استقبال کرنے والوں کی تالیاں ! اتنے میں شاہ کو دیکھا کہ وہ تالیاں بجانے والوں کو منہ پر انگلی رکھ کر منع کر رہے ہیں مگر کئی عدد فوٹو گرافروں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ قدم قدم کی تصویریں حرم کعبہ کے اندر اتاریں اور ان تصویر وں کو دھڑے سے چھا ہیں۔ ترک حاجی صرف حج اور زیارت کرنے آتے ہیں  نہ بازار سے کام نہ شاہ وگدا سے واسطہ صرف ایک تبرک، بڑی پابندی سے وہ مدینہ منورہ سے لیجاتے ہیں ۔

               مدینہ شریف کے چاندی کے چھلے، بڑے ادب و احترام سے اپنے یہاں کے لوگوں کو پیش کرتے ہیں وہ بڑی عقیدت سے انہیں پہن لیتے ہیں اور تادم مرگ پہنے رہتے ہیں یا اگرخود حج و زیارت کو آئیں تو اتاردیں گے۔

حج کا احترام یہی ترک کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ترکی حکومت اپنے باشندوں کو بین اقوامی پاسپورٹ (انٹر نیشنل پاسپورٹ) بڑی آسانی سے دیدیتی ہے۔ لیکن حج پاسپورٹ کے لئے اگر کوئی درخواست دیتا تو تو ایسی آسانی سے اس کو پاسپورٹ نہیں ملتا۔ پوری جانچ کرائی جاتی ہے۔ کیا آمدنی ہے۔ کیا ذمہ داریاں ہیں۔ مقروض تو نہیں ہے قرض لے کر تو نہیں جا رہا ہے واپس آکر اپنے اور بال بچوں کے کھانے کے لئے رہے گا، اس کے پاس وغیرہ وغیرہ یعنی شرعی طور پر حج اس کے اوپر فرض ہوا ہے یا نہیں ۔ اگر ثابت ہوا کہ واقعی یہ مستطیع ہے تو حج پاسپورٹ اس کو ملتا ہے پھر جتنا زر مبادلہ مانگے اتنا دیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترک حاجی حسب مرضی  رو پیہ لاتا ہے، خرج کرتا ہے صرف خیر خیرات میں یا چاندی کے پھلوں میں۔ ایک ایک طباق بھر کر خریدے جاتا ہے ایک ایک حاجی اپنے اوپر بھی زیادہ خرچ نہیں کرتا تکلیف ہی سے مکہ ومدینہ میں گزارتا ہے۔