آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ 4- مولانا عبد الحمید ندوی کا انداز تربیت

انجمن میں حاجی حسن مرحوم کی صدارت اور آئی ایس صدیق کی صدر مدرسی کے دورمیں مولانا عبدالحمید ندوی ؒ کا بحیثیتِ مدرس تقرر ہواتھا۔ آپ کا دینیات، اردو زبان، اقبالیات میں علمی مقام بہت بلند تھا۔ وہ میرے استاد تھے۔ اور جب میں پڑھانے لگا تب بھی وہ پڑھا تے تھے، انہیں مجھ سے دلی لگاؤ تھا۔ ہمارا ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا۔ وقت کے اکابر علماء سے آپ کی مراسلت تھی ۔ دینی ذوق پیدا کرنے کے لئے عموماً وہ علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ، مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ وغیرہ بہت سے بزرگوں کے آمدہ خطوط اپنے شاگردوں کو سناتے تھے۔ کبھی وہ مختلف رسالوں اور مجلات کے صفحات کی خواندگی کرواتے اور بتاتے کہ ہمارے بزرگوں کا زندگی کے مختلف معاملات میں کیاطریقہ کار ہے۔ صدر انجمن اور صدر مدرس مولانا کے علمی ذوق کے دل سے قدر دان تھے ۔ انہوں نے مولانا کو نصاب تعلیم کی حدبندیوں سے آزاد کر کے اس بات کی چھوٹ دے دی تھی کہ درجہ میں جو مناسب سمجھیں طلبہ کو سکھائیں۔ مولانا شاگردوں کے سامنے دنیا بھر کا علمی و تربیتی مواد لاکر ڈال دیتے تھے۔ مذہب سے میری وابستگی میں سب سے بڑا ہاتھ مولانا ندوی ؒکے دستِشفقت اور رہنمائی کاہے۔
مولانا خوش مزاج تھے ، ان کا ایک واقعہ میں آپ کو سناتاہوں ۔ غالباً میں اس وقت انگریزی کی چوتھی جماعت کا طالب علم تھا ، اس زمانے میں ساتویں جماعت میں پبلک امتحان ہوتا تھا ، مولانا ہمیں اقبالیات کا در س دیا کرتے تھے ۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ مولانا نے درس میں اقبال کا ایک شعر سنا کر فرمایا کہ جو اس کا مطلب بتائے گا میں اسے ایک روپیہ بطور انعام دوں گا۔ اور ہمیں جواب دینے کے لئے دو ہفتہ کی مہلت دی ، اس زمانے میں ہمارا ذہن خوب تیز تھا اور دماغ بھی چلتا تھا ، طلبہ کی کانفرنس ہوئی اور طئے پایا کہ لاہور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو خط لکھ کر جواب طلب کیا جائے ۔ لہذا آپس میں تین آنے کا چندہ کیا گیا اور ڈیڑھ آنے کا ڈاک ٹکٹ بھیجے جانے والے لفافہ پر اور ڈیڑھ آنے کا ٹکٹ جوابی لفافہ پر چپکایاگیا، مولانا مودودیؒ نے ہمارا خط ملتے ہی جواب بھیج دیا جس میں شعر کی تشریح تفصیل سے لکھ دی ۔ ہم میں سے ہر ایک نے وہ پوری تشریح زبانی یاد کرلی اور جب مولانا ندوی ؒدرجہ میں تشریف لائے تو ہم نے پوچھا کہ آپ نے شعر کا مطلب بیان کرنے پر ایک روپیہ انعام دینے کا وعدہ کیاتھا ، کیا آپ اپنے وعدے پر قائم ہیں ، مولانا نے جواب دیا تم میں سے کون اس کے لئے تیار ہے؟۔ ہم نے کہا جس سے بھی پوچھ لیں، اس کے بعد جو کچھ یاد کیا تھا فرفر سنادیا۔ مولانا بڑے متحیر ہوئے اور فرمایا کہ اب روپیہ دینا ہی پڑے گا۔ اس روپیہ سے ہم لوگوں نے حلوائی عبدالحمید کی دکان سے تین رطل حلوہ خریدا ۔ چونکہ ہم کھانے والے صرف چھ تھے اور حلوہ زیادہ تھا۔ لہذادو پیسہ کا اچار خریدا گیا۔ اورمولانا سے کہا کہ آپ کے ساتھ ہی ہم لوگ حلوہ کھائیں گے۔ حلوہ کھا کر ہم نے مولانا کے ہاتھ میں آہستگی سے پوسٹ سے منگوایا ہوالفافہ تھمادیا۔ فرمایا ! اچھا تم ایسے ہو، غصہ بالکل نہیں ہوئے بلکہ ہماری ذکاوت اور قابلیت پر بہت خوشی کااظہار کیا۔ میری حدنگاہ تک سرزمین بھٹکل پر اس پایہ کا استاد پھر نہیں آیا۔